اسلام ٹائمز: سید ارتضیٰ حسین، سابق ڈائریکٹر جنرل دفتر خارجہ نے اپنی کتاب Compromise with Conciliation کے باب Goukal Episode میں اس واقعے کو تفصیل سے قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے عراقی سفیر شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملاقات میں عبدالحسین کے حق میں احتجاج کیا، مگر عراقی حکومت نے معافی کا ہر راستہ بند کر دیا۔ ارتضیٰ حسین لکھتے ہیں کہ اپنے 35 سالہ سفارتی کیریئر میں انہوں نے پہلی بار صبر کھو کر بلند آواز میں احتجاج کیا، مگر یہ بے سود رہا۔ صدام حسین کے ہاتھوں عبدالحسین جیٹھا گوکل کی شہادت نہ صرف ایک فرد کا نقصان تھی، بلکہ انسانیت، انصاف اور زائرین کی خدمت کا گلا گھونٹنے کے مترادف تھی۔ تحریر: سید نثار علی ترمذی
ایک مظلوم
تاجر، زائرین کا خدمتگار، صدامی استبداد کا شہید
ماہنامہ پیامِ عمل، لاہور، مارچ 1969ء کا ایک پرانا شمارہ نظر سے گزرا۔ اس میں حاجی عبدالحسین جیٹھا گوکل کی عراق میں ہونے والی پھانسی کی ایک مختصر مگر لرزہ خیز رپورٹ شامل تھی۔ میں نے اس المیے کی تفصیلات کے لیے چند احباب کی توجہ مبذول کروائی، تو اکثر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تاہم، ایک دوست نے فون پر بتایا کہ وہ ان دنوں عراق میں مقیم تھے اور انہوں نے خود عراقی ٹیلی ویژن پر اس المناک واقعے کی براہِ راست نشریات دیکھی تھیں۔ ان کے والد نے بصرہ میں عبدالحسین کے جنازے میں شرکت بھی کی۔ بعد ازاں کئی احباب نے بزنس ریکارڈر کی ایک رپورٹ کا لنک فراہم کیا، جس میں مزید چشم کشا حقائق درج تھے۔ میں نے اس رپورٹ کو اردو میں منتقل کرکے وسیع تر قارئین تک پہنچانے کی ایک ادنیٰ کوشش کی ہے۔
ظلم کی شب، شہادت کی سحر
27 جنوری 1969ء کو بصرہ، عراق میں صدام حسین کے ظلم و استبداد کی ایک سیاہ علامت کے طور پر حاجی عبدالحسین جیٹھا گوکل کو بے دردی سے پھانسی دی گئی۔ وہ ان بے بس پاکستانیوں میں سے تھے، جنہیں بعث پارٹی کے جبر کے تحت کسی قانونی جواز کے بغیر کینگرو عدالتوں کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان کا خاندان 30 اکتوبر 1918ء کے معاہدہ مدروس کے بعد، جب عراق برطانوی ہندوستان کے زیرِ اثر آیا، کراچی سے بصرہ ہجرت کر گیا تھا۔ عبدالحسین کے والد، جیٹھا بھائی گوکل، نے بصرہ میں جہاز رانی کا کاروبار شروع کیا۔ وہ بمبئی اور کراچی سے عراق اور خلیجی بندرگاہوں پر مال بردار جہاز بھیجتے۔ بعد ازاں ان کے بیٹے قاسم علی، عبدالحسین اور غلام علی نے بھی تجارت میں قدم رکھا اور عراق کے کھجور کے باغات میں سرمایہ کاری کرکے انہیں برآمد کرنے لگے۔
خدمتِ زائرین۔۔۔۔ ایک روشن باب
عبدالحسین، دولت و ثروت کے باوجود، انتہائی سادہ دل، سخی اور خلوصِ نیت سے زائرین کی خدمت کرنے والے شخص تھے۔ عراق میں زیارت کے لیے آنے والے کھوجہ برادری کے زائرین کے لیے ان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا۔ کربلا اور نجف آنے والے ہر زائر، خواہ امیر ہو یا غریب، ان کی مہمان نوازی سے مستفید ہوتا۔ برصغیر اور افریقہ سے آنے والے زائرین کو ہمیشہ یقین دلایا جاتا کہ اگر وہ کبھی مشکل میں پڑے تو عبدالحسین گوکل ان کی مدد کو ضرور پہنچیں گے۔
بے گناہی کی قیمت۔۔۔۔ اذیت ناک شہادت
جنوری 1969ء کے آخر میں، عبدالحسین کو اسرائیلی جاسوس ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ عراقی پولیس نے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں انہیں بصرہ میں ان کے گھر سے سحری کے بعد اور نمازِ فجر سے قبل گرفتار کیا۔ اذیت ناک تفتیش کے دوران ان کے ناخن کھینچے گئے، تشدد سے ان کا جسم سوج گیا اور ان کے چہرے پر خون کے نشانات ثبت ہوئے۔ انہیں مجبوراً ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے لا کر اعترافِ جرم کروایا گیا۔ ان کا اعتراف ایک تربیت یافتہ کٹھ پتلی کی مانند رٹوایا گیا: "میں اسرائیلی جاسوس ہوں۔" میرے والد، جو ان دنوں بصرہ میں مقیم تھے، ہوٹل کولمبس میں ٹیلی ویژن پر یہ کربناک منظر دیکھ کر سکتے میں آگئے۔ وہ عبدالحسین کے چالیس سال پرانے دوست تھے، جن سے ان کی ملاقات 1929ء میں کربلا میں زیارت کے دوران ہوئی تھی۔ بعد ازاں دونوں عراق، کراچی اور بمبئی میں بھی ملتے رہے۔
سفارتی کوششیں اور مسترد معافی
صدر ایوب خان نے عبدالحسین گوکل کی سزا معاف کروانے کے لیے وزیر داخلہ صدام حسین سے ذاتی طور پر اپیل کی، جو سیکریٹری خارجہ ایس ایم یوسف کے توسط سے عراق کے سفیر ایم مسعود نے پہنچائی۔ مگر بعث پارٹی نے رحم کے بجائے مزید سفاکی دکھائی۔ کیس سراسر من گھڑت تھا، نہ کوئی ثبوت، نہ دستاویز، صرف ایک کاروباری مخالف کی شہادت۔ عبدالحسین کو بصرہ کی جیل میں پھانسی دی گئی اور ان کی لاش کو ایک لیمپ پوسٹ سے لٹکا دیا گیا، گردن پر پلے کارڈ لٹکا کر "اسرائیلی ایجنٹ" قرار دیا گیا۔ شام تک سرِ عام ان کی لاش کی بے حرمتی کی جاتی رہی، پھر ان کے اہل خانہ کو سپرد کی گئی۔
نجف اشرف۔۔۔ ایک بے نشان قبر
عبدالحسین کی تدفین نجف اشرف میں ان کے والدین کے پہلو میں کی گئی، مگر بعث پارٹی کے حکم پر ان کی قبر پر کتبہ لگانے کی اجازت نہ ملی۔ ان کی بھانجی، حاجیہ زینب ابراہیم، جنہوں نے حالیہ برسوں میں نجف کا دورہ کیا، مقامی متولی کی رہنمائی سے ان کی بے نشان قبر تک پہنچیں۔ آج بھی ان کی قبر پر کوئی کتبہ نہیں، جبکہ قرب و جوار کی قبریں سنگِ مرمر سے مزین ہیں۔
مطالبہ: انصاف، دیر سے سہی
وقت کا تقاضا ہے کہ حکومتِ پاکستان، بغداد میں اپنے سفارتی مشن کے ذریعے عراقی حکومت سے مطالبہ کرے کہ حاجی عبدالحسین جیٹھا گوکل کے خلاف مقدمہ دوبارہ کھولا جائے اور انہیں سرکاری طور پر بے گناہ قرار دیا جائے۔ انہیں ایک مظلوم تاجر اور زائرین کے خدمتگار کی حیثیت سے یاد رکھا جائے، نہ کہ ایک بے بنیاد الزام کے تحت مجرم کے طور پر۔ اس کے ساتھ، نجف میں ان کی قبر پر باقاعدہ کتبہ نصب کرنے کی اجازت دی جائے، تاکہ ان کے لواحقین اور برادری کو انصاف مل سکے۔
حرفِ آخر: صبر کا ثمر، شہادت کا مقام
سید ارتضیٰ حسین، سابق ڈائریکٹر جنرل دفتر خارجہ نے اپنی کتاب Compromise with Conciliation کے باب Goukal Episode میں اس واقعے کو تفصیل سے قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے عراقی سفیر شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملاقات میں عبدالحسین کے حق میں احتجاج کیا، مگر عراقی حکومت نے معافی کا ہر راستہ بند کر دیا۔ ارتضیٰ حسین لکھتے ہیں کہ اپنے 35 سالہ سفارتی کیریئر میں انہوں نے پہلی بار صبر کھو کر بلند آواز میں احتجاج کیا، مگر یہ بے سود رہا۔ صدام حسین کے ہاتھوں عبدالحسین جیٹھا گوکل کی شہادت نہ صرف ایک فرد کا نقصان تھی، بلکہ انسانیت، انصاف اور زائرین کی خدمت کا گلا گھونٹنے کے مترادف تھی۔ آج بھی عبدالحسین کی بے نشان قبر، انصاف کی منتظر ہے۔ شہید انتقام نہیں، انصاف کا طلبگار ہے، تاکہ تاریخ میں اس کا مقام سچائی، خلوص اور قربانی کے طور پر محفوظ ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں احتجاج کیا عبدالحسین کے انہوں نے حسین کے اور ان کے لیے کی ایک کی قبر
پڑھیں:
نشئی کا معمولی تکرار پر ساتھیوں پر دستی بم حملہ، تین افراد جاں بحق
نشئی کا معمولی تکرار پر ساتھیوں پر دستی بم حملہ، تین افراد جاں بحق WhatsAppFacebookTwitter 0 22 March, 2025 سب نیوز
پاراچنار :ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے پاراچنار کے علاقے طوری قبرستان کے قریب زیر تعمیر گھر میں منشیات کے عادی شخص نے معمولی تکرار پر ساتھیوں پر دستی بم سے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا۔
پولیس ایس ایچ او سٹی اشتیاق حسین نے کہا کہ دستی بم کے پھٹنے سے تین افراد جاںبحق اور ایک شخص زخمی ہوگیا۔
ایس ایچ او سٹی اشتیاق حسین نے کہا کہ زخمی شخص کو ڈی ایچ کیو اسپتال پہنچا دیا گیا، زخمی کی شناخت سید جواد کے نام سے ہوئی ہے۔
اشتیاق حسین نے کہا کہ دھماکے میں منشیات کے عادی لوگ متاثر ہوئے، زیر تعمیر عمارت میں موجود افراد منشیات کے عادی تھے اور آپس میں معمولی تکرار کے باعث ایک شخص نے باقیوں پر دستی بم سے حملہ کر دیا۔
ایس ایچ او سٹی نے کہا کہ جائے وقوع سے شباب نامی نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔