ترکی: استنبول میں عوامی احتجاج جاری‘ حالات میں کشیدگی برقرار
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
استنبول(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 مارچ ۔2025 )ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں عوامی احتجاج کے بعد حالات کشیدہ ہیں یہ احتجاج شہر کے میئر اکرم امام اولو کی گرفتاری کے بعد سے جاری ہیں جنہیں بدھ کی صبح بدعنوانی اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھاچار روزسے جاری مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیںامام اولو کی جماعت نے کردوں کی حامی ایک جماعت کے ساتھ انتخابی معاہدہ کیا تھا اس جماعت پر ترک حکام کردستان ورکرز پارٹی کے ساتھ وابستگی کا الزام عائد کرتے ہیں جس کو انقرہ ایک دہشت گرد تنظیم شمار کرتا ہے.
(جاری ہے)
عرب نشریاتی ادارے کے مطابق عدالتی فیصلے میں اولو کوگرفتاری کے بعد جیل بھیجنے کی وجوہات بیان کی گئیں فیصلے میں کہا گیا کہ مشتبہ اکرم امام اولو کو ایک مجرمانہ تنظیم کی تاسیس اور قیادت ، رشوت قبول کرنے، بد عنوانی، ذاتی معلومات کا غیر قانونی اندراج اور ٹینڈروں میں ہیرا پھیری کے الزامات میں قید میں لیا گیا ہے استنبول یونیورسٹی نے پچھلے ہفتے امام اولو کے حراست میں لیے جانے سے چند گھنٹے قبل ان کی ڈگری منسوخ کر دی تھی جس سے صدارتی انتخابات میں ان کی نامزدگی کے سامنے رکاوٹ کھڑی ہو گئی ہے کیونکہ ترکی کا آئین اس بات کو لازم قرار دیتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں نامزدگی کے لیے امیدوار کو اعلی تعلیم یافتہ ہونا چاہیے تاہم اولو نے ڈگری کی منسوخی کو سیاسی حربہ قراردیا اور کہا تھاکہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی دباﺅکے سامنے جھکیں گے ان کا کہنا تھاکہ میں ثابت قدم اور مضبوط رہوں گا اور جھکوں گا نہیں انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اس عمل کو منظم کیا ہے ان کا محاسبہ کیا جائے گا انہوں نے عدالتی کارروائی کوغیر منصفانہ قراردیا. حزب اختلاف کی مرکزی جماعت اور یورپی راہنماﺅں نے صدر اردوگان کے اہم ترین سیاسی حریف کے خلاف ان اقدامات کو سیاسی بنیادوں پر قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے واضح رہے کہ مارچ 2019 میں پہلی بار میئر منتخب ہونے کے بعد سے استنبول کے 53 سالہ میئر کے خلاف یہ چھٹی اور دو ماہ سے بھی کم عرصے میں تیسری تحقیقات ہیں اکرم اولو نے اس وقت شہرت حاصل کی تھی جب انہوں نے جون 2019 میں الیکشن جیت کر استنبول کے میئر کے لیے صدر اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے امیدوار کو بری طرح شکست دی ترکی میں جاری مظاہروں کوایک دہائی سے زیادہ عرصے میں ملک کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہروں میں شمار کیا جا رہا ہے ترک صدر رجب طیب اردوگان کے سب سے بڑے مخالف اکرم امام وغلو کچھ روز میں 2028 کے الیکشن کے لیے صدارتی امیدوار نامزد ہونے والے تھے ہفتے کے روز امام وغلو کو استنبول کی عدالت میں پیش کیا گیاتھا جہاں پراسیکیوشن نے دہشت گردی اور بدعنوانی کے الزامات میں ان کی باقاعدہ گرفتاری کی درخواست کی جبکہ امام وغلو خود پر عائد کردہ الزامات کی تردید کرتے ہیں دوسری جانب صدر اردوگان نے مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے امام وغلو کی اپوزیشن جماعت سی ایچ پی پر بدامنی پھیلانے اور لوگوں میں تقسیم پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امام وغلو کے بعد
پڑھیں:
میں ہار تسلیم نہیں کروں گا، اکرم امام اوغلو کا سزا سنائے جانے کیبعد بیان
اپنے ایک ٹویٹ میں استنبول کے مئیر کا کہنا تھا کہ ہم اپنی جمہوریت کو پہنچائے جانے والے نقصان اور بدنماء داغ کو دھو کر رہیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ سزا سنائے جانے کے بعد "رجب طیب اردگان" کے سیاسی حریف اور استنبول کے مئیر "اکرم امام اوغلو" نے کہا کہ ہم اپنی جمہوریت کو پہنچائے جانے والے نقصان اور بدنماء داغ کو دھو کر رہیں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک ٹویٹ میں کیا۔ واضح رہے کہ ترکیہ کی ایک عدالت نے کرپشن کے الزام میں اکرم امام اوغلو کو سماعت مکمل ہونے تک قید کی سزا سنا دی۔ جس پر انہوں نے رجب طیب اردگان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خوف موت کا بھائی ہے۔ آپ کو ہر حال میں شکست ہو گی۔ یا اِس طرح یا اُس طرح۔ آپ ہماری شجاعت، سچائی، تواضع اور مسکراہٹ سے ہار جائیں گے۔ انہوں نے ترکیہ کے 86 ملین شہریوں سے جمہوریت و انصاف کو بچانے کے لئے ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا کہ "میں کھڑا ہوں اور کبھی نہیں جھکوں گا۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے"۔
واضح رہے کہ استنبول کے مئیر کو ترک سیکورٹی ایجنسی نے گزشتہ بدھ سے حراست میں لیا جس کے بعد مسلسل 4 روز سے ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین ابھی تک اپنے محبوب لیڈر کی رہائی کے لئے ترکیہ کی سڑکوں پر موجود ہیں۔ احتجاجات کا سلسلہ انقرہ، استنبول اور ازمیر کے علاوہ بعض دیگر علاقوں میں جاری ہے جہاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ گزشتہ روز پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے واٹر گن، آنسو گیس اور مرچوں کا استعمال کیا۔ اس افراتفری میں تُرک وزیر داخلہ "علی یرلی کایا" نے مظاہرین میں سے 300 افراد کو گرفتار کرنے کی خبر دی۔ یاد رہے کہ اکرم امام اوغلو کی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) ترکیہ کی مرکزی اپوزیشن جماعت ہے۔ مذکورہ پارٹی اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کو سیاسی اشتعال انگیزی سمجھتی ہے۔ اس پارٹی نے اپنے حامیوں کو احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔