Islam Times:
2025-03-25@17:09:39 GMT

قرآن کریم اور اطاعت علی علیہ السلام 

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

قرآن کریم اور اطاعت علی علیہ السلام 

اسلام ٹائمز: نبی اکرم  ﷺ کا فرمان بھی سب کے سامنے ہے کہ  قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور یہ دونوں کبھی آپس میں جدا نہیں ہوں گے۔ حضرت علیؑ کی پیروی اور اطاعت پوری امت پر اس لئے بھی واجب ہے کہ اس کا حکم قرآن کریم میں اللہ تعالےٰ نے براہ راست فرمایا ہے جبکہ سینکڑوں احادیث نبوی اور متعدد بار سیرت نبوی کے ذریعے بھی رسول اللہ ﷺ  کا حکم ہم تک پہنچا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی اطاعت بھی ہم پر اسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ تعالےٰ کا حکم ماننا واجب ہے۔ لہذا اللہ اور رسول ؐ کے احکامات کے تحت حضرت علیؑ کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔  تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ ”یاعلی ما عرفک حق معرفتک غیر اللہ وغیری “ یعنی اے علیؑ تمہیں میرے اور اللہ کے سوا کسی نے پہچانا ہی نہیں۔ اگرچہ اس مستند اور مسلّمہ حدیث کے بعد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پر بات کرنا یا بات لکھنا بنتا ہی نہیں اور نہ ہی کسی کی بات بن سکتی ہے لیکن ”ذکر علی عبادۃ“ کے نبوی حکم کو سامنے رکھتے ہوئے ہم امیرالمومنینؑ کے ذکر میں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے نبی ﷺ کی ارشاد فرمائی ہوئی باتوں کا مختصر تذکرہ کریں تو ہماری بات کسی حد تک لوگوں تک پہنچ سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے علی ابن ابی طالبؑ کے بارے میں اپنے پاک کلام یعنی قرآن کریم میں باتیں کی ہیں جبکہ پیغمبر اکرم  ﷺ نے احادیث مبارکہ کے ذریعے علیؑ کی باتیں کی ہیں۔ احادیث مبارکہ کے بارے میں تو مستند اور صحیح کی بحث ہوسکتی ہے لیکن کلام الٰہی کے بارے میں اس قسم کی کوئی بات نہیں کی جاسکتی، حتیٰ کہ سوچی بھی نہیں جا سکتی۔ اس لئے ہم آج علیؑ کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ کی باتیں بیان کریں گے یعنی آیات قرآنی کا تذکرہ کریں گے۔ 

سورہ رعد آیت ۷ میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے ”انما انت منذر و لکل قوم ھاد“ بیشک میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لیے ایک ھادی (رہبر) ہے۔ مستدرک الصحیحین جلد ۳ صفحہ ۹۲۱ کے مطابق حضرت عباد بن عبداللہ اسدی، حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے مذکورہ آیہ مجیدہ کی تفسیر میں فرمایا ”رسول خدا ﷺ منذر یعنی ڈرانے والے ہیں اور میں ہادی ہوں“۔ اسی طرح تفسیر ِ طبری جلد ۳۱ صفحہ ۲۷ پر حضرت ابن ِ عباس ؓ کا بیان ہے کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور فرمایا  ”میں منذر ہوں اور ہر قوم کے لیے ایک رہنماء کی ضرورت ہے۔ پھر اپنا ہاتھ حضرت علی علیہ السلام کے سینے پر رکھ کر فرمایا اے علیؑ  تم ہادی ہو اور میرے لوگ تمہارے ذریعے سے ہدایت پائیں گے“۔ مذکورہ روایت کو سیوطی نے بھی درِ منثور میں اسی آیت مجیدہ کے ذیل میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کو ابن مردویہ، ابو نعیم، ابن عساکر اور ابن نجار نے بھی نقل کیا ہے۔

سورہ سجدہ آیت ۸۱ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’افمن کان مومناکمن کان فاسقا لا یستون“ بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نا فرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے“۔ تفسیر طبری جلد ۱۲ صفحہ ۸۶ کے مطابق عطاء بن یسار کہتے ہیں مذکورہ آیت مدینہ میں حضرت علیؑ اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کے درمیان کچھ سختی اور گرمی پیدا ہوئی۔ ولید بولا میری زبان رواں تر اور میرا نیزہ تیز تر ہے اور میں دشمن کی صفوں کو الٹنے میں تجھ سے کہیں زیادہ مہارت رکھتا ہوں۔ حیدر کرارؑ نے فرمایا خاموش ہوجا۔ تُو فاسق ہے۔ پس اس بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ ”بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتا، پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئیے ان کے لیے (بہشت کے) باغات ہیں۔ یہ سامان ِ ضیافت ان کار گذاریوں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کر چکے تھے اور جن لوگوں نے بدکاری کی ان کا ٹھکانا تو بس جہنم ہے کہ وہ جب اس میں سے نکل جانے کا ارادہ کریں گے تو پھر اسی میں دھکیل دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آگ کا مزہ چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ مذکورہ اس مضمون کو زمخشری، سیوطی، واحدی، خطیب بغدادی اور محب طبری نے بھی نقل کیا ہے۔

سورہ ہود آیت ۷۱ میں خالق کائنات کا ارشاد گرامی ہے ”افمن کان علی بینۃ من ربہ و یتلوہ شاھد منہ“ کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی میں سے ایک گواہ ہو۔ سیوطی مذکورہ آیہ مجیدہ کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں، ابن حاتم، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے کتاب المعرفہ میں حضرت علی ابن ابی طالبؑ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ”قریش میں سے کوئی ایسا آدمی نہیں کہ جس کے بارے میں کچھ آیات نازل نہ ہوئی ہوں۔ ایک آدمی نے عرض کی کہ آپ کی شان میں کون سی آیت نازل ہوئی ہے؟ آپؑ نے فرمایا کیا تم نے سورہ ہود کی یہ آیت نہیں پڑھی جس میں ارشاد ہے ”کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی میں سے ایک گواہ ہو۔ (اس کی تفسیر یہ ہے کہ)  ”رسول خدا ﷺ اپنے رب کی روشن دلیل اور میں ان کا گواہ ہوں“۔  واضح رہے یہ روایت ابن مردویہ اور ابن عساکر کے حوالے سے کنزالعمال میں بھی نقل ہوئی ہے۔ سیوطی پھر لکھتے ہیں ”ابن مردویہ اور ابن عساکر نے اس آیہ مجیدہ کت تفسیر کے سلسلے میں حضرت علیؑ نے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا  ”رب کی روشن دلیل سے مراد رسول اللہ ﷺ اور ان کے گواہ سے مراد میں ہوں“۔

سورہ تحریم آیت ۴ میں اللہ تعالی کا فرمان ذیشان ہے ”فان اللہ ھو مولٰہ و جبریل و صالح المومنین“ پس خدا اور جبرائیل اور تمام اہل ایمان میں سے نیک شخص ان کے مددگار ہیں۔ مردویہ، اسماء بنت عمیس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ”میں نے خود رسول اکرم  ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”صالح المومنین“ سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں “۔ واضح رہے کہ مذکورہ مضمون کو متقی ہندی، ابن حجر ہیتمی اور ابن حجر عسقلانی نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ (کنز العمال جلد ۱ صفحہ ۳۲۔ الصواعق المحرقہ صفحہ ۴۴۱۔ فتح الباری  جلد ۳۱ صفحہ ۷۲)۔ ہیثمی مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۴۹۱ میں رقمطراز ہیں ”حبیب بن یسار سے مروی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد صحابی رسول ﷺ جناب زید بن ارقم  ؓ نے مسجد کوفہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا ”جانتے ہو تم نے کس قدر بھیانک کام انجام دیا؟ میں نے خود آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ”بار الٰہا  ان دونوں بچوں (حسنین شریفین) اور صالح المومنین (حضرت علیؑ) کو تیرے سپرد کرتا ہوں“، ایک آدمی نے عبیداللہ ابن زیاد کو یہ خبر دی کہ زید بن ارقم ایسے کہہ رہے تھے تو اس نے کہا ”اس بوڑھے فرتوت کی عقل زائل ہوگئی ہے“۔ 

سورہ بقرہ آیت ۴۷۲ میں خداوند عالم کا ارشاد ہوتا ہے ” الذین ینفقون اموالھم بالیل والنھار سرا و علانیۃ فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “جو لوگ رات اور دن میں، چھپا کے یا دکھا کے، خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس اجر (ثواب) ہے اور (قیامت میں) نہ ان پر کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے۔ ابن اثیر جزری نے اسدالغابہ جلد ۲ صفحہ ۵۲ میں دو طریق سے روایت کی ہے کہ جناب ابن عباس ؓ نے مذکورہ آیہ مجیدہ کے بارے میں کہا کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ان کے پاس چار درہم تھے جن میں سے آپؑ نے ایک درہم کو رات میں، ایک درہم کو دن میں، ایک درہم کو خفیہ طور پر اور ایک درہم کو اعلانیہ طور پر راہِ خدا میں خرچ کیا (تو یہ آیہ مجیدہ نازل ہوئی)۔ اس روایت کو زمخشری نے کشاف، سیوطی نے تفسیر در منثور  اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں بھی نقل کیا ہے۔ مذکورہ بالا آیات کا ذکر ”مشتے نمونے از خروارے“ کی مثل ہے۔ تمام مکاتب فکر کے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم میں حضرت علی علیہ السلام کی شان میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں جن کا تفصیلی ذکر کئی کتب کا احاطہ کرے گا۔

نبی اکرم  ﷺ کا فرمان بھی سب کے سامنے ہے کہ  قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور یہ دونوں کبھی آپس میں جدا نہیں ہوں گے۔ حضرت علیؑ کی پیروی اور اطاعت پوری امت پر اس لئے بھی واجب ہے کہ اس کا حکم قرآن کریم میں اللہ تعالےٰ نے براہ راست فرمایا ہے جبکہ سینکڑوں احادیث نبوی اور متعدد بار سیرت نبوی کے ذریعے بھی رسول اللہ ﷺ  کا حکم ہم تک پہنچا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی اطاعت بھی ہم پر اسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ تعالےٰ کا حکم ماننا واجب ہے۔ لہذا اللہ اور رسول ؐ کے احکامات کے تحت حضرت علیؑ کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔ امیر المومنین حضرت علیؑ کے یوم شہادت کے موقع پر آئیے اپنے افکار و اعمال کی روشنی میں جائزہ لیں کہ ہم اپنی زندگی میں حضرت علیؑ کی کتنی اطاعت کر رہے ہیں۔ ہمیں احتسابی نظر ڈالنی چاہیے کہ ہم حضرت علیؑ سے دوستی کا تعلق نبھاتے ہوئے آپؑ کے دوستوں سے دوستی اور آپؑ کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں؟ آئیے جائزہ لیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حضرت علی علیہ السلام علی ابن ابی طالب کے ساتھ ہے اور میں حضرت علی رسول اللہ ﷺ ایک درہم کو کے بارے میں اللہ تعالی ابن مردویہ نقل کیا ہے نے فرمایا نازل ہوئی آیہ مجیدہ روشن دلیل کی اطاعت میں اللہ کا فرمان سے روایت اور ابن نہیں ہو بھی نقل واجب ہے کا حکم کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

نکاح؛ رضامندی کا یکساں حق

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

اسلام دین عدل ہے، جو کسی طرح کی ناانصافی کو گوارا نہیں کرتا۔ معاشرے کی بقا کےلیے اسلامی تعلیمات میں ’نکاح‘ کو جزو لازم قرار دیا گیا ہے۔

فرمان رسولؐ ہے ’’نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔

نکاح ایک نہایت سنجیدہ اور حساس کنٹریکٹ ہے جس پر نہ صرف دو افراد کی زندگیاں جڑی ہیں بلکہ آنے والی نسل بھی اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ لہٰذا اس کےلیے شریعت میں بہت سی شرائط اور حدود و قیود کو لازم قرار دیا گیا ہے ،جن میں سے سب سے بڑی شرط ’’ولی‘‘ اور ’’مرد و عورت‘‘ کی باہمی رضامندی شامل ہے۔

شریعت میں ولی سے مراد وہ قریبی رشتہ ہوتا ہے جو خون، نسب اور ذمے داری ہر لحاظ سے اولاد کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، چنانچہ سب سے پہلے والدین، ان کی عدم موجودگی میں باپ کی طرف کے رشتے دار، دادا، چچا اور دیگر، پھر ماں کی طرف کے رشتے دار جیسا نانا، ماموں اور دیگر۔ ولی کی اجازت نکاح کےلیے سرفہرست ہے ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘ اس حدیث کو متواتر احادیث کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے۔ نکاح میں والدین کی رضامندی اسلام کے خاندانی نظام کی ایک بنیادی کڑی ہے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح باطل، باطل، باطل (یعنی کالعدم ) ہے۔‘‘ اس حدیث کو سنن ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی اوردیگر 100 کتبِ حدیث میں روایت کیا گیا ہے۔

لیکن یہ نکاح کے منعقد ہونے کا ایک پہلو ہے۔ اسلام میں جہاں نکاح میں والدین کی رضامندی کو لازم قرار دیا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی لازم کیا گیا ہے کہ نکاح میں لڑکی اور لڑکے کی رضامندی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ ولی کی۔ اور زبردستی کیا جانے والا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کا مکمل احترام کیا گیا ہے۔

لہٰذا شریعت میں جہاں مردوں کو پسند کی عورتوں سے شادی کرنے کا حکم ہے اسی طرح لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اللہ ! کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے‘‘ (صحیح بخاری)

سماج میں عموماً مرد اپنی پسند کا اظہار بھی کردیتے ہیں اور نکاح میں ان کی مرضی کا ایک حد تک لحاظ بھی رکھا جاتا ہے، لیکن لڑکی کے معاملے میں ہمارا معاشرہ اس کی مرضی کے خلاف نکاح کو اس پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں شریعت کے اس بارے میں کیا احکام ہیں۔

رسول اللهؐ کی بارگاہ میں جب بھی کسی لڑکی کی مرضی کے خلاف کیے گئے نکاح کا کیس آیا تو آپؐ نے اس نکاح کو منسوخ فرما دیا اور لڑکی کو اختیار دے دیا کہ وہ اس نکاح کو رکھ لے یا ردّ کردے۔ یعنی کبھی بھی لڑکی کی مرضی کے خلاف نکاح کو لڑکی پر مسلّط نہیں کیا۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ جبری شادی کی حوصلہ شکنی کا درس ملتا ہے۔

رسول اللہؐ نے خود حضرت خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح منسوخ قرار دیا جو کہ حضرت خنساء کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف کیا تھا (صحیح بخاری)

اس طرح آپؐ نے لڑکی کی مرضی کے خلاف باپ کا کیا ہوا نکاح منسوخ فرما کر لڑکی کی پسند ضروری قرار دے دی۔ اور یہ حدیث نبویؐ جبری شادی کے عدم جواز پر ٹھوس دلیل ہے۔

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرے چچا زاد بھائی نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن میرے والد نے اس رشتے کو رد کردیا اور میری شادی ایسی جگہ کرادی جو مجھے پسند نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والد کو بلایا اور اس سے اس بارے میں سوال کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اس کا نکاح کرایا ہے اور اس کےلیے خیر کا ارادہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تیرا نکاح نہیں ہوا، جاؤ اور جس سے چاہو نکاح کرلو۔ (ابن ابی شیبہ)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب لڑکی کی رضامندی کے خلاف نکاح کیا جائے تو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی گئی ہے کہ وہ فرماتی ہیں: ایک لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کردیا ہے تاکہ میرے ذریعہ سے (بھتیجے کی مالی معاونت حاصل کرے اور) اپنی مفلسی دور کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملہ اُس کے اختیار میں دے دیا (چاہے نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اس سے علیحدگی کرلے)۔ اس نے عرض کیا: میں اپنے والد کے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں نے یہ اس لیے کیا کہ عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ اولاد کے نکاح کے معاملے میں والدین کا (اولاد کی مرضی کے خلاف زبردستی کی صورت میں) کوئی حق لازم نہیں ہے۔ (احمد بن حنبل)

شریعت میں کنواری، مطلقہ اور بیوہ تمام عورتوں کا نکاح اُن کی مرضی کے خلاف کرنا جائز نہیں, جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کردیے تھے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن دونوں کے نکاح کو رَدّ فرما دیا۔

لہٰذا نکاح میں ’ولی‘ اور ’اولاد‘ دونوں کی رضامندی یکساں لازم ہے۔ جہاں پر ولی کی اجازت کے بنا نکاح منعقد نہیں ہوتا اور اولاد اپنی ولی کی رضامندی حاصل کرنے کی پابند ہے، اس طرح ولی بھی اولاد کی رضامندی حاصل کرنے کا پابند ہے۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر دونوں کی رضامندی انتہائی ضروری ہے اور کسی کی ہٹ دھرمی قابل قبول نہیں۔

یہ ہے وہ دین اسلام جو اپنے ماننے والوں کو مکمل عدل اور انصاف مہیا کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ اس میں اپنی پسند و ناپسند اور انا کو دین بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ دین اسلام کا یہ مزاج ہی نہیں ہے کہ کسی طرح سے بھی کسی کی بھی حق تلفی ہو، چاہے وہ والدین ہوں یا اولاد۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

متعلقہ مضامین

  • شبِ معراج: مقامِ قاب قوسین کی حقیقت
  • موکب عزادارانِ امام حسینؑ کی جانب سے یومِ شہادتِ امام علیؑ کے موقع پر نمازِ مغربین اور افطار کا اہتمام
  • قرآنِ مجید۔۔۔ اتحاد اور ترقی کا ضامن ہے
  • نکاح؛ رضامندی کا یکساں حق
  • پاراچنار میں یوم علی علیہ السلام
  • وارث قرآن امام علی (ع) قرآن کی عملی تفسیر ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • کوئٹہ، یوم علی علیہ السلام کا مرکزی جلوس علمدار روڈ سے برآمد
  • تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا (پہلا حصہ)
  • یومِ شہادت امام علی علیہ السلام کے موقع پر ایڈیشنل آئی جی کراچی کا سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ