بیجنگ :”ہم ایک ہی سمندر کی لہریں، ایک ہی درخت کے پتے، ایک ہی باغ کے پھول ہیں”، یہ قدیم رومی فلسفی لوسیوس سینیکاکا قول ہے۔ اس اسٹوئک فلسفی نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ دو ہزار سال بعد، اس کا فلسفہ ایک مشرقی ملک کی خارجہ پالیسی کے نظریے میں زندہ ہو جائے گا۔ 23 مارچ 2013 کو، چین کے صدر شی جن پھنگ نے روس کے انٹرنیشنل ریلیشنز انسٹی ٹیوٹ میں ایک خطاب کیا، جس میں پہلی بار دنیا کے سامنے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا تصور پیش کیا گیا۔ گزشتہ 12 سالوں میں، ایک خوبصورت وژن سے لے کر وسیع عمل تک، یہ نئے دور کی چینی خصوصیات کی حامل بڑے ملک کی خارجہ پالیسی کا اعلیٰ مقصد بن چکا ہے، جو مستقبل کے اشتراک اور “ایک ہی کرہ ارض پر مشترکہ کوشش” کے رجحان کو آگے بڑھا رہا ہے۔

 

” انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا نظریہ ” چینی تہذیب کے “ساری دنیا ایک خاندان ہے” کے روایتی فلسفے سے توانائی حاصل کرتا ہے، اور “اختلافات کے باوجود ہم آہنگی ” اور “انصاف اور مفاد کا یکجا ہونا” کے مشرقی فلسفے کو عالمی حکمرانی کے عمل میں شامل کرتا ہے، جو دنیا اور انسانیت کے مستقبل کے لیے آئیڈیل کی روشنی لاتا ہے۔چند مغربی تنقید نگاروں نے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو “خیالی” قرار دیا تھا، لیکن گزشتہ بارہ سالوں کے عمل نے اس کا مضبوط جواب دیا ہے: آج دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک “بیلٹ اینڈ روڈ” کے خاندان میں شامل ہو چکے ہیں، چین پاکستان اقتصادی راہداری، یاوان ہائی سپیڈ ریلوے جیسے اہم منصوبوں نے علاقائی معیشت کو مستقبل سے جڑی “ترقیاتی راہداریوں” میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ گہرا اثر یہ ہے کہ چین نے عالمی ترقی اور جنوب۔جنوب تعاون فنڈ، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنوب۔جنوب تعاون منصوبے جیسے میکانزم کے ذریعے ترقی کے حق کو چند ممالک کی “مراعات” سے عالمی سطح پر تمام ممالک کے اشتراک میں تبدیل کر دیا ہے۔ عالمی بینک کی تحقیق کے مطابق، “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو سے متعلقہ ممالک میں 76 لاکھ افراد انتہائی غربت سے اور 32 لاکھ افراد درمیانی غربت سے نجات پا سکیں گے، اور اس سے شراکت دار ممالک کی تجارت میں 2.

8 سے 2.9 فیصد، عالمی تجارت میں 1.7 سے 6.2 فیصد، اور عالمی آمدنی میں 0.7 سے 2.9 فیصد تک اضافہ ہو گا۔آج کی دنیا “نئی سرد جنگ” کے دہانے پر کھڑی ہے: ہتھیاروں کی دوڑ، سپلائی چین میں “ڈی کپلنگ”، موسمیاتی مذاکرات کا جمود وغیرہ، یہ چیلنجز مغربی دنیا کی بالادستی کی منطق سے حل نہیں ہو سکتے۔ جرمن سماجیات دان اولرچ بیک کا خیال ہے کہ روایتی معاشرے کی خصوصیت “میں بھوکا ہوں” ہے؛ جدید معاشرے کی خصوصیت “میں خوفزدہ ہوں” ہے، خطرات کی دنیا میں کوئی بھی تنہا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جب ہم اس پرتشدد دنیا کا جائزہ لیتے ہیں، تو مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے: جب جاپان کا جوہری آلودہ پانی بحر الکاہل میں چھوڑا جاتا ہے، جب امریکہ کا مالی طوفان پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، تو کوئی بھی ملک تنہا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کا حتمی مقصد ایک ایسا عالمی معاہدہ تشکیل دینا ہے جو “خطرات اور مفادات کا اشتراک” ہو، یہی “انسانی تقدیر کے حتمی چیلنج” سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے۔قدیم یونانی داستان میں، تھیسس کے جہاز کے تختے بتدریج تبدیل ہوتے رہے، جس نے “شناخت کی یکسانیت” کے فلسفیانہ مباحثے کو جنم دیا۔ آج کی انسانی تہذیب بالکل اسی جہاز کی مانند ہے:ایک صدی کی ان دیکھی تبدیلیاں، اے آئی انقلاب ہر “تختے” کو دوبارہ تشکیل دے رہے ہیں، اور جو چیز ہمیشہ قائم رہتی ہے وہ ہے “تقدیر کے ساتھ جڑی ہوئی انسانیت” کی ابدی شناخت۔ مغربی روایتی سوچ “کس کا تختہ زیادہ اہم ہے”، “سفر کا رہنما کون ہے” پر مرکوز ہے، جبکہ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا نظریہ مشرقی جواب دیتا ہے: اہم بات پتوار کے کنٹرول کے لیے لڑنا نہیں، بلکہ پورے جہاز کو محفوظ منزل تک پہنچانا ہے۔12 سال، کسی نظریے کے لیے تخم سے لے کر جڑ پکڑنے تک کا اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ جب انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے نظریہ کو بارہا اقوام متحدہ کی قراردادوں، کثیرالجہتی میکانزم کی قراردادوں اور اعلامیوں میں شامل کیا گیا، تو یہ نظریہ چینی تجویز سے بین الاقوامی اتفاق رائے تک پھیل گیا؛ جب دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک “بیلٹ اینڈ روڈ” کے خاندان میں شامل ہو گئے، تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک نئی قسم کی انسانی اجتماعی اخلاقیات، دنیا کی امنگوں کے مطابق مشرق سے نمودار ہو رہی ہیں۔

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا ایک ہی

پڑھیں:

اندھیرے اور روشنی کی مقدار

اڑھائی گھنٹے تک سینما ہال میں بھلا کون نیند پوری کرنے جاتا ہے، اوپر سے رمضان کریم کی رحمتوں والا مہینہ ہو۔ اس کے باوجود ایک دوست کے اصرار پر فلم دیکھنے جانا پڑا۔ یہ انڈین فلم تھی جس کا ’’پنٹو پانڈو‘‘ یا شائد اس سے ملتا جلتا کوئی نام تھا اور پورے ہال میں ہم گنتی کے چار ٹوٹرو تھے۔ جو بھلے مانس مجھےسینما ہال لے کر آیا تھا، فلم کی گھن گرج کے باوجود وہ جاتے ہی خراٹے لینے لگا اور میں پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے سیل فون پر مطالعہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔
فلم کا وقفہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ دوسرے دونوں(بندہ اور بندی) فلم کے وقفے کے بعد واپس نہیں مڑے۔ ابھی فلم کو دوبارہ شروع ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے جب حسین مدثر کی آنکھ کھلی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، ’’چلیں‘‘ میں تذبذب میں پڑ گیا۔ میں فلم ختم ہونے تک بیٹھا چاہتا تھا مگر پوری توجہ سے فلم کو میں بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ میرے مطالعہ اور فلم بینی میں آنکھ مچولی چلتی رہی تھی۔ خیر میں نے دوسری سیٹ پر پڑے اپنے دونوں موبائل فون جیب میں ٹھونسے اور ہم دونوں باہر آگئے۔
اس سینما ہال کے بڑے دروازے سے باہر آنے سے پہلے میں نے واپس مڑ کر دیکھا تو فلم چل رہی تھی اور اس کی آواز ہال سے باہر بھی آ رہی تھی مگر فلم کو دیکھنے والا کوئی فلم بین سینما ہال میں موجود نہیں تھا۔ اسی سینما میں پانچ سال پہلے بھی ہم یہ تین بجے دن والا شو دیکھنے چلے گئے تھے اور پورے ہال میں وہ فلم دیکھنے والے صرف ہم تین دوست تھے۔ اس وقت رمضان شریف کا مہینہ نہیں تھا۔ ہم فلم کی بوریت سے بچنے کے لئے پاپ کارن اور ریڈ بل پیتے رہے تھے۔ اس دفعہ اضافی تجربہ یہ ہوا کہ جب ہم دونوں سینما ہال میں داخل ہونے لگے تو ہال کے اندر گھپ اندھیرا تھا۔ اتفاق سے چھت کی دیواروں کی ہلکی ایل ای ڈی لائٹس بھی بند تھیں۔ ہم نے ہال کے مین دروازے کو جونہی کھول کر اندر داخل ہونے کی کوشش تو اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ ہم دونوں نے ایک انجانی سی تنہائی محسوس کی اور ڈر گئے۔ جب میں نے آگے قدم رکھنے کی کوشش تو مجھے محسوس ہوا کہ میں نے اگر دوسرا قدم بھی آگے بڑھایا تو شائد میں کسی گہرے کنویں میں گر جائوں گا۔ موبائل فونز کی لائٹیں جلا کر آگے بڑھے، ہانپتے کانپتے اپنی سیٹوں پر تو پہنچ گئے۔ لیکن شدت کا اندھیرا ابھی بھی مجھے خوفزدہ کر رہا تھا۔فطرت نے کائنات میں اندھیرے اور اجالے کی برابر مقدار پیدا کی ہے۔ اگر ہم پوری کائنات کو بھی مصنوعی روشنیوں سے بھر دیں تو تب بھی دنیا میں اندھیرے کے مقابلے میں روشنی کی مقدار بڑھ نہیں سکتی ہے۔ سائنس کے مطابق کائنات کے کچھ مقامات پر اتنا زیادہ اور گہرا اندھیرا ہے کہ وہاں ہم اس سادہ جسم اور دل کے ساتھ داخل ہوں تو ہمارے دل اندھیرے کے دبائو اور خوف کی وجہ سے پھٹ جائیں گے، لیکن اس کے برعکس اگر ہم وہاں خود کو کسی طرح زندہ رکھ سکیں تو ہم اندھیرے میں رہ کر انتہائی حد تک گہری سوچ میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں۔اس بار فلم دیکھنے اور اس سے کچھ سیکھنے سے زیادہ اندھیرے کے بارے سوچنے میں زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ ہم اکثر روشنی بجھا کر سوتے ہیں تو سونے سے پہلے اندھیرے کے دوران اتنے ہی گہرے اور تخلیقی خیالات دماغ میں آتے جتنا گہرا اندھیرا ہوتا ہے، اور اندھیرے ہی میں ہم زیادہ گہری نیند سوتے ہیں اور خواب بھی گہری نیند میں آتے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ ہمارے سوچنے کا اندھیرے سے کیا تعلق ہے اور اندھیرے میں ہمارے محسوس کرنے کی طاقت کیوں اور کیسے بڑھ جاتی ہے؟ شائد اندھیرے میں خطرہ محسوس کر کے ہمارے دماغ کے کچھ سیلز بیدار ہو جاتے ہیں۔ مقولہ مشہور ہے کہ، ’’اتنا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔‘‘ بعض دفعہ اندھیرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ہم خود کو بھی دیکھ نہیں سکتے ہیں مگر صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ جب اندھیرے میں ہمارا تخیل تیز تر ہو جاتا ہے تو ہمارے محسوس کرنے کی حس بھی بڑھ جاتی ہے۔ اڑھائی گھنٹے کی پوری فلم دیکھنے سے کچھ سیکھنے سے زیادہ اندھیرے میں دماغ میں ابھرنے والے یہ خیالات کئی گنا زیادہ اہم نکلے۔ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں اندھیرا بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ زندگی میں کوئی کام سوچ سمجھ کرتے ہیں اور نہ اپنے اندر پائے جانے والے اس اندھیرے سے کوئی فائدہ اٹھا کر دماغی طور پر بیدار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ روشنی سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اندھیرے سے بھی ڈرتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں فائدہ مند وہی لوگ ہیں جو اندھیرے سے ڈرتے ہوں۔ روشنی کی طرف سفر کرنے کے لئے اندھیرے سے ڈرنا چایئے۔ یاد رکھیں روشنی انہی لوگوں کی زندگیوں میں آتی ہے جو روشنی اور اندھیرے کے اس فرق کو سمجھ جاتے ہیں، کیونکہ اندھیرے میں رہنے اور اندھیرے سے ڈرنے میں کوسوں کا فرق ہے۔ ہماری زندگی کی فلم ایک اندھیری رات کی کہانی ہے۔ جو لوگ اپنی زندگیوں میں روشنی بھرنا چاہتے ہیں وہ اندھیرے کے محسوسات کو سمجھیں۔ زندگی میں روشنی وہی پاتے ہیں جو دوسروں کی زندگیوں سے اندھیرے ختم کرتے ہیں۔ اندھیرا اور اجالا غم اور خوشی کا دوسرا نام ہیں۔ شمع خود کو اندھیرے میں جلاتی ہے تو روشنی کرتی ہے۔ دنیا سے اندھیرے ختم کرنے اور انہیں کائنات کے کسی دوسرے مقامات تک دھکیلنے کے لئے قربانی دینا اور جلنا سیکھیں۔ دنیا میں روشنی اور اندھیرے کی مقدار برابر ہے۔ آپ جتنے پسماندہ ہیں اور جتنا اندھیرے میں ہیں لگن اور محنت سے کام لیں گے تو اسی مقدار کے برابر ہے آپ کی زندگی روشنی سے جگمگانے لگے گی۔

متعلقہ مضامین

  • گلوبل ساؤتھ کانفرنس کا باہمی مالیاتی تعاون بڑھانے پر زور
  • موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز اور حل: عالمی موسمیاتی دن پر ماہرین کی گفتگو
  • چائنا ان اسپرنگ ٹائم ” گلوبل ڈائیلاگ کا پاکستان سمیت متعدد ممالک میں انعقاد
  • دنیا کی سب چھوٹی بکری کرومبی کا نام گینز ورلڈ ریکارڈ میں درج
  • انسانیت کے ہم نصیب معاشرہ کا مستقبل سب کے لئے ہے، چینی میڈیا
  • “چائنا ان اسپرنگ ٹائم ” گلوبل ڈائیلاگ کا پاکستان سمیت متعدد ممالک میں انعقاد
  • اندھیرے اور روشنی کی مقدار
  • گلیشیئرز کا تحفظ انسانیت کی بقاء کیلئے اہم مسئلہ بن چکا: مصدق ملک
  •  پاکستان  10 ممالک میں شامل جن کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے: شیری رحمان