اسرائیل چاہتا ہے کہ لبنان کو خود سے تعلقات کی بحالی کے مذاکرات پر مجبور کرے، نبیہ بیری
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
ایک عرب اخبار سے اپنی ایک گفتگو میں لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر کا کہنا تھا کہ ہم نے مکمل طور پر سیز فائر کی پاسداری کی اور ابھی تک کر رہے ہیں لیکن اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ اس معاہدے پر عمل میں رکاوٹ ایجاد کرے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر "نبیہ بیری" نے کہا کہ اسلامی مقاومتی تحریک "حزب الله" نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ حزب الله سیز فائر کی مکمل پاسداری کر رہی ہے حتیٰ کہ معاہدے کی رو سے جنوی لبنان سے بھی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب الله نے جنوبی علاقوں، بقاع فارمز اور لبنانی و شامی سرحد پر صیہونی جارحیت کے باوجود 6 مہینوں سے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ حزب الله نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے باوجود صبر کا مظاہرہ کیا اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ حزب الله اب بھی جنگ بندی کے معاہدے کو تقویت دینے کے لئے لبنانی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم چاہتی ہے کہ بیروت کو تل ابیب سے سیاسی اور پھر بعد میں تعلقات کی بحالی کے مذاکرات پر مجبور کرے لیکن اسرائیل اس کام میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار روزنامہ الشرق الاوسط سے گفتگو میں کیا۔
اس موقع پر نبیہ بیری نے کہا کہ ہم نے جنگ بندی کے جس معاہدے کو قبول کیا اسے عرب و عالمی حمایت حاصل ہے۔ یہی معاہدہ اقوام متحدہ کا مورد تائید ہے۔ دوسری جانب امریکہ جس معاہدے کو لاگو کرنے کے لئے راضی ہوا اس میں ہمارے علاقوں سے اسرائیلی فوج کا انخلاء، قیدیوں کی آزادی اور سرحد پر لبنانی فورسز کی تعیناتی شامل ہے۔ لیکن اسرائیل ابھی تک ہمارے علاقوں سے نہیں نکلا اور اپنی جارحیت کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ آخری بار صیہونی رژیم نے راکٹ حملوں کا بہانہ بنا کر لبنان پر فضائی حملہ کر دیا۔ نبیہ بیری نے مزید کہا کہ ہم نے مکمل طور پر سیز فائر کی پاسداری کی اور ابھی تک کر رہے ہیں لیکن اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ اس معاہدے پر عمل میں رکاوٹ ایجاد کرے۔ لبنانی پارلیمنٹ کے سربراہ نے کہا کہ ہماری فوج دریائے لیطانیہ کے جنوب میں تعیناتی کا عمل مکمل کرنے کو تیار ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اسرائیل اب بھی ہمارے بعض علاقوں میں پر زبردستی قبضہ کئے بیٹھا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سرحد پر ہماری فورسز پہنچنے سے قاصر ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لیکن اسرائیل نبیہ بیری نے کہا کہ حزب الله
پڑھیں:
بدلتے ہیں رنگ سابق کرکٹرز کیسے کیسے
کراچی:آج میں آپ کو کرکٹ تجزیہ نگار بننے کا فارمولہ بتانے والا ہوں،مجھے پتا ہے کہ آپ میں سے بیشتر اس کھیل کو گہرائی تک سمجھتے ہیں لیکن سابق کرکٹر کا لیبل یا کسی میڈیا ہاؤس میں ملازمت نہ کرنے کے سبب تجزیے صرف دوستوں کی محفل تک ہی محدود رہتے ہوں گے۔
کبھی کسی ایک ٹیسٹ کھیلے ہوئے سابق کھلاڑی کو جب ٹی وی پر چیختے چلاتے سنیں تو یہ خیال ضرور آتا ہو گا کہ اسے کس نے یہاں بٹھا دیا ،اس کا جواب ہے قسمت، ماضی میں بیچارے سابق کھلاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی دنیا ویران ہو جاتی تھی۔
پھر الیکٹرونک میڈیا آیا تو سب کی چاندی ہو گئی،ٹی وی پر تبصروں کے پیسے ملنے لگے،ایسے میں پی سی بی کے خلاف بھی باتیں ہوئیں تو ملازمت دے کر نوٹوں سے منہ بن کرائے جانے لگے،یہ فارمولہ چل گیا۔
سابق کرکٹرز نے بورڈ کی نظروں میں آنے کیلیے تنقید شروع کی تو انھیں کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کیا جاتا رہا،یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ایڈوانس طریقہ استعمال کرتے ہوئے اب بعض کھلاڑیوں کو ملازمتیں بھی دے کر خود ٹی وی چینلز پرتبصروں کی اجازت دی گئی تاکہ بورڈ کا دفاع بھی ہوتے رہے ورنہ ماضی میں تو کوئی سابق کھلاڑی پی سی بی کا ملازم بنے تو ٹی وی پر کام نہیں کر سکتا تھا۔
ارے وہ فارمولے والی بات تو رہ ہی گئی،آپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ ٹاس جیت کر اپنی ٹیم پہلے بیٹنگ کرے اور ہار جائے تو کہیں یہی فیصلہ شکست کی وجہ بنا،بابر اعظم اور محمد رضوان کو کھلائیں تو کہیں سست بیٹنگ کی وجہ سے ہار گئے ،نہ کھلائیں تو کہیں باہر بٹھایا اس لیے نہ جیت سکے۔
جونیئرز زیادہ ہوں تو کہیں اتنے سارے نئے کھلاڑی کھلا دیے،کم ہوں تو کہیں ینگسٹرز کو موقع ہی نہیں دیا جا رہا، نئی ٹیم جیتے تو کہیں ٹیلنٹ کی بھرمار ہے، ہارے تو بولیں ہمارے پاس نئے پلیئرز ہی نہیں ہیں۔
مجھے حال ہی میں کسی نے سرکاری ٹی وی کے اسپورٹس اینکرز و تجزیہ نگاروں کی تنخواہوں کی لسٹ بھیجی جسے دیکھ کر حیران رہ گیا،6،7 لاکھ سے کم تو کوئی بات ہی نہیں کر رہا،چیخنے چلانے والے بھائی کی تنخواہ بھی اتنی ہی ہے۔
کچھ خاتون اینکرز بھی پیسے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں ،یہ سب رقم آپ اپنے بجلی کے بلز کے ساتھ بھر رہے ہیں،خیر بات سابق کرکٹرز کی ہو رہی تھی،یہ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں،اگر ٹیم جیت جائے تو تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں ہارے تو ملک میں کرکٹ ہی ختم ہو جاتی ہے۔
چیمپئنز ٹرافی میں شکست کے بعد ایک سابق کپتان نے بیان دیا کہ 6،7 کھلاڑیوں کو بدل دینا چاہیے،چند دن بعد وہی کہہ رہے تھے کہ موجودہ کرکٹرز پر ہی اعتماد رکھنا چاہیے،بیشتر کا خیال تھا کہ ملک میں نیا ٹیلنٹ ہی موجود نہیں۔
لیکن ایک میچ کے بعد ہی انھیں حسن نواز میں جاوید میانداد کی جھلک دکھائی دینے لگی،اب اگلا میچ ہار گئے تو پھر ٹیم کی دھجیاں اڑائی جائیں گی، محمد رضوان نے عمرے کی ادائیگی کے بعد قومی ٹی ٹوئنٹی کپ نہیں کھیلا تو ایک سابق کرکٹر (اسٹار لکھنا مناسب نہیں لگتا) ان کیخلاف ایکشن کا مطالبہ کرنے لگے۔
قسمت سے بڑے چینل کی اسکرین مل جائے تو لوگ خود کو کیا سمجھنے لگتے ہیں،سر پوچھ تو لیتے کیوں نہیں کھیلا، کوئی تو وجہ تھی، مسئلہ یہی ہے ہمارے سابق کرکٹرز درست تجزیہ نہیں کرتے۔
اگر ٹیم ہار بھی جائے تو دنیا ختم نہیں ہو جاتی لیکن بعض سابق کھلاڑی ٹی وی پر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جنھیں سن کر اشتعال میں آئے لوگ اگر ٹیم کے کسی رکن تو باہر دیکھیں تو منہ ہی نوچ لیں۔
متوازن سوچ کے حامل تجزیہ نگار کم ہی نظر آئیں گے،ہوا کے رخ پر چلنا بڑی بات نہیں،سچی بات مہذب انداز میں کرنا ہی اصل کامیابی ہے لیکن مسئلہ ہمارا بھی ہے،جو بندہ جتنی چیخ و پکار کرے دوسروں کی پگڑی اچھالے اسے ہی ریٹنگ ملتی ہے۔
کئی مثالیں موجود ہیں آپ خود جانتے ہیں،جس طرح عیدکے مواقع پر درزیوں یا۔۔ کا سیزن آتا ہے اسی طرح جب کوئی آئی سی سی ایونٹ ہو تو سابق کرکٹرز کی لاٹری کھل جاتی ہے،دو میچز کھیلنے والے بھی فارغ نظر نہیں آتے،پھر وہ ٹی وی پر بیٹھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے اپنے دور میں بریڈمین کے ہم پلہ تھے یا شوکیس میں ٹرافیز کا ڈھیر لگا ہو۔
چیمپئنز ٹرافی کو ہی دیکھ لیں شکست کے بعد جو لوگ ٹیم پر آگے بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے تھے وہ خود اپنے دور میں کوئی بڑا ٹائٹل نہیں جیت سکے تھے،ان سے پوچھیں کہ بھائی آپ نے کتنی بار بھارت کو ہرایا تھا تو بغلیں جھانکیں گے۔
تنقید کرنا مشکل نہیں لیکن ساتھ اصلاح بھی کرنی چاہیے،الفاظ کا چناؤ بھی درست کریں،آپ کو بابر اعظم یا شاہین آفریدی کی کوئی خامی نظر آئے تو انھیں براہ راست فون کر کے بھی بتا سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا،کسی کو شکوہ ہوگا کہ فلاں نے مجھے سلام نہیں کیا یا میں نے اپنے بندے کو ایجنٹ بنوانے کا کہا تو کیوں نہیں بنایا اب دیکھو میں اسے ٹی وی پر کیسے اڑاتا ہوں۔
تنقید بھی ایجنڈے کے تحت ہوتی ہے،اگر کوئی پسند ہو تو اسے ٹیم میں واپس لانے یا کپتان بنانے کیلیے باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے،پسند نہ ہو تو اس کے ہیئر اسٹائل پر بھی تنقید شروع کر دیتے ہیں، ماضی میں تو یہاں تک ہوتا رہا کہ کھانے کے بل کی طرح ٹی وی پر بورڈ کے دفاع میں بولنے والے سابق کرکٹر رسیدیں جمع کراتے تھے کہ فلاں چینل پر بیٹھا اتنے روپے،فلاں جگہ گیا اتنے روپے،اسی کلچر نے سابق کرکٹرز کی ساکھ ختم کر دی،اب چند ہی ہوں گے جن کے تبصروں کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہوگا۔
ایک فتح کے بعد دیکھ لیں جو ہر وقت انگارے برساتے تھے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگے،اب ٹیم چوتھا میچ اور سیریز ہار گئی تو وہی دوبارہ سے ملک میں کرکٹ کو پھرختم قراردیتے نظر آئیں گے۔
کاش یہ کھلاڑی ایجنڈے یا مفادات سے ہٹ کر سوچتے تو ہماری کرکٹ اتنی پیچھے نہیں جاتی، ویسے حارث رؤف نے غلط نہیں کہا تھا کہ پاکستان میں لوگ ٹیم کے ہارنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ تنقید کے نشتر برسا سکیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)