Express News:
2025-03-26@00:10:56 GMT

نکاح؛ رضامندی کا یکساں حق

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

اسلام دین عدل ہے، جو کسی طرح کی ناانصافی کو گوارا نہیں کرتا۔ معاشرے کی بقا کےلیے اسلامی تعلیمات میں ’نکاح‘ کو جزو لازم قرار دیا گیا ہے۔

فرمان رسولؐ ہے ’’نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔

نکاح ایک نہایت سنجیدہ اور حساس کنٹریکٹ ہے جس پر نہ صرف دو افراد کی زندگیاں جڑی ہیں بلکہ آنے والی نسل بھی اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ لہٰذا اس کےلیے شریعت میں بہت سی شرائط اور حدود و قیود کو لازم قرار دیا گیا ہے ،جن میں سے سب سے بڑی شرط ’’ولی‘‘ اور ’’مرد و عورت‘‘ کی باہمی رضامندی شامل ہے۔

شریعت میں ولی سے مراد وہ قریبی رشتہ ہوتا ہے جو خون، نسب اور ذمے داری ہر لحاظ سے اولاد کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، چنانچہ سب سے پہلے والدین، ان کی عدم موجودگی میں باپ کی طرف کے رشتے دار، دادا، چچا اور دیگر، پھر ماں کی طرف کے رشتے دار جیسا نانا، ماموں اور دیگر۔ ولی کی اجازت نکاح کےلیے سرفہرست ہے ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘ اس حدیث کو متواتر احادیث کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے۔ نکاح میں والدین کی رضامندی اسلام کے خاندانی نظام کی ایک بنیادی کڑی ہے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح باطل، باطل، باطل (یعنی کالعدم ) ہے۔‘‘ اس حدیث کو سنن ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی اوردیگر 100 کتبِ حدیث میں روایت کیا گیا ہے۔

لیکن یہ نکاح کے منعقد ہونے کا ایک پہلو ہے۔ اسلام میں جہاں نکاح میں والدین کی رضامندی کو لازم قرار دیا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی لازم کیا گیا ہے کہ نکاح میں لڑکی اور لڑکے کی رضامندی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ ولی کی۔ اور زبردستی کیا جانے والا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کا مکمل احترام کیا گیا ہے۔

لہٰذا شریعت میں جہاں مردوں کو پسند کی عورتوں سے شادی کرنے کا حکم ہے اسی طرح لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اللہ ! کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے‘‘ (صحیح بخاری)

سماج میں عموماً مرد اپنی پسند کا اظہار بھی کردیتے ہیں اور نکاح میں ان کی مرضی کا ایک حد تک لحاظ بھی رکھا جاتا ہے، لیکن لڑکی کے معاملے میں ہمارا معاشرہ اس کی مرضی کے خلاف نکاح کو اس پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں شریعت کے اس بارے میں کیا احکام ہیں۔

رسول اللهؐ کی بارگاہ میں جب بھی کسی لڑکی کی مرضی کے خلاف کیے گئے نکاح کا کیس آیا تو آپؐ نے اس نکاح کو منسوخ فرما دیا اور لڑکی کو اختیار دے دیا کہ وہ اس نکاح کو رکھ لے یا ردّ کردے۔ یعنی کبھی بھی لڑکی کی مرضی کے خلاف نکاح کو لڑکی پر مسلّط نہیں کیا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ جبری شادی کی حوصلہ شکنی کا درس ملتا ہے۔

رسول اللہؐ نے خود حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح منسوخ قرار دیا جو کہ حضرت خنساء کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف کیا تھا (صحیح بخاری)

اس طرح آپؐ نے لڑکی کی مرضی کے خلاف باپ کا کیا ہوا نکاح منسوخ فرما کر لڑکی کی پسند ضروری قرار دے دی۔ اور یہ حدیث نبویؐ جبری شادی کے عدم جواز پر ٹھوس دلیل ہے۔

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرے چچا زاد بھائی نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن میرے والد نے اس رشتے کو رد کردیا اور میری شادی ایسی جگہ کرادی جو مجھے پسند نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والد کو بلایا اور اس سے اس بارے میں سوال کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اس کا نکاح کرایا ہے اور اس کےلیے خیر کا ارادہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تیرا نکاح نہیں ہوا، جاؤ اور جس سے چاہو نکاح کرلو۔ (ابن ابی شیبہ)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب لڑکی کی رضامندی کے خلاف نکاح کیا جائے تو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ فرماتی ہیں: ایک لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کردیا ہے تاکہ میرے ذریعہ سے (بھتیجے کی مالی معاونت حاصل کرے اور) اپنی مفلسی دور کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملہ اُس کے اختیار میں دے دیا (چاہے نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اس سے علیحدگی کرلے)۔ اس نے عرض کیا: میں اپنے والد کے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں نے یہ اس لیے کیا کہ عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ اولاد کے نکاح کے معاملے میں والدین کا (اولاد کی مرضی کے خلاف زبردستی کی صورت میں) کوئی حق لازم نہیں ہے۔ (احمد بن حنبل)

شریعت میں کنواری، مطلقہ اور بیوہ تمام عورتوں کا نکاح اُن کی مرضی کے خلاف کرنا جائز نہیں, جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کردیے تھے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن دونوں کے نکاح کو رَدّ فرما دیا۔

لہٰذا نکاح میں ’ولی‘ اور ’اولاد‘ دونوں کی رضامندی یکساں لازم ہے۔ جہاں پر ولی کی اجازت کے بنا نکاح منعقد نہیں ہوتا اور اولاد اپنی ولی کی رضامندی حاصل کرنے کی پابند ہے، اس طرح ولی بھی اولاد کی رضامندی حاصل کرنے کا پابند ہے۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر دونوں کی رضامندی انتہائی ضروری ہے اور کسی کی ہٹ دھرمی قابل قبول نہیں۔

یہ ہے وہ دین اسلام جو اپنے ماننے والوں کو مکمل عدل اور انصاف مہیا کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ اس میں اپنی پسند و ناپسند اور انا کو دین بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ دین اسلام کا یہ مزاج ہی نہیں ہے کہ کسی طرح سے بھی کسی کی بھی حق تلفی ہو، چاہے وہ والدین ہوں یا اولاد۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی مرضی کے خلاف کی اجازت کے کی رضامندی کیا گیا ہے رسول اللہ نہیں ہوتا قرار دیا نکاح میں نکاح کو کے بغیر کے نکاح لڑکی کی کا نکاح نکاح ا اور اس ولی کی

پڑھیں:

آرمی چیف نے کہا غلط فیصلے کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے ،راناثناء اللہ

اسلام آباد:وزیراعظم کے مشیربرائے سیاسی امورراناثناء اللہ نے کہاہے کہ آرمی چیف نے اجلاس میں کہا غلط فیصلے کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے، بانی پی ٹی آئی نے ٹرین واقعے کی ایسے مذمت نہیں کی جیسے کرنی چاہیے تھی ، دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کیلئےاجازت کی ضرورت نہیں، آرمی چیف نے اجلاس میں کہا ہم دہشت گردی کیخلاف حالات جنگ میں ہیں، دہشتگردوں کو لاناپی ٹی آئی اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ فیصلہ تھا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے راناثناء اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی ان قوتوں کے ساتھ کھڑی ہے جو قوتیں دہشت گردی کر رہی ہیں، جو قوتیں ریاست کیخلاف ہیں،پی ٹی آئی ان کے ساتھ کھڑی نظرآرہی ہے، پی ٹی آئی کو دہشتگردوں سے جوڑنا مناسب نہیں، ٹرین واقعے پر بھارتی میڈیا جو کہہ رہا تھا،پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس تائید کر رہے تھے۔
ان کاکہناتھاکہ ماہ رنگ بلوچ نے جعفر ایکسپریس واقعے کی مذمت نہیں کی، مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے ہلاک دہشتگردوں کی باڈیز کیلئے ماہ رنگ بلوچ نے احتجاج کیا، کوئی اگر ماہ رنگ بلوچ کا دفاع کرنا بھی چاہے تو کیسے کرے؟
رانا ثناء اللہ نے کہاکہ پی ٹی آئی مقبول جماعت نہیں، بانی پی ٹی آئی بھی مقبول نہیں،مزاحمت کی مقبولیت ہے، ہم نے ساری زندگی مزاحمت کی سیاست کی، نواز شریف اور ن لیگ نے جتنی لمبی مزاحمت کی سیاست کی،کسی نےنہیں کی، ہم نے 2024میں اسٹیبلشمنٹ سے محبت نہیں کی، کسی کی بے وفائی ہمارے کام آگئی، اسٹیبلشمنٹ سے بانی کی محبت ہم نے ختم نہیں کی۔
انہوںنے کہاکہ شہبازشریف کوئی پروجیکٹ نہیں، ہم پی ٹی آئی حکومت میں بھی بانی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار تھے، دھاندلی سے پی ٹی آئی نے پارلیمانی کمیشن بنایا تھا،ہم بیٹھے تھے، پارلیمانی کمیشن کے حوالے سے صرف ایک میٹنگ ہوئی، 9مئی واقعات کی مدعی ریاست ہے،یہ کہہ لیں اسٹیبلشمنٹ ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا اگر 9 مئی پر بات کرنی ہے تو صدق دل سے معافی مانگیں، 9مئی پر معافی مانگیں تو کوئی نہ کوئی گنجائش ہو سکتی ہے۔

وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ فیض حمید کا نام قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں نہیں آیا، آرمی چیف نے اجلاس میں کہا غلط فیصلے کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے، بانی،پی ٹی آئی نے ٹرین واقعے کی ایسے مذمت نہیں کی جیسے کرنی چاہیے تھی۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ علی امین کی آپریشن پر کوئی پوزیشن نہیں،وہ صرف سیاسی بیانات دیتے ہیں، علی امین نے قومی سلامتی اجلاس میں کوئی ایسی بات نہیں کی جو باہر بیانات دیئے، علی امین نے کہاآپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، آپریشن تو ہو رہا ہےآپ نے کون سی اجازت دینی ہے؟ دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کیلئےاجازت کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہاکہ آرمی چیف نے اجلاس میں کہا ہم دہشت گردی کیخلاف حالات جنگ میں ہیں، دہشت گردوں کو لاناپی ٹی آئی اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ فیصلہ تھا، بلوچستان میں سیاسی عمل کوسیاسی جماعتوں کولیڈکرناچاہیے، ہم اس سیاسی عمل کیلئے تعاون کرنے کو تیار ہیں، موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو بیٹھنا ہوگا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • کوچۂ سخن
  • حیدرآباد: مریضہ کی خواہش پر بیٹی کا نکاح اسپتال میں ہی کر دیا گیا
  • خاتون مریض کی خواہش پر بیٹی کا نکاح اسپتال میں ہی کردیا گیا
  • اللہ پر پختہ یقین نے جاوید شیخ کی مدد کیسے کی؟
  • آرمی چیف نے کہا غلط فیصلے کرنے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے ،راناثناء اللہ
  • قرآنِ مجید۔۔۔ اتحاد اور ترقی کا ضامن ہے
  • حضرت عائشہؓ کی سخاوت اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی آزمائش
  • دنیا کی محبت، اخلاقیات کی اہمیت، اور روحانی زندگی
  • رانا ثنا اللہ کا بانی پی ٹی آئی کی رہائی سےمتعلق نیا بیان