—فائل فوٹو

ننکانہ صاحب میں عدالتی حکم پر بیلف نے چھاپہ مار کر پولیس کی غیر قانونی حراست سے 3 بھائیوں کو بازیاب کروا لیا۔

بیلف کا چھاپہ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر گرفتار، ہتھکڑی لگادی، بیوروکریسی کا احتجاج

لاہورسول کورٹ کے بیلف نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لاہور...

عدالتی حکم پر بیلف کے چھاپے کے دوران ننکانہ صاحب مانگٹانوالہ موڑ کھنڈا میں پولیس کی غیر قانونی حراست سے زنجیروں میں جکڑے یاسین, بلال اور عمران کو آزاد کروایا گیا۔

بیلف نے غیر قانونی حراست میں رکھنے پر تفتیشی افسران کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

رعایا اور حکمرانوں کے عمرے

غالباً پانچ درجن کے لگ بھگ وزراء ، مشیران، معاونین وغیرہ کی بھاری بھرکم کابینہ جس کے سالانہ اخرجات کا کوئی حساب کتاب لگانا مشکل ہے، اتنی بھاری بھرکم کابینہ کو دیکھ کر میں اس مخصمے میں ہوں کہ قوم ان کے اخراجات کیسے برداشت کرے گی ،شاید اس کے لیے ہمیں کسی نئے آئی ایم ایف کو تلاش کرنا پڑے گا جو ہمارا یہ خرچہ برداشت کرنے کے لیے ہمیں قرض دے سکے ۔

حکمران تو ہمیں یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور ہم دنیا بھر میں قرض قرض کی صدائیں لگا رہے ہیں اور جو کوئی بھی ہمارے سلام کا جواب دے دیتا ہے اس سے بقول ہمارے وزیر اعظم مجبوری کی حالت میں ہم قرض کی بات کرتے ہیں ۔ اراکین پارلیمنٹ نے تودو ماہ قبل ہی اپنی تنخواہوں میں اضافہ کر لیا تھا جب کہ کابینہ نے نئے وزراء کی شمولیت کے بعد وزراء وغیرہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اچھا خاصا اضافہ کر دیا ہے۔

جن وزیروں نے آنا تھا وہ تو آنا ہی تھاکہ صاحب کی مرضی اور منشاء یہی تھی اور ہماری قسمت کا لکھا بھی یہی تھا،اب یہ وزیر اعظم صاحب کی ڈیوٹی ہے کہ وہ ان وزیروں سے کام لے کر ان مراعات کو حلال کرائیں۔ ادھر ایک خبر کے مطابق حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کر لی ۔

حکمرانو ںکو ابھی اپنی ہی مراعات سے فرصت نہیں ہے ، اشیائے ضرورت کی قیمتیں ہمارے حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے لیے بالکل بے معنی ہوتی ہیں ۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ بیگم صاحبہ نے کسی دکان سے کچھ خریدا تو یہ نہیں پوچھا کہ قیمت کیا ہے بس پسند کی چیز اٹھا لی اور ساتھ کھڑے ڈرائیور کے حوالے کر دی، قیمت بھی اسی ڈرائیور نے ادا کی کہ بڑے لوگ پیسے جیب میں نہیں رکھا کرتے، ملازمین کے پاس ہوتے ہیں، وہ صرف پسند کی کسی چیز کی طرف انگلی سے اشارہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔

یہ تو حکومت کے انتظامی معاملات ہیں جن سے عوام کو کوئی سرکار نہیں ہونا چاہیے لیکن عوام کو اس بات سے ضرور سروکار ہے کہ جس طرح حکومت ملک کے معاملات چلا رہی ہے، ان میں عوام کے لیے کوئی سکھ کی خبر نہیں ہے۔ دہشتگردی کی سر اٹھاتی لہر سے عوامی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے، ابھی تک تو معاملات صرف بلوچستان اور خیبر پختونخواہ تک ہی محدود ہیںلیکن خدانخواستہ اگر دہشتگردی کی موجودہ لہر دوسرے صوبوں اور حکمرانوں کے گھر تک بھی پہنچ گئی تو پھر معاملات مزید بگڑ جائیں گے ۔

ہم گزشتہ کئی برس سے یہ تو دیکھ چکے ہیں کہ اس عفریت کا وقتی طور پر تو قلع قمع کیا جاتا ہے لیکن مستقل بنیادوں پر ہر گز نہیں ۔ ابھی امریکا کو افغانستان سے گئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ دہشت گردوں نے دوبارہ اپنی پوزیشین سنبھالنی شروع کر دی ہیں اور ان کا نشانہ پاکستان بن رہا ہے ،اس نشانہ بازی کا علم ہمارے حکمرانوں کو خوب ہے اور وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس مشق کے پیچھے کون کون سی طاقتیں کارفرما ہیں جن کا مقصد اور مطمع ریاست پاکستان میں افراتفری ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی جارہے ہیں ۔

اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ بلوچوں سے براہ راست مکالمے کا آغاز کیا جائے اور ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک کثیر الجہتی مکالمے کا آغاز ہی مسئلے کا حل ہو سکتا ہے لیکن اگر ہمیشہ کی طرح معاملات بلوچ سرداروں پر ہی چھوڑ دیے گئے تو معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ حالات کے سدھار کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

 کالم کی دُم۔

میرے مرحوم والد عبدالقادرحسن بتاتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق مارشل لگانے کے بعد حسب معمول اپنے پیشترو حکمرانوں کی طرح سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہوگئے جہاں پر انھوں نے عمرہ بھی ادا کیا اور روضہ رسول مقبول ﷺ پر حاضری بھی دی۔ پاکستانی اخبارات میں جنرل صاحب کی عبادات کی تصویریں شایع ہوئیں۔وطن واپسی پر پاکستان بھر کے اخبارات کے نمایندوں کو انھوں نے اسلام آباد میں اپنی حکومت کے خدو خال بیان کرنے کے لیے جمع کیا۔ جنرل صاحب کی گفتگو کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو والد صاحب نے جنرل صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے پہلا سوال ہی یہ داغ دیا کہ ایک حکمران کی عبادات اس کا اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔

 آپ کی اخبارات میں شایع ہونے والی تصاویر سے کچھ اچھا تاثر نہیں گیا، ایک حکمران کی اصل نیکی اور عبادت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا اقدامات کرتا ہے۔ والد صاحب بتاتے تھے کہ جنرل صاحب نے میرے سوال پر پہلو بدلا اورخشمگین نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے میرے سوال کا جواب دیا، بعد ازاں چائے کی محفل میں بریگیڈیئر صدیق سالک شہید نے مجھے( عبدالقادر حسن) کہا کہ آپ نے جنرل کو پہلی ہی ملاقات میں ناراض کر دیا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ میں نے بریگیڈئیر صاحب کو کہا کہ میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا وہ بیان کر دیا، جنرل اگر ناراض ہوتا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔

متعلقہ مضامین

  • جو کل ہوا وہ اچھی پیش رفت ہے، علی محمد خان
  • رعایا اور حکمرانوں کے عمرے
  • ریاست بہاول پور ( پہلی قسط)
  • فرحان ملک عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل، درخواست ضمانت پر نوٹس جاری
  • عدالی اصلاحات کا مقصد عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے، چیف جسٹس
  • سی ٹی ڈی نے جعفر ایکسپریس حملےکے 4 مبینہ سہولتکاروں کو حراست میں لے لیا
  • سائلین نظام انصاف کے بنیادی شراکت دار ہیں ان سے عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے، چیف جسٹس
  • ماریہ قتل کیس: عدالتی فیصلہ، والد اور بھائی کو سزائے موت اور 10 لاکھ روپے جرمانہ
  • فرحان ملک کے دفتر پر ایف آئی اے کا چھاپہ، کمپیوٹر اور یو ایس بی ڈرائیو ضبط