معروف ماہر تعلیم، مصنف، محقق اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان نے کہا ہے کہ قراردادِ پاکستان یا قراردادِ لاہور برصغیر کے دستوری یا آئینی حل کے طور پر پیش کی گئی اور اُس میں جس زونل فیڈریشن کی بات کی گئی ہے اُس فیڈریشن کے اندر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ اگر دستور پر عمل کیا جائے، اِس ملک کی کثیر القومیتی شناخت کو تسلیم کیا جائے تو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر ہم کثیر القومیتی تصور کو تسلیم نہیں کریں گے تو اُس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ قراردادِپاکستان کے اندر علیحدہ ملک اور صوبائی خودمُختاری دونوں تصورات موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں یوم پاکستان پریڈ اس بار محدود پیمانے پر کیوں ہوگی؟

ظفر اللہ خان نے کہاکہ قراردادِ پاکستان کے اندر ان دونوں تصورات کو سمجھنا ہوگا۔ قراردادِ پاکستان وہ وقت ہے جب 1935 کا آل انڈیا ایکٹ آ چُکا ہے، دو گول میز کانفرسیں ہو چکی ہیں، وزارتوں کا تجربہ ہو چُکا ہے۔ قرارداد پاکستان کی تیاری میں کئی ایسے لوگ شامل تھے جو ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے اور قائدِاعظم خود بھی لکھنؤ معاہدے کی وجہ سے ہندو مسلم اتحاد پر یقین رکھتے تھے۔

انہوں نے کہاکہ اُن لوگوں نے شمال مغربی اور جنوب مشرقی علاقوں کو مشرقی اور مغربی زون بنانے کی بات کی اور کہاکہ ان کو ملا کر ریاستیں بنائی جائیں۔ اُس وقت اُن لوگوں میں یہ تصور راسخ ہو چُکا تھا کہ ہم نے اکثریت کا استبداد وزارتوں کی شکل میں دیکھ لیا اور اب اگر انگریز ایسے اس ملک کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو اقلیتوں کا کیا ہوگا۔

ظفر اللہ خان نے کہاکہ سابق بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ اپنی کتاب میں لکھ چُکے ہیں کہ نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کابینہ مشن پلان ناکام ہوا جس کی وجہ سے تقسیم ہوئی۔

پاکستان میں بھارت کی نسبت اقلیتوں کی نمائندگی زیادہ ہے

ظفر اللہ خان نے کہاکہ بھارت میں مسلم آبادی 15 فیصد ہے جبکہ وہاں کی لوک سبھا یا ایوان زیریں میں مسلمانوں کی نمائندگی 4.

40 فیصد ہے جبکہ حکمران جماعت میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں 2023 کی مردم شماری کے مطابق اقلیتوں کی آبادی 3.27 فیصد ہے۔ جبکہ اقلیتوں کی کچھ نشستیں خالی ہونے کے باوجود اسمبلی میں اُن کی نمائندگی 3.80 فیصد ہے جو کہ اُن کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے، اگر سینیٹ کو بھی شامل کر لیں تو یہ تناسب 4.20 تک چلا جاتا ہے۔

تقسیم برصغیر کے وقت ہمارے خطے میں تمام مذاہب کے لوگ تھے

انہوں نے کہاکہ برصغیر کی تقسیم اِس اعتبار سے قدرتی ہے اگر آپ یہاں کی اکثریتی آبادی کا مذہب دیکھیں، لیکن ایسا نہیں کہ یہاں ایک ہی مذہب کے افراد آباد تھے، فاٹا میں آج بھی سکھ برادری کے افراد موجود ہیں، بلوچستان میں ہندو تھے کچھ تو ہماری پارلیمنٹ کا حصہ بھی رہے، سندھ میں ہندو کمیونٹی کی آبادی تھی اور پنجاب میں بھی تھی، جب پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی بات کی جارہی تھی تو اُس وقت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ایس پی سنگھا مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، اور ہمارا خطہ ایک کثیر المذہبی خطہ تھا۔

قائدِاعظم نے کوشش کی پنجاب تقسیم نہ ہو

ظفر اللہ خان نے بتایا کہ قائدِاعظم محمد علی جناح نے کوشش کی تھی کہ پنجاب تقسیم نہ ہو لیکن اُس وقت ہمارے سکھ بھائیوں کا نقطہ نظر کچھ اور تھا، اب وہ بھی کرتار پور آنا چاہتے ہیں اور ہم بھی بُلانا چاہتے ہیں اور اُنہوں نے بھی دیکھ لیا کہ بھارت میں اُن کے ساتھ کیا ہوا۔

انہوں نے کہاکہ تقسیم صرف دو صوبے ہوئے پنجاب یا بنگال، خیبرپختونخوا تب بھی ایسے ہی موجود تھا جیسے اب موجود ہے۔ بلوچستان کمشنریٹ صوبے کی شکل میں تب بھی موجود تھا اب بھی موجود ہے۔ اسی وجہ سے مشرقی پنجاب میں تڑپ ہے وہ ریفرنڈم کراتے پھر رہے ہیں، اُس وقت اگر تقسیم نہ ہوتا تو شاید فسادات بھی نہ ہوتے۔

پاکستان میں شناخت کے بحران کی بنیاد کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ظفراللہ خان نے کہاکہ پاکستان کا کوئی صوبہ کسی ایک مخصوص نسلی گروہ پر مشتمل نہیں بلکہ مختلف نسلی گروہ اُس کو آباد کرتے ہیں۔ اِس لیے کوئی اگر یہ کہے کہ یہ خطہ ارضی صرف اِس مخصوص نسلی گروہ کا مسکن ہے تو یہ بات درست نہیں۔

ظفراللہ خان نے کہاکہ اس مُلک کے بحران کی بنیاد دستوری ہے، دستور کو چلنے ہی نہیں دیا گیا، قوموں کو جو چیز جوڑتی ہے وہ اُس کا دستور ہوتا ہے۔ قراردادِ پاکستان کا متن بھی دستوری ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ ہمیں دستور بنانے میں 9 سال لگے اور ہم نے اُس میں بڑے سمجھوتے بھی کیے۔ 1973 کا دستور دو بار معطل ہوا لیکن اُس پر اِس ملک کی تمام سیاسی قیادت کے دستخط ہیں، ڈنڈے کے زور پر تمام لوگوں کو ایک نہیں بنایا جا سکتا۔

بھارت کی جمہوریت بھی بیمار ہے اور ہماری بھی

بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اُس کے جمہوریت پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ظفراللہ خان نے کہاکہ بھارت میں زیادہ عرصہ ایک جماعت یعنی کانگریس کی حکومت رہی ہے اور جہاں زیادہ عرصہ ایک ہی جماعت کی حکومت رہے وہاں مذہبی عنصر غالب آ جاتا ہے، لیکن پھر بھی وہاں جمہوری تسلسل رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی خرابیوں کو مزید جمہوریت سے درست کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں تو لمبے لمبے جمہوری تعطل آتے رہے، ایسے کئی سال ہیں جب پاکستان میں جمہوریت تھی ہی نہیں۔ بھارت کی جمہوریت بھی بیمار ہے اور ہماری جمہوریت بھی، لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جمہوریت سے رخصت لے لی جائے۔

یہ بھی پڑھیں تمام اقلیتیں آزادہیں، ہمیں رنگ و نسل، ذات پات سے بالا تر ہو کر آگےبڑھناہوگا، وزیراعظم شہبازشریف

تمام متفق ہیں کہ دستور پر عمل ہی واحد حل ہے

ظفر اللہ خان نے کہاکہ پاکستان میں تمام طبقات اور تمام قوتیں اس اتفاقِ رائے پر پہنچ چُکی ہیں کہ ملک کو دستور کے مطابق چلانا ہی مسائل کا حل ہے، دستور کی تعلیم ایک مسئلہ ہے، لوگوں کو دستور کی تعلیم دی جانا ضروری ہے لوگوں کو اُن کے حقوق و فرائض سے آگاہی ہو، آئین کی چھتری کے نیچے چلیں گے تو آگے منزلیں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اقلیتیں برصغیر بھارت پاکستان تقسیم برصغیر جمہوریت قرارداد پاکستان مختلف مذاہب وی نیوز

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقلیتیں بھارت پاکستان جمہوریت قرارداد پاکستان مختلف مذاہب وی نیوز ظفر اللہ خان نے کہاکہ انہوں نے کہاکہ ظفراللہ خان پاکستان میں کی نمائندگی بھارت میں کی بات کی جاتا ہے فیصد ہے کے حقوق اور ہم لیکن ا ہیں کہ ہے اور کی گئی

پڑھیں:

قرارداد پاکستان ہمیں اجتماعیت اور یکجہتی کا درس دیتی ہے، انوارالحق

وزیراعظم آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ لاہور کے اجتماع میں کشمیری قیادت کی شرکت نے پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان لازوال رشتے کی بنیاد رکھی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں 23 مارچ 1940ء کو منظور کی گئی قرارداد پاکستان ہماری تاریخ کا رخ موڑنے والا لمحہ تھا۔ شدید مخالفت کے باوجود ہمارے قائدین نے آزاد پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ یہ دن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، جب انہوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کی بنیاد رکھی اور اس تاریخی جدوجہد میں کشمیری قیادت بھی پیش پیش رہی۔ لاہور کے اجتماع میں کشمیری قیادت کی شرکت نے پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان لازوال رشتے کی بنیاد رکھی۔ یوم پاکستان کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ قرارداد پاکستان ہمیں اجتماعیت اور یکجہتی کا درس دیتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد دراصل تحریکِ تکمیلِ پاکستان ہے، جسے کشمیری عوام نے اپنے خون سے زندہ رکھا ہوا ہے۔کشمیری ''بائی چوائس'' پاکستانی ہیں اور پاکستان کو اپنی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیریوں نے نہ صرف قیام پاکستان کی تحریک میں مسلمانانِ ہند کے ساتھ بھرپور کردار ادا کیا بلکہ 14 اگست 1947ء سے پہلے ہی پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کر دیا تھا۔ دنیا میں پاکستان سے زیادہ کشمیریوں کا کوئی ہمدرد نہیں۔ انشاءاللہ کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور پاکستان کی تکمیل، الحاقِ کشمیر کے ذریعے مکمل ہو گی۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ قیام پاکستان نے جموں و کشمیر کے عوام کی جدوجہد کو ایک نئی تحریک اور نیا ولولہ دیا۔پاکستان اور کشمیر نظریاتی، جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں، جنہیں دنیا کی کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو اسلامی ریاست نہ سمجھنے والوں سے کوئی بات چیت نہیں ہونی چاہیے، ڈاکٹر راغب نعیمی
  • قانون کی حکمرانی: خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا!
  • فلسطین پر مؤقف دوٹوک، حکومت نے پاکستانی صحافیوں کے دورہ اسرائیل کی رپورٹس کا نوٹس لے لیا، دفتر خارجہ
  • سبینا فاروق نےبڑی گاڑیوں کے مالکان کو اہم مشورہ دیدیا
  • کیا عدالتوں کا بنیادی کام آئین کا تحفظ اور عوامی حقوق کی پاسداری یقینی بنانا نہیں؟ ایمل ولی
  • پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو بعد از شہادت اعلی ترین سول اعزاز ملنا تاریخی عمل ہے، شازیہ مری
  • فلسطین کا دفاع دراصل پاکستان اور اسلام سمیت پوری انسانیت کا دفاع ہے، علامہ باقر زیدی
  • اسمبلی سکریٹریٹ میں دفعہ 370، قیدیوں کی رہائی اور ریزرویشن سے متعلق قراردادیں مسترد
  • 23 مارچ کو مسلمانوں نے خدائے واحد کے سوا ہر غلامی کو مسترد کیا: خالد مقبول صدیقی
  • قرارداد پاکستان ہمیں اجتماعیت اور یکجہتی کا درس دیتی ہے، انوارالحق