پاکستان کے ساتھتعلقات کو مزید وسعت دینگے، صدر آذربائیجان کاوزیراعظم شہبازشریف کوخط
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام آباد: صدر آذربائیجان الہام علیوف نے کہا ہے کہ پاکستان اور آذربائیجان مستقبل میں اپنے تعلقات کو مزید وسعت دیں گے۔
صدر آذربائیجان الہام علیوف نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھا اور یوم پاکستان پر وزیر اعظم اور پاکستانی عوام کو مبارکباد دی۔ دونوں ملکوں میں تذویراتی شراکت داری اور باہمی تعاون کو مزید وسعت دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ مختلف شعبہ جات میں ہماری کامیاب مشترکہ کاوشیں ہمارے تعلقات کے لیے کلیدی اہمیت رکھتی ہیں اور عالمی امور پر پاکستان اور آذربائیجان کا مؤقف اور باہمی تعاون بھائی چارے کا اظہار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور آذربائیجان کے تعلقات جامع ترقی سے جڑے ہیں جبکہ اعلیٰ سطح کے دورے، ملاقاتیں اور رابطے تعلقات میں نمایاں اضافے کا اشارہ ہیں۔ ہم باہمی اعتماد، مفاہمت اور اخلاص پر مبنی مفید ملاقاتوں کو سراہتے ہیں۔
صدر الہام علیوف نے کہا کہ ملاقاتیں گزشتہ ماہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ آذر بائیجان کے موقع پر ہوئیں۔ اور معاہدے دونوں ممالک کے تعلقات کے تعاون کی مثبت سمت کا تعین کریں گے۔ پاکستان اور آذربائیجان مستقبل میں اپنے تعلقات کو مزید وسعت دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان روایتی دوستی اور تذویراتی شراکت داری اطمینان بخش ہے اور دونوں ممالک کے بھائی چارے پر مبنی تعلقات اور عوامی اتحاد مزید مستحکم ہو گا۔
صدر آذربائیجان علیوف نے وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے صحت، کامیابیوں اور پاکستانی عوام کے لیے امن، خوشحالی اور بہتری کے لیے دعا کی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان اور ا ذربائیجان کو مزید وسعت نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
پاکستان بھارت تعلقات اور بداعتمادی کا ماحول
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری دونوں ممالک میں موجود امن پسند لوگوں کی بنیادی خواہش ہے۔ادونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کا براہ راست اثر جنوبی ایشیا کی سیاست یا علاقائی سطح پر سیاسی اور معاشی استحکام سے بھی جڑا ہوا ہے۔لیکن بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان موجود تناؤ،ٹکراؤ اور بد اعتمادی کا ماحول بہتر تعلقات میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک انٹرویو میں پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں جو گفتگو کی وہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے لب و لہجے میں پاکستان کے بارے میں جہاں سختی ہے وہیں وہ حالات کی بہتری میں کوئی غیر معمولی اقدام اٹھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی گفتگو میں پاکستان پر تین الزامات عائد کیے ہیں۔اول، دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی ہوتی ہے اس کا سرا کسی نہ کسی شکل میں پاکستان سے ہی ملتا ہے۔
دوئم، پاکستان نے ہمیشہ پر امن ہمسائے کی طرح رہنے سے انکار کیا ہے اور ہمارے خلاف کسی نہ کسی شکل میں وہ پروکسی جنگ کا حصہ ہے۔سوئم، بھارت کی جانب سے امن لانے کی ہر کوشش کا جواب پاکستان نے جارحیت اور دھوکے سے دیا ہے۔ان تینوں نکات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نریندر مودی یا بھارت کی طرف سے نکلنے والا یہ پاکستان مخالف بیانیہ دو طرفہ ماحول کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ان حالات میں پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں بڑا بریک تھرو کیسے ممکن ہوگا۔
پچھلے دنوں لاہور میں سابق وزیر خارجہ،عالمی امور اور بالخصوص پاک بھارت تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز دانشور اور سیاست دان میاں خورشید محمود قصوری کی قیادت میں کام کرنے والے ایک بڑے تھنک ٹینک''انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنیکٹیوٹی'' کے زیر اہتمام ’’پاک بھارت تعلقات کا مستقبل اور اس میں درپیش مشکلات‘‘ کے تناظر میں ایک فکری نشست منعقد ہوئی۔اس نشست کی صدارت سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کی جب کہ اس تقریب کے مہمان خاص لندن میں مقیم ممتاز صحافی مصنف اور ہندوستانی آزادی پسند راہنما سبھاش چندر بوس کے پڑپوتے اور سی این این ساؤتھ ایشیا کے بیوروچیف اشیش رے تھے۔
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے بقول اگر نریندر مودی سمیت کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردی محض پاکستان کا مسئلہ ہے تو یہ تجزیہ درست نہیں ہے کیونکہ دہشت گردی اگر آگے بڑھتی ہے تو یہ خود بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اور بھارت بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔ان کے بقول دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت دونوں ممالک کے لیے نئے خطرات کو جنم دینے سمیت کسی بھی ممکنہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
انھوں نے بھارت کو کہا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست سے باہر نکلے اور امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں اپنا موثر کردار ادا کرے۔انھوں نے بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ شیام سرن کے ایک حالیہ مضمون کا ذکر کیاکہ’’ بھارت امریکا پر بھروسہ نہ کرے اور امریکا کا ایک آسان مہرہ بن کرنہ رہ جائے۔ان کے بقول بھارت کو جنوبی ایشیا کے ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
خورشید قصوری کے بقول جیو سیاست میں جو بڑی تبدیلیاں ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد شروع ہوئی ہیںاور جنھوں نے امریکا کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،یہ تبدیلیاں ہر ملک بشمول بھارت کو بھی متاثر کرنے کا عملی سبب بن سکتی ہیں اور بھارت کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔اس لیے پوری دنیا میں مختلف نوعیت کی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور بہت کچھ تبدیل ہونے کو نظر بھی آتا ہے۔انھوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ ٹرمپ کی جیت کے بعد جیو پولیٹیکل حقائق پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا موقع فراہم کر نے میں مدد دے سکتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان اور بھارت کے پاس بڑی فوجی قوت کے ساتھ ساتھ بڑے جوہری ذخائر اور جوابی حملے کی صلاحیت موجود ہے اور ایسے میں جنگ کا خیال بھی پاگل پن ہوگا۔اگر دونوں ملک اپنے باہمی تنازعات کو پرامن طور پرحل کرنے کے مواقع کوضایع کردیتے ہیں،جب کے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت دیگر مسائل پرایک طے شدہ فارمولا موجود ہے جسے چار نکاتی سطح کا فارمولا کہا جاتا ہے( درحقیت گیارہ سے بارہ نکات)تو یہ انتہائی افسوس ناک ہوگا۔
بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کلبوشن یادیو کی گرفتاری کا حوالہ دیا جو اس تاثر کو مضبوط کرتا ہے کہ بھارت کسی نہ کسی سطح پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، اس تناظر میں انھوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی،امیت شاہ،راجناتھ سنگھ اور اجیت ڈوول کے بیانات کا بھی حوالہ دیا۔انھوں نے خبردار کیا کہ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو دونوں ملک کھیل سکتے ہیں اور ایسے اقدامات یا جوابی اقدامات کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے جس میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ بی جے پی حکومت کو ڈالے گئے کل ووٹوں کا تیسرا حصہ ملا ہے اوربھارتی عوام کی خاموش اکثریت موجودہ حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتی۔ان کے بقول کچھ لوگوں کا اندازہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جو کہ عملا تیسری مرتبہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیںاپنے سیاسی سفر کے اختتام سے پہلے شاید کوئی مثبت میراث چھوڑنا چاہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو واقعی مثبت عمل ہوگا۔