نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں افغانستان پر حملے یا آپریشن کا کوئی ذکر نہیں ہوا، فیصل کریم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کا ہونا ضروری تھا۔ اجلاس میں افغانستان پر حملہ یا آپریشن کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ اور ہم نے کئی بار افغان حکومت کو یہ بات باور کرائی ہے۔فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ امریکہ کا چھوڑا ہوا اسلحہ اب شدت پسندوں کے پاس ہے۔ مولانا فضل الرحمان افغانستان گئے تھے لیکن ان کا فالو اپ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ماضی میں بھی طالبان کا دفتر کھولنا چاہتی تھی۔ اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق ڈیڈ لائن میں تبدیلی کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی۔
کراچی میں رمضان المبارک کے دوران 220بھکاری گرفتار
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: فیصل کریم کنڈی کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
افغانستان و پاکستان کشیدگی کا حل مذاکرات
افغانستان کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے خاتمے کی کوششیں تیز کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کثیر الجہتی مذاکرات کی بحالی پر متفق ہوگئے، ان میں سیکیورٹی، سرحدی تنازعات اور افغان مہاجرین کے امور بھی شامل ہیں۔ پاکستانی وفد میں شامل وزارت تجارت کے حکام نے پاک افغان تجارت، ٹرانزٹ میں رکاوٹوں پر بات چیت کی ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے تعلقات میں کشیدگی کا جو عنصر جنم لے چکا ہے، اس کی وجہ سے یہ تعلقات باہمی ناراضگی کا سبب بن رہے تھے اور اس کے اثرات نہ صرف سماجی تعلقات پر پڑ رہے تھے بلکہ خصوصاً تجارتی سرگرمیاں بھی اس کی زد میں آ کر منفی رجحانات کا پتہ دیتی تھیں اس دوران میں متعدد مرتبہ سرحدوں کی بندش اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال دونوں طرف کے عوام کے لیے رابطوں میں مشکلات کا باعث تھی، تاہم اب یہ خبر تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ بالٓاخر ان تعلقات میں مثبت اشارے ملنے لگے اور تعلقات کی بحالی کی حوصلہ افزا خبریں سامنے آرہی ہیں۔
درحقیقت افغانستان ایک لینڈ لاکڈ مُلک ہے، یعنی اس کے پاس سمندر سے تجارت کا کوئی راستہ نہیں اور اس کی زیادہ تر تجارت کراچی بندرگاہ سے ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کا افغان قوم پر یہ بھی احسان ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی رہے ہوں، اس نے افغان شہریوں کو اِس سہولت سے کبھی محروم نہیں کیا، اِسی لیے افغانستان میں کبھی مال و اسباب کی قلت نہیں ہوئی۔
پاکستان کے دو صوبے، خیبر پختون خوا اور بلوچستان، افغان سرحد سے ملحق ہیں، جب کہ وسط ایشیا کے درمیان ایک کوریڈور یا پٹّی، واخان کے نام سے ہے، جو پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور چین کو آپس میں ملاتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے (متحدہ ہندوستان کے دور سے) باہمی تجارت میں منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تجارت آگے وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلی ہوئی تھی تاہم بعد میں کمیونسٹ روس کے قیام کے بعد یہ صرف کابل تک محدود ہو کر رہ گئی تھی مگر اب کچھ عرصے سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بوجوہ کشیدگی کی وجہ سے یہ تجارت بھی مختلف پابندیوں کی زد میں ہے اور جہاں پاکستان سے مختلف اشیاء خصوصاً گندم، آٹا، تیل و گھی، دالیں، چاول وغیرہ کی برآمد متاثر ہو رہی ہے وہاں افغانستان سے تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی درآمد مشکلات کا شکار ہے، بہرحال اب جب کہ بالاخر بات چیت کا سلسلہ چل پڑا ہے اور جو خبریں مل رہی ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں اور نہ صرف باہمی تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں بلکہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کی امیدیں بھی روشن ہو رہی ہیں۔
دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح وفود کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان میں غیر قانونی مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان عبوری حکومت سرکاری طور پر افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے، جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی نہ صرف افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے بلکہ وہ افغان شہریوں کو ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بھرتی کر رہی ہے۔
ماضی و حال دونوں میں پاکستان افغان حکام سے درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کریں یا دوحہ معاہدے کے تحت عسکریت پسندوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکیں۔ یہ معاہدہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس وعدوں کا امتحان ہوگا اور اس کی بین الاقوامی ساخت کو متاثر کرے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کی حمایت اور افغانستان میں انڈین اثرورسوخ کو قابو کرنے اور ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے طالبان کو اقتدار دلانے میں مبینہ سہولت فراہم کی تھی۔
باوجود اس کے کہ دونوں گروہوں کی نسلی، سیاسی، نظریاتی اور میدان جنگ میں دیرنیہ وابستگیاں ہیں، تاہم اس دفعہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے افغان طالبان سے مطالبہ کر رہا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تین سال سے افغان عبوری حکومت کے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی کوئی نظامِ حکومت۔ وہاں کے عوام سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں، لیکن کوئی عالمی تو کیا، علاقائی مُلک بھی اس عبوری حکومت اور افغان شہریوں کی مدد کو تیار نہیں۔ آج افغانستان کا شمار دنیا کے تین سب سے غریب اور پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے، لیکن بعض پاکستانی ماہرِ مالیات اُس کی کرنسی کی مضبوطی کی جھوٹی کہانیوں سے یہاں کے لوگوں کو فریب دیتے ہیں۔
سب سے زیادہ لوگ افغانستان میں غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، لیکن ہمیں پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ یہ کبھی شکست نہ کھانے والی قوم ہے۔خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں عام شہریوں کے ساتھ، سیکوریٹی اہل کاروں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں صرف دو ایسے قبائل ہیں، جو سرحد کے دونوں اطراف رہتے ہیں۔ افغان جنگوں کے درمیان افغان پناہ گزینوں کو خیبر سے کراچی تک بلا روک ٹوک آنے جانے کی اجازت دی گئی۔
شاید اِتنی آزادی تو انھیں اُن کے اپنے مُلک میں بھی حاصل نہ تھی کہ وہ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام کرتے رہے۔ ظاہر شاہ کا دورِ حکومت سامنے کی بات ہے، جو ایک مکمل بادشاہت تھی اور وہ بھی روسی ساختہ۔ وہ حکومت پہلے دن ہی سے پاکستان کے خلاف تھی۔ ہمارے ہاں افغان پناہ گزینوں کو تنظیمیں تک بنانے کی اجازت تھی۔ ان افغانوں کے رہنما، جو آج طالبان حکومت میں اہم عُہدوں پر ہیں، ہمارے ہاں معزز مہمان ٹھہرے۔ کرزئی صاحب پاکستان میں ڈاکٹری کرتے، ملا عُمر نے اسامہ اور القاعدہ کو پناہ دی، مگر پاکستان کے پچیس کروڑ عوام آج تک ساری دنیا میں دہشت گردی کا الزام بُھگت رہے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستانیوں کو غیر ممالک جانے کے لیے ویزے نہیں ملتے، جب کہ افغان شہری آسانی سے اسائلم حاصل کر لیتے ہیں۔
چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ مشکل میں افغانستان کا ساتھ دیا، سالہا سال تک افغان شہریوں کو یہاں پناہ دی،اب اسے بھی پاکستان میں معاملات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے۔
افغانستان کو کسی بھی دوسرے کی باتوں میں آ کر اسے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ دراصل پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا ایک اہم پہلو معاشی ہے۔ سرحدی تنازعات اور سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان افغانستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار رہا ہے، لیکن موجودہ حالات نے اس تعلق کو نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا کی افغانستان سے واپسی کے بعد، خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوا ہے۔
چین اور روس جیسی طاقتیں اب افغانستان میں زیادہ فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس بات میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا منبع افغانستان ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا بہادر جاتے جاتے اپنا سارا اسلحہ افغانستان چھوڑ گیا جو بعد ازاں تحریک طالبان کے ہتھے چڑھ گیا۔ ٹی ٹی پی امریکا کو بھگانے کا کریڈٹ لیتی ہے۔ شاید اسی مغالطے کے سبب انھوں نے یہ خواہش پال رکھی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر بھی اپنی مرضی کا نظام لانے کے لیے کوشش کر سکتی ہے۔
موجودہ کشیدہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ٹھوس افغان پالیسی بنانے کی ضرورت آن پڑی ہے جو اب تک ہماری ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہی ہے اور ہم نے چل چلاؤ سے کام لیا ہے۔ حکومت کا تاجکستان میں موجود افغان تاجک لیڈروں کے ساتھ مل کر افغان حکومت پر پریشر بڑھانا ایک بہتر پالیسی ہے۔ ہمیں افغان حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ طالبان کو کنٹرول کرے۔ افغان حکومت کے ساتھ بڑھتا ہوا تضاد پاکستان کے لیے کسی طور پر بھی فائدہ مند نہیں کیونکہ اسرائیل، امریکا اور بھارت کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کے اشارے پاکستان کے لیے کوئی اچھے اشارے نہیں ہیں۔
بھارتی میڈیا پاک افغان کشیدگی کو ایکسپلائٹ کر رہا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی پالیسیاں بھارت نواز ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ پاک افغان کشیدگی اور اس کے ساتھ جڑے تمام معاملات کو قومی تناظر میں دیکھیں کیونکہ اگر پاک افغان ایشو پر دیگر ممالک دخل اندازی کرتے ہیں تو وطن عزیز کے لیے ایسی صورتحال نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔
یہاں وہ طاقتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں جو تباہی چاہتی ہیں۔ ملکی سالمیت کے لیے ہمیں باہم مل بیٹھنا ہوگا۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہو گی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔