WE News:
2025-03-25@23:41:17 GMT

امریکا روزانہ ہزاروں گولڈ ویزے جاری کررہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

امریکا روزانہ ہزاروں گولڈ ویزے جاری کررہا ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی ویزا پالیسی کے تحت امریکا روزانہ 1000 گولڈ ویزے دے رہا ہے۔

امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متعارف کرائے گئے ایک متنازعہ پروگرام کے ذریعے روزانہ 1,000 ’گولڈ کارڈ‘ ویزے جاری کر رہا ہے، جو 5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے خواہشمند افراد کے لیے شہریت کا براہ راست راستہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی مفاد کی بات ہوگی تو گرین کارڈ ہولڈرز کو بھی ملک بدر کیا جا سکتا ہے، نائب امریکی صدر

فروری 2025 میں شروع کیا گیا اقدام موجودہ EB-5 سرمایہ کار ویزا پروگرام کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے۔امریکا کے کامرس سیکرٹری ہاورڈ لوٹنک کے مطابق صدر ڈونلڈ کا خیال ہے کہ اس پالیسی سے ہم ایک ملین گولڈ ویزے فروخت کرسکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ  اس ویزہ پالیسی کا تصور ارب پتی سرمایہ کار جان پالسن  نے پیش کیا، جبکہ ایلون مسک مبینہ طور پر اس کے سافٹ ویئر انفراسٹرکچر میں مدد کررہے ہیں۔ اگرچہ اس اقدام سے امریکا کے لیے خاطر خواہ آمدنی ہونے کی توقع ہے، تاہم متضاد امیگریشن سسٹم بنانے پر یہ پالیسی تنقید کی ضد میں بھی ہے کہ انتظامیہ غیر دستاویزی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری جانب بڑے پیمانے پر گولڈ ویزے جاری کیے جارہے ہیں۔

خدشات کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے زور دے کر کہا ہے کہ گولڈ کارڈ ویزا پروگرام کانگریس کی منظوری کو نظرانداز کرکے اسے اپنی وسیع تر امیگریشن حکمت عملی کے مرکزی عنصر کے طور پر پوزیشن میں رکھے گا۔

یہ بھی پڑھیں: یو اے ای گولڈن ویزا: طلبا کو کون سے بڑے فائدے مل سکتے ہیں؟

یاد رہے کہ رواں سال فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ویزا گولڈ کارڈ کے اجرا کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئے ویزوں کی فروخت سے امریکا میں ملازمتوں کے مواقع بڑھیں گے جبکہ اس سے ہونے والی آمدن کو امریکا کے قومی خسارے کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ امریکا میں رہنا چاہتے ہیں، گولڈ کارڈ کے حامل افراد یہاں کام کرسکیں گے، کمپنیاں بنا سکیں گے اور لوگوں کو نوکریاں فراہم کر سکیں گے، یہ پیسے والے لوگ ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم شاید 10  لاکھ کے قریب گولڈ کارڈ لوگوں کو فروخت کر پائیں گے، ہم نے اس ضمن میں قانونی کارروائی پوری کر لی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news امریکا ایلون مسک تارکین وطن ڈونلڈ ٹرمپ غیرملکی شہری گولڈ کارڈ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ایلون مسک تارکین وطن ڈونلڈ ٹرمپ غیرملکی شہری گولڈ کارڈ ڈونلڈ ٹرمپ گولڈ ویزے گولڈ کارڈ صدر ڈونلڈ کے لیے

پڑھیں:

امریکا، پولیس اسٹیٹ

امریکا میں 17ستمبر 1787کو وفاقی آئین نافذ ہوا۔ اس وقت کے صدر جارج واشنگٹن اور 92 افراد نے اس آئین پر دستخط کیے تھے۔ اس آئین میں 17دسمبر 1791کو پہلی ترمیم ہوئی۔

اس ترمیم کو بل آف رائٹس Bill of rights بھی کہا گیا۔ اس ترمیم میں مذہب کی آزادی، اظہارِ اجتماع کی آزادی اور حکومت کے خلاف مقدمہ کرنے کی آزادی کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ امریکی آئین میں پہلی ترمیم نے امریکا میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے حالات کو سازگار بنا دیا۔

دنیا بھر میں جب بھی مختلف ممالک کے آئین کا ذکر ہوتا ہے تو پہلی ترمیم کی بناء پر امریکا کے آئین کو ایک اہم ترین دستاویز قرار دیا جاتا ہے۔ امریکا کے عوام نے برطانوی استعمار اور وار لارڈز کے خلاف طویل خانہ جنگی کے بعد جب آزادی حاصل کی تو امریکا کے صدر ابراہم لنکن اور جارج واشنگٹن نے جدید امریکا میں آئین اور قانون کی بالادستی، ریاست کا شہریوں کے ساتھ کسی امتیاز کے بغیر سلوک اور بنیادی شہری آزادیوں کی روایت قائم کی۔

اس وقت فرانس میں ایک انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا تھا اور انسانی حقوق کی بالادستی فرد کی آزادی کے گیت گائے جاتے تھے۔ فرانس کے عوام نے امریکا کے عوام کو آزادی کی جدوجہد کی کامیابی پر Statue of liberty کا تحفہ دیا تھا۔

فرانس کے سیاست دان دانشور اور غلامی کے خاتمے کی تحریک کے روحِ رواں Edouvard De Labolaye نے تجویز پیش کی تھی کہ امریکا کے عوام کو آزادی حاصل کرنے پر مجسمہ آزادی کا تحفہ دیا جائے۔ یہ مجسمہ آزادی نیویارک کے قریب ایک جزیرے پر نصب کیا گیا۔ اس جزیرے کو Liberty Island کا نام دیا گیا۔ مجسمہ آزادی کا یہ مطلب بیان کیا جاتا ہے: "The advancement of freedom"۔ مگر ریپبلکن صدر ٹرمپ White supremacyکی بالادستی کے لیے امریکا کی تمام روایات کو تہس نہس کررہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے سرکاری پیسہ بچانے کے نام پر یونیورسٹیوں اور آزاد میڈیا کے اداروں کو کچلنے کے لیے اپنی پالیسیاں نافذ کرنی شروع کردی ہیں جیسی پالیسیاں جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر نے نافذ کی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے ایک طرف ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہزاروں ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے محروم کیا ہے تو امریکا کی وفاقی عدالتوں میں ہزاروں سرکاری ملازمتوں سے برطرفی کے ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کو روک دیا ہے مگر اب ٹرمپ اور ان کے ساتھی آزاد عدالتوں پر حملے کر رہے ہیں۔

امریکا میں انسانی اقدار کی روایات قائم کرنے میں یونیورسٹیوں اور میڈیا کا اہم کردار رہا ہے۔ جب 60ء کی دہائی میں امریکا نے ویتنام پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہوچی منھ کی قیادت میں مزاحمت کو کچلنے کے لیے تمام انسانیت سوز حربے استعمال کیے تھے تو امریکا کی یونیورسٹیوں کے روشن خیال اساتذہ اور طلبہ تھے جنھوں نے امریکی فوجیوں کی ویتنام سے واپسی اور ویتنام کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس وقت کے امریکا کے صدر رچرڈ نکسن نے ویتنامی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں سے پیرس میں مذاکرات کیے تھے اور پھر ویتنام امریکا کے تسلط سے آزاد ہوگیا تھا۔

اب جب غزہ کے عوام نے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف تاریخی جدوجہد شروع کی اور اسرائیل نے امریکا کی مدد سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے تمام انسانیت سوز حربے استعمال کیے تھے تو ریپبلک پارٹی اس وقت بھی اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرتی تھی مگر جب ٹرمپ برسر اقتدار آئے تو ان کا عرب دشمنی کی بد ترین چہرہ سامنے آیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے تو اعلان کیا کہ جن غیر ملکی طلبہ نے اسرائیل مخالف مظاہروں میں حصہ لیا ہے، ان کے خلاف آپریشن ہوگا۔ تارکینِ وطن کے ساتھ اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں بھی شریک طلبہ کے خلاف کارروائی شروع ہوئی۔ امریکی حکومت نے اسرائیل کے خلاف طلبہ کے مظاہروں کو منظم کرنے والے فلسطینی طالب علم محمد خلیل کوگرفتارکر کے اسے امریکا سے نکالنے کی کارروائی شروع کی۔ محمد خلیل گرین کارڈ ہولڈر ہیں اور ان کی اہلیہ امریکی شہری ہیں مگر ٹرمپ حکومت نے امریکا میں نافذ قوانین کو بھی نظراندازکیا۔ امریکی حکومت نے کولمبیا یونیورسٹی کی گرانٹ بند کردی۔ امریکی حکومت کے اس فیصلے کی بناء پرکولمبیا یونیورسٹی کے کئی شعبے بند ہوگئے۔

امریکی حکومت نے کولمبیا یونیورسٹی کے علاوہ دو دیگر یونیورسٹیوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ حکومت امریکا کی یونیورسٹی میں موجود ترقی پسند اور صیہونیت مخالف اساتذہ اور طلبہ کو نکالنا چاہتی ہے، یوں اسرائیل مخالف اساتذہ اور طلبہ کو تلاش کر کے یونیورسٹی سے نکالنے اور غیر ملکی طلبہ کو امریکا سے نکالنے کے لیے ایک آپریشن جاری ہے۔

 ٹرمپ حکومت نے میڈیا کو نشانہ بنایا۔ صدر ٹرمپ امریکا کی وزارت خارجہ کی نگرانی میں کام کرنے والے ریڈیو وائس آف امریکا VoAکی نشریات سے نالاں ہے۔ امریکا نے 1942ء میں وائس آف امریکا قائم کیا تھا۔ وائس آف امریکا کے قیام کا مقصد جرمنی کے آمر ہٹلرکی انسانیت سوز پالیسیوں کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنا تھا۔ جب سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا دور آیا تو VoA نے سوویت یونین کے خلاف محاذ سنبھال لیا۔

پھر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس، چین ، ایران اور طالبان کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیے اس ریڈیو نے اہم کردار ادا کیا۔ وائس آف امریکا میں اس وقت 1300مستقل صحافی ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیشنل سروسز کنٹریکٹ پر رکھنے والے ملازمین کے علاوہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے اسٹنگر صحافی بھی ہیں جو اسائنمنٹ پر ملنے والے معاوضے پرکام کرتے ہیں۔ وائس آف امریکا 48کے قریب زبانوں میں نشریات پیش کرتا تھا، اگرچہ وائس آف امریکا امریکی وزارت خارجہ کا معاون ادارہ تھا مگر اس ادارہ میں کام کرنے والے صحافیوں کو خاصی آزادی حاصل تھی۔

خاص طور پر اس ریڈیو کی نشریات میں وہ خبریں نشر وشایع ہوتی تھیں جو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان اور دیگر ممالک کے میڈیا کی آزادی کے متعلق ہوتی تھیں۔ امریکا میں صحافت کے معتبر ادارہ نیشنل پریس کلب نے وائس آف امریکا کی بندش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے امریکی حکومت کے آزاد میڈیا کی اہمیت کے اصول سے یکجہتی کے فیصلے کو شدید دھچکا لگا ہے۔ این بی سی کے بیانیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اچانک نیوز روم کو معطل کردیا گیا اور ادارے کو بکھیر دیا گیا۔ نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے میڈیا اور کمیونیکیشن اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر خالد سلطان نے امریکی حکومت کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے تمام تر ایجنڈے اور خامیوں کے باوجود یہ ادارہ کسی حد تک صحافتی اصولوں کا پابند تھا۔

صدر ٹرمپ کے ان غیر منصفانہ اقدامات کی بناء پر فرانس کے دانشوروں نے مطالبہ کیا ہے کہ مجسمہ آزادی انھیں واپس کردیا جائے۔ امریکا سے آنے والی اطلاعات کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا میں ترقی پسند دانشوروں، صحافیوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور سیاسی کارکنوں نے امریکا کو آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کا گہوارہ بنانے کے لیے جو کوششیں کی تھیں وہ رائیگاں جارہی ہیں اور امریکا پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا، پولیس اسٹیٹ
  • صدر یا مافیا کا سرغنہ
  • پاکستانی ہمارے معاشرے کا اہم حصہ، داخلے پر پابندی بارے تاحال فیصلہ نہیں ہوا: امریکا
  • امریکا میں ملازمتیں کھونے والے ہزاروں وفاقی ملازمین کے جاسوس بھرتی ہونے کا خطرہ
  • ٹرمپ انتظامیہ نے یمن میں حوثی باغیوں پر فوجی حملوں کی خبر کیوں لیک کی؟
  • پاکستانیوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا، مارگریٹ میکلاؤڈ
  • اور کوئی نہیں، وہ واحد شخص میں ہوں جو یوکرین جنگ ختم کروا سکتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاکستانیوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا, ترجمان مارگریٹ میکلاؤڈ
  • کینیڈا کے نئے وزیراعظم کارنی کی ٹرمپ پر تنقید، ملک میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان