Daily Ausaf:
2025-03-25@15:15:26 GMT

عید پر بینکوں سے نئے کرنسی نوٹ کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)عید سے قبل جہاں مارکیٹس میں عید کی تیاریاں جوش و خروش سے ہوتی ہیں، وہیں اس موقع پر بینکس سے نئے کرنسی نوٹ حاصل کرنا بھی عوام کی عید کی خریداری میں سر فہرست ہوتا ہے، کہا جاتا ہے عید بچوں کی ہوتی ہے اور بچوں کی عید نئے کرنسی نوٹوں کی صورت میں ملی عیدی کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔

لیکن عید پر نئے کرنسی نوٹ حاصل کرنے کا آخر طریقہ کار کی ہے؟ بینک اسلامی کے کسٹمر سروس مینیجر عبدلحفیظ انجم نے نجی خبررساں ادارےکو بتایا کہ بینک سے عید پر نئے کرنسی نوٹ حاصل کرنے کا بہت ہی سادہ سا طریقہ کار ہے۔

’اپنے شناختی کارڈ کی کاپی کے ہمراہ اپنے بینک جا کر براہ راست نئے کرنسی نوٹ حاصل کیے جاسکتے ہیں، اگر بینک کے پاس کرنسی نوٹ کا اسٹاک موجود ہو تو فوری طور پر کرنسی نوٹ دے دیے جاتے ہیں۔‘

ایک نجی بینک کے ہاؤسنگ لون اسکیمز کے کسٹمر سروس مینیجر کے مطابق طریقہ کار تو بہت ہی سادہ سا ہے، کوئی بھی شخص بینک جا کر کاؤنٹر پر بولے کہ اسے نئے کرنسی نوٹ چاہییں تو وہ حاصل کر سکتا ہے، اس میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمرشل بینکوں کو نوٹ جاری کیے جاتے ہیں لیکن تعداد کا تعین خود اسٹیٹ بینک کرتا ہے، بہت سے افراد سمجھتے ہیں کہ بینک اپنی ضرورت کے مطابق اسٹیٹ بینک سے لیتا ہے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

’اسٹیٹ بینک جتنے چاہیے دے سکتا ہے، اس پر کوئی بینک اسٹیٹ بینک سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ کم کیوں دیے یا مزید چاہیے، بس اسٹیٹ بینک نے جتنے دے دیے، اتنے ہی بینک قبول کرتے ہیں، بعض اوقات اسٹیٹ بینک نئے نوٹ بالکل بھی نہیں دیتا، اس صورت میں بھی بینک اعتراض نہیں کرتے۔‘

عید پر نئے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کہ اسٹیٹ بینک جتنے بھی بینکوں کو نوٹس دیتا ہے، وہ چند دنوں میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ ’اس بار بھی ہمارے بینک میں پندرہویں روزے کو نئے کرنسی نوٹس آئے تھے جو چند دنوں میں ختم ہوگئے تھے۔‘

بینکرز کے مطابق نئے کرنسی نوٹ جلد ختم ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ کرنسی نوٹ زیادہ تر بینک کا عملہ اپنے ہی جاننے والوں میں تقسیم کردیتا ہے، اس لیے دیگر افراد کے لیے جو خاص طور پر عید کے لیے نئے کرنسی نوٹ لینے بینک کا رخ کرتے ہیں ان کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔

اسلام آباد میں حبیب بینک آئی8 برانچ کے مینیجر رانا عمیر کہتے ہیں کہ 2 سے 3 برس قبل تک اسٹیٹ بینک خود نئے کرنسی نوٹ دیتا تھا، ایک کوڈ کے ذریعے عوام اسٹیٹ بینک سے رابطہ کرکے نئے کرنسی نوٹ حاصل کر لیتے تھے لیکن اب اس حوالے سے بے بنیاد خبریں چل رہی ہیں۔

’پہلے تو اسٹیٹ بینک کا عملہ ہر بینک کی کچھ مخصوص برانچوں میں بیٹھ جاتا تھا اور کرنسی نوٹ اس کوڈ پر میسج کے مطابق فراہم کردیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘

عمیر رانا کے مطابق اب اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو عید کے موقع پر نئے کرنسی نوٹ جاری کیے جاتے ہیں اور پھر عوام اب اسٹیٹ بینک کے بجائے دیگر بینکوں سے جا کر کرنسی نوٹ حاصل کرتے ہیں، جس کے لیے شناختی کارڈ کی کاپی درکار ہوتی ہے۔

اسی حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اسٹیٹ بینک کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بینک کو کتنا کوٹہ دیں اور یہ بینک کی برانچز پر منحصر ہوتا ہے۔

ان کے خیال سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے فی برانچ 8 سے 10 بنڈل 10 روپے والے، 3 سے 4 بنڈل 100 والے، 20 والے 1 سے 2 بنڈل اسی طرح 50 والے بھی ہوتے ہیں، 1 بنڈل میں 10 پیکٹ ہوتے ہیں، یعنی مجموعی طور پر 80 سے 100 بنڈل ایک برانچ کو دیے جاتے ہیں۔

’بینک کے کسٹمر ہزاروں میں ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کی نئے کرنسی نوٹوں کی خواہش پوری کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ کسے دیں اور کسے نہ دیں۔‘

رانا عمیر نے بتایا کہ فی صارف 1 سے 2 پیکٹ دیے جاسکتے ہیں، یعنی مجموعی طور پر10، 20، 50 اور 100 روپے والے نوٹس ملا کر ایک بینک صارف کو زیادہ سے زیادہ 16 سے 18 ہزار روپے کے نئے کرنسی نوٹس دیے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: این ایچ اے کی جانب سے ایک بار پھر ٹول ٹیکس میں اضافہ، نئی شرح کیا ہے؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نئے کرنسی نوٹ حاصل کر پر نئے کرنسی نوٹ اسٹیٹ بینک کی کی جانب سے جاتے ہیں کے مطابق ہوتی ہے بینک کے دیے جا

پڑھیں:

بدلتے ہیں رنگ سابق کرکٹرز کیسے کیسے

کراچی:

آج میں آپ کو کرکٹ تجزیہ نگار بننے کا فارمولہ بتانے والا ہوں،مجھے پتا ہے کہ آپ میں سے بیشتر اس کھیل کو گہرائی تک سمجھتے ہیں لیکن سابق کرکٹر کا لیبل یا کسی میڈیا ہاؤس میں ملازمت نہ کرنے کے سبب تجزیے صرف دوستوں کی محفل تک ہی محدود رہتے ہوں گے۔

کبھی کسی ایک ٹیسٹ کھیلے ہوئے سابق کھلاڑی کو جب ٹی وی پر چیختے چلاتے سنیں تو یہ خیال ضرور آتا ہو گا کہ اسے کس نے یہاں بٹھا دیا ،اس کا جواب ہے قسمت، ماضی میں بیچارے سابق کھلاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی دنیا ویران ہو جاتی تھی۔

پھر الیکٹرونک میڈیا آیا تو سب کی چاندی ہو گئی،ٹی وی پر تبصروں کے پیسے ملنے لگے،ایسے میں پی سی بی کے خلاف بھی باتیں ہوئیں تو ملازمت دے کر نوٹوں سے منہ بن کرائے جانے لگے،یہ فارمولہ چل گیا۔

سابق کرکٹرز نے بورڈ کی نظروں میں آنے کیلیے تنقید شروع کی تو انھیں کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کیا جاتا رہا،یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ایڈوانس طریقہ استعمال کرتے ہوئے اب بعض کھلاڑیوں کو ملازمتیں بھی دے کر خود ٹی وی چینلز پرتبصروں کی اجازت دی گئی تاکہ بورڈ کا دفاع بھی ہوتے رہے ورنہ ماضی میں تو کوئی سابق کھلاڑی پی سی بی کا ملازم بنے تو ٹی وی پر کام نہیں کر سکتا تھا۔

ارے وہ فارمولے والی بات تو رہ ہی گئی،آپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ ٹاس جیت کر اپنی ٹیم پہلے بیٹنگ کرے اور ہار جائے تو کہیں یہی فیصلہ شکست کی وجہ بنا،بابر اعظم اور محمد رضوان کو کھلائیں تو کہیں سست بیٹنگ کی وجہ سے ہار گئے ،نہ کھلائیں تو کہیں باہر بٹھایا اس لیے نہ جیت سکے۔

جونیئرز زیادہ ہوں تو کہیں اتنے سارے نئے کھلاڑی کھلا دیے،کم ہوں تو کہیں ینگسٹرز کو موقع ہی نہیں دیا جا رہا، نئی ٹیم جیتے تو کہیں ٹیلنٹ کی بھرمار ہے، ہارے تو بولیں ہمارے پاس نئے پلیئرز ہی نہیں ہیں۔ 

مجھے حال ہی میں کسی نے سرکاری ٹی وی کے اسپورٹس اینکرز و تجزیہ نگاروں کی تنخواہوں کی لسٹ بھیجی جسے دیکھ کر حیران رہ گیا،6،7 لاکھ سے کم تو کوئی بات ہی نہیں کر رہا،چیخنے چلانے والے بھائی کی تنخواہ بھی اتنی ہی ہے۔

کچھ خاتون اینکرز بھی پیسے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں ،یہ سب رقم آپ اپنے بجلی کے بلز کے ساتھ بھر رہے ہیں،خیر بات سابق کرکٹرز کی ہو رہی تھی،یہ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں،اگر ٹیم جیت جائے تو تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں ہارے تو ملک میں کرکٹ ہی ختم ہو جاتی ہے۔

چیمپئنز ٹرافی میں شکست کے بعد ایک سابق کپتان نے بیان دیا کہ 6،7 کھلاڑیوں کو بدل دینا چاہیے،چند دن بعد وہی کہہ رہے تھے کہ موجودہ کرکٹرز پر ہی اعتماد رکھنا چاہیے،بیشتر کا خیال تھا کہ ملک میں نیا ٹیلنٹ ہی موجود نہیں۔

لیکن ایک میچ کے بعد ہی انھیں حسن نواز میں جاوید میانداد کی جھلک دکھائی دینے لگی،اب اگلا میچ ہار گئے تو پھر ٹیم کی دھجیاں اڑائی جائیں گی، محمد رضوان نے عمرے کی ادائیگی کے بعد قومی ٹی ٹوئنٹی کپ نہیں کھیلا تو ایک سابق کرکٹر (اسٹار لکھنا مناسب نہیں لگتا) ان کیخلاف ایکشن کا مطالبہ کرنے لگے۔

قسمت سے بڑے چینل کی اسکرین مل جائے تو لوگ خود کو کیا سمجھنے لگتے ہیں،سر پوچھ تو لیتے کیوں نہیں کھیلا، کوئی تو وجہ تھی، مسئلہ یہی ہے ہمارے سابق کرکٹرز درست تجزیہ  نہیں کرتے۔

اگر ٹیم ہار بھی جائے تو دنیا ختم نہیں ہو جاتی لیکن بعض سابق کھلاڑی ٹی وی پر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جنھیں سن کر اشتعال میں آئے لوگ اگر ٹیم کے کسی رکن تو باہر دیکھیں تو منہ ہی نوچ لیں۔

متوازن سوچ کے حامل تجزیہ نگار کم ہی نظر آئیں گے،ہوا کے رخ پر چلنا بڑی بات نہیں،سچی بات مہذب انداز میں کرنا ہی اصل کامیابی ہے لیکن مسئلہ ہمارا بھی ہے،جو بندہ جتنی چیخ و پکار کرے دوسروں کی پگڑی اچھالے اسے ہی ریٹنگ ملتی ہے۔

کئی مثالیں موجود ہیں آپ خود جانتے ہیں،جس طرح عیدکے مواقع پر درزیوں یا۔۔ کا سیزن آتا ہے اسی طرح جب کوئی آئی سی سی ایونٹ ہو تو سابق کرکٹرز کی لاٹری کھل جاتی ہے،دو میچز کھیلنے والے بھی فارغ نظر نہیں آتے،پھر وہ ٹی وی پر بیٹھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے اپنے دور میں بریڈمین کے ہم پلہ تھے یا شوکیس میں ٹرافیز کا ڈھیر لگا ہو۔

چیمپئنز ٹرافی کو ہی دیکھ لیں شکست کے بعد جو لوگ ٹیم پر آگے بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے تھے وہ خود اپنے دور میں کوئی بڑا ٹائٹل نہیں جیت سکے تھے،ان سے پوچھیں کہ بھائی آپ نے کتنی بار بھارت کو ہرایا تھا تو بغلیں جھانکیں گے۔

تنقید کرنا مشکل نہیں لیکن ساتھ اصلاح بھی کرنی چاہیے،الفاظ کا چناؤ بھی درست کریں،آپ کو بابر اعظم یا شاہین آفریدی کی کوئی خامی نظر آئے تو انھیں براہ راست فون کر کے بھی بتا سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا،کسی کو شکوہ ہوگا کہ فلاں نے مجھے سلام نہیں کیا یا میں نے اپنے بندے کو ایجنٹ بنوانے کا کہا تو کیوں نہیں بنایا اب دیکھو میں اسے ٹی وی پر کیسے اڑاتا ہوں۔

تنقید بھی ایجنڈے کے تحت ہوتی ہے،اگر کوئی پسند ہو تو اسے ٹیم میں واپس لانے یا کپتان بنانے کیلیے باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے،پسند نہ ہو تو اس کے ہیئر اسٹائل پر بھی تنقید شروع کر دیتے ہیں، ماضی میں تو یہاں تک ہوتا رہا کہ کھانے کے بل کی طرح ٹی وی پر بورڈ کے دفاع میں بولنے والے سابق کرکٹر رسیدیں جمع کراتے تھے کہ فلاں چینل پر بیٹھا اتنے روپے،فلاں جگہ گیا اتنے روپے،اسی کلچر نے سابق کرکٹرز کی ساکھ ختم کر دی،اب چند ہی ہوں گے جن کے تبصروں کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہوگا۔

ایک فتح کے بعد دیکھ لیں جو ہر وقت انگارے برساتے تھے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگے،اب ٹیم چوتھا میچ اور سیریز ہار گئی تو وہی دوبارہ سے ملک میں کرکٹ کو پھرختم قراردیتے نظر آئیں گے۔

کاش یہ کھلاڑی ایجنڈے یا مفادات سے ہٹ کر سوچتے تو ہماری کرکٹ اتنی پیچھے نہیں جاتی، ویسے حارث رؤف نے غلط نہیں کہا تھا کہ پاکستان میں لوگ ٹیم کے ہارنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ تنقید کے نشتر برسا سکیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • عید کے موقع پر نیا کرنسی نوٹ جاری
  • بینک فراڈ : نادیہ خان کے شوہر سے متعلق مزید انکشافات سامنے آگئے
  • پاکستان میں بڑی تعداد بینکنگ سہولت سے محروم ، ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان میں فنانشل سروسز کی رپورٹ جاری
  • اللہ پر پختہ یقین نے جاوید شیخ کی مدد کیسے کی؟
  • پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ ضرور بنائیں لیکن بنیادی مسائل بھی حل کریں
  • کیا نے مزید 2 گاڑیوں کا رعایتی قسطوں پر حصول کیسے ممکن بنادیا؟
  • سلطان علی الانا نشانِ خدمت حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی
  • بدلتے ہیں رنگ سابق کرکٹرز کیسے کیسے
  • عید پر بینکس سے نئے کرنسی نوٹ کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں؟