لاہور:

ہارورڈ اور ویانا یونیورسٹیوں کے ماہرین نے مشترکہ دو سالہ تحقیق کے بعد یہ دلچسپ انکشاف کر دیا کہ جس زبان سے تمام ہند یورپی زبانیں بشمول اردو، پنجابی، سندھی اور بلوچی پھوٹیں، اسے بولنے والے 6500 تا 5500 سال قبل روس کے علاقے، زیریں وولگا میں بستے تھے۔

یہ دریائے وولگا کے نشیبی علاقے کو کہتے ہیں، ماہرین نے علاقے کے لسانی ، تہذیبی، ثقافتی اور ادبی آثارپر تحقیق کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا۔

یاد رہے، ’’ہند یورپی‘‘ زبانوں کا سب سے بڑا خاندان ہے جس مں بروہی کو چھوڑ کر تمام پاکستانی زبانیں اور انگریزی، ہندی، فارسی، جرمن، فرانسیسی ، ہسپانوی وغیرہ شامل ہیں۔

پہلے خیال تھا کہ اس لسانی خاندان کی خالق پہلی زبان بولنے والے ترک علاقے ، اناطولیہ میں رہتے تھے مگر اس امر کو اب بیشتر ماہرین تسلیم نہیں کرتے۔

زیریں وولگا کے قبائل چار پانچ ہزار سال پہلے ترکی، ایران اور ہندوستان آنا شروع ہوئے اور انھوں نے ہر جگہ نئی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں انھیں ’’آریہ ‘‘کہا جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

تمباکو کی صنعت بچوں کو ہدف بنانے کے لیے جارحانہ مارکیٹنگ کرتی ہے، ماہرین

تمباکو کی صنعت بچوں کو ہدف بنانے کے لیے جارحانہ مارکیٹنگ کرتی ہے اور کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (CSR) کے نام پر ایسے پروگرام منعقد کرتی ہے جن کا مقصد عوام میں ہمدردی پیدا کر کے سخت ٹیکس اقدامات کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوتا ہے۔یہ بات پیر کو اسلام  آباد میں ماہرین، سرکاری عہدیداروں اور پالیسی سازوں نے ’تمباکو کی صنعت کے ٹیکسوں میں ہیرا پھیری کے حربے، پالیسی، عمل اور شواہد‘ کے موضوع پر ایک اہم گول میز مذاکرے میں کہی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت نے تمباکو پر ٹیکس کم کرکے آدھا کردیا

ایس ڈی پی آئی سینٹر فار ہیلتھ پالیسی اینڈ انوویشن کے سربراہ سید علی واسف نقوی نے اپنے افتتاحی خطاب میں پاکستان کی سگریٹ صنعت کے حوالے سے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مالی سال 2025 کے آغاز میں ایک طرف پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا تو دوسری طرف ٹیکس وصولیوں میں کمی واقع ہوئی، دوسری طرف دسمبر 2024 کے اعداد و شمار میں پیداوار میں 26.1 فیصد کمی مگر محصولات میں 27 فیصد اضافہ دکھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تضادات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تمباکو صنعت پیداوار اور دو سطحی ٹیکس نظام میں ہیر پھیر  کر کے  حکومت کو گمراہ کر رہی ہے تاکہ نئے بجٹ میں ٹیکسوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں۔

 ایس ڈی پی آئی کے سینئر ایڈوائزر وسیم کھوکھر نے کہا کہ تمباکو کمپنیاں ٹیکس چوری کے ساتھ ساتھ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کرتے ہیں وہ آزاد تحقیقی مطالعات کے برعکس ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صنعت پالیسی سازوں کو گمراہ کرتی ہے اور ٹیکسوں کی مخالفت کے لیے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تمباکو کی قیمتوں میں اضافے سے غیر قانونی تجارت میں اضافہ نہیں بلکہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تمباکو پر ٹیکس: کے پی حکومت کا یوٹرن، کیا حکومت اپنے ہی اراکین کے سامنے بے بس ہے؟

سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر (ایس پی ڈی سی)کے منیجنگ ڈائریکٹر آصف اقبال نے بتایا کہ تمباکو کمپنیاں اپنی پیداوار میں کمی بیشی کے ذریعے ٹیکس پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نو کمپنیاں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم استعمال کر رہی ہیں جن میں سے تین خودکار نظام سے منسلک ہیں۔انہوں نے ایس پی ڈی سی کے24۔ 2023 کے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمباکو کی پیداوار میں 19.2 فیصد اضافے کے باوجود فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی وصولی میں صرف 2.4 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی آمدن 26.1 فیصد کم ہوئی۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تمباکو ٹیکسیشن ماہر نے اس موقع پر واضح کیا کہ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کا بنیادی مقصد صرف محصولات میں اضافہ نہیں بلکہ تمباکو کے استعمال میں کمی لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ16۔ 2015 سے ٹیکسوں میں بتدریج اضافے کے باوجود سگریٹ پر ایف ای ڈی کا تناسب 6 سے 6.2 فیصد کے درمیان رہا ہے۔انہوں نے تمباکو صنعت کے اس موقف کو بھی مسترد کیا کہ ٹیکسوں میں اضافے سے غیر قانونی تجارت بڑھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تمباکو نوشی قوت مدافعت کو کیسے خوفناک حد تک متاثر کرتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ تمباکو فیکٹریاں حکومت کو پالیسی میں نرمی پر مجبور کرنے کیلیے پیداوار بڑھا کر مصنوعی طور پر محصولات میں کمی ظاہر کرتی ہیں۔سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (اسپارک) کے پروگرام منیجر خلیل احمد نے انکشاف کیا کہ یہ صنعت حکومت پر دباو ڈالنے کے لیے کاروبار کو دوسرے ممالک منتقل کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے۔

انہوں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ تمباکو کی صنعت بچوں کو ہدف بنانے کےلیے جارحانہ مارکیٹنگ کرتی ہے اور کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (CSR) کے نام پر ایسے پروگرام منعقد کرتی ہے جن کا مقصد عوام میں ہمدردی پیدا کر کے سخت ٹیکس اقدامات کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوتا ہے۔وزارت صحت کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ حنیف نے کہا کہ وزارت صحت شہریوں کو تمباکو کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کیلیے پرعزم ہے۔

انہوں نے قومی تمباکو کنٹرول حکمتِ عملی2030۔ 2022 کے تحت ٹیکسوں میں مزید اضافہ، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو موثر بنانا اور مختلف شعبہ جات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے صنعت کی غلط معلومات کے خلاف مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ تمباکو کی کاشت ایک حساس مسئلہ ہے لہٰذا اس پر مکمل پابندی کی بجائے اس کے پھیلاو کو قابو میں رکھنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: تمباکو نوشی کرنے والے 12 لاکھ پاکستانیوں کی جان کیسے بچائی جا سکتی ہے؟

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ مسئلے کو جامع طریقے سے حل کرنے کیلیے کثیر الجہتی سٹیک ہولڈر میکانزم کی ضرورت ہے۔انہوں نے زور دیا کہ قانون پر سختی سے عملدرآمد، ٹیکسوں میں اضافے اور سرکاری اداروں، سول سوسائٹی اور صحت کے شعبے کے درمیان بہتر تعاون کو یقینی بنا کر تمباکو کی صنعت کے گمراہ کن حربوں کا موثر جواب دیا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسلام اباد پاکستان تمباکو سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر گول میز مذاکرا

متعلقہ مضامین

  • کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟
  • زباں فہمی نمبر241 اُردو اور ہَریانوی کا منفرد پیدائشی تعلق
  • ببل گم چبانا خطرناک بیماری کا سبب بن سکتا ہے!
  • تمباکو کی صنعت بچوں کو ہدف بنانے کے لیے جارحانہ مارکیٹنگ کرتی ہے، ماہرین
  • چین کے پاس ترقی کے لیے مضبوط بنیادہے ،ماہر
  • غنودگی کا سامنا کرنیوالے مردو خواتین کو سنگین مرض ڈیمینشیا کا خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ، طبی ماہرین
  • موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز اور حل: عالمی موسمیاتی دن پر ماہرین کی گفتگو
  • بلا تحقیق سوشل میڈیا پر غلط خبریں پھیلانا فتنے کا باعث ہے
  • علی سیٹھی کی والدہ کو بیٹے کا مشہور گانا ’پسوڑی‘ کیوں پسند نہیں آیا؟