یوم پاکستان، تجدید عہد کا دن
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں نے سالہا سال تک حکمرانی کی مگر جنگ پلاسی و سرنگا پٹم اور سندھ کی جنگ جیتنے کے بعد انگریز پورے برصغیر پر حکمران بن گئے جب کہ ہندو مسلمان اور دیگر اقوام ان کی غلام بن گئیں۔
تاہم مئی 1857 میں اہل ہندوستان نے جنرل بخت خان کی قیادت میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا جو مختلف مراحل سے گزر کر بلاخر 14 اگست 1947 کو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
مگر اس تحریک میں تیزی 23 مارچ 1940 کے بعد آئی حالانکہ اس سے قبل کوئی بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں منعقد ہونے والا مسلم لیگ کا اجلاس جدو جہد آزادی کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس میں لاکھوں مسلمانان ہند نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایک الگ وطن حاصل کریں گے۔ بلاشبہ یہ پاکستان کی تشکیل کی جانب مسلمانوں کا پہلا بڑا قدم تھا جس نے آگے چل کر قیام پاکستان کی صورت اختیار کی۔
قرارداد پاکستان کے مقاصد معلوم کرنے کے لیے ہمیں برصغیر پاک و ہند کے جغرافیہ کے علاوہ ان حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا جس کی بنا پر یہ قرار داد 23 مارچ 1940 کو پیش کی گئی تھی اور اس کا مقصد کیا تھا۔
برصغیر پاک و ہند ہزاروں برس قدیم خطہ ہے جس میں قدیم انسانی تاریخ دفن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ جغرافیائی محل وقوع کی بناء پر دنیا کے نقشے پر ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ علاقہ زرخیزی اور بہترین بود و باش کی وجہ سے بیشتر اقوام کا مسکن رہا ہے۔
اسلامی تاریخ مسلمانوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے خود بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کیا اور ہندوؤں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے رہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو مٹا دینے کی انگریز اور ہندوؤں کی خواہش اس قدر خطر ناک ہوتی جا رہی تھی کہ اس کی مدافعت میں بالآخر مسلمانوں نے مسلم لیگ قائم کی۔
مسلم لیگ 1940 سے قبل کبھی بھی باقاعدہ طور پر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزاد خود مختاری ریاست کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔
سرسید احمد خان غالباً برصغیر کے پہلے مسلمان رہنما تھے جنھوں نے 1887 میں مسلمانوں کے لیے قوم کا لفظ استعمال کیا پھر علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1930 میں صدارتی خطبے میں ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا اور برصغیر کے مسلمان اکثریت والے علاقوں کو ملا کر ایک وطن بنانے کی تجویز پیش کی۔
شاعر مشرق علامہ اقبال کے اسی تصور نے 23 مارچ 1940 میں قرارداد پاکستان کی شکل میں تشکیل پائی۔ اس موقعے پر قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی صدارتی تقریر میں مسلمانان ہند کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ’’ قومیت کی تعریف چاہے جس طرح کی جائے، مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی اپنی الگ مملکت اور اپنی جدا گانہ ریاست ہو۔
ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر ہم ایک آزاد قوم بن کر اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہم آہنگی اور امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی، اخلاقی، تمدنی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشوونما بخشنے کے لیے وہ طریق عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ بھی ہو۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس قرارداد کی منظوری کے بعد اپنی آزادی کی جدوجہد کو تیز کردیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صرف سات سال کے مختصر عرصے میں بیک وقت انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزادی حاصل کر لی اور 14 اگست 1947 کو تاریخ عالم میں سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کے نام پر وجود میں آگئی۔
مگر نئی مملکت کا وجود بھارتی سامراج کے لیے قابل قبول نہیں تھا، چنانچہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی انھوں نے پاکستان کے خلاف اپنی سازشیں شروع کردیں انھوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنے والی سب سے بڑی اور سب سے عظیم ریاست مملکت خداداد ریاست بہاولپور کے سربراہ ہز ہائنس الحاج سر صادق محمد خان عباسی کو بھی لالچ اور دھمکی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے سے روکنے کی ہر ممکنہ کوششیں کیں لیکن غیرت مند ہاشمی خاندان کے چشم و چراغ محسن پاکستان سر صادق محمد خان نے نہرو کی ہر پیشکش اور دھمکی کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے پاکستان کے ساتھ نہ صرف الحاق کر لیا بلکہ اس ملک کو چلانے کے لیے اپنے تمام تر وسائل اور فوج بھی بابائے قوم کے حوالے کردی۔
اس طرح ہر دور میں ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سازشوں کے جال بنتا رہا ہے مگر ہر بار اس نے منہ کی کھائی ہے۔ حال ہی میں اس نے بلوچستان کے علیحدگی پسند دہشت گردوں کی پشت پناہی کر کے جعفر ایکسپریس پر حملہ کروایا لیکن ہمارے جانبازوں نے جلد ہی تمام دہشت گردوں کا صفایا کردیا۔
پاکستان کو تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کا گہوارہ بنانے، دوسرے ممالک سے برابری کی بنیاد پر رشتوں کو استوار کرنے اور قوموں کی برادری میں اسے ممتاز اور سرفراز رکھنے، اسے بنی نوع انسان کی خدمت اور دستگیری کے قابل بنانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کے عوام کو یکسوئی اور یکجہتی کے تمام لوازم فراہم کیے جائیں اور انھیں احساس دلایا جائے کہ اگر وہ اپنے اندر وہی جذبہ پھر سے زندہ کر لیں جس کا اظہار انھوں نے تحریک پاکستان کی صورت میں کیا تھا وہ پاکستان کو ایک عظیم الشان فلاحی مملکت بنانے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں اور بیرونی سازشوں کو بھی ناکام بنا سکتے ہیں۔ جب قومیں بیدار، متحد اور منظم ہوں تو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب اور سرخرو ہوتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: برصغیر کے مسلمان مسلمانوں کے پاکستان کی پاکستان کے مسلم لیگ کیا تھا کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور دہلی کی افطار پارٹیوں کے قصے
افتخار گیلانی
جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے ، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ہندوستان میں اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے ؟ابھی حال ہی میں ہندوستان کے شمالی اتراکھنڈ صوبہ کے ہری دوار کے ایک کالج میں ہندوانتہا پسندوں نے مسلم طلبہ کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کو درہم برہم کردیا۔ بعد میں پرنسپل نے بھی مسلم طالبعلموں کوافطار کے وقت کھانا لانے اوراس کودیگر طلبہ کے ساتھ ساجھا کرنے پر پابندی عائد کر دی۔اسی طرح میرٹھ کی ایک یونیورسٹی کے احاطہ میں نمازادا کرنے پرایک طالبعلم کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر دائر کی۔
ایک وقت تھا خاص طور پر دارالحکومت دہلی میں کہ رمضان میں سیاسی و سماجی لیڈروں، سیاسی پارٹیوں، سفارت خانوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے افطار پارٹیاں منعقد کرنااوراس کی آڑ میں رابطہ اور باہمی میل جول بڑھانا قابل اعزاز سمجھا جاتا تھا۔صدارتی محل یعنی راشٹرپتی بھون، وزیراعظم دفتر، وزیروں و سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں رمضان کے دوران اذان کیا واز گونجتی تھی اور مدعو مسلمان باجماعت نمازادا کرتے تھے ۔ کئی بار تو وزیروں کو نماز کے لیے مصلے بچھاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے ، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران بھی اپنے گھروں پرافطار پارٹیاں منعقد کرتے تھے ۔اس کے لیڈران سابق وزیرسید شاہنواز حسین اور وجئے گوئل کی افطار پارٹیاں دہلی کے اشرافیہ اور صحافیوں میں خاصی مشہور ہوتی تھیں۔ وجئے گوئل تو پرانی دہلی میں سحری کاانتظام کرتے تھے ۔ رات بھرایک سماں ہوتا تھا۔
کانگریس پارٹی کی افطار پارٹی کی ایک الگ ہی شان ہوتی تھی، جواس کے دفتر میں منعقد ہوتی تھی۔ ملک بھر کے کانگریسی لیڈران دہلی وارد ہوکراس میں شرکت کرتے تھے ۔ بعد میں کئی بار پارٹی کواس کو دفتر کے بجائے اشوکا ہوٹل میں منعقد کروایا گیا۔ پارٹی صدر سونیا گاندھی خود روزہ داروں کوافطار کرواتی تھی اور پر میز پر چند لمحے توقف کرکے سبھی کا حال چال پوچھتی تھیں۔مجھے یاد ہے کہ بی جے پی نے اپنے دفتراشوکا روڑ میں 1998میں ایک افطار پارٹی کاانعقاد کیا تھا۔ چونکہ اس کے بعد وہ حکومت میں آئی تھی،اس لیے وزیراعظم بننے کے بعداٹل بہاری واجپائی پارٹی، دفتر کے بجائے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہر سالاس کا نظم کرتے تھے ۔ 2014 سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سے افطار پارٹیوں کاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔
خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کے لیے افطار پارٹیاں سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور سیاسی حالات کی نبض پرکھنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔اس مقدس ماہ میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں اس قدر عروج پر ہوتی تھیں کہ میڈیا اداروں میں افطار پارٹیاں کور کرنے کے لیے باضابطہ رپورٹروں کی بیٹ لگتی تھی۔وزیراعظم ہاؤس یا راشٹرپتی بھون میں حکومت اور عدلیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتیں ہوتی تھی اور خاصی آف ریکارڈانفارمیشن حاصل ہوتی تھی۔ مخلوط حکومتوں کے دوران اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی تھی کہ حکومتی اتحاد کے کس لیڈر نے افطار پارٹی میں شمولیت کی اور باڈی لنگویج کیسی تھی اور حکومت پر کس طرح کے خطرے منڈ لا رہے ہیں۔صاحب اختیار واستطاعت افراداس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بطور، مگر زیاد ہ تراپنے آپ کو سیکولر جتانے اوراس کی نمائش کے لیے افطار پارٹیوں کااہتمام کراکے اپنا ووٹ بینک پکا کروانے کا بھی سامان کرتے تھے ۔
سال 1998 میں بی جے پی کے صدر دفتر پر منعقدافطار کی تقریب میں جب میں پہنچا تو دیکھا کہ پارٹی آفس کے وسیع و عریض لان میں شامیانہ لگا ہوا تھا، جس کے دروازے پر خود واجپائی اور چند دیگر لیڈران ٹوپی پہنے مہمانوں کااستقبال کر رہے تھے ۔ابھی افطار میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، مگر شامیانہ کے اندر چائے سموسہ اور کھجوروں کا دور چل رہا تھا۔لوگ آرام سے کھا پی رہے تھے ،افطار کے وقت کا کسی کو احساس نہیں تھا۔سید شاہنواز حسین، جو بعد میں مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے ، ان دنوں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے لیڈر تھے ۔ بستی نظام الدین اور دیگرعلاقوں سے چنندہ مسلمانوں کوافطار پارٹی میں لانے کی ذ مہ داری ان کو دی گئی تھی۔ وہ کیٹرنگ والے سے الجھ رہے تھے کہ افطار سے قبل ہی انہوں نے ناشتے کی قابیں کیوں سجائی ہوئی تھیں۔ خیر جب افطار کا وقت ہوا، تو خالی قابیں روزہ داروں کا منہ چڑھا رہی تھیں۔کسی طرح پانی وغیرہ پی کر روزہ تو کھولا۔اب مغرب کی نمازادا کرنے کا کوئی نظم نہیں تھا۔جن مسلمانوں کو تقریب میں لایا گیا تھا و ہ شاہنواز پر برس رہے تھے ۔ کسی طرح انہوں نے دفتر کے پچھواڑے میں نماز کے لیے لان کو صاف کروایا۔اب جس وقت روزہ دار نمازادا کررہے تھے کیٹرنگ والے نے ڈنر پیکٹ بانٹنے شروع کردیے ۔ بجائے قابوں میں کھانا پروسنے کے ، پارٹی نے ڈنر پیکٹوں کاانتظام کیا ہوا تھا۔ جب تک نماز ختم ہو جاتی اور روزہ دار شامیانہ میں واپس آجاتے ، معلوم ہوا کہ سبھی ڈنر پیکٹ ختم ہو چکے تھے ۔ بھوکے پیاسے روزہ دار شاہنوازاور بی جے پی کو صلواتیں سناتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے ۔
دارالحکومت دہلی میں 2014میں وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدارانے کے بعد سے ہی اس ماہ کی رونقیں چھن گئی ہیں۔ مودی کی دہلی آمد کے فوراً بعد ہی دارالحکومت میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔چونکہ انہوں نے اپنے وزراء کو بھی پارٹیوں میں شامل ہونے سے منع کردیا ،اس لیے دیگر سماجی تنظیموں نے بھی آہستہ ہستہ افطار پارٹیوں کے انعقاد سے ہاتھ کھنچ لیے ۔ افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے ، مگر ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے کاایک آؤٹ ریچ کا ذریعہ بھی تھا۔ایک منظم اور پر وقار ماحول میں روزہ کھولنااور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام کا کام ضرورکرتا تھا۔کشمیر میں بھی چونکہ افطار پارٹیوں کا کوئی رواج نہیں تھا،اس لیے دہلی آمد کے بعد یہ میرے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ کشمیر میں تو زمانہ امن میں بھی افطار سے قبل ایک طرح سے کرفیو سا لگتا تھا۔مارکیٹ سنسان ہوجاتے تھے ۔ لوگ عام طور پراپنے گھروں یا مقامی مساجد میں ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے تھے ۔افطار کا بھی الگ سے کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی نمازادا کرنے کے بعد لوگ ڈنر کرتے تھے ۔اس ماہ کے دوران تقریباً سبھی سرگرمیاں اور روابط ماند پڑ جاتے تھے ۔
اپنے دور طالب علمی میں ہی 90 کے اوائل میں مجھے پہلی بار سابق وزیراور کیرالہ صوبہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان کی رہائش گاہ پرافطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا۔دوران طالب علمی ان کی ایک قریبی رشتہ دارنے دعوت نامہ دے کرآنے کی تاکید کی تھی۔افطار پارٹی کیا تھی، بس ایک عالیشان شادی کا سا سماں تھا۔ جن سیاسی و سماجی چہروں کو ٹی وی یا اخباروں میں دیکھتے آرہے تھے وہ گوشت و پوست کے ساتھ الگ الگ میزوں پر برا جمان تھے۔وزیراعظم سمیت سبھی مرکزی وزرائ، بالی ووڈ کے ناموراداکار وغیرہ موجود تھے ۔اس پارٹی میں میری پہلی بار مرحوم مفتی محمد سعید سے ملاقات ہوئی۔ گو کہ سوپور میں کئی بار پبلک جلسوں ان کی تقاریر سننے کا موقع ملتا تھا، مگر بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ابھی حال تک ہندوستان کے وزیر داخلہ رہ چکے تھے ۔اس لیے ان کا ساتھ خاصا تام جھام تھا۔کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے بھی میں ان کو گہرے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ میں ان کوہندوستانی ایجنسیوں کا پروردہ، جس کو کشمیری خواہشات کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہو،سمجھتاآرہا تھا، جس نے 1977میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو گرایااور بعد میں 1984میں دہلی کی ایما پر فاروق عبداللہ کو معزول کروایااور جو کشمیر میں سیاسی بے چینی کا سبب بھی رہا۔میری میزبان نے میراان سے تعارف کرایا توانہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ کشمیری مسلم نوجوان یا تو صحافت میں آتے ہی نہیں، یا کریئرکے لیے دہلی کا رخ نہیں کرتے ۔انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ مجھ سے قبل یواین آئی کے شیخ منظوراحمداور سنڈے آبزرور کے ایڈیٹر محمد سعید ملک ہی بس دوایسے کشمیری مسلمان ہیں، جنہوں نے دہلی میں صحافت میں کریئر بنایا۔انہوں نے کسی کو شیخ منظور، جوان دنوں یواین آئی نیوزایجنسی میں سینئر پوزیشن میں کام کرتے تھے ، کو ڈھونڈنے کے لیے کہا۔ منظور صاحب پر نظر پڑتے ہی انہوں نے مجھے ان سے متعارف کرواکران کو صلاح دی کہ وہ میرا خیال رکھیں۔ مجھے بھی مشورہ دیا کہ کشمیر واپس جانے کے بجائے دہلی ہی میں جرنلزم میں جگہ بناؤں اور منظور صاحب اور ملک صاحب سے مشورہ لیتا رہوں۔گو کہ مودی نے آتے ہی وزیراعظم ہاؤس میں افطار کا سلسلہ تو بند کروادیا، مگر صدر پرنب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا تھا۔ 2017 تک اپنی مدت صدارت ختم ہونے تک ا نہوں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔تمام ممالک کے سفیر ،اپوزیشن لیڈران و دیگرافراداس میں شرکت تو کرتے تھے ، مگر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی نے کبھی بھی اس میں شرکت نہیں کی۔ مگرایک یاد و وزیر حکومت کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے ، جو صدر کی ہال میں آمد پران کااستقبال کرکے فوراً ہی رخصت ہوجاتے تھے کہ کہیں دیگر مہمانوں سے ملنے جلنے کے دروان ان کی فوٹو ریکارڈ پر نہ آجائے ۔
راشٹرپتی بھون میں جب ایک بارافطار پارٹی کے بعد مغرب کی اذان تو ہوئی، مگر نماز کے لیے امام کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔وسیع و عریض صدارتی اسٹیٹ کے احاطہ میں ایک مسجد موجود ہے ۔اسی مسجد کے یا پارلیمنٹ کے بغل میں جامع مسجد نئی دہلی کے امام صاحبان اس موقع پرامامت کرتے تھے ۔ مگر دونوں اس دن غائب تھے ۔ معلوم ہوا کہ نئی دہلی کی جامع مسجد کے امام محب اللہ ندوی جواب خیر سے رام پور سے لوک سبھا کے منتخب ممبر ہیں، دیرسے آنے کی وجہ سے باہر سیکورٹی کے اہلکاروں سے الجھے ہوئے تھے ۔اس دوران تمام مسلم ممالک کے سفرائ،اراکین پارلیامان و دیگر زعماء صفوں میں کھڑے امام کو تلاش کر رہے تھے ۔ راجیہ سبھا میں لیڈرآف اپوزیشن غلام نبی آزاد ادھرادھر دیکھ رہے تھے کہ پاکستانی سفیر عبدالباسط نے آگے بڑھ کرامامت کا منصب سنبھال کر نمازادا کروائی۔اس دن معلوم ہوا کہ باسط صاحب ایک خوش الحان قاری بھی ہیں۔ایک روح پرور منظر تھا کہ تمام دنیا کے مسلم ممالک کے سفیر اور ہندوستانی مسلم زعمائ،اشرافیہ اور مسلماراکین پارلیمان ایک پاکستانی سفیر کی اقتدا میں نمارادا کررہے تھے ۔
اسی طرح ایک بار صدارتی محل ہی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی دوسری مدت حکومت میں مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہاں اس تقریب میں ہم دو کے علاوہ کوئی اور روزہ دار نہیں لگ رہا ہے ،افطار کا وقت ہورہا ہے ،اس لیے ہم ڈنر ہال کے گیٹ کے پاس بیٹھ کر فوراً ہی اندر چلے جاتے ہیں۔صدروسیع و عریض اشوکاہال میں آکر سبھی مہمانوں سے ایک ایک کرکے مل رہے تھے ، فاروق صاحب سمجھا رہے تھے کہ ہم افطار کرنے آئے ہیں، دیگرافراد کی طرح صدر سے ملنے نہیں آئے ہیں۔ شاید راشٹرپتی بھون کے بیرے بھی ہمیں دیکھ کر تاسف کر رہے تھے ۔ان میں سے ایک نے آکر ہمیں تسلی دی کہ افطاری میں خاصے لوازمات وافر مقدار میں ہیں۔وہ یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ ندیدوں کی طرح دروازے پر پہرہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ،افطار کے وقت ناشتہ وغیرہ مل ہی جائے گا۔ میں نے فاروق صاحب سے پوچھا کہ ان کی رنگیلی طبعیت اورامیج کے برعکس وہ آجکل مومن کیسے ہوگئے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں وہ سبھی دنیاوی کام چھوڑ کر روزوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور ختم قرآن شریف بھی کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ماں اکبر جہاں کااعجاز ہے کہ وہ ان کواور دیگر بھائیوں اور بہنوں کو روزہ اور تلاوت قرآن کی تاکید کرتی تھی۔ اپنے باپ شیخ محمد عبداللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت ہی سخت گیر قسم کے والد تھے اور اکثران کو چھڑی سے پیٹتے تھے ، پر والدہ ہی ان کو چھڑاتی تھی۔بیگم اکبر جہاں،ایک نومسلم انگریز جان نیڈواورایک کشمیر ی گوجر لڑکی کی اولاد تھی۔ مگر سخت مذہبی اور صوم و صلوات کی پابند خاتون تھی۔ فاروق صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں وہ رمضان میں روزہ و نماز کا سختی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔
من موہن سنگھ کی وزات اعظمیٰ کے دور میں وزیراعظم ہاوس میں افطار پارٹی کے موقع پر دیکھا کہ چند مسلم زعما نے وزیراعظم اور سونیا گاندھی کو گھیرا ہوا تھا، وہ سوال کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے چند سال قبل مسلمانوں سے متعلق سچر کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرنے کے باوجود عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟پبلک سیکٹر بینک مسلم تاجروں یااسٹاٹاپ کو قرضے دینے سے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ میں انہی دنوں میرٹھ کسی اسٹوری کے سلسلے میں گیا تھااور وہاں ہاشم پورہ محلہ کے 1989 کے فسادات کے مثاثرین سے ملنے پہنچا۔ فسادات کے متاثرین میں ایک ڈاکٹر جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے ، ٹھیک ہوکر بزنس کرنا چاہتے تھے ، کیونکہ ان کی میڈیکل لائسنس کینسل کر دی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اعلانات کے باوجود، کوئی بھی بینک لون نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھ سے اپنے ایک پرنٹنگ پریس میں گفتگو کر رہے تھے ۔میں نے پوچھا کہ یہ پریس پھر کیسے وجود میں آیا؟ توانہوں نے کہا کہ سال بھر قبل ادھر چوک میں ایک کشمیری بینک کھلا۔ جب میں نے وہاں درخواست دی، توانہوں نے فوراً منظور کی۔ معلوم ہوا کہ جموں و کشمیر بینک، جو ہندوستان کا پبلک سیکٹر کا چوتھا بڑا بینک تھا، اس کی شاخ کھل گئی تھی۔اس سے میرے دماغ کی بتی جیسے روشن ہوگئی۔
وزیراعظم کے ساتھ اس گروپ کی تکرار سنتے ہوئے ، میں نے وہیں کھڑے ہی مشورہ دیا کہ بینکوں کے اس رویہ کا حل بس یہ ہے کہ جموں و کشمیر بینک کو ترغیب دی جائے کہ مسلم علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اپنی شاخیں کھولے ۔من موہن سنگھ نے کہا کہ ابھی افطار کا وقت ہو رہا ہے ۔ ڈنر کے بعد چند منٹ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ان زعما کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پر میں نے ان سے کہا کہ اس وقت ملنے کے بجائے ان سے باضابطہ اپائنٹمنٹ لے کر تیاری کے ساتھ میٹنگ کا بندوبست کرو۔ ہوسکے تو سچر کمیٹی کے افسران ظفر محموداورابو صالح شریف کواپنے ساتھ وفد میں لے کر ملاقات کا بندوبست کرو۔ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے ، چونکہ اس کو معلوم ہوگا کہ ملاقات کاایجنڈہ کیا ہے وہ کابینہ سکریٹری یا کم سے کم فائنانس سکریٹری کو بھی بلائیں گے اور ہاتھوں ہاتھ آپ کے مسائل حل ہوجائیں گے ۔مگر کون سنتا۔ خیر ڈنر کے بعد لان کے متصل کمرے میں ان زعما کو بلایا گیا۔ چونکہ جس وقت انہوں نے وزیراعظم کو گھیرا ہوا تھا، میں بھی موجود تھا،اس لیے گھیر کر مجھے بھی ان کے ساتھ ہی لے جایا گیا۔ وزیراعظم کے سیٹ پر بیٹھتے ہی، بجائے ان سے سچر کمیٹی کی سفارشات پر گفتگو کی جاتی، لکھنؤ سے آئے ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ حال ہی میں ہندوستان نے کیوں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹنگ کی؟اس معاملہ کو لے کر انہوں نے خوب تقریرجھاڑی۔ مجھے بس اتنا سنائی دیا کہ من موہن سنگھ نے کہا کہ اس میں ملک کا مفاد تھااس پر وہ کوئی اور گفتگو نہیں کریں گے ۔ لگا کہ اب اپنے مسائل پر یہ زعما بات کریں گے کہ ایک کونے سے ایک اور صاحب نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہو رہی بربریت کا ایشو اٹھایا اور سوال کیا کہ ان کی حکومت اس پر کیوں خاموش ہے ۔دس منٹ کی یہ میٹنگ اسی غیر سنجیدگیاور خارجہ پالیسی سے متعلق تقریروں کے ساتھ ختم ہوگئی۔ جس کے لیے یہ میٹنگ منعقد کی گئی تھی، وہ ایشو ہی نہیں اٹھائے گئے ۔ اس واردات سے پرے افطار پارٹیاں یقیناً حکمرانوں کے ساتھ ایک کھلے اور باوقار ماحول میں براہ راست ملنے کا موقع فراہم کرتی تھیں۔بتایا جاتا ہے کہ 70 کی دہائی کے اواخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آوٹ ریچ کے لیے افطار پارٹیوں کے سلسلہ کو شروع کیا تھا، جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے دور میں یہافطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔وزیراعظم مودی اوران کے دست راست وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کوایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے ،افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضح مثا ل ہے ۔
حال اب یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی اپنے حامیوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ تزک واحتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کااہتمام نہ کیا جائے ۔اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈرافطار کااہتمام کرتا ہے تو لیڈروں کی تصویر یا پارٹی کا بینرآویزاں نہیں ہونا چاہیے ۔ چند سال قبل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی نے لیڈروں کو ہدایات دی تھیں کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظرآئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ پچھلے سالوں سے کئی شہروں میں مسلمانوں کے لیے افطاری کا بندوبست کرتی ہیں۔اس سال تو دہلی میں اسرائیلی سفارت خانہ نے بھی افطار پارٹی منعقد کی ۔ پتہ نہیں کہ اس میں شامل مسلمانوں نے اسرائیلی سفیر کو فلسطین اور غزہ پرمسلط جنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا یا بس شکم بھر کر ہی واپس لوٹے ۔خیر ہندوستان میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے ۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے ، مگراب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظرآتی ہیں، توانہیں ہندواکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے لیے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جوآبادی ہے اس کا دسواں حصہ ہندوستان میں ہے ، مگراس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنادیے گئے ہی۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا۔اس کے ماننے والوں نے ہندوستان میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کااستعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔