Islam Times:
2025-03-24@08:13:18 GMT

خط و کتابت کے بہانے نفسیاتی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

خط و کتابت کے بہانے نفسیاتی جنگ

اسلام ٹائمز: مذاکرات کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ہمہ جہت ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام میدانوں میں مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جو خط لکھا ہے وہ محض ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو امن کا مدافع ظاہر کرنا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بالفرض کل اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں امریکہ قصور وار نہیں ہو گا۔ اس خط کا اصل مقصد امریکہ کی جانب سے ایران کے قومی ارادے پر دباو ڈالنا ہے اور اس میں محض کھوکھلے وعدوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تحریر: حسین کنعانی مقدم
 
ہم اس وقت تین بڑی اور بھرپور جنگوں سے روبرو ہیں: ارادوں کی جنگ، میڈیا جنگ اور اقتصادی جنگ۔ ارادوں کی جنگ میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ثابت کر دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور غاصب صیہونی رژیم کی شیطانی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم، فلسطینی قوم اور اسلامی مزاحمت کا ارادہ اس قدر مضبوط ہے کہ ان کی دھمکیوں اور پابندیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو سکتے ہیں جبکہ تجربات نے بھی یہی ثابت کیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے عاشورا کی منطق کے تحت یہ کام کیا ہے۔ دوسری طرف مدمقابل قوتیں آمرانہ اور فرعونی ذہنیت کی بنیاد پر یہ تصور کرتی ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کا میدان بھی مغربی فلموں کی مانند ہے جس میں کوئی بھی بہت آسانی سے مدمقابل کو گولی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔
 
اگر کوئی قوم اس آمرانہ اور فرعونی ذہنیت اور طرز عمل کے مقابلے میں کمزوری کا مظاہرہ کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قوتیں اسے جارحیت کا نشانہ بنا ڈالیں گی۔ اس کی تازہ ترین اور واضح ترین مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی صحافیوں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے شدید تحقیر اور بے عزتی کرنا ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ ہم ہر گز بدمعاشوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے تاکہ وہ اپنے ناجائز مطالبات ہم پر تحمیل کر سکیں۔ ہم رہبر معظم انقلاب کے اس شجاعانہ موقف کے بعد ارادوں کی جنگ کے میدان میں فاتح قرار پا چکے ہیں۔ امریکہ کا ارادہ ٹوٹ چکا ہے اور وہ پیچھے ہٹ گیا ہے۔
 
میڈیا کی جنگ میں مغربی طاقتوں کے پاس وسیع پیمانے پر انفارمیشن کے ذرائع اور طاقتور میڈیا ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ ہمارا قومی ارادہ متزلزل کرنے کے درپے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ایران مذاکرات کے لیے تیار نہ ہوا تو تباہ ہو جائے گا۔ ممکن ہے کچھ افراد اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ سوچنے لگیں کہ مذاکرات ہی واحد راہ حل ہے لیکن ماضی کے تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں مزاحمت اور ڈٹ جانے سے ہی بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ایران نے جوہری مذاکرات سمیت مغربی ممالک سے متعدد مذاکرات انجام دیے جبکہ مغربی طاقتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی اور ایران کو کوئی مراعات فراہم نہیں کیں۔
 
اگلا مسئلہ اقتصادی جنگ کا ہے۔ مغربی طاقتیں معیشت کے میدان میں ایران پر زیادہ سے زیادہ بھرپور انداز میں دباو ڈالنا چاہتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ جب عوام شدید اقتصادی مشکلات سے روبرو ہوں گے تو حکمفرما نظام کے خلاف بغاوت پر اتر آئیں گے اور یوں ایران میں سول نافرمانی کی تحریک جنم لے گی۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ایران کی تیل کی صنعت اور وزیر تیل پر پابندیاں عائد کیے جانا ہے۔ البتہ امریکہ اس سے پہلے بھی بارہا یہ کام کر چکا ہے اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ایرانی قوم نے ثابت کیا ہے کہ جس قدر اس پر دباو میں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ اسی قدر مستحکم اور طاقتور ہوتی جاتی ہے اور اس کی مزاحمت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ رہبر معظم انقلاب گذشتہ کئی عشروں سے مزاحمتی اقتصاد پر زور دے رہے ہیں اور عوام کو اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لے کر پیداوار بڑھانے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔
 
مذاکرات کے بارے میں رہبر معظم انقلاب نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ہمہ جہت ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام میدانوں میں مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جو خط لکھا ہے وہ محض ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد خود کو امن کا مدافع ظاہر کرنا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بالفرض کل اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس میں امریکہ قصور وار نہیں ہو گا۔ اس خط کا اصل مقصد امریکہ کی جانب سے ایران کے قومی ارادے پر دباو ڈالنا ہے اور اس میں محض کھوکھلے وعدوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 
حال ہی میں ایران، چین اور روس نے مشترکہ جنگی مشقیں انجام دی ہیں اور بیجنگ میں جوہری مذاکرات بھی انجام پائے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی حکمت عملی سفارتکاری اور مذاکرات پر استوار ہے۔ دوسری طرف ایران نے چین اور روس سے 20 سے 25 سالہ طویل المیعاد فوجی اور سیکورٹی تعاون کا معاہدہ بھی انجام دے رکھا ہے۔ یوں ایک مشرقی نیٹو تشکیل پا چکی ہے جس کی مرکزیت ایران، روس اور چین کے پاس ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایران نے اس اتحاد میں شامل ہو کر اپنی دفاعی طاقت کا لوہا منوا لیا ہے۔ چین اور روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کے حق پر زور دیا ہے۔ لہذا اب خاص طور پر طوفان الاقصی آپریشن کے بعد خطہ اور دنیا میں طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے اور عالمی نظام میں ایران کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے جو امریکہ کو بالکل پسند نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکمت عملی میں ایران ہے اور اس کی کوشش رہے ہیں کیا ہے کی جنگ

پڑھیں:

خیبرپی کے : 169ارب کا سرپلس : ٹاسک دین طالبان کو مذاکرات پر لیا آئوں گا : گنڈاپور 

لاہور+ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) وزیراعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا طالبان میں اثرورسوخ ختم ہوچکا ہے۔ اڑھائی ماہ ہوچکے طالبان سے مذاکرات کا پلان دے رکھا ہے، عمل درآمد نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا مجھے ٹاسک دیں میں طالبان سے مذاکرات کرلیتا ہوں۔ اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا مجھے ٹاسک ملا تو کل اخونزادہ کے ساتھ بیٹھا نظر آؤں گا۔ دو سال پہلے میں پہاڑوں پر پھر رہا تھا، آج وزیراعلیٰ ہوں، کل کوئی ویلیو نہیں ہوگی۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے نے صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر سے خطاب کرتے کہا کہ  عمران خان جب تک جیل میں ہیں ملک میں سیاسی استحکام ممکن نہیں۔ بحرانوں سے نکالنے کیلئے نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے اور کوئی بھی ڈائیلاگ عمران خان کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کی حمایت کے بغیر جیتنا ناممکن ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ہم آپریشن کی حمایت اس لئے نہیں کر سکتے کیونکہ آپریشنز کا کوئی فائدہ نہیں، عوام کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں۔ جب ہم نے اقتدار سنبھالا خزانے میں صرف پندرہ دنوں کی تنخواہ کے پیسے موجود تھے، ایک سال کے دوران بجٹ میں 169 ارب روپے کا سرپلس دیا۔ ہم نے بغیر کسی نئے ٹیکس کے صوبائی آمدن میں 55 ارب روپے کا اضافہ کیا، گزشتہ حکومت کے 72 ارب کے بقایاجات ادا کئے۔ علی امین گنڈاپور نے کہا ہم ترقیاتی پروگرام کا تھرو فارورڈ ساڑھے 13 سال سے کم کرکے ساڑھے چار سال پر لے آئے  ہیں۔ اس ایک سال کے دوران ہم نے ایک روپیہ بھی قرض نہیں لیا بلکہ 50 ارب روپے قرضہ واپس بھی کیا۔ ہم نے خسارے کے حامل اداروں کیلئے انڈومنٹ فنڈز قائم کئے ہیں۔ رواں سال کے آخر تک تمام اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے۔ ہم نے اپنے ٹیکس ریونیو میں 55 فیصد اضافہ کیا اور  یہ سب کچھ بہتر طرز حکمرانی اور بہتر مالی نظم و نسق کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔ خیبر پی کے میں ایک سال کے دوران تمام سکالر شپس، وظائف ڈبل کئے‘ زکوٰۃ کی رقم کو 12 ہزار روپے سے بڑھا کر 25 ہزار‘ جہیز کی رقم کو 25ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ ہم نے آتے ہی ناصرف صحت کارڈ بحال کیا بلکہ اس کے نرخوں میں 30 فیصد کا اضافہ بھی کیا۔ آج صحت کارڈ میں اصلاحات کے ذریعے صوبائی خزانے کو ماہانہ ایک ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا ہم نے اس سال گندم کی خریداری میں 10 ارب روپے کی بچت کی۔ آئی ایم ایف نے خیبر پی کے حکومت کی کارکردگی کی تعریف کی ہے۔  ہماری ایک سالہ کارکردگی حقائق پر مبنی ہے۔  موجودہ ملکی حالات کو سدھارنے اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے میڈیا اپنا اہم کردار ادا کرے۔ ہم سب کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر وسیع تر ملکی مفاد کے لئے متحد ہونا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • چینی وزیر اعظم کی امریکہ کو مذاکرات کی پیشکش، تعاون کو تصادم پر ترجیح دیں
  • افغانستان و پاکستان کشیدگی کا حل مذاکرات
  • رہبر انقلاب اسلامی کا نوروز کی مناسبت سے اہم خطاب
  • ایران کے خلاف ممکنہ امریکی جنگ کا نتیجہ؟
  • امریکہ نے کوئی حماقت کی تو منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہیں،ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکہ کیلئے سفری پابندیاں لگانے کی آج ڈیڈ لائن نہیں، ترجمان وزارت خارجہ ٹیمی بروس
  • خیبرپی کے : 169ارب کا سرپلس : ٹاسک دین طالبان کو مذاکرات پر لیا آئوں گا : گنڈاپور 
  • دہشتگردی کے بہانے آپریشن کی راہ ہموار کیا جا رہا ہے، جمعیت نظریاتی
  • ٹرمپ کا خط مذاکرات کی پیشکش نہیں بلکہ دھمکی ہے، ایران کا ردعمل