قرآنِ مجید۔۔۔ اتحاد اور ترقی کا ضامن ہے
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہم تمام مکاتب فکر کے متبعین کو یاد رکھنا چاہیئے کہ منافرت کا پھیلاؤ یہ یہودی سازش ہے، ہمیں ہمیشہ اتفاق اور اتحاد کیطرف گامزن رہنا چاہیئے۔ ہمارے پاس ایک نقطے پر متحد رہنے کیلئے اللہ موجود ہے، اسکا رسول موجود ہے، قرآن موجود ہے اور اہلبیت نبوت موجود ہے۔ ہمیں توحیدی معاشرہ تخلیق کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑیگا، تکفیریت سے اجتناب کرنا پڑیگا اور سب سے اہم بات کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا ہوگا اور مشترکہ دوست کیطرف ہاتھ بڑھانا ہوگا، ہمیشہ قائم رہنے والے اتحاد کیلئے ہمیں مشترکات کو فروغ دینا ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع فرمائے اور اتحاد و وحدت کو برباد کرنے والوں کو اللہ نابود فرمائے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
دنیا کی قوموں کی ترقی اور ان کا عروج ان کے اتحاد اور یگانگت اور وحدت میں مضمر ہے۔ کسی قوم کو قوم کہلانے کا حق صرف اسی وقت ہوتا ہے، جب وہ جسد واحد کی طرح متحد و متفق ہوـ دریا کی موجیں اگر دریا سے باہر نکل جائیں تو وہ بے وقعت اور کمزور رہتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں، یہی موجیں جب دریا میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں تو وہ کسی طوفان کو جنم دے سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
قطرہ قطرہ مل کر ایک بڑے دریا کو تشکیل کرتا ہے اور بہت سے دریا مل کر ایک عظیم سمندر کو تخلیق کرتے ہیں۔ دشمن کی دہشت کے لیے قوم کا اتحاد اسلحہ اور عسکری قوت سے کہیں زیادہ مضبوط اور مفید ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے: "واعدوالھم مااستطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم"(انفال:60) ترجمہ: "اور ان کے لیے تیار رکھو اپنی استطاعت کے مطابق طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے، تاکہ تم اس کے ذریعے اللہ اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کر سکوـ"
اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اتحاد امت کو حکم شرعی قرار دیا ہے اور مسلمانوں پر اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ صیغہ امر کے ساتھ ذکر کرکے اس کے ناگزیر ہونے کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا" (آل عمران:103) ترجمہ: "تم سب اکٹھے ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ نہ کروـ" اس آیت مبارکہ میں ایک چیز کو بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے اور دوسری کو چھوڑ دینے کا۔ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ بازی مت کرو۔ اس آیت مبارکہ میں یہ حکم صرف امت کے ایک فرد کو نہیں دیا گیا بلکہ تمام افراد امت کو خطاب ہےـ مفسرین کرام نے کہا ہے کہ اس آیت مبارکہ میں حبل اللہ سے مراد یا تو قرآن حکیم ہے یا سنت رسول ہے یا دونوں ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک قول کے مطابق یہاں حبل اللہ سے مراد اہل بیت نبوت ہےـ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ترکت فیکم امرین کتاب اللہ وسنتی"(صحیح مسلم:الرقم 2137) ترجمہ: "میں تم میں دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنی سنت۔" حدیث مبارکہ کے اگلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو گمراہ نہیں ہونگے۔ جب اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ ہر مسلمان اپنی ذاتی رائے سے دستبردار ہو جائے یا کوئی اپنے مسلک اور نظریات کو خیر آباد کہہ دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر سوچے کہ جس قرآن و حدیث کے دلائل پر میرے مسلک کی عمارت کھڑی ہے۔ اسی قرآن و حدیث کے سہارے ہی میرے دوسرے بھائی کی مسلک کی عمارت بھی استوار ہے۔
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دوسرے کی علمی رائے کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے سے اختلاف بھی کیا کرتے تھےـ آراء کا یہ اختلاف ایک رحمت ہے کہ علم کے بہت سے دروازے اس اختلاف رائے سے کھلتے ہیں، لیکن وہ اختلاف جو بدامنی اور دشمنی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے، اس کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا" ترجمہ: "اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرما دیں کہ وہ اللہ اس پر قادر ہے کہ تمہیں اوپر سے عذاب دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے ، ایک گروہ کو دوسرے سے لڑا کر اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دےـ" (الانعام: آیت 60)ـ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لوگوں سے لاتعلق رہنے کا حکم دیا ہے، جو اختلاف پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور تفرقہ پھیلانے کے لیے اپنی کاوشیں بروئے کار لاتے ہیں۔
قرآن مجید میں سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح مخاطب فرمایا گیا: "ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منہم فی شیئ" (الانعام: آیت 159) ترجمہ: "اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کر دیئے اور وہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہےـ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے مسلکی منہج کو اپنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے سے سخت منع فرمایا ہےـ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپس میں اختلاف کرنے کے جو برے نتائج ہیں، ان کا بھی قرآن مجید میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ تم آپس میں اختلاف نہ کرو، ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کیا کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "الناس کلھم سواء کاسنان المشط:" ترجمہ: "سب انسان کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔"
میں سمجھتا ہوں کہ علمی اختلاف تو اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، مگر یہ علمی اختلاف کا دشمنی میں بدل جانا بالکل درست نہیں ہے۔ اسلام مخالف قوتوں کے پھیلائے ہوئے جال میں مسلمانوں کو نہیں پھنسنا چاہیئے۔ روایات میں آتا ہے کہ شاس بن قیس نے ایک یہودی کو تیار کیا کہ وہ مسلمانوں کے دو بڑے قبائل اوس اور خزرج کے درمیان اختلافات پیدا کرے، تاکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف میدان کارزار میں اتر سکیں۔ اس نے سازشیں کیں اور اوس اور خزرج کو ان کی پرانی دشمنیاں یاد دلائیں، جس کے نتیجے میں ان کی دشمنی دوبارہ سے تازہ ہوگئی اور دونوں طرف سے تلواریں نیاموں سے نکل آئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ نے مہاجرین و انصار کے گروہوں کو ساتھ لیا اور ان دو باہم متصادم قبائل کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ "اے مسلمانوں کے گروہ کیا تم دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹنے لگے ہو، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، اللہ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی ہے اور اس کے ذریعے سے تمہیں عزت و تکریم عطا کی ہے۔ اللہ نے جاہلیت کے فتنوں کو ختم کیا ہے اور تم ان فتنوں کی طرف واپس لوٹنا چاہتے ہو۔"
اس مؤثر ترین خطبہ نے ان کے ذہنوں کو یکسر بدل دیا، وہ سمجھ گئے کہ یہ شیطان اور اس کے کارندوں کی پھیلائی ہوئی سازش ہے۔ اس لیے ہمیں اس سازش کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ پریشان ہوگئے، اسلحہ زمین پر رکھ کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوکر رونے لگے۔ اللہ رب العزت نے انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ایک بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔ ہم تمام مکاتب فکر کے متبعین کو یاد رکھنا چاہیئے کہ منافرت کا پھیلاؤ یہ یہودی سازش ہے، ہمیں ہمیشہ اتفاق اور اتحاد کی طرف گامزن رہنا چاہیئے۔ ہمارے پاس ایک نقطے پر متحد رہنے کے لیے اللہ موجود ہے، اس کا رسول موجود ہے، قرآن موجود ہے اور اہل بیت نبوت موجود ہے۔ ہمیں توحیدی معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا، تکفیریت سے اجتناب کرنا پڑے گا اور سب سے اہم بات کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا ہوگا اور مشترکہ دوست کی طرف ہاتھ بڑھانا ہوگا، ہمیشہ قائم رہنے والے اتحاد کے لیے ہمیں مشترکات کو فروغ دینا ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع فرمائے اور اتحاد و وحدت کو برباد کرنے والوں کو اللہ نابود فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایک پلیٹ فارم پر جمع اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرمایا ایک دوسرے اور اتحاد اتحاد کی موجود ہے ہوتا ہے ہے اور کی طرف کے لیے کر ایک اور ان
پڑھیں:
مکالمہ اور مصافحہ ہی امن کا ضامن !
جین گڈال ( Jane Goodall)مشہور برطانوی دانشور، مصنف اور زوالوجسٹ ہیں ۔ اِس وقت اُن کی عمر 90برس ہے ۔ وہ کہتی ہیں:’’ دِلوں اور ذہنوں میں تبدیلی کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب دو مخالف اور متحارب فریق ایک دوسرے کی بات سُننے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ شنیدن کے اِس عمل کے بعد ہی باہمی مکالمہ شروع ہوتا ہے ۔
یہ مکالمہ ایسے فریقین میں ہوتا ہے جو یقین کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ مخالف فریق کا ہر عمل غلط ہے ۔ مکالمہ ، مصافحہ اور پھر معانقہ دلوں اور ذہنوں پر جمی تعصب کی برف پگھلا دیتے ہیں۔ مکالمے کی اصل رُوح صبر ہے۔‘‘کیسی خوب بات کہی ہے !ہلاکت خیز جنگوں کا آخری فیصلہ بھی تو مکالمے کی میز پر ہی ہوتا ہے ۔ پھر کیوں نہ ہم ، ہماری سیاسی جماعتیں اور ادارے اپنے اپنے متنازع معاملات مذاکرات اور مکالمے سے طے کریں؟ مکالمے کی بساط بچھانے کی بازگشت ہر طرف سنائی دے رہی ہے ۔حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ کے پی بھی کہہ رہے ہیں کہ مکالمے اور مذاکرے ہی سے اُن کے صوبے میں (ٹی ٹی پی کے ہاتھوں) پھیلی دہشت گردی کی آگ ٹھنڈی ہو سکتی ہے۔
جناب علی امین گنڈا پور کے زندانی لیڈر تو شہباز حکومت سے مکالمہ اور مصافحہ کرنے پر تیار نہیں ہیں ، لیکن علی امین صاحب خود مغربی سرحد پار دہشت گرد عناصر سے مکالمہ کی بات کررہے ہیں ۔ موصوف نے 21مارچ2025کو اسلام آباد میں سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک نشست میں کہا:’’ مجھے ٹاسک دیں ۔مَیں افغان طالبان سے مکالمہ اور مذاکرات کر لیتا ہُوں ۔
افغان طالبان کو مکالمے کی میز پر بٹھائیں ۔ امن کے لیے اُن سے مذاکرات ہی واحد حل ہیں۔ تمام قبائلی ایجنسیوں کے قبائلی مشران سے مذاکرات کا پلان بنا کر ہم نے پاکستان کے دفترِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کو بھیجا ، مگر کسی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ مجھے یقین ہے کہ قبائلی مشران سے افغان طالبان مکالمے اور مذاکرے سے انکار نہیں کر سکتے ۔مجھے اگر یہ ٹاسک دیا جائے تو مَیں کل ہی اخونزادہ ( افغان طالبان کے مرکزی امیر) کے ساتھ بیٹھا نظر آؤں گا۔ مجھے (افغانستان) بھجوائیں ، پھر(امن کی) بات بنے گی ۔‘‘ جناب علی امین گنڈا پور نے اتنا بڑا دعویٰ کر دیا ہے تو ہمارے اصل فیصلہ سازوں کو انھیں آزما ہی لینا چاہیے ۔
سوال مگر یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور مقتدر افغان طالبان پر اعتبار کیسے اور کیونکر کیا جائے ؟ پاکستان میں یہ تاثر گہرا ہے کہ ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے ، دونوں نے رَل مل کر پاکستان کو دغا دیا ہے ۔ قیامِ امن کی خاطر مقتدر افغان طالبان سے مکالمہ اور مذاکرات کرنے حضرت مولانا فضل الرحمن بھی افغانستان گئے تھے ، مگر نتیجہ صفر نکلا ۔ علی امین گنڈا پور مگر اِس بارے تبصرہ کرتے ہُوئے مبینہ طور پر کہتے ہیں: ’’ (یہ مکالمہ اس لیے بے ثمر رہا تھا کہ) مولانا فضل الرحمن سے افغان طالبان کی نچلی سطح کی قیادت کا رابطہ ہُوا تھا۔‘‘ تو اَب علی امین گنڈا پور کو آزما لینا چاہیے کہ وہ افغان طالبان کی ’’اعلیٰ سطح‘‘ قیادت سے مکالمہ کرکے دیکھ لیں ۔
حالات بہر حال تشویشناک ہیں۔اس لیے قیامِ امن کے لیے(ناقابلِ اعتبار ٹی ٹی اے سے) مکالمے کا رسک لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ 18مارچ 2025کو جب بلوچستان کی دگرگوں صورتحال پر اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کا اعلیٰ ترین اجلاس ہو رہا تھا، ہمارے کئی اخبارات بلوچستان بارے (احتیاط کا دامن ملحوظِ خاطر رکھتے ہُوئے) تشویشناک حقائق سامنے رکھ رہے تھے ۔
مثال کے طور پر ایک انگریزی معاصر نے ’’ٹائم لائن‘‘ کے تحت بلوچستان میں وقوع پذیرہونے والے دہشت گردی کے سانحات کی ایک تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے ۔اِس رپورٹ کے مطابق: 30 جنوری2024 تا3مارچ2025 بلوچستان میں دہشت گردی کے خونریز اور خونی سانحات ، واقعات میں 119فیصد اضافہ ہُوا ہے ۔ اِس دوران بلوچستان میں دہشت گردوں اور انسانیت و پاکستان دشمنوں نے 225 بے گناہ افراد کی جانیں لے لیں ۔ بلوچستان میں بروئے کار دو معروف دہشت گرد تنظیموں (بی ایل اے اور بی ایل ایف) نے، مبینہ طور پر، یہ خونریزی کی ہے۔ کوئی بھی غیر ملکی محقق اور اخبار نویس اگر مذکورہ رپورٹ کا مطالعہ کرتا ہے تو بلوچستان بارے اُس کا پہلا تاثر یہی ہوگا : بلوچستان کے حالات نہائت خراب ہیں !
بلوچستان کے اِنہی خراب حالات کے سدھار کے لیے18مارچ کو اسلام آباد میں ہمارے کئی بڑوں کی بیٹھک ہُوئی ۔ جب یہ ’’بیٹھک‘‘ ہو رہی تھی ، ملکی میڈیا میں یہ بھی وچار کیا جارہا تھا کہ آتشناک بلوچستان کے ’’ناراض عناصر‘‘ کو منایا جائے تو کیسے ؟ انگریزی معاصر کی ایک مشہور پاکستانی دانشور نے اپنے مفصل تجزیئے میں مشورہ دیا ہے کہ مبینہ طور پر غیروں کے ہاتھوں چڑھے ناراض بلوچ عناصر سے براہِ راست مکالمہ کیا جائے ۔
موصوفہ نے بطورِ دلیل لکھا :’’ اگر پاکستان کی دشمن اور کئی پاکستانیوں کی قاتل دہشت گرد تنظیم ، ٹی ٹی پی، سے ریاستِ پاکستان براہِ راست مکالمات و مذاکرات کر سکتی ہے تو ناراض بلوچ عناصر سے کیوں نہیں ؟ہمارے ایک آمر کے دَور میں ٹی ٹی پی کے لیڈر، نیک محمد، کے گلے میں ہار ڈالے گئے اور صوفی محمد سے بھی مصافحہ اور معانقہ کیا گیا ۔
یہ اقدامات اس لیے کیے گئے تاکہ انھیں منا کر اصل قومی دھارے میں لایا جائے ۔ تو پھر بلوچ عناصر سے براہِ راست بات چیت میں کیا امر مانع ہے؟۔‘‘یہ منطق و دلیل شاید درست ہی ہو مگر سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے چند افراد سے مذاکرات اور مکالمے کا کیا کوئی مثبت نتیجہ بھی نکلا؟ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد آج بھی پاکستان و پاکستانیوں کے خلاف ہتھیار اُٹھائے ہُوئے ہیں ۔ تو کیا یہی راستہ پھر سے اختیار کرنے پر کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی اُمید کی جا سکتی ہے؟ ؛چنانچہ کسی دانشمند کا کہنا ہے کہ : دُنیا بھر کا اصول یہ ہے کہ جہاں کہیں دہشت گردی اور مرکزِ گریز قوتیں سر اُٹھاتی ہیں ، اُن کا سر کچلنے کے لیے مکالمے اور تلوار کو یکساں طور پر بروئے کار لایا جاتا ہے، اِسی کے آمیزے سے سلامتی اور امن کا راستہ نکلتا ہے ۔
بلوچستان میں قیامِ امن اور ناراضوں کو گلے لگانا ہی ہمارا اجتماعی کرداربن جانا چاہیے ؟ مکالمے ، مصافحے اور معانقے کی بساط بچھانے کا وقت ہُوا چاہتا ہے ۔ ایک دوسرے پرالزام تراشی کاوقت گزر چکا ہے ۔ مثال کے طور پر گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں ایک خاتون ایم پی اے نے شعلہ فشانی کرتے ہُوئے کہا:’’ بلوچستان کے حالات اس لیے دگرگوں ہیں کیونکہ بلوچستان کے سردار اور اُن کی آل اولادیں امیر سے امیر ترین ہو گئے ہیں اور بلوچستان کے عوام غریب سے غریب ترین ہو گئے ہیں۔‘‘ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر نے مذکورہ خاتون ایم پی اے کا مائیک بند کرکے اگرچہ انھیں مزید بولنے سے روک دیا، مگر کہنا پڑے گا کہ خاتون کی باتیں اتنی بے بنیاد بھی نہیں ہیں ۔ مسئلہ مگر اب ایسی تہمتوں سے آگے نکل چکا ہے ۔
جب18مارچ کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کی بیٹھک ہو رہی تھی ، ایک قومی روزنامہ نے یہ خبر شایع کی کہ ’’بولان ( بلوچستان) میں سرنگوں کی حفاظت کرنے والے لیویز کے اہلکار3ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔‘‘ اگر واقعی صورتحال یہ ہے تو بلوچستان کے عوام کی حفاظت کون کرے گا؟ واضح رہے کہ11مارچ 2025کو جعفر ایکسپریس ٹرین کے اغوا کا سانحہ بھی بلوچستان کی ایک سرنگ ہی میں پیش آیا تھا ۔
سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت سے بلوچستان حکومت کو فراہم کردہ اربوں روپے کس Sink Holeمیں غائب ہو گئے ؟ اور اب 21مارچ2025 کو بلوچستان کے دو علاقوں ( قلات اور نوشکی)میں دہشت گردوں نے 4پولیس اہلکاروں اور4پنجابی محنت کشوں کو بیدردی سے قتل کر دیا ہے۔ کیا ایسے خونی اور خوں آشام قاتلوں سے بھی مکالمہ کیا جائے ؟ ناممکن!21مارچ ہی کو مہرنگ بلوچ کی تنظیم( BYC) نے نام نہاد احتجاج سے کوئٹہ شہر بند کر نے کی ناکام کوشش تو کی لیکن اِس تنظیم نے مذکورہ8بیگناہ افراد کے قتل کی مذمت نہیں کی ۔تو کیا ایسی تنظیموں کے لیے بھی بات چیت کے دروازے کھولے جائیں؟؟