جنوبی کوریا کے برطرف وزیراعظم ہان ڈک سو بحال، دوبارہ بطور قائم مقام صدر ذمہ داریاں سنبھالیں گے
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
سیئول: جنوبی کوریا کی آئینی عدالت نے وزیرِاعظم ہان ڈک سو کے عہدے سے برطرفی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد وہ بطور قائم مقام صدر دوبارہ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔
عدالت نے 7-1 کے فیصلے میں ان کا امیچمنٹ مسترد کر دیا، جس کے بعد سیاسی بحران میں نیا موڑ آ گیا ہے۔
یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب صدر یون سک یول کو دسمبر 2024 میں مارشل لا نافذ کرنے کے باعث معطل کر دیا گیا۔ یون کے مواخذے کے بعد ہان کو قائم مقام صدر مقرر کیا گیا تھا، مگر جلد ہی انہیں بھی معطل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے آئینی عدالت کے تین نئے ججوں کی تعیناتی سے انکار کر دیا تھا۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق، مواخذے کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کی جا سکی، جس کے باعث برطرفی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا۔
فیصلے کے بعد ہان ڈک سو نے عدلیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، "یہ وقت تقسیم کا نہیں بلکہ اتحاد کا ہے، ہمیں ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔"
دوسری جانب صدر یون سک یول کے مواخذے کا حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔ اگر ان کا مواخذہ برقرار رہتا ہے، تو ملک میں 60 دن کے اندر نئے صدارتی انتخابات کرانے ہوں گے۔
مزید برآں، یون پر مارشل لا کے نفاذ سے متعلق بغاوت کے الزامات بھی ہیں، جن میں انہیں عمر قید یا سزائے موت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کیا عدالتوں کا بنیادی کام آئین کا تحفظ اور عوامی حقوق کی پاسداری یقینی بنانا نہیں؟ ایمل ولی
عوامی نیشنل پارٹی نے خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں کی دوبارہ آبادکاری کیخلاف دائر رٹ پٹیشن خارج ہونے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پشاور ہائیکورٹ نے اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کی جانب سے دہشتگردوں کی دوبارہ آبادکاری کے معاملے پرجوڈیشل کمیشن کے قیام کیلئے دائر رٹ پٹیشن خارج کردی تھی۔
اس حوالے سے ایمل ولی خان کا موقف ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اس معاملے کو بالکل بھی اس طرح ادھورا چھوڑنے والی نہیں ہے، اپنی قوم اور پختون سرزمین کے حق اور امن کیلئے عدالت عالیہ سے رجوع کیا تھا۔
اس فیصلے پر مجھے کوئی دکھ نہیں ہے۔ ایمل ولی کے مطابق جب بھی تاریخ میں اس فیصلے کو پرکھا جائے گا، میرا موقف حق کے صفحے پر ہی ملے گا، ہم اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لےکر جائیں گے تاکہ اس غیر منصفانہ فیصلے کو چیلنج کیا جا سکے۔
انہوں نے بتایاکہ 40 ہزار دہشتگردوں کی دوبارہ آبادکاری سے خیبرپختونخوا کو دہشتگردوں کے حوالے کردیا گیا ہے، پشاور ہائیکورٹ نے اپنے اس فیصلے میں اس عمل کو محض ایک "انتظامی فیصلہ" قرار دیکر اس کی توثیق کردی ہے۔
عدالت نے دہشتگردوں کی دوبارہ آبادکاری جیسے سنگین مسئلے پر عوامی مفاد کی بجائے حکومتی پالیسی کو تحفظ فراہم کیا۔
اے این پی کے صوبائی صدر کاکہنا تھا کہ کیا عدالتوں کا بنیادی کام آئین کا تحفظ اور عوامی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا نہیں ہے؟ یہ نہ صرف قابل افسوس بلکہ پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کیلئے سنگین خطرات کا پیش خیمہ بھی ہے۔
فیصلہ دینے والوں کو خبر ہو کہ اس انتظامی فیصلے کی قیمت پختونخوا اور بلوچستان کے عوام آج اپنے خون سے ادا کررہے ہیں، اے این پی کسی بھی ایسی پالیسی کو تسلیم نہیں کرے گی جو پختون قوم کی سلامتی اور امن کے خلاف ہو۔
اپنی سرزمین کو دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ امن کے داعی ہیں، اپنے آنے والی نسلوں کے تحفظ اور حق کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھاتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے بابر خان یوسفزٸی کو سپریم کورٹ کے لۓ اپیل تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔تا کہ ہاٸی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کی جا سکے۔