’ہم بھی مسلمان ہیں، نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں: منال خان یہ کہنے پر کیوں مجبور ہوئیں؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ منال خان نے خود پر تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نماز بھی پڑھتی ہیں اور روزے بھی رکھتی ہیں۔
منال خان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’آپ لوگوں نے میری کل والی ویڈیو کو بہت پسند کیا اور لوگوں نے سوال کیا کہ کیا آپ نماز پڑھتی ہیں؟ تو میں نے سوچا آج ابھی ابھی نماز پڑھی ہے اور اللہ سے آپ لوگوں کے لیے اور اپنے لیے دعا کی ہے تو دکھا دیتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں ۔ ہم بھی مسلمان ہیں۔ اور ناخنوں پر نیل پالش بھی نہیں لگاتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں‘۔
View this post on Instagram
A post shared by DIVA Magazine Pakistan (@divamagazinepakistan)
منال خان کی ویڈیو پر تبصرے کرتے ہوئے صارفین کی جانب سے ان کو خوب سراہا جا رہا ہے۔ مداحوں کا کہنا ہے کہ یہ اللہ اور انسان کا معاملہ ہے، لوگوں کو اپنے ایمان کا پتہ نہیں اور دوسروں کا امتحان لیتے رہتے ہیں۔ تو کئی صارفین نے کہا کہ کسی کے مذہب کو ٹارگٹ نہ کیا کریں۔
واضح رہے کہ شوبز انڈسٹری کی معروف جڑواں بہنیں ایمن خان اور منال خان بچپن سے ہی اسکرین کا حصہ رہی ہیں، انہوں نے چائلڈ اسٹار کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور اب وہ کامیاب اداکارائیں ہیں جنہوں نے اپنی الگ شناخت بنائی ہے۔
منال خان سوشل میڈیا پر بھی بہت سرگرم رہتی ہیں اور انسٹاگرام پر ان کے 10.
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایمن خان پاکستانی ڈرامے رمضان شوبز انڈسٹری منال خانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایمن خان پاکستانی ڈرامے منال خان منال خان
پڑھیں:
تنخواہ دار طبقہ 331 ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور
اسلام آباد:تنخواہ دار طبقے نے آٹھ ماہ میں 331 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا جو حکومت کے منظور نظر طبقے یعنی ریٹیلرز کے ادا کردہ ٹیکس سے 1350 فیصد زیادہ ہے لیکن آئی ایم ایف سے ریلیف کیلئے یہ اب بھی ناکافی ہے۔
رواں مالی سال میں جولائی تا فروری کے دوران تنخواہ دار افراد کی جانب سے ادا کیا گیا ٹیکس گزشتہ مالی سال اسی عرصے کے دوران جمع کی گئی رقم سے 120 ارب روپے یا 56 فیصد زائد ہے ۔
گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ رقم 211 ارب روپے تھی۔ حکومت نے پورے مالی سال 2024-25 کے لیے تنخواہ دار طبقے سے 75 ارب روپے اضافی وصول کرنے کا ہدف رکھا تھا۔
یہ رقم پہلے ہی 120 ارب روپے زیادہ ہو گئی ہے اور مالی سال کے اختتام میں ابھی چار ماہ باقی ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقے نے 368 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔ اسکے باوجود، ذرائع کے مطابق حکومت نے مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ اس طبقے پر بوجھ کم کرنے کا معاملہ اٹھایا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بات کی۔
رابطہ کرنے پر ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر نجیب میمن نے کہا کہ حکومت آئندہ بجٹ کے موقع پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا جائزہ لے گی۔ دوسری جانب ریٹیلرز نے جو زیادہ تر غیر رجسٹرڈ ہیں ود ہولڈنگ انکم ٹیکس کی مد میں 23 ارب روپے کا حصہ ڈالا۔
ذرائع نے بتایا کہ ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز نے بھی آٹھ ماہ میں 16 ارب روپے کا ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کیا جبکہ ان میں سے تقریباً نصف غیر رجسٹرڈ تھے۔ بجٹ میں حکومت نے تاجروں پر 2.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس اس امید پر لگایا تھا کہ اس سے وہ ٹیکس نظام میں آنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
شرح میں اضافے سے تاجروں سے مزید 12 ارب روپے وصول کرنے میں مدد ملی لیکن مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ تاجروں نے اضافی ٹیکس صارفین سے وصول کیا ۔ حکومت کی ایک کروڑ تاجروں کو نیٹ میں لانے کی تاجر دوست سکیم بھی بری طرح ناکام ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے آئی ایم ایف کے سامنے اعتراف کیا کہ تاجر اور جیولرز سے ٹیکس وصولی مشکل کام تھا، ڈیزائن کی بڑی خامیوں کی وجہ سے سکیم ناکام ہوگئی۔
اس سکیم کے تحت50 ارب روپے کی وصولی کا تخمینہ تھا لیکن اس سے بہت کم حاصل ہوا۔ بڑے تاجروں نے چھوٹے تاجروں کو اس سکیم میں شمولیت سے روکا جس کے نتیجے میں اسکیم کو 43 شہروں تک توسیع نہیں دی جا سکی اور 10ملین ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ فلاپ ہوگیا۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایف بی آر سے کہا ہے کہ وہ تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس پر نظرثانی کا کام شروع کرے تاکہ کچھ ریلیف ملے تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ ایسی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
دریں اثنا حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کے لیے مذاکرات کی کوشش کی تاہم آئی ایم ایف نے مطالبہ تسلیم نہیں کیا اور فی الحال اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
نان کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے اس سال 141 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا جو 42 ارب روپے یا 43 فیصد زیادہ ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے 101 ارب روپے ادا کیے جو کہ 37 ارب روپے یا 56 فیصد زیادہ ہیں۔