رمضان ، قرآن اور پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
’’رمضان، قرآن اور پاکستان ‘‘ تین لفظ ہیں اور تینوں ہم وزن ہیں، ان لفظوں کا ہم وزن اور ہم معنی ہونا اتفاق نہیں بلکہ منشائے الٰہی ہے، تینوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے، رمضان المبارک کی اپنی اہمیت اور بے شمار فضائل ہیں، اس ماہ مبارک کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ اس میں دنیا کی سب سے مقدس کتاب کا نزول ہوا اور دوسری فضیلت لیلۃ القدر ہے۔
لیلۃ القدر ایسی عظمت والی ہے کہ اس ایک رات کا ثواب ہزار مہینوں سے زیادہ ہے۔ رمضان المبارک کی تیسری فضیلت اعتکاف جیسی عبادت ہے، رمضان کی چوتھی فضیلت قیام اللیل یا نماز تراویح ہے، رمضان کی پانچویں فضیلت یہ ہے کہ اس میں ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی معلوم ہے کہ اسلامی مہینوں میں سب سے مقدس اور بابرکت مہینہ رمضان ہے، رمضان کے تین عشروں میں سب سے فضیلت والا آخری عشرہ ہے، اس عشرہ میں طاق رات ہے جسے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ لیلۃ القدر آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کسی ایک را ت میں پائی جاتی ہے، تاہم ستائیسویں شب میں لیلۃ القدر پائے جانے کا امکان سب سے قوی ہوتا ہے، پاکستان 27 رمضان المبارک 1368ء ھ، 14اگست 1947ء کو منصئہ شہود پر آیا، رمضان المبارک جیسے مقدس مہینہ، مقدس عشرہ اور مقدس ترین رات میں پاکستان کا قیام اللہ کی رحمت کا عالی شان نشان اور انعام ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ، اور پاکستان کے قیام کا محرک اسلام ہے، پاکستان کے قیام کی تحریک درحقیقت اسلام کے غلبہ و احیاء کی تحریک تھی۔ اگر اس تحریک کا محرک اسلام نہ ہوتا تو یہ کبھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچتی، مسلمان برصغیر کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے اور منتشر تھے، غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے، ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے ہوئے تھے، ان کی قوت و طاقت اور شان و شوکت پارہ پارہ ہو چکی تھی ان کا عروج زوال میں اور اقبال ادبار میں ڈھل چکا تھا، وہ اضمحلال اور شکست و ریخت کا شکار تھے۔
عیار انگریز نے بڑی چالاکی سے مسلمانوں کو اختلاف در اختلاف کے جال میں الجھا رکھا تھا۔ کہیں مذہب کے نام پر اختلافات تھے، کہیں سیاست کے نام پر اور کہیں طبقاتی و معاشرتی تفریق کی چکی میں مسلمان پس رہے تھے۔
مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کا بچھایا ہوا جال بظاہر بہت مضبوط اور سخت تھا، غلامی کی جن مضبوط زنجیروں میں انگریزوں نے مسلمانوں کو جکڑا ہوا تھا، بظاہر ان زنجیروں کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ متحدہ ہندوستان بہت بڑا خطہ تھا، اس وسیع و عریض خطہ کے طول و عرض میں مسلمان بکھرے ہوئے تھے، یہ وہ دور تھا جب آزادی کا نام لینا جرم تھا، سرفروشوں کے لئے دار ور سن تھے اور خانزادوں، استعمار کے ایجنٹوں، غداروں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں۔
ان حالات میں پاکستان کے قیام کی نہ صرف تحریک چلی بلکہ کامیابی سے بھی ہمکنار ہوئی، اسلام قرآن اور کلمہ طیبہ کی برکت نے متحدہ ہندوستان میں بکھرے مسلمانوں کو متحد ومتفق کر دیا۔ ان کی کمزوری کو طاقت و قوت میں بدل دیا ، ان کو ایک لڑی میں پرو دیا، ان کے ادبار کو اقبال میں اور ان کے زوال کو عروج میں بدل دیا، یہ حقیقت ہے کہ اگر اسلام کا پلیٹ فارم نہ ہوتا اور کلمہ طیبہ کا جھنڈا مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو پاکستان کبھی بھی دنیا کے نقشے پر قائم نہ ہو پاتا۔ تحریک پاکستان کے ایام میں مسلمانوں کے کیا احساسات و جذبات تھے ان کا اندازہ ہم اس واقعہ سے کر سکتے ہیں جس کا ذکر آغا شورش کاشمیری نے اپنی کتاب بوئے گل نالہ دل و چراغ محفل میں کیا ہے وہ اپنی کتاب کے صفحہ 269۔297 میں لکھتے ہیں ۔
’’متحدہ ہندوستان کے آخری الیکشن میں میں نے بہار اور یوپی کے بعض اضلاع کے قصبات و دیہات کا دورہ کیا، لکھنو اور پٹنہ کا مزاج دیکھا، بہڑائچ سے نانپارہ اور نیپال کی سرحد تک گیا ، وہاں سے آگرہ کی طرف لوٹا ،کانپور سے فرخ آباد چلا گیا، قنوج وغیرہ کے علاقے میں گھوما پھرا، سہارنپور ،ڈیرہ دون پہنچا، غرض یوپی اور بہار کا سفر کیا نتیجتاََ میں اپنی رائے کو چھپانا نہیں چاہتا کہ ان دور افتادہ مسلمانوں کو پاکستان کا نشہ اتنا چڑھا ہوا تھا کہ وہ اس کے لئے اپنے مستقبل سے غافل ہو گئے تھے۔ ان علاقوں میں ہزار کی ہندو آبادی میں ایک مسلمان کے لئے بھی یہ نعرہ نہایت ہی پرکشش تھا کہ ’’ جیسے لیا تھا ہندوستان ویسے ہی لیں گے پاکستان‘‘۔۔۔’’ بولو بھیا ایک زبان بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔ نیپال کی سرحد سے ذرا ادھر میں نے ایک مسلمان کسان کو روک کر السلام علیکم کہا تو وہ رک گیا اور وعلیکم السلام کہا۔
میں نے اس سے سوال کیا’’ ووٹ کسے دوگے؟‘‘
اس نے غور سے مجھے دیکھا اور لاٹھی بڑھا کر چل دیا، میں نے پیچھے سے آواز دیکر پوچھا۔
’’ بھائی کچھ تو کہہ جا ‘‘
’’ میاں ! ہمارا ووٹ کلمہ کے ساتھ ہے ‘‘
’’ کلمہ سے تمہارا کیا مطلب ہے ؟‘‘
’’کہنے لگا مسلم لیگ‘‘
یہ تھے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات ، ان کے نزدیک کلمہ طیبہ کا مطلب تھا مسلم لیگ اور مسلم لیگ کا مطلب تھا کلمہ طیبہ ۔
کسی بھی تحریک کی بنیاد ہوتی ہے عقیدہ ، نظریہ ، سوچ اور فکر ۔۔۔ عقیدہ اور نظریہ جتنا مضبوط اور توانا ہو گا تحریک میں اتنی ہی جان اور طاقت ہوگی ۔ پاکستان کے قیام کے لئے چلنے والی تحریک کی بنیاد تھی ۔۔۔کلمہ طیبہ ۔۔۔۔ سو کلمہ طیبہ والے پرچم تلے متحدہ ہندوستان کے مسلمان انگریز ، ہندو اور سکھوں کے خلاف ڈٹ گئے اور سینہ سپر ہو گئے، انسان کو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستان کے وہ دور دراز علاقے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ پاکستان میں شامل ہو سکیں گے، ان علاقوں کے مسلمان ، کہیں زیادہ پرجوش اور متحرک تھے ان مسلمانوں کے مقابلے میں جن کے علاقے یقینی طور پر پاکستان میں شامل ہو رہے تھے۔
جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں تھے ان کے ولولے کہیں زیادہ مائل بہ پرواز اور حوصلے مصائب سے بے نیاز تھے ۔ ان مسلمانوں کو اگر کسی چیز نے پاکستان کے لئے ڈٹ جانے اور کٹ مرنے کے لئے آمادہ کیا تو وہ اسلام ہے ، قرآن ہے اور کلمہ طیبہ ہے۔ کعبہ کا رب اس بات پر گواہ ہے کہ اگر مسلم لیگ کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ نہ ہوتا۔ ہندوستان کے مسلمان فوج در فوج ، گروہ در گروہ اور لشکر جرار کی صورت میں اس کے جھنڈے تلے کبھی بھی جمع نہ ہوتے۔
اقلیتی علاقوں کے مسلمان کو ایک اور بات نے بھی پاکستان کے لئے کٹ مرنے پر آمادہ کیا اس کا ذکر نسیم حجازی نے اپنی کتاب ’’خاک اور خون‘‘ میں ان الفاظ میں کیا ہے ’’تحریک پاکستان کے ایام میں امر تسر میں جلسہ تھا۔ اس جلسہ میں علی گڑھ سے آنے والے طلبہ کا بھی خطاب تھا۔ جلسہ کے بعد امرتسر کالج کے طلبہ نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے کہا ’’اول تو ہمیں امید ہے کہ ہمارے علاقے پاکستان میں شامل ہو جائیں گے۔
اگر نہ بھی ہوئے تو ہم سحری کے وقت ہم امر تسر سے چلے تو طلوع آفتاب تک لاہور پہنچ جائیں گے لیکن آپ لوگوں کا تعلق جن علاقوں سے ہے ان علاقوں کا پاکستان میں شامل ہونے کا تصور بھی محال ہے اور آپ لوگوں کا پاکستان پہنچنا بھی مشکل ہوگا ۔ اس کے باوجود آپ لوگ قیام پاکستان کی تحریک میں پیش پیش ہیں ۔ ۔ ۔آخر کیوں ؟‘‘ ان طلبہ کا جواب تھا ’’ہم جانتے ہیں کہ ہمارے لئے زندہ سلامت پاکستان پہنچنا مشکل ہوگا ، ہم گھیر لیے جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ جس پاکستان کے لیے ہم جدو جہد کر رہے ہیں وہ اسلام کا قلعہ ہو گا وہاں سے ضرور کوئی محمد بن قاسم اٹھے گا جو ہماری ماؤں ‘ بہنوں کو دیوی اور دیوتاؤں کے پجاریوں سے رہائی دلائے گا ۔
1947ء کے موقع پر لاکھوں مسلمان لٹ پٹ کر پاکستان پہنچے تھے، لاکھوں شہید ہوگئے، لاکھوں مسلمان ماؤں بہنوں کی عصمتیں لٹ گئیں، لاکھوں عفت مآب خواتین وہ تھیں جو بلوائیوں نے اٹھا لیں اور لاکھوں مسلمان ایسے تھے جو پاکستان آنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن نہ آسکے۔ ان ستم رسیدہ مسلمانوں کو اور عفت مآب ماؤں بہنوں کو برہمن کے چنگل سے آزاد کروانا ہماری ذمہ داری تھی۔
پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ 14اگست 1947ء کو جب پاکستان منصئہ شہود پر آیا تب رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی، یہ وہی شب ہے جس میں قرآن پاک نازل ہوا۔ اس طریقے سے خالق کائنات اور قرآن پاک کو نازل کرنے والے اللہ نے قرآن اور پاکستان کو باہم مضبوط اور مربوط کر دیا تھا۔
ستائیسویں شب میں پاکستان کا قیام خالق کائنات کی طرف سے اس بات کا اشارہ تھا کہ پاکستان کا مستقبل صرف اسلام اور قرآن سے وابستہ ہے۔ جس کتاب مقدس سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے اس کتاب کا واضح حکم ہے کہ ’’ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں نہیں لڑتے، ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے جو دشمن کے گھیرے میں ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں نکال ظالموں کی بستی سے، بھیج ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی دوست اور مددگار ۔‘‘
اس حکم کی رد سے ہمارا فرض تھا کہ اپنے ان بھائیوں کا بدلہ لیتے جو تحریک پاکستان کے ایام میں ہندؤں کے ہاتھوں شہید ہو گئے، ہم ان ماؤں بہنوں کا بدلہ لیتے جن کی عزتیں اور عصمتیں لوٹ لی گئیں۔
ہم ان بچوں کا بدلہ لیتے جنہیں نیزوں کی انیوں میں پرو دیا گیا ، تلواروں سے چھلنی کر دیا گیا اور آگ میں زندہ جلا دیا گیا ۔ ہمارا حق تھا کہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں وہ مسلمان جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہم انہیں برہمن کی غلامی سے آزاد کرواتے، ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہم نے کیا آزاد کروانا تھا، ہم تو اپنا آدھا وطن گنوا بیٹھے اور باقی ماندہ وطن عزیز کے حالات بھی دگر گوں ہیں۔ وطن عزیز میں آج فتنے اور طوفان امڈتے چلے آرہے ہیں اور دشمن بھوکے گدھ کی طرح ہم پر جھپٹ رہے ہیں ۔
یہ سب ایسا کیوں ہے ۔۔؟ ہماری ہوا کیوں اکھڑ رہی ہے؟ ہمارے پاؤں کیوں لڑکھڑا رہے ہیں؟ دشمن ہم پر کیوں حاوی ہو رہا ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہے کہ ہم نے قرآن پاک کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم قرآن پاک کی تعلیمات کو نہیں سمجھ رہے اور اس کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر رہے۔ قرآن پاک کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم کمزور اور دشمن ہم پر حاوی ہو رہا ہے اور ہمارا رعب و دبدبہ زائل ہو رہا ہے ۔
ہماری دھاک جھاگ کی طرح بیٹھ رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس کلمہ طیبہ کی بدولت ہمیں پاکستان ملا ، قیام پاکستان کے بعد اگر اس کلمہ طیبہ کے عملی تقاضے پورے ہو جاتے ، قرآن مجید پاکستان کا دستور اور سپریم لاء بن جاتا اور پاکستان میں اسلام نافذ ہو جاتا تو پھر کتنی خیر و برکت ہوتی، پاکستان کتنا مضبوط اور طاقت ور ہو جاتا ہے۔
ساڑھے چودہ سوسال پہلے قائم ہونے والی ریاست مدینہ چھوٹا سا، معمولی سا اور غیر معروف شہر تھا اور جب مدینہ کی قسمت اسلام سے وابستہ ہوئی تو پھر مدینہ دنیا کی طاقتور ترین ریاست کا دارالخلافہ بن گیا، دنیا کے نقشے اور جغرافیے مدینہ کی کچی بستی میں بیٹھنے والے مسلمان خلفاء کی تلواروں کی نوک سے بنتے اور مٹتے تھے۔ ریاست مدینہ کے بعد پاکستان اسلامی دنیا کی دوسری ریاست تھی جو صرف اور صرف اسلام کے نام پر قائم ہوئی۔ اگر اس ریاست کا مقدر بھی اسلام سے وابستہ ہو جاتا تو یقینا پاکستان بھی دنیا کی طاقتور اور مضبوط ترین ریاست بن جاتا اور یہ ملک دنیا کی سپر پاور بن جاتا ۔ آج افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے
اگر میں سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
دشمن پاکستان پر دانت جمائے بیٹھے ہیں اس کے بخیئے ادھیڑنے کے درپے ہیں ، ان حالات میں ہماری بقا، سلامتی اور تحفظ کا راستہ صرف ایک ہے کہ ہم قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ رمضان المبارک میں پاکستان کا قیام اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے نور الٰہی کے نور سے منور کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے مینارہ نور بنا دیں ۔ یہی کامیابی، عزت اور بقا کا راستہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں شامل ہو پاکستان کے قیام متحدہ ہندوستان رمضان المبارک ہندوستان کے مسلمانوں کے مسلمانوں کو اور پاکستان میں پاکستان پاکستان کا لیلۃ القدر مضبوط اور کے مسلمان کلمہ طیبہ قرا ن پاک کے نام پر قرا ن اور مسلم لیگ ہے کہ اس کا بدلہ نہ ہوتا رہے ہیں نے والے دنیا کی تھا کہ اگر اس کر دیا ہے اور کے لئے
پڑھیں:
مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور دہلی کی افطار پارٹیوں کے قصے
افتخار گیلانی
جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے ، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ہندوستان میں اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے ؟ابھی حال ہی میں ہندوستان کے شمالی اتراکھنڈ صوبہ کے ہری دوار کے ایک کالج میں ہندوانتہا پسندوں نے مسلم طلبہ کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کو درہم برہم کردیا۔ بعد میں پرنسپل نے بھی مسلم طالبعلموں کوافطار کے وقت کھانا لانے اوراس کودیگر طلبہ کے ساتھ ساجھا کرنے پر پابندی عائد کر دی۔اسی طرح میرٹھ کی ایک یونیورسٹی کے احاطہ میں نمازادا کرنے پرایک طالبعلم کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر دائر کی۔
ایک وقت تھا خاص طور پر دارالحکومت دہلی میں کہ رمضان میں سیاسی و سماجی لیڈروں، سیاسی پارٹیوں، سفارت خانوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے افطار پارٹیاں منعقد کرنااوراس کی آڑ میں رابطہ اور باہمی میل جول بڑھانا قابل اعزاز سمجھا جاتا تھا۔صدارتی محل یعنی راشٹرپتی بھون، وزیراعظم دفتر، وزیروں و سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں رمضان کے دوران اذان کیا واز گونجتی تھی اور مدعو مسلمان باجماعت نمازادا کرتے تھے ۔ کئی بار تو وزیروں کو نماز کے لیے مصلے بچھاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے ، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران بھی اپنے گھروں پرافطار پارٹیاں منعقد کرتے تھے ۔اس کے لیڈران سابق وزیرسید شاہنواز حسین اور وجئے گوئل کی افطار پارٹیاں دہلی کے اشرافیہ اور صحافیوں میں خاصی مشہور ہوتی تھیں۔ وجئے گوئل تو پرانی دہلی میں سحری کاانتظام کرتے تھے ۔ رات بھرایک سماں ہوتا تھا۔
کانگریس پارٹی کی افطار پارٹی کی ایک الگ ہی شان ہوتی تھی، جواس کے دفتر میں منعقد ہوتی تھی۔ ملک بھر کے کانگریسی لیڈران دہلی وارد ہوکراس میں شرکت کرتے تھے ۔ بعد میں کئی بار پارٹی کواس کو دفتر کے بجائے اشوکا ہوٹل میں منعقد کروایا گیا۔ پارٹی صدر سونیا گاندھی خود روزہ داروں کوافطار کرواتی تھی اور پر میز پر چند لمحے توقف کرکے سبھی کا حال چال پوچھتی تھیں۔مجھے یاد ہے کہ بی جے پی نے اپنے دفتراشوکا روڑ میں 1998میں ایک افطار پارٹی کاانعقاد کیا تھا۔ چونکہ اس کے بعد وہ حکومت میں آئی تھی،اس لیے وزیراعظم بننے کے بعداٹل بہاری واجپائی پارٹی، دفتر کے بجائے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہر سالاس کا نظم کرتے تھے ۔ 2014 سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سے افطار پارٹیوں کاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔
خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کے لیے افطار پارٹیاں سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور سیاسی حالات کی نبض پرکھنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔اس مقدس ماہ میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں اس قدر عروج پر ہوتی تھیں کہ میڈیا اداروں میں افطار پارٹیاں کور کرنے کے لیے باضابطہ رپورٹروں کی بیٹ لگتی تھی۔وزیراعظم ہاؤس یا راشٹرپتی بھون میں حکومت اور عدلیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتیں ہوتی تھی اور خاصی آف ریکارڈانفارمیشن حاصل ہوتی تھی۔ مخلوط حکومتوں کے دوران اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی تھی کہ حکومتی اتحاد کے کس لیڈر نے افطار پارٹی میں شمولیت کی اور باڈی لنگویج کیسی تھی اور حکومت پر کس طرح کے خطرے منڈ لا رہے ہیں۔صاحب اختیار واستطاعت افراداس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بطور، مگر زیاد ہ تراپنے آپ کو سیکولر جتانے اوراس کی نمائش کے لیے افطار پارٹیوں کااہتمام کراکے اپنا ووٹ بینک پکا کروانے کا بھی سامان کرتے تھے ۔
سال 1998 میں بی جے پی کے صدر دفتر پر منعقدافطار کی تقریب میں جب میں پہنچا تو دیکھا کہ پارٹی آفس کے وسیع و عریض لان میں شامیانہ لگا ہوا تھا، جس کے دروازے پر خود واجپائی اور چند دیگر لیڈران ٹوپی پہنے مہمانوں کااستقبال کر رہے تھے ۔ابھی افطار میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، مگر شامیانہ کے اندر چائے سموسہ اور کھجوروں کا دور چل رہا تھا۔لوگ آرام سے کھا پی رہے تھے ،افطار کے وقت کا کسی کو احساس نہیں تھا۔سید شاہنواز حسین، جو بعد میں مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے ، ان دنوں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے لیڈر تھے ۔ بستی نظام الدین اور دیگرعلاقوں سے چنندہ مسلمانوں کوافطار پارٹی میں لانے کی ذ مہ داری ان کو دی گئی تھی۔ وہ کیٹرنگ والے سے الجھ رہے تھے کہ افطار سے قبل ہی انہوں نے ناشتے کی قابیں کیوں سجائی ہوئی تھیں۔ خیر جب افطار کا وقت ہوا، تو خالی قابیں روزہ داروں کا منہ چڑھا رہی تھیں۔کسی طرح پانی وغیرہ پی کر روزہ تو کھولا۔اب مغرب کی نمازادا کرنے کا کوئی نظم نہیں تھا۔جن مسلمانوں کو تقریب میں لایا گیا تھا و ہ شاہنواز پر برس رہے تھے ۔ کسی طرح انہوں نے دفتر کے پچھواڑے میں نماز کے لیے لان کو صاف کروایا۔اب جس وقت روزہ دار نمازادا کررہے تھے کیٹرنگ والے نے ڈنر پیکٹ بانٹنے شروع کردیے ۔ بجائے قابوں میں کھانا پروسنے کے ، پارٹی نے ڈنر پیکٹوں کاانتظام کیا ہوا تھا۔ جب تک نماز ختم ہو جاتی اور روزہ دار شامیانہ میں واپس آجاتے ، معلوم ہوا کہ سبھی ڈنر پیکٹ ختم ہو چکے تھے ۔ بھوکے پیاسے روزہ دار شاہنوازاور بی جے پی کو صلواتیں سناتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے ۔
دارالحکومت دہلی میں 2014میں وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدارانے کے بعد سے ہی اس ماہ کی رونقیں چھن گئی ہیں۔ مودی کی دہلی آمد کے فوراً بعد ہی دارالحکومت میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔چونکہ انہوں نے اپنے وزراء کو بھی پارٹیوں میں شامل ہونے سے منع کردیا ،اس لیے دیگر سماجی تنظیموں نے بھی آہستہ ہستہ افطار پارٹیوں کے انعقاد سے ہاتھ کھنچ لیے ۔ افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے ، مگر ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے کاایک آؤٹ ریچ کا ذریعہ بھی تھا۔ایک منظم اور پر وقار ماحول میں روزہ کھولنااور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام کا کام ضرورکرتا تھا۔کشمیر میں بھی چونکہ افطار پارٹیوں کا کوئی رواج نہیں تھا،اس لیے دہلی آمد کے بعد یہ میرے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ کشمیر میں تو زمانہ امن میں بھی افطار سے قبل ایک طرح سے کرفیو سا لگتا تھا۔مارکیٹ سنسان ہوجاتے تھے ۔ لوگ عام طور پراپنے گھروں یا مقامی مساجد میں ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے تھے ۔افطار کا بھی الگ سے کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی نمازادا کرنے کے بعد لوگ ڈنر کرتے تھے ۔اس ماہ کے دوران تقریباً سبھی سرگرمیاں اور روابط ماند پڑ جاتے تھے ۔
اپنے دور طالب علمی میں ہی 90 کے اوائل میں مجھے پہلی بار سابق وزیراور کیرالہ صوبہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان کی رہائش گاہ پرافطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا۔دوران طالب علمی ان کی ایک قریبی رشتہ دارنے دعوت نامہ دے کرآنے کی تاکید کی تھی۔افطار پارٹی کیا تھی، بس ایک عالیشان شادی کا سا سماں تھا۔ جن سیاسی و سماجی چہروں کو ٹی وی یا اخباروں میں دیکھتے آرہے تھے وہ گوشت و پوست کے ساتھ الگ الگ میزوں پر برا جمان تھے۔وزیراعظم سمیت سبھی مرکزی وزرائ، بالی ووڈ کے ناموراداکار وغیرہ موجود تھے ۔اس پارٹی میں میری پہلی بار مرحوم مفتی محمد سعید سے ملاقات ہوئی۔ گو کہ سوپور میں کئی بار پبلک جلسوں ان کی تقاریر سننے کا موقع ملتا تھا، مگر بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ابھی حال تک ہندوستان کے وزیر داخلہ رہ چکے تھے ۔اس لیے ان کا ساتھ خاصا تام جھام تھا۔کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے بھی میں ان کو گہرے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ میں ان کوہندوستانی ایجنسیوں کا پروردہ، جس کو کشمیری خواہشات کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہو،سمجھتاآرہا تھا، جس نے 1977میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو گرایااور بعد میں 1984میں دہلی کی ایما پر فاروق عبداللہ کو معزول کروایااور جو کشمیر میں سیاسی بے چینی کا سبب بھی رہا۔میری میزبان نے میراان سے تعارف کرایا توانہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ کشمیری مسلم نوجوان یا تو صحافت میں آتے ہی نہیں، یا کریئرکے لیے دہلی کا رخ نہیں کرتے ۔انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ مجھ سے قبل یواین آئی کے شیخ منظوراحمداور سنڈے آبزرور کے ایڈیٹر محمد سعید ملک ہی بس دوایسے کشمیری مسلمان ہیں، جنہوں نے دہلی میں صحافت میں کریئر بنایا۔انہوں نے کسی کو شیخ منظور، جوان دنوں یواین آئی نیوزایجنسی میں سینئر پوزیشن میں کام کرتے تھے ، کو ڈھونڈنے کے لیے کہا۔ منظور صاحب پر نظر پڑتے ہی انہوں نے مجھے ان سے متعارف کرواکران کو صلاح دی کہ وہ میرا خیال رکھیں۔ مجھے بھی مشورہ دیا کہ کشمیر واپس جانے کے بجائے دہلی ہی میں جرنلزم میں جگہ بناؤں اور منظور صاحب اور ملک صاحب سے مشورہ لیتا رہوں۔گو کہ مودی نے آتے ہی وزیراعظم ہاؤس میں افطار کا سلسلہ تو بند کروادیا، مگر صدر پرنب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا تھا۔ 2017 تک اپنی مدت صدارت ختم ہونے تک ا نہوں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔تمام ممالک کے سفیر ،اپوزیشن لیڈران و دیگرافراداس میں شرکت تو کرتے تھے ، مگر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی نے کبھی بھی اس میں شرکت نہیں کی۔ مگرایک یاد و وزیر حکومت کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے ، جو صدر کی ہال میں آمد پران کااستقبال کرکے فوراً ہی رخصت ہوجاتے تھے کہ کہیں دیگر مہمانوں سے ملنے جلنے کے دروان ان کی فوٹو ریکارڈ پر نہ آجائے ۔
راشٹرپتی بھون میں جب ایک بارافطار پارٹی کے بعد مغرب کی اذان تو ہوئی، مگر نماز کے لیے امام کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔وسیع و عریض صدارتی اسٹیٹ کے احاطہ میں ایک مسجد موجود ہے ۔اسی مسجد کے یا پارلیمنٹ کے بغل میں جامع مسجد نئی دہلی کے امام صاحبان اس موقع پرامامت کرتے تھے ۔ مگر دونوں اس دن غائب تھے ۔ معلوم ہوا کہ نئی دہلی کی جامع مسجد کے امام محب اللہ ندوی جواب خیر سے رام پور سے لوک سبھا کے منتخب ممبر ہیں، دیرسے آنے کی وجہ سے باہر سیکورٹی کے اہلکاروں سے الجھے ہوئے تھے ۔اس دوران تمام مسلم ممالک کے سفرائ،اراکین پارلیامان و دیگر زعماء صفوں میں کھڑے امام کو تلاش کر رہے تھے ۔ راجیہ سبھا میں لیڈرآف اپوزیشن غلام نبی آزاد ادھرادھر دیکھ رہے تھے کہ پاکستانی سفیر عبدالباسط نے آگے بڑھ کرامامت کا منصب سنبھال کر نمازادا کروائی۔اس دن معلوم ہوا کہ باسط صاحب ایک خوش الحان قاری بھی ہیں۔ایک روح پرور منظر تھا کہ تمام دنیا کے مسلم ممالک کے سفیر اور ہندوستانی مسلم زعمائ،اشرافیہ اور مسلماراکین پارلیمان ایک پاکستانی سفیر کی اقتدا میں نمارادا کررہے تھے ۔
اسی طرح ایک بار صدارتی محل ہی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی دوسری مدت حکومت میں مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہاں اس تقریب میں ہم دو کے علاوہ کوئی اور روزہ دار نہیں لگ رہا ہے ،افطار کا وقت ہورہا ہے ،اس لیے ہم ڈنر ہال کے گیٹ کے پاس بیٹھ کر فوراً ہی اندر چلے جاتے ہیں۔صدروسیع و عریض اشوکاہال میں آکر سبھی مہمانوں سے ایک ایک کرکے مل رہے تھے ، فاروق صاحب سمجھا رہے تھے کہ ہم افطار کرنے آئے ہیں، دیگرافراد کی طرح صدر سے ملنے نہیں آئے ہیں۔ شاید راشٹرپتی بھون کے بیرے بھی ہمیں دیکھ کر تاسف کر رہے تھے ۔ان میں سے ایک نے آکر ہمیں تسلی دی کہ افطاری میں خاصے لوازمات وافر مقدار میں ہیں۔وہ یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ ندیدوں کی طرح دروازے پر پہرہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ،افطار کے وقت ناشتہ وغیرہ مل ہی جائے گا۔ میں نے فاروق صاحب سے پوچھا کہ ان کی رنگیلی طبعیت اورامیج کے برعکس وہ آجکل مومن کیسے ہوگئے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں وہ سبھی دنیاوی کام چھوڑ کر روزوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور ختم قرآن شریف بھی کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ماں اکبر جہاں کااعجاز ہے کہ وہ ان کواور دیگر بھائیوں اور بہنوں کو روزہ اور تلاوت قرآن کی تاکید کرتی تھی۔ اپنے باپ شیخ محمد عبداللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت ہی سخت گیر قسم کے والد تھے اور اکثران کو چھڑی سے پیٹتے تھے ، پر والدہ ہی ان کو چھڑاتی تھی۔بیگم اکبر جہاں،ایک نومسلم انگریز جان نیڈواورایک کشمیر ی گوجر لڑکی کی اولاد تھی۔ مگر سخت مذہبی اور صوم و صلوات کی پابند خاتون تھی۔ فاروق صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں وہ رمضان میں روزہ و نماز کا سختی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔
من موہن سنگھ کی وزات اعظمیٰ کے دور میں وزیراعظم ہاوس میں افطار پارٹی کے موقع پر دیکھا کہ چند مسلم زعما نے وزیراعظم اور سونیا گاندھی کو گھیرا ہوا تھا، وہ سوال کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے چند سال قبل مسلمانوں سے متعلق سچر کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرنے کے باوجود عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟پبلک سیکٹر بینک مسلم تاجروں یااسٹاٹاپ کو قرضے دینے سے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ میں انہی دنوں میرٹھ کسی اسٹوری کے سلسلے میں گیا تھااور وہاں ہاشم پورہ محلہ کے 1989 کے فسادات کے مثاثرین سے ملنے پہنچا۔ فسادات کے متاثرین میں ایک ڈاکٹر جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے ، ٹھیک ہوکر بزنس کرنا چاہتے تھے ، کیونکہ ان کی میڈیکل لائسنس کینسل کر دی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اعلانات کے باوجود، کوئی بھی بینک لون نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھ سے اپنے ایک پرنٹنگ پریس میں گفتگو کر رہے تھے ۔میں نے پوچھا کہ یہ پریس پھر کیسے وجود میں آیا؟ توانہوں نے کہا کہ سال بھر قبل ادھر چوک میں ایک کشمیری بینک کھلا۔ جب میں نے وہاں درخواست دی، توانہوں نے فوراً منظور کی۔ معلوم ہوا کہ جموں و کشمیر بینک، جو ہندوستان کا پبلک سیکٹر کا چوتھا بڑا بینک تھا، اس کی شاخ کھل گئی تھی۔اس سے میرے دماغ کی بتی جیسے روشن ہوگئی۔
وزیراعظم کے ساتھ اس گروپ کی تکرار سنتے ہوئے ، میں نے وہیں کھڑے ہی مشورہ دیا کہ بینکوں کے اس رویہ کا حل بس یہ ہے کہ جموں و کشمیر بینک کو ترغیب دی جائے کہ مسلم علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اپنی شاخیں کھولے ۔من موہن سنگھ نے کہا کہ ابھی افطار کا وقت ہو رہا ہے ۔ ڈنر کے بعد چند منٹ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ان زعما کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پر میں نے ان سے کہا کہ اس وقت ملنے کے بجائے ان سے باضابطہ اپائنٹمنٹ لے کر تیاری کے ساتھ میٹنگ کا بندوبست کرو۔ ہوسکے تو سچر کمیٹی کے افسران ظفر محموداورابو صالح شریف کواپنے ساتھ وفد میں لے کر ملاقات کا بندوبست کرو۔ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے ، چونکہ اس کو معلوم ہوگا کہ ملاقات کاایجنڈہ کیا ہے وہ کابینہ سکریٹری یا کم سے کم فائنانس سکریٹری کو بھی بلائیں گے اور ہاتھوں ہاتھ آپ کے مسائل حل ہوجائیں گے ۔مگر کون سنتا۔ خیر ڈنر کے بعد لان کے متصل کمرے میں ان زعما کو بلایا گیا۔ چونکہ جس وقت انہوں نے وزیراعظم کو گھیرا ہوا تھا، میں بھی موجود تھا،اس لیے گھیر کر مجھے بھی ان کے ساتھ ہی لے جایا گیا۔ وزیراعظم کے سیٹ پر بیٹھتے ہی، بجائے ان سے سچر کمیٹی کی سفارشات پر گفتگو کی جاتی، لکھنؤ سے آئے ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ حال ہی میں ہندوستان نے کیوں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹنگ کی؟اس معاملہ کو لے کر انہوں نے خوب تقریرجھاڑی۔ مجھے بس اتنا سنائی دیا کہ من موہن سنگھ نے کہا کہ اس میں ملک کا مفاد تھااس پر وہ کوئی اور گفتگو نہیں کریں گے ۔ لگا کہ اب اپنے مسائل پر یہ زعما بات کریں گے کہ ایک کونے سے ایک اور صاحب نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہو رہی بربریت کا ایشو اٹھایا اور سوال کیا کہ ان کی حکومت اس پر کیوں خاموش ہے ۔دس منٹ کی یہ میٹنگ اسی غیر سنجیدگیاور خارجہ پالیسی سے متعلق تقریروں کے ساتھ ختم ہوگئی۔ جس کے لیے یہ میٹنگ منعقد کی گئی تھی، وہ ایشو ہی نہیں اٹھائے گئے ۔ اس واردات سے پرے افطار پارٹیاں یقیناً حکمرانوں کے ساتھ ایک کھلے اور باوقار ماحول میں براہ راست ملنے کا موقع فراہم کرتی تھیں۔بتایا جاتا ہے کہ 70 کی دہائی کے اواخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آوٹ ریچ کے لیے افطار پارٹیوں کے سلسلہ کو شروع کیا تھا، جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے دور میں یہافطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔وزیراعظم مودی اوران کے دست راست وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کوایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے ،افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضح مثا ل ہے ۔
حال اب یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی اپنے حامیوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ تزک واحتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کااہتمام نہ کیا جائے ۔اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈرافطار کااہتمام کرتا ہے تو لیڈروں کی تصویر یا پارٹی کا بینرآویزاں نہیں ہونا چاہیے ۔ چند سال قبل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی نے لیڈروں کو ہدایات دی تھیں کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظرآئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ پچھلے سالوں سے کئی شہروں میں مسلمانوں کے لیے افطاری کا بندوبست کرتی ہیں۔اس سال تو دہلی میں اسرائیلی سفارت خانہ نے بھی افطار پارٹی منعقد کی ۔ پتہ نہیں کہ اس میں شامل مسلمانوں نے اسرائیلی سفیر کو فلسطین اور غزہ پرمسلط جنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا یا بس شکم بھر کر ہی واپس لوٹے ۔خیر ہندوستان میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے ۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے ، مگراب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظرآتی ہیں، توانہیں ہندواکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے لیے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جوآبادی ہے اس کا دسواں حصہ ہندوستان میں ہے ، مگراس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنادیے گئے ہی۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا۔اس کے ماننے والوں نے ہندوستان میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کااستعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔