کراچی:

پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں آج مندی ہوئی ہے، ہنڈریڈ انڈیکس گھٹ کر 116439پوائنٹس کی سطح آگیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 2002 پوائنٹس کی بڑی نوعیت کی مندی کے ساتھ کاروبار کا اختتام ہوا ہے جس میں ہنڈریڈ انڈیکس گھٹ کر 116439پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا ہے۔

مارکیٹ میں مندی سے سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

رمضان ، قرآن اور پاکستان

’’رمضان، قرآن اور پاکستان ‘‘ تین لفظ ہیں اور تینوں ہم وزن ہیں، ان لفظوں کا ہم وزن اور ہم معنی ہونا اتفاق نہیں بلکہ منشائے الٰہی ہے، تینوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے، رمضان المبارک کی اپنی اہمیت اور بے شمار فضائل ہیں، اس ماہ مبارک کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ اس میں دنیا کی سب سے مقدس کتاب کا نزول ہوا اور دوسری فضیلت لیلۃ القدر ہے۔

لیلۃ القدر ایسی عظمت والی ہے کہ اس ایک رات کا ثواب ہزار مہینوں سے زیادہ ہے۔ رمضان المبارک کی تیسری فضیلت اعتکاف جیسی عبادت ہے، رمضان کی چوتھی فضیلت قیام اللیل یا نماز تراویح ہے، رمضان کی پانچویں فضیلت یہ ہے کہ اس میں ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی معلوم ہے کہ اسلامی مہینوں میں سب سے مقدس اور بابرکت مہینہ رمضان ہے، رمضان کے تین عشروں میں سب سے فضیلت والا آخری عشرہ ہے، اس عشرہ میں طاق رات ہے جسے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ لیلۃ القدر آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کسی ایک را ت میں پائی جاتی ہے، تاہم ستائیسویں شب میں لیلۃ القدر پائے جانے کا امکان سب سے قوی ہوتا ہے، پاکستان 27 رمضان المبارک 1368ء ھ، 14اگست 1947ء کو منصئہ شہود پر آیا، رمضان المبارک جیسے مقدس مہینہ، مقدس عشرہ اور مقدس ترین رات میں پاکستان کا قیام اللہ کی رحمت کا عالی شان نشان اور انعام ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ، اور پاکستان کے قیام کا محرک اسلام ہے، پاکستان کے قیام کی تحریک درحقیقت اسلام کے غلبہ و احیاء کی تحریک تھی۔ اگر اس تحریک کا محرک اسلام نہ ہوتا تو یہ کبھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچتی، مسلمان برصغیر کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے اور منتشر تھے، غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے، ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے ہوئے تھے، ان کی قوت و طاقت اور شان و شوکت پارہ پارہ ہو چکی تھی ان کا عروج زوال میں اور اقبال ادبار میں ڈھل چکا تھا، وہ اضمحلال اور شکست و ریخت کا شکار تھے۔

عیار انگریز نے بڑی چالاکی سے مسلمانوں کو اختلاف در اختلاف کے جال میں الجھا رکھا تھا۔ کہیں مذہب کے نام پر اختلافات تھے، کہیں سیاست کے نام پر اور کہیں طبقاتی و معاشرتی تفریق کی چکی میں مسلمان پس رہے تھے۔

مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کا بچھایا ہوا جال بظاہر بہت مضبوط اور سخت تھا، غلامی کی جن مضبوط زنجیروں میں انگریزوں نے مسلمانوں کو جکڑا ہوا تھا، بظاہر ان زنجیروں کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ متحدہ ہندوستان بہت بڑا خطہ تھا، اس وسیع و عریض خطہ کے طول و عرض میں مسلمان بکھرے ہوئے تھے، یہ وہ دور تھا جب آزادی کا نام لینا جرم تھا، سرفروشوں کے لئے دار ور سن تھے اور خانزادوں، استعمار کے ایجنٹوں، غداروں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں۔

ان حالات میں پاکستان کے قیام کی نہ صرف تحریک چلی بلکہ کامیابی سے بھی ہمکنار ہوئی، اسلام قرآن اور کلمہ طیبہ کی برکت نے متحدہ ہندوستان میں بکھرے مسلمانوں کو متحد ومتفق کر دیا۔ ان کی کمزوری کو طاقت و قوت میں بدل دیا ، ان کو ایک لڑی میں پرو دیا، ان کے ادبار کو اقبال میں اور ان کے زوال کو عروج میں بدل دیا، یہ حقیقت ہے کہ اگر اسلام کا پلیٹ فارم نہ ہوتا اور کلمہ طیبہ کا جھنڈا مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو پاکستان کبھی بھی دنیا کے نقشے پر قائم نہ ہو پاتا۔ تحریک پاکستان کے ایام میں مسلمانوں کے کیا احساسات و جذبات تھے ان کا اندازہ ہم اس واقعہ سے کر سکتے ہیں جس کا ذکر آغا شورش کاشمیری نے اپنی کتاب بوئے گل نالہ دل و چراغ محفل میں کیا ہے وہ اپنی کتاب کے صفحہ 269۔297 میں لکھتے ہیں ۔

’’متحدہ ہندوستان کے آخری الیکشن میں میں نے بہار اور یوپی کے بعض اضلاع کے قصبات و دیہات کا دورہ کیا، لکھنو اور پٹنہ کا مزاج دیکھا، بہڑائچ سے نانپارہ اور نیپال کی سرحد تک گیا ، وہاں سے آگرہ کی طرف لوٹا ،کانپور سے فرخ آباد چلا گیا، قنوج وغیرہ کے علاقے میں گھوما پھرا، سہارنپور ،ڈیرہ دون پہنچا، غرض یوپی اور بہار کا سفر کیا نتیجتاََ میں اپنی رائے کو چھپانا نہیں چاہتا کہ ان دور افتادہ مسلمانوں کو پاکستان کا نشہ اتنا چڑھا ہوا تھا کہ وہ اس کے لئے اپنے مستقبل سے غافل ہو گئے تھے۔ ان علاقوں میں ہزار کی ہندو آبادی میں ایک مسلمان کے لئے بھی یہ نعرہ نہایت ہی پرکشش تھا کہ ’’ جیسے لیا تھا ہندوستان ویسے ہی لیں گے پاکستان‘‘۔۔۔’’ بولو بھیا ایک زبان بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔ نیپال کی سرحد سے ذرا ادھر میں نے ایک مسلمان کسان کو روک کر السلام علیکم کہا تو وہ رک گیا اور وعلیکم السلام کہا۔

 میں نے اس سے سوال کیا’’ ووٹ کسے دوگے؟‘‘

اس نے غور سے مجھے دیکھا اور لاٹھی بڑھا کر چل دیا، میں نے پیچھے سے آواز دیکر پوچھا۔

 ’’ بھائی کچھ تو کہہ جا ‘‘

 ’’ میاں ! ہمارا ووٹ کلمہ کے ساتھ ہے ‘‘

 ’’ کلمہ سے تمہارا کیا مطلب ہے ؟‘‘

 ’’کہنے لگا مسلم لیگ‘‘

یہ تھے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات ، ان کے نزدیک کلمہ طیبہ کا مطلب تھا مسلم لیگ اور مسلم لیگ کا مطلب تھا کلمہ طیبہ ۔

کسی بھی تحریک کی بنیاد ہوتی ہے عقیدہ ، نظریہ ، سوچ اور فکر ۔۔۔ عقیدہ اور نظریہ جتنا مضبوط اور توانا ہو گا تحریک میں اتنی ہی جان اور طاقت ہوگی ۔ پاکستان کے قیام کے لئے چلنے والی تحریک کی بنیاد تھی ۔۔۔کلمہ طیبہ ۔۔۔۔ سو کلمہ طیبہ والے پرچم تلے متحدہ ہندوستان کے مسلمان انگریز ، ہندو اور سکھوں کے خلاف ڈٹ گئے اور سینہ سپر ہو گئے، انسان کو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستان کے وہ دور دراز علاقے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ پاکستان میں شامل ہو سکیں گے، ان علاقوں کے مسلمان ، کہیں زیادہ پرجوش اور متحرک تھے ان مسلمانوں کے مقابلے میں جن کے علاقے یقینی طور پر پاکستان میں شامل ہو رہے تھے۔

جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں تھے ان کے ولولے کہیں زیادہ مائل بہ پرواز اور حوصلے مصائب سے بے نیاز تھے ۔ ان مسلمانوں کو اگر کسی چیز نے پاکستان کے لئے ڈٹ جانے اور کٹ مرنے کے لئے آمادہ کیا تو وہ اسلام ہے ، قرآن ہے اور کلمہ طیبہ ہے۔ کعبہ کا رب اس بات پر گواہ ہے کہ اگر مسلم لیگ کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ نہ ہوتا۔ ہندوستان کے مسلمان فوج در فوج ، گروہ در گروہ اور لشکر جرار کی صورت میں اس کے جھنڈے تلے کبھی بھی جمع نہ ہوتے۔

اقلیتی علاقوں کے مسلمان کو ایک اور بات نے بھی پاکستان کے لئے کٹ مرنے پر آمادہ کیا اس کا ذکر نسیم حجازی نے اپنی کتاب ’’خاک اور خون‘‘ میں ان الفاظ میں کیا ہے ’’تحریک پاکستان کے ایام میں امر تسر میں جلسہ تھا۔ اس جلسہ میں علی گڑھ سے آنے والے طلبہ کا بھی خطاب تھا۔ جلسہ کے بعد امرتسر کالج کے طلبہ نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے کہا ’’اول تو ہمیں امید ہے کہ ہمارے علاقے پاکستان میں شامل ہو جائیں گے۔

 اگر نہ بھی ہوئے تو ہم سحری کے وقت ہم امر تسر سے چلے تو طلوع آفتاب تک لاہور پہنچ جائیں گے لیکن آپ لوگوں کا تعلق جن علاقوں سے ہے ان علاقوں کا پاکستان میں شامل ہونے کا تصور بھی محال ہے اور آپ لوگوں کا پاکستان پہنچنا بھی مشکل ہوگا ۔ اس کے باوجود آپ لوگ قیام پاکستان کی تحریک میں پیش پیش ہیں ۔ ۔ ۔آخر کیوں ؟‘‘ ان طلبہ کا جواب تھا ’’ہم جانتے ہیں کہ ہمارے لئے زندہ سلامت پاکستان پہنچنا مشکل ہوگا ، ہم گھیر لیے جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ جس پاکستان کے لیے ہم جدو جہد کر رہے ہیں وہ اسلام کا قلعہ ہو گا وہاں سے ضرور کوئی محمد بن قاسم اٹھے گا جو ہماری ماؤں ‘ بہنوں کو دیوی اور دیوتاؤں کے پجاریوں سے رہائی دلائے گا ۔

1947ء کے موقع پر لاکھوں مسلمان لٹ پٹ کر پاکستان پہنچے تھے، لاکھوں شہید ہوگئے، لاکھوں مسلمان ماؤں بہنوں کی عصمتیں لٹ گئیں، لاکھوں عفت مآب خواتین وہ تھیں جو بلوائیوں نے اٹھا لیں اور لاکھوں مسلمان ایسے تھے جو پاکستان آنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن نہ آسکے۔ ان ستم رسیدہ مسلمانوں کو اور عفت مآب ماؤں بہنوں کو برہمن کے چنگل سے آزاد کروانا ہماری ذمہ داری تھی۔

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ 14اگست 1947ء کو جب پاکستان منصئہ شہود پر آیا تب رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی، یہ وہی شب ہے جس میں قرآن پاک نازل ہوا۔ اس طریقے سے خالق کائنات اور قرآن پاک کو نازل کرنے والے اللہ نے قرآن اور پاکستان کو باہم مضبوط اور مربوط کر دیا تھا۔

ستائیسویں شب میں پاکستان کا قیام خالق کائنات کی طرف سے اس بات کا اشارہ تھا کہ پاکستان کا مستقبل صرف اسلام اور قرآن سے وابستہ ہے۔ جس کتاب مقدس سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے اس کتاب کا واضح حکم ہے کہ ’’ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں نہیں لڑتے، ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے جو دشمن کے گھیرے میں ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں نکال ظالموں کی بستی سے، بھیج ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی دوست اور مددگار ۔‘‘

اس حکم کی رد سے ہمارا فرض تھا کہ اپنے ان بھائیوں کا بدلہ لیتے جو تحریک پاکستان کے ایام میں ہندؤں کے ہاتھوں شہید ہو گئے، ہم ان ماؤں بہنوں کا بدلہ لیتے جن کی عزتیں اور عصمتیں لوٹ لی گئیں۔

ہم ان بچوں کا بدلہ لیتے جنہیں نیزوں کی انیوں میں پرو دیا گیا ، تلواروں سے چھلنی کر دیا گیا اور آگ میں زندہ جلا دیا گیا ۔ ہمارا حق تھا کہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں وہ مسلمان جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہم انہیں برہمن کی غلامی سے آزاد کرواتے، ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہم نے کیا آزاد کروانا تھا، ہم تو اپنا آدھا وطن گنوا بیٹھے اور باقی ماندہ وطن عزیز کے حالات بھی دگر گوں ہیں۔ وطن عزیز میں آج فتنے اور طوفان امڈتے چلے آرہے ہیں اور دشمن بھوکے گدھ کی طرح ہم پر جھپٹ رہے ہیں ۔

یہ سب ایسا کیوں ہے ۔۔؟ ہماری ہوا کیوں اکھڑ رہی ہے؟ ہمارے پاؤں کیوں لڑکھڑا رہے ہیں؟ دشمن ہم پر کیوں حاوی ہو رہا ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہے کہ ہم نے قرآن پاک کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم قرآن پاک کی تعلیمات کو نہیں سمجھ رہے اور اس کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر رہے۔ قرآن پاک کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم کمزور اور دشمن ہم پر حاوی ہو رہا ہے اور ہمارا رعب و دبدبہ زائل ہو رہا ہے ۔

ہماری دھاک جھاگ کی طرح بیٹھ رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس کلمہ طیبہ کی بدولت ہمیں پاکستان ملا ، قیام پاکستان کے بعد اگر اس کلمہ طیبہ کے عملی تقاضے پورے ہو جاتے ، قرآن مجید پاکستان کا دستور اور سپریم لاء بن جاتا اور پاکستان میں اسلام نافذ ہو جاتا تو پھر کتنی خیر و برکت ہوتی، پاکستان کتنا مضبوط اور طاقت ور ہو جاتا ہے۔

ساڑھے چودہ سوسال پہلے قائم ہونے والی ریاست مدینہ چھوٹا سا، معمولی سا اور غیر معروف شہر تھا اور جب مدینہ کی قسمت اسلام سے وابستہ ہوئی تو پھر مدینہ دنیا کی طاقتور ترین ریاست کا دارالخلافہ بن گیا، دنیا کے نقشے اور جغرافیے مدینہ کی کچی بستی میں بیٹھنے والے مسلمان خلفاء کی تلواروں کی نوک سے بنتے اور مٹتے تھے۔ ریاست مدینہ کے بعد پاکستان اسلامی دنیا کی دوسری ریاست تھی جو صرف اور صرف اسلام کے نام پر قائم ہوئی۔ اگر اس ریاست کا مقدر بھی اسلام سے وابستہ ہو جاتا تو یقینا پاکستان بھی دنیا کی طاقتور اور مضبوط ترین ریاست بن جاتا اور یہ ملک دنیا کی سپر پاور بن جاتا ۔ آج افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے

اگر میں سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ

خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے

 دشمن پاکستان پر دانت جمائے بیٹھے ہیں اس کے بخیئے ادھیڑنے کے درپے ہیں ، ان حالات میں ہماری بقا، سلامتی اور تحفظ کا راستہ صرف ایک ہے کہ ہم قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ رمضان المبارک میں پاکستان کا قیام اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے نور الٰہی کے نور سے منور کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے مینارہ نور بنا دیں ۔ یہی کامیابی، عزت اور بقا کا راستہ ہے۔  

متعلقہ مضامین

  • ایشین کپ 2027 کوالیفائرز، شام نے پاکستان کو دو صفر سے شکست دے دی
  • 1992 کے ورلڈ کپ کے 33 سال: ’آج پھر خان کا دن ہے‘
  • صدر زرداری کا یوم پاکستان پر خطاب
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی
  • اسٹاک مارکیٹ میں ہزاروں پوائنٹس کی بدترین مندی
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، 100انڈیکس میں 2000زائد پوائنٹس کی کمی
  • رمضان ، قرآن اور پاکستان
  • نظریہ پاکستان کیا ہے؟
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج:رواں ہفتے بلند ترین سطح 119421 رہی