Daily Ausaf:
2025-03-26@00:15:59 GMT

شرم مگر تم کو نہیں آتی …….

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

اقبال ؒ نے کہا تھا’’ جدا ہودیں سیاست سے رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ ہم نے دیکھ رہے ہیں، بھگت رہے ہیں ، آج سے نہیں پون صدی سے ۔ ابوالکلام نے تو کسی اور تناظر میں کہا تھا کہ’’ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ‘‘ہم جس سیاست سے مسلسل ڈسے جارہے ہیں ، اس کی آنکھ میں شرم اور زبان وکردار میں حیا بھی باقی نہیں رہی ، ورنہ اس قدر سفاک بھی کوئی حکمران ہو سکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر عوام کا مذاق اڑائے کہ ’’جانتے ہیں ، ان پر بڑا بوجھ ہے ، لیکن ہمارے پاس ان کے لئے کوئی ریلیف نہیں ۔‘‘ اور عین اسی دن گشتی مراسلے کے ذریعے کابینہ خود اپنی تنخواہوں میں 188فیصد اضافے کا اعلان کرکے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا بھی بندوبست کرے ۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ ’’تمہارے لئے کوئی ریلیف نہیں ، ہماری لوٹ مار کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ حالانکہ ابھی چند ہفتے قبل ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں 10گناتک اضافہ کیا گیاتھا۔ بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ملک وقوم کے مفاد میں قانون سازی کے وقت ایک دوسرے کا گریبان چاک کرتے ہوئے اس کا راستہ روکنے والے حکومت اور اپوزیشن کےارکان اس فیصلے کے وقت یوں شیر وشکر تھے ، جیسے ایک ماں کے جائے بھی کیاہوں گے۔حیرت ہوتی ہے کہ سیاست واقتدار کی اس کان میں جو بھی گیا نمک بن گیا،ممبر و محراب میں مساوات محمدیﷺ اور فقر بو ذری ؓ کا درس دینے والے ہوں،انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہوں، عوام کی محبت کا دم بھرنے والے یا جعلی آزادی کے ڈھونگ نعرے لگانے والے ، کسی ایک کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ کھڑا ہو کر اختلاف کرتا،احتجاج کرتا،بائیکاٹ کردیتا کہ جب تک عام آدمی کو ریلیف نہیں ملتا میں اتنا بڑا اضافہ نہیں لوں گا ۔ پنجابی کی کہاوت ہے ،’’ چوری کا مال اور لاٹھیوں کے گز ‘‘پہلی بار سمجھ آیا ، تنخواہ دار کے 10سے 15فیصد اضافے کے لئے خزانے میں گنجائش نہیں لیکن اپنے لئے سینکڑوں فیصد اضافہ بھی جائز ۔
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ابو بکر ؓ یاد آئے ، آقا ومولا سیدنا محمدﷺ کے رفیق خاص، خیرالبشر بعد ازانبیاء،امام المتقین خلیفۃ الرسول۔ اپنے عہد کے بڑے تاجر تھے،خلافت کا بار گراں کندھوں پرآیا تو ذاتی کاروبار اس لئے بھی ممکن نہ رہا کہ جہاں خلیفہ کا کاروبار ہوگا ، وہاں کسی اور کی دکان کیسے چلے گی؟گزر اوقات کیسے ہوگی ؟اس وقت کی کابینہ بیٹھی ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمان ؓ،سیدنا علی ؓاور دیگر چند صاحب الرائے اور صائب الرائے یاران نبیﷺ، پوچھا ،ابوبکر کتنے میں گزارہ ہوجائے گا ، کتنا معاوضہ مقرر کردیں ، فرمایا مدینے کے مزدور کے برابر۔ کہا گیا متمول خاندان سے ہو،گزارا کیسے ہوگا،فرمایا جب میرا گزارا نہیں ہوگا تو مزدور کا معاوضہ بڑھا دوں گا۔اک وہ حکمران تھے ، اور ایک یہ ۔چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ نام لیتے ہیں ، دین کا ، نعرے لگاتے ہیں ، عوامی حقوق کے اور لوٹ مار میں سب سے آگے ، دنیا میں بڑے بڑے سفاک موجود ہیں ،مگر اس قدر بے رحم رویہ کہیں سنا نہ دیکھا کہ ایک ہی مجلس میں عام آدمی کو ٹھینگا دکھا دیا جائےاور اپنے معاوضے جو پہلی ہی کم نہ تھے،ان میں بے پناہ اضافہ کردیا جائے۔سوال یہ ہے کہ لوٹ مار اور کیا ہوتی ہے؟ ڈکیتی اور کس کو کہا جاتا ہے ؟شورش نےٹھیک ہی کہا تھا کہ
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانے میں ان کا پسندیدہ میٹھاموجود تھا جو خلافت ملنے کے بعد سے نہ کھایا تھا۔ پوچھا یہ کہاں سے آیا ، بتایا گیا کہ بیت المال کے معاوضہ میں سے کئی روز سے تھوڑا تھوڑا پس انداز کر رہے تھے ، اس سے یہ اضافی کھانا ممکن ہو سکا ۔ فورا ناظم بیت المال کو لکھا میرے وظیفے میں اتنا کم کردیا جائے کہ گزارہ اس کے بغیر بھی ہو سکتا ہے ۔ وِصال کا وقت قریب آیا تواس خرچ کا حساب لگایا گیا جو دور خلافت میں آپ نے بیت المال سے لیا تھا،حکم دیا میرے بعد فلاں جائداد فروخت کرکے رقم خزانے میں  جمع کروادینا ۔ وصیت فرمائی کہ خلیفہ بننے کے وقت سے میرے مال میں جس قدر اضافہ ہوا ، اسے میرے بعد والے خلیفہ کے پاس بھیج دینا۔ ایک یہ ہمارے حکمران ہیں ، قوم پر اللہ کا عذاب ۔ملک بھاری قرضوں میں جکڑا ہے ، مگر ان کی عیاشیاں کم ہونے میں نہیں آرہیں ، کوئی  حساب ہی نہیں ۔ ابو بکرؓ کے معیار کو نہیں پہنچ سکتے تو کم ازکم بانی پاکستان کی ہی پیروی کرلو ،جنہوں نے کابینہ کے اجلاس میں چائے پلانے سے بھی روک دیا تھا۔ بیماری کے عالم میں علم ہوا کہ سرکاری خرچ پر ذاتی خادم کو بلاکر کھانا پکوایا گیا ہے تو اس کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرکے رخصت کردیا ۔ نا معلوم ہماری کس اجتماعی جرم کی سزاہے ، یکے بعد دیگرے کیسے کیسے نمونے ہماری قسمت میں لکھے ہیں کہ دین سے انہیں رغبت نہیں ، اپنی تاریخ اور جمہوری اقدار سے کوئی لینا دینا نہیں ، ایک ہی مقصد ہے ، لوٹو ، دونوں ہاتھوں سے لوٹو۔ پھر اقبال کی ایک فریاد یاد آگئی ۔
گرگوں کرد لا دینی جہاں را
ز آثار بدن گفتند جان را
ازاں فقرے کہ با صدیقؓ دادی
بشورے آ در این آسودہ جاں را
بہ مردان خدا دادیم پیغام
کہ کوبند آن در دیر کھن را
دلِ دزدانِ سرمایۂ افرنگ
چو مسمار حرم لرزاں کنن را
کلیسا کی بغل در سینۂ دیر
نہاں کردند نورِ صبح دم را
مسلماں زین دو حرفے شد مسلمان
کہ جان در باختند آن صادقاں را
ز چنگالِ کلیسا فقر بربود
ز دامن ہائے دیر آلود جاں را
(لا دینی نے دنیا کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، لوگوں نے روح کی بجائے جسمانی اثرات کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔اے اللہ! وہ جو تُو نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو عطا کیا تھا،اس مردہ روح میں دوبارہ وہی ہلچل پیدا کر دے ۔ اللہ نے سچے بندوں کو پیغام دیا ہے،کہ وہ پرانے باطل معبدوں کے دروازے توڑ دیں۔مغرب کے سرمایہ داروں کے دلوں میں خوف پیدا کر دے۔جیسے کعبہ کے دشمنوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔کلیسا (مذہبی استحصالی نظام) نے دیر (بت پرستوں کے مندر) میں پناہ لے لی ہے۔ انہوں نے اسلام کی روشنی کو چھپا دیا۔ مسلمان ان دو چیزوں سے مسلمان بنا،اپنی جان دینااورایمان پر ثابت قدم رہنا، وہ لوگ (صحابہؓ) اپنی جان دے کر سچے مسلمان بنے۔ کلیسا (مغربی نظام) نے اسلام کا سادہ طرزِ زندگی چھین لیا۔ مسلمانوں کی روح کو بت پرستی کے اثرات میں آلودہ کر دیا۔)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
جہاں وہ خوبصورت، رونقِ محفل نہیں ہوتا 
ہمیں جانا ہی پڑتا ہے اگرچہ دل نہیں ہوتا
ذرا آہستگی سے اپنی عرضی پیش فرمائیں
محبت میں دوانہ رونقِ محفل نہیں ہوتا 
وہ آنسو بن کے بہ جاتے ہیں رخساروں کے رستے سے
مری آنکھوں میں جن خوابوں کا مستقبل نہیں ہوتا
اتار آتا ہے مچھواروں کو زندہ ریگِ ساحل پر
سمندر اپنے دشمن سے کبھی غافل نہیں ہوتا
ہمارا رشتہ سچائی کی بنیادوں پہ قائم ہے
وگرنہ جھوٹ کہنا تو کوئی مشکل نہیں ہوتا
ٹھکانہ کر لیا دل میں، بغیرِ اذنِ دربدری  
بھٹک کر بھی وہ میرے ذہن میں داخل نہیں ہوتا
بناتے اس کو اپنے تاج کا ممتاز سا ہیرا
تری پائل میں یہ پتھر اگر شامل نہیں ہوتا
(عاجز کمال رانا ۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل
وہ تو مجھ کو ہی نہ، چلنے کے سِوا کچھ آئے 
ورنہ خطرات تو اِس راہ میں کیا کچھ آئے 
یہی بے روح طلب ہے تو غرض کیا اِس سے 
اب نہ کچھ آئے مرے ہاتھ میں یا کچھ آئے 
جانے کیا دکھتا ہے اُس رخ پہ کہ اس دفعہ بھی 
لے کے ہم کچھ گئے، اُس کو دکھا کچھ آئے 
تُو نہ اِس دامنِ خالی کو سمجھ مجبوری 
لینے والے ہوں اگر ہم تو بڑا کچھ آئے 
کچھ تو اِس گلشنِ بے رنگ میں مہکے کوئی پھول 
کسی رت میں تو تجھے چین دلا! کچھ آئے 
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)

۔۔۔
غزل
یہ مرحلہ بھی تو آخر گزر ہی جانا ہے
ترا خلا بھی کسی روز بھر ہی جانا ہے
نہ اب وہ عمر، نہ آسائشیں، نہ عشق کا روگ
کہ اب تو کام سے بس سیدھا گھر ہی جانا ہے
اے ہم سفر! کبھی تو زندگی کی بات بھی کر
بھلے جیے نہ جیے، تُو نے مر ہی جانا ہے
یہ خامشی، یہ اداسی، یہ دل کی ویرانی 
جو کہتے رہتے ہیں اک روز کر ہی جانا ہے
یہ تیرا غم ہمیں کب تک اداس رکھے گا
کہ آخرش کبھی ہم نے سنور ہی جانا ہے
نہ کوئی وعدۂ بیعت نہ صلح جوئی کوئی
کہ اب کی بار تو مقتل میں سر ہی جانا ہے
وہ شعر حضرتِ غالب کا کیوں نہ ہو اکرام
کسی کے دل پہ مگر بے اثر ہی جانا ہے
(اکرام افضل مٹھیال۔ اٹک)

۔۔۔
غزل
خوف کب ہے مجھے سزاؤں سے
میں تو شرمندہ ہوں خطاؤں سے
شور سے مجھ کو سخت نفرت ہے 
یعنی بیزار ہوں صداؤں سے
دھوپ میں کب ہوئے ہیں بال سفید
میں بھی گزرا ہوں اِبتلاؤں سے
کیا ضرورت تھی پھر دوا کی مجھے
کام  چلتا اگر دعاؤں سے
میں مسافر ہوں ایسے رستے کا
دور ہے جو گھنیری چھاؤں سے
شہر سے تو سہولتیں ملی ہیں
پیار مجھ کو ملا ہے گاؤں سے
میں دِیا ہوں فقَط محبّت کا 
مجھ کو خطرہ نہیں ہواؤں سے
بھوک ہے، خوف ہے، محبت ہے
بچّے لپٹے ہوئے ہیں ماؤں سے
آج کل کاروبار کرتے ہیں 
لُوٹ لیتے تھے جو اداؤں سے
ختم کب ہوں گی خواہشیں کیفی 
جان چھوٹے گی کب بلاؤں سے
(محمود کیفی ۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
کوئی تو حل نکالو اس بلائے ناگہانی کا 
محبت کھا گئی مجھ سے مرا حصہ جوانی کا
وصال و ہجر کے بیچوں کھڑی اس زندگانی کا
نہ جانے ختم کب ہو گا تماشا آگ پانی کا 
میسر خود کو لمحہ بھر جو ہو جاؤں، غنیمت ہے
سمجھ لو دیکھ کر مجھ کو، معانی رائیگانی کا
میں تھا تو مرکزی لیکن مجھے اب ثانوی سمجھو
ہوا کردار میرا اب ضرورت اِس کہانی کا
میں ہرگز حق شراکت کا کسی کو بھی نہ دوں اس میں
اکیلا میں ہی وارث ہوں، غموں کی راجدھانی کا
اسی اک سوچ میں غلطاں کہیں دائم ؔنہ مرجائے 
’اتارے قرض کیسے وہ  محبت کی نشانی کا‘
(ندیم دائم ۔ ہری پور)

۔۔۔
غزل
خراب حال میں سب کو خراب لگتا ہوں
بس ایک تُو ہے جسے میں نواب لگتا ہوں
میں ایک تیر کی صورت کسی نشانے پر 
اگر لگوں تو بڑا بے حساب لگتا ہوں
حروف توڑ کے پھینکا گیا ہے کاغذ پر 
بھلا کہاں سے میں تازہ نصاب لگتا ہوں
میں آئنہ ہوں تمہارے لیے بنایا گیا
تمہارے جیسا ہی بالکل جناب لگتا ہوں
ابھی تو شاخ ہری ہے کہ خشک سالی میں
تمہیں کہو گے کدھر سے گلاب لگتا ہوں
حریص لوگوں سے میری کبھی نہیں بنتی 
سو اس لیے تجھے تھوڑا خراب لگتا ہوں
(عابد حسین ۔ صائم بورے والا)

۔۔۔
غزل
پہلے پہلے مرے اندر کا فسوں ٹوٹے گا
پھر کہیں جا کے یہ اندیشۂ خوں ٹوٹے گا
میں اُسے پیار سے توڑوں گا وگرنہ وہ شخص
یوں نہ ٹوٹے گا کبھی، اور نہ یوں ٹوٹے گا
میری تنہائی تو اُس وقت مکمل ہو گی
جب کہیں سلسلۂ کُن فیکوں ٹوٹے گا
شہرِ عشّاق میں اک تازہ ہوس گھومتی ہے
دیکھنا اب کہ یہاں صبر و سکوں ٹوٹے گا
رفتگاں لوٹ کے آئیں گے اچانک مجھ میں
اور اچانک سے مرا زورِ جنوں ٹوٹے گا 
کوئی بنتا ہی نہ تھا ردِعمل کا باعث
کس نے سوچا تھا کہ ایسے یہ ستوں ٹوٹے گا
(حسن فاروق۔ فتح جنگ ،اٹک)

۔۔۔
غزل
گھٹن ہے اور عجب بے بسی ہوا میں ہے
یقین جان بڑی تشنگی ہوا میں ہے
یہ کون ہو گیا رخصت ملے بغیر ہمیں 
ہے سوگوار نگر، خامشی ہوا میں ہے 
ہر ایک پھول گھٹن کا شکار لگتا ہے
ذرا پتہ تو کرو کیا کمی ہوا میں ہے
تمہارے شہر کے سب لوگ بد مزاج ہوئے
کرخت لہجے ہیں اور بے رخی ہوا میں ہے
فلک سے آنے لگیں قہقہوں کی آوازیں
گمان ہونے لگا زندگی ہوا میں ہے
لکھا ہے نام ترا رات کی ہتھیلی پر
جہاں مہکنے لگا ہے، خوشی ہوا میں ہے
تری غزل میں جو احساس ہے نئے پن کا
یہ اُس کا فیض ہے یا تازگی ہوا میں ہے
یہ لگ رہا ہے مرے آس پاس ہو اب تک
ترے بدن کی مہک آج بھی ہوا میں ہے
(راشد انصر۔ پاک پتن)

...
 غزل
نمی آنکھ میں اور ہنسی کا سفر
بڑا ہے کٹھن زندگی کا سفر
کہاں مجھ کو لے جائے اب دیکھیے
مرا یہ سفر بے خودی کا سفر
کہیں تو ملے میرے دل کو قرار
کہیں تو تھمے بے کلی کا سفر
دوبارہ وہ صورت دکھائی نہ دی
کیا بار ہا اس گلی کا سفر
اڑا آسماں کی بلندی میں وہ
کیا جس نے بھی عاجزی کا سفر
میں سمجھا تھا پھولوں کا بستر مگر
تھا کانٹوں سے پر زندگی کا سفر
مری آنکھ کی روشنی لے گیا
مسلسل سفر تیرگی کا سفر
یہاں سانس لینا روا تک نہیں
میاں حبس ہے عاشقی کا سفر 
ہے ممکن میں کھو جاؤں راحل کہیں
کہ در پیش ہے آگہی کا سفر
(علی راحل۔بورے والا)

...
غزل
نہیں اے دل ربا نہ ہو سکے گی 
طویل اتنی سزا نہ ہو سکے گی 
تمہارے جسم سے لپٹی رہے گی 
مری خوشبو جدا نہ ہو سکے گی
تمہارے اور میرے درمیاں اب 
یہ دنیا مبتلا نہ ہو سکے گی 
وفاداری نبھاؤگی یہ ہم سے 
محبّت، بے وفا نہ ہو سکے 
ہمارا قرب ہے حاصل تمہی کو 
بچھڑنے کی خطا نہ ہو سکے گی 
جہاں مرضی نہیں شامل ہو میری 
تمہاری بھی رضا نہ ہو سکے گی   
ابھی تو ابتدا کرنی ہے شوبیؔ 
تمہاری انتہا نہ ہو سکے گی
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)

...
غزل
کسی مجبور کی یہ لوگ جب امداد کرتے ہیں 
یہ لوگوں کی جمع پہلے بڑی تعداد کرتے ہیں 
میں جن سے پیار کرتا ہوں میں جن پہ جاں چھڑکتا ہوں 
وہی تو یار سب مل کر مجھے برباد کرتے ہیں 
ہمارا ہاتھ نہ پھیلے کسی مجبور کے آگے 
مرے مالک ترے آگے یہی فریاد کرتے ہیں 
یہ بچے جب جواں ہوں گے بنیں گے آسرا ان کا 
یہی تو سوچ کر ماں باپ خود کو شاد کرتے ہیں 
میں گھر سے دور رہتا ہوں مری ہے نوکری ایسی 
مرے بچے مجھے گھر میں بہت ہی یاد کرتے ہیں 
یہاں کے لوگ کیسے ہیں عجب قانون ہے ان کا 
یہاں جو قتل کرتا ہے اُسے آزاد کرتے ہیں 
(زکریا نوریز۔ پاک پتن)

...
غزل
ہاں سب سے جدا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
خوابوں میں سجا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
ہاں یار مجھے اسکی ضرورت ہے بلا کی 
ہاں سر پہ چھڑا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
جو کچھ بھی ہوا پیار کی خاطر وہ بھلا دو 
یہ کیسی سزا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
دیکھوں نہ زلیخا کی طرح ٹوٹ گیا ہوں 
یوسف کی طرح رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
 ہاں چاہنے والے تو بہت ہے میرے لیکن 
بس دل میں بسا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
کمبخت ولی ہوگا یا  پہنچا ہوا بندہ 
وہ جس نے بھی پا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
وہ ساتھ نہیں دل کے بہت پاس ہے پھر بھی 
ہاں دل میں یہاں رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
جل جل کے میرے دل میں تو سب راکھ ہوا ہے 
ہاں ایک بچا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
 ارسل ؔجو تیرے واسطے پاگل تھا میری جاں 
اب خاک اڑا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)
 

شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں،  انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
 

متعلقہ مضامین

  • کوچۂ سخن
  • دہشت گردی عروج پر سیاست تقیسم اکٹھا ہونا بڑے گا : وزیرعظم پھرقومی سلامتی پرااجلاس بلائیں : بلاول 
  • ملک میں نفرت اور تقسیم کی سیاست، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونا ہوگا، بلاول بھٹو
  • اپوزیشن کو دعوت دیتے ہیں وہ تنگ نظری کی سیاست چھوڑ کر عوام کا سوچیں، بلاول بھٹو زرداری
  • اب بھی وقت ہے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلایا جائے، سلمان اکرم راجہ
  • اعتکاف
  • کچھ عناصر دہشتگردوں کی لاشوں پر سیاست کررہے ہیں، عزائم ناکام بنائیں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • ابھی بھی وقت ہے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلایا جائے،سلمان اکرم راجہ
  • سیاست کے بے ضمیر ہاتھ