وارث قرآن امام علی (ع) قرآن کی عملی تفسیر ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
جیکب آباد میں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ قرآن کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اسکی تفسیر اور اسکے معانی میں غور و فکر کریں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ شب قدر کی مبارک رات ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم قرآن کریم سے جڑ جائیں، اسے سمجھیں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں۔ اگر امت مسلمہ قرآن مجید کو اپنی زندگی کا محور بنا لے تو دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیکب آباد میں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ قرآن اور اہل بیت علیہ السلام ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ یہ وہی پیغام ہے جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین میں بیان فرمایا۔ وارث قرآن حضرت علی علیہ السلام قرآن کی عملی تفسیر ہیں۔ ان کی زندگی، ان کے اقوال، ان کا کردار، سب کچھ قرآن کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔
انہوں نے کہا کہ قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ نے 23 سے 27 رمضان تک کے دنوں کو "خمسہ نزول قرآن" کے طور پر منانے کی دعوت دی، تاکہ ان دنوں میں قرآن کے حقیقی پیغام کو عام کیا جائے اور مسلمان اپنی زندگیوں کو قرآن مجید کی روشنی میں ڈھال سکیں۔ یہ ایام ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنا، اس پر عمل کرنا اور اسے معاشرتی نظام میں نافذ کرنا ہی ہمارا اصل مقصد ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کی تفسیر اور اس کے معانی میں غور و فکر کریں۔ یہ کتاب ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتی ہے، چاہے وہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی معاملات ہوں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم صرف ایک تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ زندگی کا مکمل ضابطہ ہے۔ اس میں عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات اور قوانین کے وہ اصول بیان کئے گئے ہیں جو ایک فرد اور معاشرے کو کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ قرآن علامہ مقصود انہوں نے
پڑھیں:
جنگ افغانستان کیلئے مفید ہے نہ پاکستان کیلئے، جامع حکمت عملی کیطرف جانا چاہیئے، مولانا فضل الرحمان
ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلق اعتدال کی طرف آرہا ہے، رویوں میں نرمی آرہی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع مل رہے ہیں، اچھی سمت ہے، جس کیطرف سفر ہو رہا ہے، میں ان رویوں کو ہمیشہ بہتر رکھنے کے لیے بات کر رہا ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جنگ افغانستان کیلئے مفید ہے نہ پاکستان کیلئے، اگر ہم جنگ کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو قدم روک لینا چاہیئے، جامع حکمت عملی کی طرف جانا چاہیئے۔ نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے حوالے سے ریاست کی غلطیوں کا بڑا عمل دخل ہے، افغان جنگ کے بعد مہاجرین ایران کی طرف بھی گئے، ایران نے افغان مہاجرین کو تو جگہ دی، لیکن جنگ کے لیے بیس کیمپ نہیں بنایا، ہم نے پاکستان میں جنگ کے لیے بیس کیمپ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب لفظ جہاد استعمال ہوگا تو مذہبی لوگ ہی اس طرف جائیں گے، ریاست لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکی کہ روس افغانستان آیا تو جہاد اور امریکا آیا تو جہاد نہیں۔ تضاد تب آیا جب پرویز مشرف نے امریکا کو سپورٹ کیا۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں افغان علماء نے فتویٰ جاری کیا کہ جہاد اپنے انجام کو پہنچ چکا، افغان علماء کا فتویٰ ہے کہ اب کوئی جنگ کرے گا تو وہ جنگ ہوگی، جہاد نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 25 ہزار علماء پشاور اور 10 ہزار علماء بلوچستان میں جمع ہوئے، 35 ہزار علماء نے قرارداد پاس کی کہ ہم آئین پاکستان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام مکاتب فکر نے لاہور میں اے پی سی کی اور اتفاق کیا کہ اکابرین کے متفقات کو دوبارہ زیر بحث نہیں لایا جائے گا، اتفاق کیا گیا کہ نظام کے اصلاح کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ وفاق المدارس عربیہ نے ڈیڑھ سو علماء کو بلایا، جنہوں نے ملک میں اسلحہ اٹھا کر لڑنے کو غیر شرعی قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت مسلکی تنازعات اور جنگیں نہیں ہیں، ہمارے علماء کرام شہید ہوئے، ان کو بھی شہید کہتا رہوں اور قاتلوں کو بھی تو ایسا نہیں ہوسکتا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں، داعش ہو یا کوئی اور تنظیم ان کے ساتھ اتفاق ہوتا تو کیا میں پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوتا۔؟ انہوں نے کہا کہ افغانستان نے دعوت دی تو حکومت اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں لیا۔ افغانستان میں ایک ہفتہ گزار اور تمام معاملات پر بات کی اور نتائج حاصل کیے، ان نتائج کو یہاں آکر رپورٹ کیا اس رپورٹ کو تسلیم کیا گیا اور خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مجھے الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کو تسلیم کرنے والی جماعتوں سے اختلاف ہوا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں صلاحیت کیوں نہیں، جو کامیابیاں حاصل کیں، ان کو فالو کرسکیں۔؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکیوں کو اڈے دیئے اور دوسری طرف افغانستان سے آنے والوں کو یہاں کور دے رہے تھے، ہمارے تیس چالیس ہزار لوگ وہاں گئے اور ان کے ہمراہ بیس سال تک لڑے۔ اب کیا ان سے بندوقیں لے کر آپ کے حوالے کر دیں؟ ظاہر ہے کہ ان کیلئے بھی مشکلات ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کچھ چیزوں پر اتفاق رائے حاصل کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا موقف ایک ہی ہے، افغانستان نے کہا کہ آپ عجلت اور ہم مہلت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان چیزوں کے لیے وقت چاہیئے۔ اتفاق رائے ہوا تھا، مجھے علم نہیں کہ ہم نے آج معاملہ کیوں بگاڑ دیا۔؟ انکا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی جنگ کو نہ روئیں تو اچھا ہے، گوادر سے لیکر چترال باجوڑ تک مسئلہ ہے، افغانستان سے متعلق امید رکھتا ہوں کہ اس پر مزید سوچنے کی گنجائش ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جنگ نہ افغانستان اور نہ پاکستان کے لیے مفید سمجھتا ہوں، اگر ہم جنگ کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو قدم روک لینا چاہیئے، جامع حکمت عملی کی طرف جانا چاہیئے۔ حکمرانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ تھوڑا سا ان معاملات پر سوچیں تمام جماعتوں کو بلالیں۔
ملکی سیاست پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم مسلم لیگ نون کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں، سیاست میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو سینیئر تسلیم کیا جاتا ہے، توقع رکھی جاتی ہے کہ بڑے ہونے کے ناطے وہ ایسا کردار ادا کریں کہ مسائل حل ہوں۔ انکا کہنا تھا کہ نواز شریف کا ہمیشہ احترام کیا ہے، وہ بالکل ہی سین سے غائب ہوگئے ہیں، سین میں بظاہر نواز شریف کا کوئی بڑا کردار سامنے نظر نہیں آرہا ہے۔ معاملات بگڑے ہوئے ہیں، الیکشن خراب ہوگئے، حکومت پر اعتماد نہیں۔ جمہوریت شکست کھائے گی تو انتہاء پسندی اور شدت پسندی کامیاب ہوگی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلق اعتدال کی طرف آرہا ہے، رویوں میں نرمی آرہی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع مل رہے ہیں، اچھی سمت ہے، جس کی طرف سفر ہو رہا ہے، میں ان رویوں کو ہمیشہ بہتر رکھنے کے لیے بات کر رہا ہوں۔
انکا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہ محدود وقت کے لیے دوستی کروں اور آگے جا کر کہوں کہ مطلب پورا ہوگیا، اب ضرورت نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کا کردار سیاست میں کیا ہوگا، یہ انہوں نے خود طے کرنا ہے۔ سیاست میں گنجائش رکھنی چاہیئے کہ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور بات کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ عید کے بعد جے یو آئی نے جنرل کونسل کا اجلاس بلایا ہے، جنرل کونسل اجلاس میں مستقبل کی پالیسیاں طے ہوں گی۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی لوگ آپس میں ویسے ہی لڑتے ہیں، جن کو اقتدار ملتا ہے، ان کو بھی مینیج کیا جاتا ہے، وفاق کے ساتھ صوبوں میں بھی الیکشن کو مینیج کیا گیا ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بھی مینڈیٹ عوامی نہیں، یہ بھی بنایا گیا مینڈیٹ ہے۔ ہم دونوں اب اپوزیشن میں ہیں، پی ٹی آئی کا بھی الیکشن کا عدم اعتماد ہے، جب ہم الیکشن پر اعتراض کر رہے تھے تو سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ہمارے ساتھ اتحاد میں بھی تھی، اب وہی پوزیشن پی ٹی آئی کی ہے۔