مولانا فضل الرحمان کا برما کے رہنما شیخ حافظ عطا اللّٰہ کی گرفتاری کی مذمت، رہائی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
فائل فوٹو۔
جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے برما (میانمار) کے رہنما شیخ حافظ عطا اللّٰہ کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ بنگلا دیشی حکومت نے علاج کی غرض سے آنیوالے مہمان کو گرفتار کیا، مہمان کو گرفتار کرنا بین الاقوامی، انسانی اور مذہبی اقدار کے منافی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کیا حافظ عطا اللّٰہ کا اپنی مظلوم قوم کیلئے کلمہ حق بلند کرنا ہی ان کا جرم ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ حافظ عطا اللّٰہ مسلم اُمّہ کی نظر میں عظیم مجاہد ہیں، ہم ان کی حمایت کرتے ہیں، انہیں فوری رہا کیا جائے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: حافظ عطا الل
پڑھیں:
جنگ افغانستان کیلئے مفید ہے نہ پاکستان کیلئے، جامع حکمت عملی کیطرف جانا چاہیئے، مولانا فضل الرحمان
ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلق اعتدال کی طرف آرہا ہے، رویوں میں نرمی آرہی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع مل رہے ہیں، اچھی سمت ہے، جس کیطرف سفر ہو رہا ہے، میں ان رویوں کو ہمیشہ بہتر رکھنے کے لیے بات کر رہا ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جنگ افغانستان کیلئے مفید ہے نہ پاکستان کیلئے، اگر ہم جنگ کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو قدم روک لینا چاہیئے، جامع حکمت عملی کی طرف جانا چاہیئے۔ نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے حوالے سے ریاست کی غلطیوں کا بڑا عمل دخل ہے، افغان جنگ کے بعد مہاجرین ایران کی طرف بھی گئے، ایران نے افغان مہاجرین کو تو جگہ دی، لیکن جنگ کے لیے بیس کیمپ نہیں بنایا، ہم نے پاکستان میں جنگ کے لیے بیس کیمپ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب لفظ جہاد استعمال ہوگا تو مذہبی لوگ ہی اس طرف جائیں گے، ریاست لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکی کہ روس افغانستان آیا تو جہاد اور امریکا آیا تو جہاد نہیں۔ تضاد تب آیا جب پرویز مشرف نے امریکا کو سپورٹ کیا۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں افغان علماء نے فتویٰ جاری کیا کہ جہاد اپنے انجام کو پہنچ چکا، افغان علماء کا فتویٰ ہے کہ اب کوئی جنگ کرے گا تو وہ جنگ ہوگی، جہاد نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 25 ہزار علماء پشاور اور 10 ہزار علماء بلوچستان میں جمع ہوئے، 35 ہزار علماء نے قرارداد پاس کی کہ ہم آئین پاکستان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام مکاتب فکر نے لاہور میں اے پی سی کی اور اتفاق کیا کہ اکابرین کے متفقات کو دوبارہ زیر بحث نہیں لایا جائے گا، اتفاق کیا گیا کہ نظام کے اصلاح کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ وفاق المدارس عربیہ نے ڈیڑھ سو علماء کو بلایا، جنہوں نے ملک میں اسلحہ اٹھا کر لڑنے کو غیر شرعی قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت مسلکی تنازعات اور جنگیں نہیں ہیں، ہمارے علماء کرام شہید ہوئے، ان کو بھی شہید کہتا رہوں اور قاتلوں کو بھی تو ایسا نہیں ہوسکتا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں، داعش ہو یا کوئی اور تنظیم ان کے ساتھ اتفاق ہوتا تو کیا میں پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوتا۔؟ انہوں نے کہا کہ افغانستان نے دعوت دی تو حکومت اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں لیا۔ افغانستان میں ایک ہفتہ گزار اور تمام معاملات پر بات کی اور نتائج حاصل کیے، ان نتائج کو یہاں آکر رپورٹ کیا اس رپورٹ کو تسلیم کیا گیا اور خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مجھے الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کو تسلیم کرنے والی جماعتوں سے اختلاف ہوا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں صلاحیت کیوں نہیں، جو کامیابیاں حاصل کیں، ان کو فالو کرسکیں۔؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکیوں کو اڈے دیئے اور دوسری طرف افغانستان سے آنے والوں کو یہاں کور دے رہے تھے، ہمارے تیس چالیس ہزار لوگ وہاں گئے اور ان کے ہمراہ بیس سال تک لڑے۔ اب کیا ان سے بندوقیں لے کر آپ کے حوالے کر دیں؟ ظاہر ہے کہ ان کیلئے بھی مشکلات ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کچھ چیزوں پر اتفاق رائے حاصل کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا موقف ایک ہی ہے، افغانستان نے کہا کہ آپ عجلت اور ہم مہلت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان چیزوں کے لیے وقت چاہیئے۔ اتفاق رائے ہوا تھا، مجھے علم نہیں کہ ہم نے آج معاملہ کیوں بگاڑ دیا۔؟ انکا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی جنگ کو نہ روئیں تو اچھا ہے، گوادر سے لیکر چترال باجوڑ تک مسئلہ ہے، افغانستان سے متعلق امید رکھتا ہوں کہ اس پر مزید سوچنے کی گنجائش ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جنگ نہ افغانستان اور نہ پاکستان کے لیے مفید سمجھتا ہوں، اگر ہم جنگ کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو قدم روک لینا چاہیئے، جامع حکمت عملی کی طرف جانا چاہیئے۔ حکمرانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ تھوڑا سا ان معاملات پر سوچیں تمام جماعتوں کو بلالیں۔
ملکی سیاست پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم مسلم لیگ نون کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں، سیاست میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو سینیئر تسلیم کیا جاتا ہے، توقع رکھی جاتی ہے کہ بڑے ہونے کے ناطے وہ ایسا کردار ادا کریں کہ مسائل حل ہوں۔ انکا کہنا تھا کہ نواز شریف کا ہمیشہ احترام کیا ہے، وہ بالکل ہی سین سے غائب ہوگئے ہیں، سین میں بظاہر نواز شریف کا کوئی بڑا کردار سامنے نظر نہیں آرہا ہے۔ معاملات بگڑے ہوئے ہیں، الیکشن خراب ہوگئے، حکومت پر اعتماد نہیں۔ جمہوریت شکست کھائے گی تو انتہاء پسندی اور شدت پسندی کامیاب ہوگی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلق اعتدال کی طرف آرہا ہے، رویوں میں نرمی آرہی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع مل رہے ہیں، اچھی سمت ہے، جس کی طرف سفر ہو رہا ہے، میں ان رویوں کو ہمیشہ بہتر رکھنے کے لیے بات کر رہا ہوں۔
انکا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہ محدود وقت کے لیے دوستی کروں اور آگے جا کر کہوں کہ مطلب پورا ہوگیا، اب ضرورت نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کا کردار سیاست میں کیا ہوگا، یہ انہوں نے خود طے کرنا ہے۔ سیاست میں گنجائش رکھنی چاہیئے کہ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور بات کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ عید کے بعد جے یو آئی نے جنرل کونسل کا اجلاس بلایا ہے، جنرل کونسل اجلاس میں مستقبل کی پالیسیاں طے ہوں گی۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی لوگ آپس میں ویسے ہی لڑتے ہیں، جن کو اقتدار ملتا ہے، ان کو بھی مینیج کیا جاتا ہے، وفاق کے ساتھ صوبوں میں بھی الیکشن کو مینیج کیا گیا ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بھی مینڈیٹ عوامی نہیں، یہ بھی بنایا گیا مینڈیٹ ہے۔ ہم دونوں اب اپوزیشن میں ہیں، پی ٹی آئی کا بھی الیکشن کا عدم اعتماد ہے، جب ہم الیکشن پر اعتراض کر رہے تھے تو سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ہمارے ساتھ اتحاد میں بھی تھی، اب وہی پوزیشن پی ٹی آئی کی ہے۔