'' قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں فیض حمید کا نام نہیں آیا،، رانا ثناء اللہ کا بیان
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)رانا ثناء اللہ نے کہاہے کہ آرمی چیف نے اجلاس میں کہا غلط فیصلے کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے، بانی،پی ٹی آئی نے ٹرین واقعے کی ایسے مذمت نہیں کی جیسے کرنی چاہیے تھی ، دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کیلئےاجازت کی ضرورت نہیں، آرمی چیف نے اجلاس میں کہا ہم دہشتگردی کیخلاف حالات جنگ میں ہیں، دہشتگردوں کو لاناپی ٹی آئی اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ فیصلہ تھا۔
وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے سماء نیوز کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ان قوتوں کے ساتھ کھڑی ہے جو قوتیں دہشتگردی کر رہی ہیں، جو قوتیں ریاست کیخلاف ہیں،پی ٹی آئی ان کے ساتھ کھڑی نظرآرہی ہے، پی ٹی آئی کو دہشتگردوں سے جوڑنا مناسب نہیں، ٹرین واقعے پر بھارتی میڈیا جو کہہ رہا تھا،پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس تائید کر رہے تھے۔
اسرائیل کا غزہ کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے کا فیصلہ، تہلکہ خیز تفصیلات سامنے آگئیں
ان کا کہناتھا کہ شہبازشریف کوئی پروجیکٹ نہیں، ہم پی ٹی آئی حکومت میں بھی بانی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار تھے، دھاندلی سے پی ٹی آئی نے پارلیمانی کمیشن بنایا تھا،ہم بیٹھے تھے، پارلیمانی کمیشن کے حوالے سے صرف ایک میٹنگ ہوئی، 9مئی واقعات کی مدعی ریاست ہے،یہ کہہ لیں اسٹیبلشمنٹ ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا اگر 9 مئی پر بات کرنی ہے تو صدق دل سے معافی مانگیں، 9مئی پر معافی مانگیں تو کوئی نہ کوئی گنجائش ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ فیض حمید کا نام قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں نہیں آیا، آرمی چیف نے اجلاس میں کہا غلط فیصلے کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے، بانی،پی ٹی آئی نے ٹرین واقعے کی ایسے مذمت نہیں کی جیسے کرنی چاہیے تھی۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ علی امین کی آپریشن پر کوئی پوزیشن نہیں،وہ صرف سیاسی بیانات دیتے ہیں، علی امین نے قومی سلامتی اجلاس میں کوئی ایسی بات نہیں کی جو باہر بیانات دیئے، علی امین نے کہاآپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، آپریشن تو ہو رہا ہےآپ نے کون سی اجازت دینی ہے؟ دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کیلئےاجازت کی ضرورت نہیں۔
اوپو نے Reno 13 5G پانچ بڑے upgrades کے ساتھ لانچ کر دیا, وہ کون سے ہیں؟ دیکھیے
ان کا کہناتھا کہ آرمی چیف نے اجلاس میں کہا ہم دہشتگردی کیخلاف حالات جنگ میں ہیں، دہشتگردوں کو لاناپی ٹی آئی اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ فیصلہ تھا، بلوچستان میں سیاسی عمل کوسیاسی جماعتوں کولیڈکرناچاہیے، ہم اس سیاسی عمل کیلئے تعاون کرنے کو تیار ہیں، موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو بیٹھنا ہوگا۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: آرمی چیف نے اجلاس میں کہا پی ٹی ا ئی رانا ثناء کے ساتھ نے کہا
پڑھیں:
سیاست کے بے ضمیر ہاتھ
پاکستان جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا آج دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہے۔ یہ عفریت نہ صرف ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے بلکہ ملک کی سالمیت اور استحکام کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ مگر افسوس کہ ایسے نازک وقت میں بھی کچھ سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دے رہی ہیں۔ ان جماعتوں کا رویہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ ملک دشمنی کے مترادف بھی ہے۔ ان میں سے ایک جماعت تحریک انصاف ہے جس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اسے صرف اقتدار کی ہوس ہے اور وہ ملک کی سلامتی کے معاملات کو بھی اپنی سیاسی چپقلش کا حصہ بنا رہی ہے۔تحریک انصاف نے یہ باور کرا دیا ہے کہ اسے پاکستان کی سلامتی اور عوام کے مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس سیاسی جماعت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کرکے نہ صرف سیاسی بے وقوفی کا مظاہرہ کیا اور اپنے سیاسی مستقبل کے پیروں پر خود کلہاڑی مار کر اپنے ہی پیروں کو کاٹ دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس پاکستان کے حساس ترین مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنا ایک سنگین غداری کے مترادف ہے۔ اس اجلاس میں حکومت اور اتحادی سیاسی جماعتوں نے پوری طاقت کے ساتھ شدت پسندی کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پی ٹی آئی نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کرکے دہشت گردی کے خلاف قومی عزم کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔پاکستان کے موجودہ حالات میں دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر 11 مارچ کو ہونے والے حملے نے ملک کے داخلی امن کو مزید خطرے میں ڈالا ہے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان کی قومی قیادت نے شدت پسندی کے خلاف مضبوط اور مشترکہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے اس اجلاس کا بائیکاٹ نہ صرف اس کی جماعت کی ملک دشمنی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کے سیاسی ایجنڈے کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔یہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ جماعت محض اقتدار کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اس بات کا اصرار کرنا کہ انہیں اجلاس میں شرکت کے لیے پیرول پر رہا کیا جائے یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے لیے قومی مسائل اور قومی سلامتی سے زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف مشترکہ سیاسی عزم کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ جماعت اس عزم کو صرف اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نظرانداز کر رہی ہے۔ سیاسی حکمت عملی نے اسے اس وقت ایک ایسی جماعت میں تبدیل کر دیا ہے جو ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔ جب قومی سلامتی کے حوالے سے اس قدر اہم اجلاس ہو رہا تھا پی ٹی آئی نے ایسے بے وقعت مطالبات کیے جو نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ قومی سلامتی کے معاملے میں ان کی عدم دلچسپی کو بھی ظاہر کرتے تھے۔پاکستان کی سلامتی صرف حکومت یا فوج کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ہر سیاسی جماعت اور ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کی حفاظت کے لیے متحد ہو۔ تحریک انصاف کا یہ رویہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کو مقدم نہیں رکھیں گی پاکستان دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک مضبوط اور موثر موقف اختیار نہیں کر سکے گا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل میڈیا ہینڈلز کے ذریعے دہشت گردوں کی حمایت اور ملکی فوج کے خلاف زہر پھیلانے کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔
پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں اور ان کے سوشل میڈیا ہینڈلز نے دہشت گردوں کو کریڈٹ دیتے ہوئے اس واقعے کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ہینڈلز نے امریکہ اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے اکائونٹس کے ذریعے دہشت گردوں کے حق میں مسلسل مہم چلائی جس میں پاک فوج کے خلاف گمراہ کن اور توہین آمیز بیانات دیے گئے۔ اس بات کے بھی واضح ثبوت موجود ہیں کہ پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے اس سب کچھ کو ملک دشمنی کے طور پر کرایا۔ یہ کارروائیاں صرف ملکی امن و امان کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں ہیں بلکہ یہ پاکستان کی داخلی سلامتی کو بھی سنگین خطرے میں ڈالتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی یہ سرگرمیاں ایک سازش کی طرح ہیں جو نہ صرف ملک کے مفادات کے خلاف ہیں بلکہ اس کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔ ان سوشل میڈیا ہینڈلز کے ذریعے دشمنوں کو طاقتور بنانے کی کوشش کی گئی جو ایک واضح غداری کے مترادف ہے۔سیاست کے بے ضمیر ہاتھ وطن کی جان پر کھیل رہے ہیں اور خون سے سجے چمن کو یہ زخم زخم کر رہے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر نے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا ہے کہ آخر کب تک ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے تحت اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرتی رہیں گی؟ یہ جماعت صرف اپنے اقتدار کے لیے پاکستان کی سلامتی کو داو پر لگا رہی ہے، اور اس کے اس رویے نے ملک کی سیاست کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک مضبوط اور متفقہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالاتر کر کے قومی سلامتی کے حوالے سے ایک متفقہ لائحہ عمل اپناتی ہیں تو دہشت گردی کا مقابلہ ممکن ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی سیاسی منافقت اور اس کا قومی سلامتی کے اجلاس میں شریک نہ ہونا اس بات کا غماز ہے کہ جب تک جماعتیں اپنے مفادات کو قومی مفادات سے اہمیت دیتی رہیں گی اس وقت تک پاکستان اس جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔اگر پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لاتی ہیں اور اپنے ملک کے خلاف سازشوں کا حصہ بننا بند نہیں کرتیں تو پاکستان کو دہشت گردی اور شدت پسندی کی جنگ میں بہت بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاستدانوں کی غیر ذمہ دارانہ سیاست نہ صرف ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالے گی بلکہ عوام کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالے گی۔پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے مسائل سنگین ہیں، اور ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک متفقہ اور مشترکہ سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کا رویہ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ جماعت ملک کی سلامتی کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں سے منحرف ہے۔ اس جماعت کی سیاست محض اقتدار کی خواہش پر مبنی ہے اور اس کے اس رویے نے پاکستان کی سیاست کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔ اگر پاکستان کو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف کامیابی حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ملک کی سلامتی کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔