امریکہ(نیوز ڈیسک)سابق امریکی رکن کانگریس منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام ری پبلکن میا لو، آر-یوٹاہ اتوار کو 49 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔وہ کینسر کے عارضے میں مبتلا تھیں۔

تفصیلات کے مطابق خاندانی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ میا لو ہیٹی کے تارکین وطن کی بیٹی تھیں اور کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام ریپبلکن خاتون تھیں۔انہوں نے اپنی آخری سانسیں اپنے خاندان کے درمیان میں لیں۔

میا کے خاندان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ میا لو ہماری زندگیوں پر گہرے اثرات چھوڑ گئی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو معلوم ہوکہ وہ آج اس دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں۔ ان کی آخری سانسوں کے وقت خاندان کے افراد ان کے قریب تھے۔

انہوں نے ایک خوشگوار زندگی گزاری اور خاموشی سے موت کو گلے لگا لیا۔ اور اپنے الفاظ اور وژن کیساتھ ہمیشہ کیلئے ہمیں چھوڑ گئیں۔

“ہم بہت ساری نیک تمناؤں، دعاؤں اور تعزیت کے لیے شکر گزار ہیں۔ ہم ایک خاندان کے طور پر کچھ وقت نکال رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کی آخری رسوماتکے بارے میں معلومات فراہم کریں گے۔”

میالو دماغ کے کینسر کا علاج کروا رہی تھیں، لیکن ان کی بیٹی نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ سابق کانگریسی خاتون کا کینسر اب قابل علاج نہیں رہا۔

آہنی باڑ پھاڑ کر غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونیوالے 50 افغان بچے حکام کے حوالے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: میا لو

پڑھیں:

ریاست بہاول پور ( پہلی قسط)

 تھل ایکسپریس ملتان ریلوے اسٹیشن پر رات 11:40 پر پہنچی تو دھند ہلکی ہلکی تھی۔ اس سے پیچھے ہم شاہ پور ریلوے اسٹیشن سے گزرے تھے تو ریلوے اسٹیشن مکمل طور پر دھند میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہماری ویسے بھی آخری بوگی تھی جو ہر پلیٹ فارم کے تقریباً آخری حصے میں لگتی تھی۔ ملتان ریلوے اسٹیشن روشن تھا۔

یہاں چہل پہل تھی، آوازیں تھیں، زندگی تھیں اور ساتھ ساتھ ٹھنڈ بھی بہت تھی۔ ہم چاروں ہی کوئٹہ جانا چاہتے تھے۔ چاروں کی آنکھوں میں ہی کوئٹہ کی چمک تھی۔ مگر کوئٹہ جانے سے ڈرتے تھے۔ ہر دو منٹ کے بعد کبھی شیلا باغ کی باتیں شروع ہو جاتیں تو کبھی چمن کی۔ کبھی کوئی ’’آبِ گم‘‘ کی باتیں کرنے لگتا تو کبھی کوئی مچھ کی۔ چاروں درویش ہی ریل کے شیدائی تھے اور کوئٹہ پر دل ہار بیٹھے تھے مگر ایک مگرمچھ سے ڈرتے ہیں۔

چاروں درویشوں کے اعصاب پر صرف اور صرف کوئٹہ ایکسپریس سوار تھی۔ عین ممکن ہے کہ کوئٹہ کے ذکر سے آپ کے ذہن میں جس ریل گاڑی کی تصویر ابھرے، وہ جعفر ایکسپریس کی ہو مگر اسلم کا نام پپو رکھ دینے سے اسلم پیو نہیں بن جائے گا۔ اسلم اسلم ہی رہے گا۔ بالکل اسی طرح آپ میرے سامنے سو بار بھی کوئٹہ ایکسپریس کو جعفر ایکسپریس کہیں مگر کوئٹہ ایکسپریس کوئٹہ ایکسپریس ہی رہے گی، جعفر ایکسپریس نہیں بنے گی۔ کوئٹہ ایکسپریس کو میں اپنے بچپن سے جانتا ہوں۔

بچپن میں جب بھی نانی گھر یعنی سرگودھا سے واپسی ہوتی تھی تو ایک مختصر سفر لالہ موسیٰ تا وزیر آباد کوئٹہ ایکسپریس سے ہی کیا جاتا تھا۔ چناب ایکسپریس جسے دھماکا ایکسپریس یا دھماکا ٹرین بھی کہا جاتا تھا، صبح چار بجے سرگودھا سے چلتی اور تقریباً نو بجے لالہ موسیٰ پہنچ جاتی۔ پشاور سے کوئٹہ جانے والی کوئٹہ ایکسپریس کچھ ہی دیر بعد لالہ موسیٰ جنکشن سے گزرتی تو ہم سب اس پر سے وزیر آباد تک سفر کرتے اور پھر وزیر آباد سے سیال کوٹ اگر علامہ اقبال ایکسپریس ملتی تو ٹھیک ورنہ یہ سفر زیادہ تر بس کے ذریعے ہی ہوتا تھا۔ بچپن سے ہی سوچتا تھا کہ نجانے کوئٹہ کیسا شہر ہوگا جہاں کوئٹہ ایکسپریس جاتی ہوگی۔ اس وقت معلومات نہیں تھیں، بچپنا تھا تو کوئٹہ جانا ناممکن تھا۔

آج جوانی ہے، ٹکٹ کے پیسے ہیں، وقت ہے مگر کوئٹہ جانے کی ہمت نہیں۔ آج ہماری زندگی صرف ہماری نہیں۔ آج ہم سے مراد صرف ہم نہیں بلکہ ایک پورا کنبہ ہے۔ اپنی جان تو ہتھیلی پر رکھ دیں مگر اپنے بچوں کے سر سے شفقت بھرے ہاتھوں کو دور کیسے جانے دیں۔ کسی نے ایک عرصہ پہلے مجھ سے کہا تھا کہ حارث بھائی آپ کو بلوچوں سے کوئی خطرہ نہیں، آپ بلوچستان جائیں، بلوچ آگے بڑھ کر آپ کی حفاظت کرے گا۔ نہ جانے کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ کوئی کہتا ہے کہ بلوچ بیلٹ خطرناک ہے، پختوں بیلٹ اچھی ہے تو کوئی اپنا ایک الگ ہی راگ الاپنے لگتا ہے۔

ہر کسی کی اپنی کہانی ہے۔ ہم سب کوئٹہ جانا چاہتے ہیں۔ چمن پیسنجر ٹرین پر سفر کرنا چاہتے ہیں۔ زیارت جہاں قائد نے اپنے آخری ایام گزارے وہاں جانا چاہتے ہیں مگر جب ہم اکیس بائیس سالہ کیڈٹس کے بارے سوچتے ہیں جنھیں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر چند ماہ پہلے شہید کر دیا گیا جو پاس آؤٹ ہونے کے بعد کوئٹہ ایکسپریس سے ملک کے مختلف حصوں میں جا رہے تھے تو ہم ڈر جاتے ہیں۔ ہماری ہمت جواب دینے لگتی ہے۔ ہم کوئٹہ جانے والے منصوبوں پر خود ہی لکیر لگانے لگتے ہیں۔

کبھی ہم کشمیر کے بارے کہا کرتے تھے ’’مرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن‘‘ اور آج حالات کچھ یوں ہیں کہ ہمیں یہی نہیں پتا کہ ہم کوئٹہ کب جائیں گے۔ یہ چار کچھوے نہ جانے کب تک ڈرتے رہیں گے۔ نہ جانے ان لوگوں کو کون سمجھائے گا کہ چمن پیسنجر ٹرین پر پتھر پھینکنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ان لوگوں کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ کوئٹہ سے چمن سفر کرنے والے خالص بلوچستان کے لوگ ہی ہوں گے مگر اب مگرمچھ کو کون سمجھائے کہ اسے تو بس چھوٹے چھوٹے کچھوؤں سمیت سب کو ہی ڈرانا ہے۔ مگر مچھ کا بس ایک ہی کام ہے کہ تمام کچھوے بلوچستان سے دور رہیں۔ اور ہم سب کچھوے بھی ایسے قسمت کے مارے ہیں کہ ہمارے پاس مگر مچھ کی بات ماننے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ مگر مچھ جیتا، درویش ہارے۔ ہم کوئٹہ نہیں جا رہے۔

چاروں درویش کوئٹہ نہیں جا رہے۔ تین درویشوں نے ملتان ریلوے اسٹیشن سے ایک درویش کو جعفر ایکسپریس کے حوالے کیا، دھند میں لپٹے ہوئے بہاولپور ریلوے اسٹیشن میں اتر جانے کا وعدہ لیا اور خود عوام ایکسپریس پر ساہیوال کی طرف چل پڑے۔ جلد ہی جعفر ایکسپریس نے ملتان ریلوے اسٹیشن کو چھوڑا اور لودھراں کے لیے روانہ ہوگئی۔ میرے سامنے ایک کیبن کے چھے کے چھے برتھ ایک کوئٹہ کے ہی خاندان نے بک کروائے ہوئے تھے۔ میں اشتیاق سے ان سب کو دیکھ رہا تھا۔ کوئٹہ وادی کی جھلک ان سب کے چہروں پر تلاش کر رہا تھا۔ باہر کیا مناظر تھے، میں مکمل طور پر انجان تھا۔

لودھراں ریلوے اسٹیشن گزرا اور گاڑی بہاول پور کی طرف روانہ ہوگئی۔ نہ جانے رات میں اٹکا ہوا دریائے ستلج گزرا اور گاڑی نے بہاول پور کے نور محل کی طرز پر بنے جدید ریلوے اسٹیشن پر بریک لگا دی۔ میں اترنے کو ذرا جی نہ چاہتا تھا مگر میرا یہیں اترنا ضروری تھا۔ بہاول پور کے ایک ہوٹل میں میرے لیے ایک کمرا بک کروا دیا گیا تھا۔ میں ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلا اور اپنے مقررہ ہوٹل کے کمرے میں جیکٹ پہن کر اور دو کمبل اوڑھ کر سوگیا۔ دسمبر کے آخری دنوں میں جتنی سخت سردی تھی، دو کمبل اوڑھنا تو بنتا تھا۔ صبح سو کر اٹھا تو سورج صاحب کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ ہر طرف دھند تھی۔ تقریباً نو بج چکے تھے۔ میرے خیال میں مجھے دیر ہو گئی تھی مگر باہر دھند کو دیکھا تو یوں لگا کہ جیسے آج کا پروگرام میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

اصل میں معاملہ کچھ یوں تھا کہ میرے کان میں کسی نے چغلی کی کہ اگر بہاول پور کی سیاحت اور خاص کر روہی چولستان کے قلعوں کی سیر کرنی ہو تو بہاول پور کے ہی اردو کے استاد زبیر کھنڈ سے موثر اور کوئی سیاح نہیں۔ زبیر صاحب نہ صرف ریاست بہاول پور کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ اس لیے میں نے براہ راست زبیر صاحب سے ہی رابطہ کیا اور درخواست کی کہ وہ مجھے اپنے قیمتی وقت میں سے ایک دن ادھار دیں۔ زبیر صاحب کا بڑاپن کہ انھوں نے میری درخواست کو قبول کیا۔ انھوں نے ہی میرے بہاول پور پہنچنے سے پہلے ہوٹل میں کمرا بک کروا رکھا تھا۔ میں گذشتہ شب تقریباً رات تین بجے ہوٹل پہنچا تھا اور پہنچتے ہی گدھے گھوڑے بیچ کر سوگیا تھا۔

صبح اٹھتے ہی زبیر صاحب سے رابطہ کیا۔ وہ مجھے لینے آ رہے تھے مگر ابھی ان کے آنے میں وقت تھا۔ میں نے تب تک قریبی ہوٹل سے ہلکا پھلکا سا ناشتہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں زبیر صاحب پہنچے تو ہم شاہراہ آوارگی پر نکل گئے۔ برصغیر پاک و ہند میں تقریباً 565 نیم خودمختار ریاستیں تھیں جن میں ایک ریاست بہاول پور بھی تھی جو تقسیم سے پہلے ایشیا کی دوسری بڑی اسلامی ریاست تھی۔ 1258 عیسوی میں منگول سردار چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو عباسی خلافت تتر بتر ہوگئی۔

خلیفہ کو قید کرلیا گیا اور عباسی خاندان در در کی ٹھوکریں کھانے لگا۔ جس وقت ہلاکو خان نے بغداد تباہ کیا، بغداد صرف ایک شہر نہیں تھا بلکہ تہذیب، تقافت الغرض ہر لحاظ سے یہ شہر اپنے عروج پر تھا۔ کتب خانے، یونی ورسٹی، معالج خانے، خزانہ ہر لحاظ سے ہی یہ شہر اپنے عروج پر تھا۔ کمی تھی تو صرف اور صرف ایک بڑی اور طاقت ور فوج کی۔ اسی کا فائدہ ہلاکو خان نے اٹھایا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کتابوں میں آتا ہے کہ ہلاکو خان اس قدر جاہل انسان تھا کہ اس نے بغداد کے کتب خانے کی تمام کتب کو دریابرد کردیا یہاں تک کہ دریا کا پانی کالا ہوگیا۔ ظاہر سی بات ہے اس وقت سیاہی سے ہی کتب لکھی جاتی تھیں۔ وہ ان کتب کو منگولیا بھی لے جا سکتا تھا مگر کتاب کی اہمیت سے وہ کہاں واقف تھا۔

اس کے پاس تو صرف ایک طاقت ور فوج تھی جس کی بنیاد پر ہلاکو خان دنیا بھر میں دندناتا پھرتا تھا اور یہیں مسلمان مار کھا گئے کہ ان کے پاس سب کچھ تھا مگر طاقت ور فوج نہ تھی۔ کتب میں آتا ہے کہ ہلاکو خان خلیفہ کو کھانے کے لیے ایک الگ خیمے میں لے گیا۔ خلیفہ نے جب طشتری اٹھائی تو اندر سے ہیرے جواہرات نکلے۔ ہلاکو خان کہنے لگا کہ اب اسی دولت کو کھاؤ کہ اگر تم نے دولت اکھٹی کرنے کی بجائے اسے اپنی فوج پر خرچ کیا ہوتا تو آج بغداد کا یہ حال نہ تھا۔ قصہ مختصر ہلاکو خان کی بدولت بغداد کی ترقی کا خوب صورت باب ختم ہوا۔ عباسی خاندان پہلے مصر گیا مگر وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔

چند عباسیوں نے برصغیر کا رخ کیا۔ برصغیر میں بھی انھیں کوئی خاص مقام نہیں ملا یہاں تک کہ 1583 میں جب اکبر بادشاہ کی دہلی پر حکومت تھی تو چَنی خان عباسی جو فوج میں پنج ہزاری منصب دیا گیا۔ مطلب کہ ان کے نیچے پانچ ہزار افراد کی فوج تھی۔ چَنی خان عباسی کے دو بیٹے تھے۔ ایک مہدی خان اور دوسرا داؤد خان۔ دونوں میں اختلاف بڑھے تو مہدی خان سندھ کی طرف ہجرت کرگیا جب کہ داؤد خان عرب قبائل کی حمایت کی وجہ سے پنجاب میں ہی رہا۔ یہاں تک کہ 1733 آیا جب داؤد خان کی نسل سے ہی صادق عباسی نے راول اَکھی سنگھ سے قلعہ ڈیراور حاصل کیا اور عباسی ریاست کی بنیاد رکھی۔

1739 میں جب نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا تو ان ہی عباسیوں نے نادر شاہ کا بھر پور ساتھ دیا۔ نادر شاہ نے عباسیوں سے خوش ہوکر انھیں نواب کا لقب دیا اور واپس جاتے ہوئے شکار پور، لاڑکانہ تک کا علاقہ انھیں انعام میں دیا۔ واضح رہے کہ بہاول پور کے سات دروازوں میں سے ایک دروازہ شکار پوری دروازہ بھی ہے۔ پہلے پہل اس عباسی ریاست کا دارالحکومت تحصیل لیاقت پور کا شہر الہ آباد تھا مگر بعد میں ایک نئے شہر کی بنیاد دوسرے نواب بہاول خان دوم نے 1774 میں رکھی اور اس شہر کو بہاول پور کا نام دیا گیا۔ نیا شہر بہاول پور دریائے ستلج سے تین میل آباد کیا گیا۔ ون یونٹ میں ضم ہونے تک بہاول پور ریاست کا رقبہ 45588 مربع کلو میٹر تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت ریاستوں کو مکمل آزادی دی گئی تھی کہ وہ پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ نہرو نے اپنی چھوٹی بہن کو نواب صاحب کے پاس بھیجا تھا اور انھوں نے نواب صاحب کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی کہ وہ بہاول پور ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کریں مگر نواب صاحب نے واضح انکار کردیا اور 5 اکتوبر 1947 کو عباسی ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرنے کا اعلان کردیا۔ واضح رہے کہ یہ عباسی ریاست وہ پہلی نیم خودمختار ریاست تھی جس نے اپنا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ اس ریاست کی دیکھا دیکھی اور ریاست جیسے سوات وغیرہ بھی پاکستان میں شامل ہوگئیں۔ نواب صادق محمد خان سے ایک دل چسپ واقعہ منسوب ہے۔

ایک بار نواب صاحب Rolls Royce کمپنی کے دورے پر سادہ لباس میں تھے۔ آپ نے ایک گاڑی کی قیمت پوچھی تو بجائے گاڑی کی قیمت بتانے کے انھیں یہ کہہ دیا گیا کہ گاڑی آپ کی دسترس سے باہر ہے۔ نواب صاحب خاموشی سے واپس آ گئے اور اگلے برس فیکٹری میں بننے والی تمام گاڑیوں کو خرید لیا۔ گاڑیاں بہاول پور لائی گئیں۔

ان کے آگے جھاڑو باندھے گئے اور ہر روز بہاول پور کی سڑکوں کی صفائی ان ہی گاڑیوں سے ہونے لگی۔ خبر جنگل میں آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی یہاں تک کہ کمپنی مالکان بہاول پور آئے، نواب صاحب سے معافی مانگی تب جا کر ان گاڑیوں سے صفائی لینے کا کام رکا۔ کمپنی مالکان کو اس لئے بھی بہاول پور آنا پڑا کہ نواب صاحب کے اس اقدام کی وجہ سے ان گاڑیوں کی فروخت میں کمی ہو گئی تھی۔ شاہراہ آوارگی پر سفر کرتے ہوئے ہماری آج کی اب سے پہلی منزل بہاولپور کے قریب سوئی وہار تھی۔ سوئی وہار کیا شے ہے؟ اصل حقائق کیا ہیں، یہ سب باتیں بہاولپور کے عظیم استاد، محقق، سیاح، لکھاری اور بہاولپور شہر کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جناب زبیر فیض کھنڈ صاحب کی زبانی سنیں گئے تو ہی مزہ آئے گا۔

بہاولپور سے تقریبا 27 کلومیٹر دور، مسافر خانہ اڈے سے اندر کی جانب سوئی وہار کا نواحی مگر قدیمی علاقہ اپنی باقیات کے دُکھڑے سُنا رہا ہے اِس کرہ ارض پر اللّہ پاک نے ایسی ایسی جگہیں بنائی ہیں جو ابتدا میں انسانوں کیلئے، رہائش گاہ یا درسگاہ کا درجہ رکھتی تھیں مگر گردشِ حوادث کی نذر ہوگئیں۔

سوئی وہار کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہاں کبھی دنیا کے قدیم ترین مذہب بدھ مت کے دور میں راجا کنشکا کے دورِحکومت میں بدھ مذہب کی معبد گاہ یا اسٹوپا بھی موجود تھا۔ اور اُس وقت یہ مشہور ترین مقام ہوتا تھا لیکن گردشِ زمانہ کے باعث اب صرف آثار باقی رہ گئے ہیں۔ اور وہ جگہ ماضی میں بدھ مت مذہب کی معروف عبادت گاہ جو اپنے زمانے کی اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کی درس گاہ تھی اب وہاں صرف مٹی کا ایک مینار اور گردونواح میں قبرستان رہ گیا ہے۔

دراصل سوئی وہار کے آثار بدھ مت کے دور کی یونیورسٹی کے آثار ہیں۔ 1870ء میں ان آثارقدیمہ کو پہلی مرتبہ دریافت کیا گیا تھا اور اس وقت ان کی اونچائی زمین سے تقریباً 53 فٹ بلند تھی اور حوادثِ زمانہ کے باعث 1904ء یعنی صرف34 سال کے عرصے میں اس کی اُونچائی 45 فٹ رہ گئی تھی۔ بعد ازآں اس کا 20 فٹ حصہّ ریت کے ٹیلے میں دب گیا تھا اور اب صرف 25 فٹ بلند حصہّ زمین سے باہر نظر آتا ہے۔ اس کا ڈھانچا ایک گول ٹاور کی طرح ہے جوبڑے سائز کی اینٹوں کی مدد سے بنا ہوا ہے۔ اور یہ شاید بدھ مت کی واحد یاد گار ہے جو اسٹوپا کے فنِ تعمیر اور یہاں سے نکالی جانے والی ایک پلیٹ کے باعث بدھ مت کے دور کی معلوم ہوتی ہے جس پر اس دور کی عبارت کندہ ہے۔ یہ ٹاور نما ڈھانچا دراصل بدھ مت کے اسٹوپا کے آثار ہیں جو شہنشاہ کنشکا اعظم کے دور حکومت کے 11ویں سال میں تعمیر ہوا تھا۔ یہ اسٹوپا مٹی کی اینٹوں سے تعمیر ہوا تھا تاہم اس کی بنیادوں میں پکی ہوئی اینٹیں استعمال کی گئی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ اس اسٹوپا کی بنیاد ایک مربع ڈھانچے پر تھی جس کے اوپر گولائی میں یہ اسٹوپا تعمیر کیا گیا اور اس کا انڈانما گنبد پر اختتام ہوتا تھا۔جو اب حوادثِ زمانہ کے باعث اپنے آثار کھوچکا ہے۔ اسٹوپا کے مرکز میں کھدائی کے دوران تقریباً 70 برس قبل ایک تانبے کی پلیٹ، چند سکے اور کچھ لوہے کے برتن ملے تھے۔ تانبے کی پلیٹ پرخروشتی kharoshthi)) زبان میں عبارت کندہ تھی جس کے ذریعے یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ اسٹوپا کب اور کس دور میں تعمیر ہوا۔

سوئی وہار پر ایک دوسری رائے بھی ہے۔ احمد پور شرقیہ سے بہاولپور جاتے ہوئے تقریباً 25 کلومیٹر دور قومی شاہراہ پر ’’گلن دی ہٹی‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا اسٹاپ ہے، اس اسٹاپ کے جنوب مشرق میں ایک کلومیٹر کے فاصلے پر قبرستان کے ایک نکڑ پر کچی اینٹوں سے تعمیر ایک اسٹوپا (مینار) موجود ہے جہاں تقریباً دو ہزار سال قبل راجا کنشکا کے دورحکومت میں تعمیر کی گئی دنیا کے قدیم مذہب بدھ مت کی معبد گاہ اور یونیورسٹی ہوا کرتی تھی جو امتداد زمانہ کے باعث اب قبرستان میں تبدیل ہوچکی ہے۔ تاہم شکست و ریخت کا شکار اس معبد/یونیورسٹی کا ایک اسٹوپا آج بھی موجود ہے جو اپنی تباہی و بربادی پر نوحہ کناں ہے سوئی وہار کے اسٹوپا کو پہلی مرتبہ 1870ء میں دریافت کیا گیا تھا۔ اس وقت اسٹوپا کی اونچائی تقریباً 53 فٹ تھی موسم کی سختیوں کے باعث اب اسٹوپا کا 20 فی صد حصہ ریت کے ٹیلے میں دب چکا ہے اور اب صرف 25 فٹ بلند اسٹوپا ہی ٹیلے پر ایستادہ نظر آتا ہے جس کا ڈھانچا گول ہے۔

ڈھانچے میں کئی جگہوں پر سوراخ اور بڑے سائز کی کچی اینٹیں بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔ یہ اسٹوپا دراصل شہنشاہ کنشکااعظم کے دورحکومت کے گیارہویں سال میں تعمیر ہونے والی معبد/ یونیورسٹی کا آخری نشان ہے۔ کچی اینٹوں سے تعمیر ہونے والے اس اسٹوپا کی بنیادوں میں پکی اینٹیں بھی استعمال کی گئی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ اس اسٹوپا کی بنیاد ایک مربع ڈھانچے پر قائم تھی جس کے اوپر گولائی میں یہ اسٹوپا تعمیر کیا گیا تھا جو اپنے انڈے نما گنبد پر ختم ہوتا تھا جو بعد ازآں حوادثِ زمانہ کا شکار ہوکر اپنے آثار کھوچکا ہے۔ ماضی میں کی گئی کھدائی کے دوران اسٹوپا سے چند سکے، لوہے کے برتن اور تانبے کی پلیٹ ملی تھی جس پرخروشتی (kharoshthi) رسم الخط میں ایک عبارت کندہ تھی جس کے مطابق موجودہ جگہ کا نام دمانہ وہارہ (Damana Vihara) تھا جو بدھ مت مذہب کی پیروکار ایک خاتون بالا نندی (Bala Nandi) کی ملکیت تھی جسے بالا نندی نے اپنی والدہ بالا جیا(Bala Jiya) کے ساتھ مل کر (Naga Data) ناگا دتا کی یاد میں تعمیر کرایا تھا یہ پلیٹ بھارت کے شہر کلکتہ کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہے۔ بہاول پور نوابوں کا شہر تو ہے ہی مگر سب سے زیادہ نواب صادق کا شہر ہے۔

زبیر فیض کھنڈ کی مہیا کردہ معلومات کے مطابق نواب صبح صادق محمد خان عباسی چہارم، 11 نومبر 1861 کو قلعہ ڈیراور میں پیدا ہوئے۔ چار سال کے ہوئے تو محلاتی سازشوں کے نتیجے میں زہر دے کر مار دیا گیا۔ 1879 میں تاج پوشی کی رسم ادا ہونے اور باقاعدہ نواب بننے کے بعد اس روشن دماغ نواب نے اپنی ریاست میں عالی شان محلات کی بنیادیں رکھنا شروع کردیں۔ گلزار محل، دربار محل، نشاط محل، فرخ محل، راحت منزل، نور محل، بارہ دری اور چار تاریخی مساجد کی تعمیر کا کام نواب صاحب نے شروع کرایا اور زندگی میں ہی تکمیل تک پہنچایا۔ نواب صاحب کی جس تعمیر نے شہرۂ آفاق شہرت حاصل کی وہ صادق گڑھ پیلس ہے۔ ڈیرہ نواب صاحب میں پندرہ لاکھ روپے کی خطیر رقم سے 1882 میں اس محل کا سنگِ بنیاد رکھا اور 13 سال بعد 1895 میں اس کی تکمیل ہوئی۔

بہاول پور ریاست کے نواب صبح صادق محمد خان عباسی کی دوسری بیوی گامن گدھوکن کے ذکر کے بغیر بہاول پور پر کوئی بھی مضمون ادھورا تصور کیا جاتا ہے جو کہ بہاول نگر کے پاس گدھوکا خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اگرچہ کہ یہ ایک حکایت ہی سہی مگر اس کا ذکر تو ہوتا ہے۔ سرائیکی زبان میں غلام کا لفظ اگر عورت کے ساتھ ہو جیسے غلام صدیقہ، غلام عائشہ تو اس غلام کو گامن کہا جاتا ہے۔ اگر مرد کے نام کے ساتھ ہو جیسے غلام رسول، غلام نبی تو اسے گاما بلاتے ہیں۔ گامن گدھوکن کا نام ممکن ہے غلام صدیقہ یا غلام کچھ کر کے ہو۔ گامن گدھوکن کسی قتل کے جرم میں بہاول نگر جیل میں قید تھی۔

نواب صادق محمد خان چہارم جنھیں شاہ جہانِ بہاول پور بھی کہا جاتا ہے، کا انتقال تقریباً 34 سال کی عمر میں ہوگیا، مگر اس مختصر عمر میں بھی انہوں نے محلات اور قلعوں کی بہاول پور ریاست میں لائن لگا دی۔ تعمیرات کے شعبے کو عزت بخشی۔ صادق گڑھ محل بنایا جو ان کی رہائش گاہ تھا۔ اس محل کے علاوہ نوابوں کی رہائش اور کہیں بھی نہیں تھی۔ قلعہ ڈیراور کی بھی مرمت کروائی۔ نورمحل، گلزار محل، دربار محل، راحت منزل اور نہ جانے کیا کیا انھوں نے بہاول پور میں تعمیر کروایا۔ ایک بار جب نواب صاحب بہاول نگر کے دورے پر تھے تو انھیں بہاول نگر جیل کا بھی دورہ کروایا گیا۔ جیل کا یہ دستور تھا کہ جب بھی کوئی نواب جیل کا دورہ کرتا تو تمام قیدی جیل کی سلاخوں کے پاس آ کر قطار میں کھڑے ہوجاتے، نواب صاحب کو ہر قیدی کے بارے میں تفصیلات دی جاتیں کہ انھیں کس جرم کی وجہ سے جیل میں رکھا گیا ہے۔

جیل میں ایک ایسی عورت بھی قید تھی جس نے اپنا رخ دیوار کی طرف کیا ہوا تھا یعنی پیٹھ سلاخوں کی طرف تھی۔ نواب صاحب نے جیلر سے اس بارے پوچھا تو جیلر بتانے لگا کہ یہاں گدھوکے خاندان کی ایک عورت قید ہے جو کسی سے کلام نہیں کرتی۔ کوشش کی گئی کہ وہ نواب صاحب کی تعظیم میں کھڑی ہوجائے مگر وہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لائی۔ نواب صاحب نے حکم دیا کہ گامن گدھوکن کو نواب صاحب کے کمرے میں پیش کیا جائے۔ گامن گدھوکن اپنے رعب کے ساتھ نواب صاحب کے سامنے پیش ہوئی۔ نواب صاحب اسے دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے۔ جس طریقے سے اس نے نواب صاحب کو ٹھکرایا تھا، بس وہ انداز نواب صاحب کے دل میں گھر کر گیا اور گامن گدھوکن کے عشق کا دِیا نواب صاحب کے دل میں جل گیا۔

نواب صاحب نے گامن گدھوکن کی سزا اس صورت میں معاف کروا دی کہ وہ ان سے شادی کرے گی۔ جس وقت نواب صاحب نے گامن گدھوکن سے پسند کی دوسری شادی کی، صادق گڑھ محل زیرتعمیر تھا مگر اس سے پیچھے راحت منزل کی تعمیر ہوچکی تھی جس میں نواب صاحب کی پہلی خاندانی بیوی، ماں اور دادی بھی رہائش پذیر تھیں۔ زنان خانے کے سارے معاملات خاندان کی سب سے بڑی عورت دیکھتی تھی جو اس وقت نواب صاحب کی دادی تھیں۔ دادی اماں اس وقت ایک نواب کی بیٹی، کسی دوسرے نواب کی بیوی، ایک نواب کی ماں اور اب بہاول پور ریاست کے چوتھے نواب کی دادی بھی تھی۔ اس لیے ان کا رعب کچھ زیادہ ہی تھا۔ دادی نے گامن گدھوکن کا پاؤں بھی راحت منزل میں پڑنے نہیں دیا۔ نواب صاحب اس صورت حال سے پریشان ہوئے اور مجبور ہوکر قلعہ ڈیراور کے سامنے جو دو منزلہ عمارت آج بھی قائم ہے، وہاں گامن گدھوکن کی رہائش رکھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نواب صاحب نے خاندان کو اس بات کے لیے قائل کرلیا کہ گامن گدھوکن کو اب صادق گڑھ محل میں لایا جائے گا کیوں کہ یہ محل بھی اب مکمل ہوچکا تھا۔

خاندان کے مانتے ہی محل کے سامنے والے ایک کمرے میں گامن گدھوکن کی رہائش رکھی گئی اور نواب صاحب اِسے محل میں لے آئے۔ شادی اگرچہ محبت کی تھی مگر نواب صاحب کی اولاد گامن گدھوکن سے نہیں ہوئی۔ گامن گدھوکن صادق گڑھ محل میں تو آ گئی مگر اسے یہاں رہنا نصیب نہ ہوا۔ ایک سال کے اندر ہی گامن گدھوکن ایسی بیمار پڑی کہ شاہی طبیب بھی اس کا علاج نہ کرسکے اور گامن گدھوکن چل بسی۔ نواب صاحب خواجہ غلام فرید کے مرید تھے۔ جب گامن گدھوکن کی وفات ہوئی تو وہ اپنے ہوش حواس کھو بیٹھے، لوگوں سے میل میلاپ ترک کر دیا اور ریاست کے معاملات میں بھی دل چسپی لینا چھوڑ دی۔ جب کسی بھی طریقے سے نواب صاحب کی طبیعت بحال نہ ہوئی تو خاندان والوں نے خواجہ غلام فرید سے رابطہ کیا۔

نواب صاحب خواجہ غلام فرید کے اس قدر مرید تھے کہ وسیب میں آج بھی یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ پیر ہو تو خواجہ جیسا، مرید ہو تو صادق جیسا۔ خواجہ صاحب کے حضور عرضی پیش کی گئی تو خواجہ صاحب تین چار روز بعد محل میں تشریف لائے۔ نواب صاحب نے خواجہ صاحب کو محل میں آتے دیکھا تو ان کی جانب دوڑ پڑے۔ نواب صاحب خواجہ صاحب کے پیروں سے لپٹ گئے اور خواہش رکھی کہ میری ملاقات گامن گدھوکن سے کروائیں۔ خواجہ صاحب نے نواب صاحب کو آرام سے سمجھایا اور انھیں تسلی دینے کی کوشش کی۔ نواب صاحب بھی دل کے ہاتھوں مجبور تھے۔ خواجہ صاحب کو کہہ دیا کہ اگر آپ میری گامن گدھوکن سے ملاقات نہیں کروا سکتے تو آپ پیر کیسے اور میں مرید کیسا۔ خواجہ صاحب نے کچھ تدبیر کی اور نواب صاحب سے کہا کہ وہ آج رات اپنے کمرے میں بیٹھ جائیں۔

اگر دروازے پر گامن گدھوکن آئے تو چند لمحوں کے لیے اس سے ملاقات کریں مگر وہ اسے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ اگر نواب صاحب نے اسے ہاتھ لگایا تو پھر واقع وہ نواب کے پیر نہیں اور نواب ان کا مرید نہیں۔ نواب صاحب فوراً اپنے کمرے کی طرف گئے اور تیار ہو کر دروازہ بند کر کے بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے گامن گدھوکن تھی۔ نواب صاحب نے گلے لگانا چاہا مگر پیر کی بات یاد آ گئی۔ گامن گدھوکن بستر پر بیٹھ گئی اور نواب صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور دونوں میں باتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ صبح کی اذان ہوگئی۔ نواب صاحب سے رہا نہ گیا۔ وہ اٹھے اور گامن گدھوکن کو پکڑ لیا۔

جیسے ہی اسے چھوا تو معلوم پڑا کہ وہ گامن گدھوکن نہیں بلکہ خواجہ غلام فرید خود تھے جو گامن گدھوکن کے بھیس میں نواب صاحب کے پاس آئے تھے۔ خواجہ صاحب نے نواب صادق کو زور سے دھکا دیا اور نواب صاحب سے تعلق ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ نواب صاحب ایک پریشانی سے نکلے تو دوسری پریشانی میں جا پھنسے۔ کچھ وقت بعد نواب صاحب کچھ خاندانی لوگوں کو لے خواجہ صاحب کو منانے کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے۔ کچھ عرصہ تک تو خواجہ غلام فرید نواب صاحب سے ناراض رہے مگر بعد میں نواب صاحب اور خواجہ غلام فرید میں تعلق بحال ہوگیا۔ نواب صاحب اپنی روزمرہ زندگی کے معاملات پھر سے دیکھنے لگے مگر گامن گدھوکن سے جدائی کی چوٹ اتنی شدید تھی کہ نواب اس سے کچھ ہی عرصے بعد تقریباً 34 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ صادق گڑھ محل اپنے آپ میں ایک شاہ کار ہے۔

آپ اس کی بیرونی دیواروں کو باہر سے دیکھیں گے تو محسوس ہوگا جیسے دیواریں اندر کی جانب گر رہی ہوں۔ محل کے اندر سے دیکھیں گے تو محسوس ہوگا دیواریں باہر کی طرف گر رہی ہیں۔ صادق گڑھ محل ترکی اور اٹلی فنِ تعمیرات کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ محل میں آپ کو دونوں تہذیبیں نظر آتی ہیں۔ تہہ خانے میں ایک الگ دنیا آباد ہے، جہاں خزانے کے کمرے سمیت بہت سے مختلف کمرے بنے ہوئے ہیں۔ خزانے کے کمرے میں بینک آف انگلینڈ کی بھیجی گئی سیف جو Chubb and Sons کمپنی کی بنی تھی، آج بھی محفوظ پڑی ہے۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تہہ خانے کے ہر کمرے کے فرش کے ٹائل کا ڈیزائن الگ ہے۔

حالاں کہ صادق گڑھ محل سے نکلنے کو جی نہ چاہتا تھا اور ابھی دیکھنے کو بہت کچھ تھا مگر وقت کم تھا اور ابھی ہم صادق گڑھ محل کے پیچھے مزید محلات دیکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر پھر پتا چلا کہ میرے گائیڈ کی سلام دعا والا آدمی اس دن ’’تاریخ‘‘ پر گیا ہوا تھا۔ سردیوں کا موسم تھا اور اس دن دھند بھی شدید تھی۔ بے چارہ شاید کنوارہ ہوگا، اسی لیے سردی کے غم کو غلط کرنے کے لیے تاریخ پر چلا گیا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست بہاول پور ( پہلی قسط)
  • ’ویرات کو بھیجے پیغام کے متعلق بات نہیں کرونگا‘: ایم ایس دھونی کا دو ٹوک جواب
  • آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی والدہ انتقال کرگئیں
  • بی جے پی جھوٹ پھیلا کر کانگریس کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہے، ڈی کے شیوکمار
  • سابق بنگلا دیشی کپتان تمیم اقبال دوران میچ سینے میں تکلیف کے باعث اسپتال داخل
  • ورجینیا کے سابق امریکی اٹارنی کی موت ’مشکوک‘ قرار دینے کا فیصلہ طبی معائنے سے مشروط
  • وقف ترمیم بل آئین پر حملہ اور اقلیتی حقوق سلب کرنیکی سازش ہے، کانگریس
  • عاشقانِ رسول ﷺکے خاندان کا فرد ہونے پر فخر ہے:احسن اقبال
  • عاشقانِ رسولﷺ کے خاندان کا فرد ہونے پر فخر ہے، احسن اقبال