22 مارچ کو دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس کا موضوع ’پانی امن کیلئے‘ ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے اور یہاں صاف پانی کی عدم دستیابی بھی بڑا مسئلہ ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ذوہیب بٹ

( چیف انجینئر ، ڈی جی پنجاب صاف پانی اتھارٹی)

لاہور میں پینے کا پانی وافر مقدار میں موجود ہے لیکن راجن پور، ڈی جی خان و دیگر علاقوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے۔ جہاں پانی موجود ہے وہاں اس کا منصفانہ استعمال ضروری ہے اور جہاں پانی نہیں ہے، وہاں متبادل ذرائع سے لوگوں کو صاف پانی مہیا کرنا ہے۔ پنجاب کی 10 فیصد آبادی جو ایک کروڑ سے زائد بنتی ہے، پانی سے محروم ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پانی نہیں ہے یا لوگ پانی پی نہیں رہے۔ اس میں دو طرح کی صورتحال ہے کہ پانی ان کے گھر کی دہلیز پر یا پھر 500 میٹر کے دائرے میں دستیاب نہیں ہے اور انہیں دور سے بھر کے لانا پڑتا ہے لہٰذا تمام افراد کو صاف پانی تک رسائی دینے کیلئے صاف پانی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ابتداء میں ہم ایسے اضلاع کو ٹارگٹ کر رہے ہیں جہاں صاف پانی موجود نہیں ہے۔

پنجاب صاف پانی اتھارٹی ’ڈسپنسنگ پوائنٹ‘ پر کام کرے گی یعنی جہاں سے پانی تقسیم کیا جائے گا، اسے سادہ زبان میں واٹر فلٹریشن پلانٹ کہا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو یہاں سے پانی لے کر جانا ہوگا۔ جن دیہات میں 4 ہزار سے زائد آبادی موجود ہے وہاں ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ لگایا جا رہا ہے اور اب تک ایک ہزار سے زائد پلانٹس لگائے جا چکے ہیں۔

ان پلانٹس کی کامیابی کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں سرکاری سطح پر موجود 5100 واٹر فلٹریشن پلانٹس اتھارٹی کو منتقل کیے جا رہے ہیں، اب کوئی اور ادارہ واٹر پلانٹ نہیں لگائے گا بلکہ اتھارٹی یہ کام کرے گی۔ پنجاب صاف پانی اتھارٹی ملک کی پہلی اتھارٹی ہیں جس نے کاربن کریڈٹ کے ذریعے رجسٹر کرایا ہے۔ ہم ان پلانٹس کو چلانے کیلئے ’’گرین فنانسنگ‘‘ لے رہے ہیں اور کاربن امیشن کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کاطرز زندگی بہتر بنا رہے ہیں۔

لوگ لکڑیاں جلا کر پانی ابالتے تھے جس سے کاربن امیشن ہوتی ہے، ہم نے اسے کنٹرول کیا ہے۔ ہمیں گرین فناسنگ کی مد میں عالمی مارکیٹ سے 40 کروڑ روپے سالانہ ملیں گے جس سے ان پلانٹس کی دیکھ بھال کی جائے گی۔ پاکستان پانی کی کمی والے دنیا کے دس ممالک میں شامل ہے۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے پانی کے متبادل ذرائع پر کام کا آغاز کیا ہے۔

ہم صرف آر او پلانٹس پر ہی کام نہیں کر رہے بلکہ نہروں کا پانی بھی پینے کے قابل بنا رہے ہیں۔ اس وقت رینالہ خورد میں نہری پانی کو صاف کرکے 15 ہزار افراد کو فراہم کیا جا رہا ہے جس سے کافی فائدہ ہوا ہے،لاہور میں بھی جلد اس کا آغاز ہوگا۔ ہم نے الٹرا فلٹریشن ہینڈ پمپ بھی متعارف کرایا ہے جو دیہات میں صاف پانی فراہم کر رہا ہے۔

ہم مینوفیکچرزر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کو مقامی سطح پر تیار کریں۔ ہم نے سرکاری اور نجی تعاون سے 10 ملین افراد کو صاف پانی فراہم کر دیا ہے۔ سیوریج کے پائپ خراب ہونے کی وجہ سے پانی آلودہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں واٹر اینڈ سینی ٹیشن شامل ہے، اب سیوریج کے پائپ بھی تبدیل کیے جا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں 60 اضلاع میںو اٹر اور سیوریج پر کام ہوگا جس سے پانی اور سیوریج کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

مبارک علی سرور

(واٹر ایکسپرٹ)

22 مارچ ہر سال پانی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس کا موضوع ’’ پانی امن کیلئے‘‘ ہے جو سب کے لیے پانی تک رسائی اور باہمی تعاون کے فروغ پر زور دیتا ہے۔ پنجاب پاکستان کا نصف ہے۔ حکومت پنجاب کے سروے کے مطابق 90 فیصد افراد کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہے جس میں شہری آبادی 97 فیصد جبکہ دیہی آبادی87 فیصد ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دیہی آبادی پانی کے مسئلے کا شکار ہے، صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ متعدد بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ماں، بچے کی صحت متاثر ہو رہی ہے، بچوں کی درست ذہنی اور جسمانی نشوونما نہیں ہو رہی، اس کیلئے صاف پانی ناگزیر ہے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں پانی کا معیار مختلف ہے۔ لاہور، قصور، مظفر گڑھ، راجن پور، رحیم یار خان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سمیت بیشتر اضلاع کے پانی میں آرسینک کی مقدار خطرناک حد تک ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کیمیکلز بھی موجود ہیں لہٰذا ایسے پانی کو صاف کرنے کا واحد حل آر او پلانٹس ہیں۔ اسی طرح زیر زمین پانی میں سیوریج کا پانی شامل ہو رہا ہے جو جان لیوا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نل کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

پانی کے مسائل حل کرنے میں حکومتی کاوشیں اور متعلقہ اداروں کی محنت موجو د ہے لیکن آج بھی 10 فیصد آبادی صاف پانی سے محروم ہے۔ صاف پانی بنیادی انسانی حق ہے۔ ہم نے اراکین پارلیمنٹ کے ذریعے ایوانوں میں بھی آواز اٹھائی ہے،ا سے یقینی بنانا ہوگا۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔واٹر ایکٹ کے نام سے قانون سازی ہوئی ، سوال یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کیوں نہیںہوا؟ ہم ٹیوب ویل اور بورنگ کے ذریعے بے دریغ پانی نکال رہے ہیں۔

چاول اور گنے کیلئے زیادہ پانی درکار ہوتا ہے، ہمیں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت اور نجی شعبے سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہوگا ۔ اس وقت لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح 400 فٹ گہرائی تک چلی گئی ہے۔ لوگ صاف پانی کا بے دریغ استعمال اور اس کا ضیاع کرتے ہیں، صاف پانی سے گاڑیاں دھوتے ہیں لہٰذا ہمیں لوگوں کے رویے بدلنا ہوں گے۔ اس حوالے سے میڈیا اور سول سوسائٹی کا کردار اہم ہے۔ واٹر فلٹریشن پلانٹس اور ان کی دیکھ بھال کا میکنزم بنانا ہوگا۔اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی ضرورت ہے۔ ہمیں کمیونٹی کی سطح پر بھی آگاہی دینی ہے، لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ فلٹریشن پلانٹس کی دیکھ بھال کمیونٹی کا بھی کام ہے، سب مل کر کام کریں گے تو معاملات میں بہتری آئے گی۔

حکومت پنجاب نے پانی کے حوالے سے اہم اقدامات کیے ہیں تاہم ابھی بہت سارا کام باقی ہے۔ ہمیں انٹرپرینیورز پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو لوگوں کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی سروسز ملتی ہیں، ان کا معاوضہ دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں جب تک ٹیرف کولیکشن نہیں ہوگی، تب تک واٹر پلاٹس کی درست دیکھ بھال نہیں ہوسکے گی۔ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے متعدد واٹر فلٹریشن پلانٹس بند ہو جاتے ہیں، انہیں سولر ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا ہوگا، اس سے اخراجات میں کمی آئے گی۔ ہم نے مظفر گڑھ میں کوائن وینڈنگ مشین لگائی ہے۔

پنجاب صاف پانی اتھارٹی، لوکل گورنمنٹ ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ و دیگر محکموں کے سینئر عہدیداروں نے اس کا دورہ کیا۔ ہم نے 50 پیسے فی لیٹر کے حساب سے پانی کی قیمت مقرر کی ہے۔ انٹر پرینیورز کیلئے 5، 10 اور 20 لیٹر کی تین کیٹگریز ہیں، یہ سکے مشین میں ڈالے جاتے ہیں اور اسی مقدار میں پانی ملتا ہے۔ حکومت کی جانب سے ان مشینوں کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلٹریشن پلانٹس واٹر فلٹریشن کو صاف پانی دیکھ بھال افراد کو لوگوں کو پانی کے پانی کی سے پانی کا پانی نہیں ہے رہے ہیں رہا ہے ا ہوگا کر رہے ہے اور

پڑھیں:

گورنر سندھ بڑے بھائی ہیں، انکے ساتھ ملکر شہر کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں، میئر کراچی

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ گورنر سندھ تاریخ رقم کر سکتے ہیں، ایک طرف وزیراعلیٰ اور دوسری جانب گورنر سندھ فنڈ دے رہا ہو، تو بہت زبردست ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ مصطفیٰ کمال یا وسیم اختر کو جو پیسہ دیا تھا، اس کا حساب مانگ رہے ہیں، گورنر سندھ بڑے بھائی ہیں، ان کے ساتھ ملکر شہر کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں۔ مزار قائدؒ پر حاضری کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ قرارداد لاہور کی یاد کے طور پر 23 مارچ کا دن پاکستان کے قیام میں اہم ہے، تحریک پاکستان اور بانیان پاکستان کو آج کے روز خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نیت کام کرنے کی ہے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، گورنر صاحب کو اس طرح کی بیان بازی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ میئر کراچی نے کہا کہ کے فور کیلئے 80 ارب روپے، حب کینال پر 12 ارب روپے خرچ کرنے جا رہے ہیں، اپنی سالانہ ترقیاتی اسکیموں سے بھی 12 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں، سو ارب روپے کا تو یہ کام ہوگیا، میری جماعت ٹھیک ٹھاک سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کامران بھائی یہ درست نہیں، 100 ارب روپے خرچ کریں، پورا حساب دیں گے، پورٹ قاسم اور دیگر اتھارٹیز کے ساتھ ہمارے معاملات حل کرائیں، گورنر اچھی نیت کے آدمی ہیں، کام کرنا چاہیے ہیں، میں ان کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ گورنر میرے بڑے بھائی ہیں، ان کے ساتھ مل کر شہر کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں، گورنر سندھ تاریخ رقم کر سکتے ہیں، ایک طرف وزیراعلیٰ اور دوسری جانب گورنر سندھ فنڈ دے رہا ہو، تو بہت زبردست ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں عید کے موقع پر تھیٹرز میں فحاشی اور عریانی روکنے کیلیے سخت اقدامات
  • معمول سے کم بارشیں،تربیلا،منگلا ڈیمز میں پانی کی شدید قلت،خشک سالی کا الرٹ جاری
  • سلامتی کونسل: پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے عملی اقدامات کا مطالبہ
  • لاہور ہائیکورٹ: مہنگائی کیخلاف درخواست پر پنجاب حکومت نے جواب جمع کرانے کیلئے مہلت مانگ لی
  • بھارتی پنجاب کو خالصتان بنانے کیلئے امریکا میں سکھوں کا ریفرنڈم کامیاب
  • پانی کا مسئلہ ہماری اولین ترجیح، 6 کینالز کا معاملہ ہر فورم پر اٹھا رہے ہیں؛ بلاول بھٹو
  • گورنر سندھ بڑے بھائی ہیں، انکے ساتھ ملکر شہر کیلئے کام کرنا چاہتا ہوں، میئر کراچی
  • دریائے سندھ میں پانی کے زائد نقصانات سے ملک میں پانی کی قلت مزید سنگین
  • پانی بچائیں، مریم نواز: پنجاب میں 40 ہزار سپیشل طلبہ کو عید گفٹ کی تقسیم شروع