Express News:
2025-03-24@00:52:46 GMT

بلوچستان کے حالات کی سنگینی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

بلوچستان کے حالات بہت سنگین ہیں ، اس کا ادراک دیگر صوبوں کے لوگوں کو بہت زیادہ نہیں ہوسکتا۔جو وہاں کے حالات کو جانتے ہیں، وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں حالات کیا ہیں۔بلوچستان محض ایک صوبائی نہیں بلکہ قومی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے فیصلہ ساز بلوچستان کو صوبائی فریم ورک میں دیکھ رہے ہیں جو حالات کو مزید سنگین بنا رہا رہا ہے۔بلوچستان کا مسئلہ محض امن وامان کا نہیں ہے بلکہ دہشت گردی جیسے سنگین بحران کا سامنا ہے۔وفاقی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتوں کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

ابھی تک ہماری پالیسی بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے جڑی ہوئی ہے۔ہم نے بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے علیحدگی پسندوں کے خلاف کئی آپریشن کیے ہیں لیکن اس میں کوئی بڑی کامیابی ہمیں نہیں مل سکی ہے اور بدستور بلوچستان کا صوبہ دہشت گردی کا شکار ہے۔

اس صوبے کی دہشت گردی نے مجموعی طور پر ملک کے جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کیا ہے وہیں قومی سلامتی یا سیکیورٹی کے تناظر میں ہمیں مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ بلوچستان کے حالات کو دیکھیں تو سب سے بڑا المیہ وہاں اختیار کی جانے والی سیاسی حکمت عملیوں سے جڑا ہوا ہے۔ صوبے میں مصنوعی سیاسی بندوبست کے کھیل نے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔

بلوچستان میں بیٹھی ہوئی سیاسی قیادت جو ووٹ کی بنیاد پر اور جمہوریت کو بنیاد بنا کر اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے ۔اس وقت بھی بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے جو بھی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ان میں بلوچستان میں موجود سیاسی لوگوں کا کردار بہت کم دیکھنے کو نظر آتا ہے۔

ایک طرف علیحدگی پسند عناصر ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کی سیاسی قیادت بھی ریاستی اور وفاقی سطح پر حکومت کی پالیسیوں پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔وفاقی حکومت کی پالیسی بنیادی طور پر رد عمل کی سیاست سے جڑی ہوئی ہے اور ایک مستقل پالیسی اور اعتماد کا بحران ہمیں بلوچستان کے تناظر میں وفاقی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

پاکستان کی قومی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی سر فہرست ہیں ان کا بھی کوئی موثر کردار بلوچستان کے حالات کے تناظر میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔بلکہ بلوچستان کی علاقائی جماعتوں کو ان قومی جماعتوں سے بہت گلہ ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کے مختلف ادوار میں بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے طاقت کا ضرور استعمال کیا جائے اور بالخصوص ان لوگوں کے خلاف جو ریاست کی رٹ کو نہ صرف چیلنج کر رہے ہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی حکمت عملی میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا شامل نہیں ہے اور ہم کیوں ان کی مدد اور مشاورت کے ساتھ آگے نہیں بڑھنا چاہتے؟

بلوچستان کی سیاسی قیادت کے جو بھی سیاسی تحفظات ہیں ان کو دور کرنا ریاستی اور حکومتی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔کیونکہ بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر بلوچستان کا بحران حل نہیں ہو سکے گا۔ ہمیں محمود خان اچکزئی،سردار اختر مینگل،مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جیسے لوگوں کی گفتگو سننی چاہیے اور ان کے جو بھی تحفظات ہیں ان کو دور کیا جانا چاہیے۔اسی طرح بلوچستان میں موجود لوگوں کے اور بالخصوص نوجوانوں کے جو بھی بنیادی انسانی حقوق ہیں ان کی فراہمی ریاست اور حکومتی ترجیحات میں اولین ہونی چاہیے۔مگر پہلے یہ اعتراف کیا جانا چاہیے کہ صوبے کی صورتحال اچھی نہیں ہے ۔

ا صوبے میں سیاسی اور جمہوری مقدمہ مضبوط بنانا بھی ہماری سیاسی ترجیحات کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے۔غیر سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی کوئی بھی پالیسی چاہے وہ طاقت کی بنیاد پر ہو یا مصنوعی لوگوں کے ساتھ اختیار کی جائے ہمیں کسی بڑی کامیابی کی طرف نہیں لے کے جا سکے گی۔

بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے معاملات کو محض بیان بازی کی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے۔بلوچستان کے حالات غیر معمولی بھی ہیں اور ان غیر معمولی سطح کے حالات میںہمیں غیر معمولی اقدام درکار ہیں۔بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا جانا چاہیے اور اس کا واحد نقطہ بلوچستان کے حالات کی درستگی اور ریاستی و حکومتی سطح کی حکمت عملی کووضع کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔

اسی طرح بلوچستان کی جو جماعتیں یا دیگر صوبوں کی جماعتیں جو اس وقت پارلیمنٹ میں نہیں ہے ان کے ساتھ بھی گفتگو ہونی چاہیے اور ان کی تجاویز کو بھی حالات کی درستگی میں مدنظر رکھ کر قومی پالیسی بلوچستان کے تناظر میں سامنے آنی چاہیے۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صوبے میں بہت سی خرابیاں ہیں اور ان کی وجہ بھی ہماری اپنی کوتاہیاں اور پالیسیاں ہیںاور ان کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ ناکامی کی کیا وجوہات ہیں ۔سیاسی قیادت بھی چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں ان کی طرف سے اس سوچ کو پروان چڑھانا کے حالات کی درستگی کو ممکن بنانے میں ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، غلط سوچ ہے ۔

 اگر ہم نے سیاسی اور معاشی استحکام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو بلوچستان کے حالات کی درستگی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔بلوچستان کے سیاسی حالات کی خرابی کا علاج بھی سیاسی حکمت عملیوں میں ہی تلاش کرنا ہوگا اور مختلف فریقین جن میںصوبہ کی سطح پر موجودہ سیاسی قیادت،سوسائٹی،میڈیا اور وکلا تنظیمیوں کو بھی اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے۔

اسی طرح اگر ہم نے صوبہ میں بھارت کی مداخلت یا سہولت کاری کے عمل کو کمزور کرنا ہے تو اس میں بھی ہمیں داخلی استحکام درکار ہے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی وجہ کئی دہائیوں سے جاری ہماری ناقص اور غیر سیاسی پالیسیاں یا حکمت عملیاں ہیں اور اسی رد عمل کی وجہ سے وہاں علیحدگی پسندوں کو تقویت ملی ہے۔

اگر ہم بلوچستان سمیت مجموعی طور پر ملک کے حالات کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سیاست جمہوریت، آئین اور قانون کی پاسداری کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔کیونکہ یہ ہی وہ نقاط ہیں جو ریاست کے نظام کو بھی مضبوط اور ریاست کے نظام پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرتے ہیں۔

اس وقت مسئلہ ہی یہ ہے کہ ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور بداعتمادی کے ماحول کو کم کیا جا سکے۔کیونکہ یہ عمل جتنا بڑھے گا اتنا ہی بلوچستان کا مقدمہ بھی کمزور ہوگا اور ریاست کو مزید مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سے بھی غلطیاں ہو رہی ہیں۔اس لیے داخلی سطح کی غلطیوں کا ادراک کر کے ایک جامع پالیسی کا بننا، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا اور اس پر عمل درآمد کا شفافیت پر مبنی نظام کا ہونا ہی بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی حکمت عملی کیا جانا چاہیے بلوچستان میں میں بلوچستان کے تناظر میں بلوچستان کی سیاسی قیادت بلوچستان کا کی بنیاد پر کے حالات کو اختیار کی لوگوں کے نہیں ہے رہے ہیں اور ان ہیں ان ہے اور جو بھی

پڑھیں:

قومی یکجہتی محض تقریبات اور بیانات تک محدود نہیں ہونی چاہیے، علامہ جواد نقوی

لاہور میں تقریب سے خطاب میں سربراہ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کا کہنا تھاکہ  ریاست عوام کا اعتماد بحال کرے اور پاراچنار کو دہشت گردوں کے تسلط سے آزاد کروائے، پاراچنار کے عوام نے ریاستی شرائط تسلیم کیں، شیعہ سنی قیادت نے یکجہتی دکھائی، مگر راستے تاحال بند ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں اپنے خطاب کے دوران اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ پاراچنار گزشتہ کئی ماہ سے دہشتگردوں کے نرغے میں ہے۔ شہری محصور ہیں، راستے مسدود ہیں، اور رمضان المبارک میں بھی چھ سے آٹھ لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی، بشمول راشن، ایندھن اور طبی سہولیات، مکمل طور پر ناپید ہیں۔ یہ صورتِحال تاریخی شعبِ ابی طالب کی سختیوں کی یاد دلاتی ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان کی مضبوط ریاست اپنی ہی عوام کو ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کروانے میں ناکام نظر آتی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا قومی یکجہتی محض رسمی تقریبات اور بیانات تک محدود ہے؟ اگر ریاست چاہتی ہے کہ عوام اس پر اعتماد کریں، تو اسے اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا، ان کے مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ریاست واقعی ان کی اپنی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاراچنار کے عوام نے ریاستی شرائط تسلیم کر لیں، معاہدوں پر دستخط ہو چکے اور شیعہ و سنی قیادت نے یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا، لیکن اس کے باوجود راستے ہنوز بند ہیں، تعلیمی ادارے مقفل ہیں، تجارتی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں، اور رمضان میں افطار کیلئے کھجور تک دستیاب نہیں۔ ریاست عوام کے زخموں پر مرہم رکھے، ان کے اعتماد کو بحال کرے، اور پاراچنار کو دہشتگردوں کے تسلط سے آزاد کرائے۔ بند راستے فوری طور پر کھولے جائیں، معمولاتِ زندگی بحال کیے جائیں، اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور دہلی کی افطار پارٹیوں کے قصے
  • گورننس کا خلا
  • افغانستان اور پاکستان کے لیے جنگ مفید نہیں، مولانا فضل الرحمن
  • قومی سطح کے فیصلوں میں پائیدار استحکام کیسے ممکن؟ مسرت جمشید چیمہ کا اہم بیان
  • ملک و قوم کے حالات بہت جلد بدلنے والے ہیں، کامران ٹیسوری
  • کیا کھویا، کیا پایا؟
  • عمران خان کی رہائی معافی سے مشروط، رانا ثنااللہ کا بیان نئی سیاسی بحث چھیڑ گیا
  • قومی یکجہتی محض تقریبات اور بیانات تک محدود نہیں ہونی چاہیے، علامہ جواد نقوی
  • پارلیمنٹ کی راہداری میں خواجہ آصف، بیرسٹر گوہر میں ملاقات، مصافحہ، قہقہے بھی لگائے