بشار الاسد کو ہمارے حوالے کیا جائے گا؛ شامی صدر کی پوٹن سے باضابطہ درخواست
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
شام کے صدر احمد الشرع نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے بشار الاسد کی حوالگی کی سرکاری طور پر درخواست کردی۔
عرب میڈیا کے مطابق شام کے صدر احمد الشرع نے کہا کہ سابق صدر بشار الاسد کے خلاف شام میں عدالتی کارروائی کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔
شامی صدر نے کہا کہ شفاف انصاف اور قانونی کارروائی کے لیے ضروری ہے کہ بشار الاسد عدالت میں حاضر ہوں اور اپنا دفاع کریں۔
بغاوت کے بعد بننے والے شام کے نئے صدر احمد الشرع نے مزید کہا کہ روس میں رکھی گئی بشار الاسد اور ان کے خاندان کی رقوم بھی واپس کی جائیں گی۔
احمد الشرع نے کہا کہ یہ اثاثے شامی عوام کی امانت ہیں جنھیں لوٹ کھسوٹ کرکے سابق حکومت نے اپنی عیاشیاں جاری رکھنے کے لیے روس میں منتقل کیا تھا۔
دوسری جانب ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ روس نے واضح کردیا ہے کہ وہاں کوئی رقم جمع نہیں ہے۔
رپورٹ میں روسی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ صدر پوٹن کبھی بشار الاسد کو شام کے حوالے نہیں کریں گے۔
روس کی جانب سے تاحال ان خبروں پر کوئی آفیشل بیان سامنے نہیں آیا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: احمد الشرع نے بشار الاسد کہا کہ
پڑھیں:
نوائے حق و صداقت حافظ حسین احمد رحمہ اللہ
جس طرح زمانے کی رفتار نہیں رکتی اسی طرح ہرزمانے میں نابغہ روزگار لوگوں کا پیدا ہونا بھی کبھی نہیں تھما جو ملک کی سیاسی اور سماجی فضا کو آلودگیوں سے محفوظ و مامون رکھنے میں اپنا کردار اداکرتے ہیں ۔جن کی علمی بصیرت ،پر اعتماد شخصیت اور جرت مندانہ قیادت سے معاشرہ اور ملک مستفید ہوتا ہے ۔ایسے ہی افراد اپنے دور ہی کے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئےایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو معاشرے کے ہر طبقے کے لئے روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ایسی ہی ایک شخصیت مولانا حافظ حسین احمد کی بھی تھی جو پاکستان کی دینی اورسیاسی تاریخ کے ایک اہم ستون تھے ۔ جنہوں نے محراب منبر کے ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے جہاں اپنی دینی خدمات سے اسلام کی سربلندی میں اہم کردار ادا کیا وہیں اپنے ملک وملت کی سیاسی تاریخ کے خدوخال کی درستی کے لئے بھی مقدور بھر کوشش کی۔ انہوں نے جمہوری اقدارو روایات کے تحفظ اور وحدت ملی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ ان کی رحلت ایک دینی سیاسی جماعت کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔
مرحوم و مغفور مولانا حافظ حسین احمد کا تعلق ایک دینی علمی خانوادے سے تھا ،کم عمری ہی میں مصحف رب کریم حفظ کرلینے کے بعد دینی علوم کے حصول کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔فقہ و حدیث اور اسلامی تاریخ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد عصری سیاسی صورت حال کا عمیق مطالعہ کیا اس کے ساتھ عالمی سیاست اور معیشت آپ کی دلچسپی کامحوررہی۔ تاہم ان کابنیادی ہدف فروغ دین اسلام ہی تھا ۔ان کی تمام تر زندگی صبرواستقامت سے تعبیر تھی ۔
سیاسی میدان میں قدم رکھا تو ایک نڈراور بے باک سیاستدان کے طور پر شہرت پائی۔پارلیمنٹ میں ان کے تاریخ ساز خطبات آنے والے پارلیمانی ممبران کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے۔انہوں نے اپنی تمام زندگی ریاست کے ساتھ عوام کے حقوق کے حصول کی خاطر پنجہ آزمائی میں گزاری ۔وہ ایک حق پرست و حق شناس سیاستدان تھے جنہیں اصولوں پر سودے بازی پر کوئی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ ذاتی مراعات کے رسیا نہ تھے ۔اپنے موقف پر ڈٹ جانا ان کا سیاسی وتیرہ تھا اس کے لئے وہ اپنے مفاد کی پروا نہیں کرتے تھے ان کے سامنے ہمیشہ ملی اور قومی مفادات کی اہمیت زیادہ رہی۔جمیعت علمائے اسلام کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ایک حلقے نے ان کے اورمرکزی قیادت کے درمیان فاصلے بڑھانے کی سر توڑکوششیں کیں مگر انہیں اپنے بنیادی موقف سے متزلزل کرنے میں بے نیل ومرام رہے۔اسی طرح ریاستی دبائو کے سامنے بھی وہ اپنے مطمع نظر سے ایک قدم ٹس سے مس نہ ہوتے یہی وجہ تھی کہ ہردور میں ایک بار نہیں متعدد بار انہیں پابند سلاسل کیا گیا مگر وہ ایک مستحکم اور سنجیدہ مزاج سیاسی مدبر کی حیثیت میں اپنے نظریئے سے دست بردار نہ کئے جاسکے۔
جادہ حق بہت دشوار گزار اور کانٹوں بھرا ہوتا ہے مگر حافظ حسین احمد وہ شخص تھے جنہوں نے اپنی سیاسی اور دینی حیات آبلہ پائی کی نذر کر دی۔قومی معاملات ہوں یا بین الاقوامی امور ہر حوالے سے انہوں نے جرات مندانہ موقف اپنایا اور کامل بصیرت کے ساتھ سیاسی بیانیہ اپنایا۔سینٹ کے ممبر کی حیثیت سے پارلیمان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کی۔اسی طرح آئینی ترامیم کے تحفظ کے لئے ہمیشہ ثابت قدم رہے ۔وہ ہر آمر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایستادہ ہوئے اور جمہوری اقدار پر آنچ آنے کے خلاف دینی سیاسی حلقوں کی طرف سے سب سے توانا آواز انہی کی ہوتی تھی۔ان کا شمار متحدہ مجلس عمل کے سرکردہ رہنمائوں میں ہوتا تھا جب خیبر پختون خوا کی حکومت بنانے کے حوالے سے جماعت کے موقف میں لچک آئی تو مولانا کے تیور مخفی نہ رہے ۔وہ ایم ایم اے کے بنیادی ڈھانچے کے حامی ہونے کے باوجود اس کی حکومت پر تنقید سے گریزنہیں کرتے تھے۔ وہ مجلس کے بعض رہنمائوں پر آمر پرویز مشرف کے ساتھ نرمی کا رویہ رکھنے پر سیخ پا ہوئے اور اپنی جماعت پر مشرف کے ساتھ مفاہمت کے رویئے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔یہاں تک کہ قائد جمیعت مولانا فضل الرحمان کی بعض پالیسیز کو بھی ببانگ دہل تنقید کا نشانہ بنایا۔انہیں یہ قلق تھا کہ متحدہ مجلس عاملہ کی حکومت عوامی مسائل کے حل کی بجائے سیاسی جوڑ توڑ پر زیادہ وقت ضائع کر رہی ہے ۔
2003 ء میں خیبر پختون خوا اسمبلی میں شریعت بل منظور ہوا تو اس پر بھی مولانا حسین احمد کا موقف یہ رہا کہ ’’گو یہ ایم ایم اے حکومت کی کامیابی سہی مگر اس پر عمل درآمد کمزور رہا‘‘۔ان کاخیال تھا کہ ’’مجلس عمل کو اپنے منشور کے مطابق شرعی نظام کے نفاذ میں زیادہ سنجیدگی دکھانی چاہیے تھی ‘‘ وہ مجلس عمل کے فوجی حکومت کے ساتھ سودے بازی کے کئے جانے پر بھی آزردہ خاطر ہوئے۔
19 مارچ 2025ء کو مولانا حافظ حسین احمد کا سانحہ ارتحال پورے ملک پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کے دینی سیاسی حلقوں کے لئے ایک انتہائی افسوسناک امر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور پوری جمیعت کو حق کی ایسی آواز بنا دے جیسی ان کی روحانی آرزو اور دلی خواہش تھی ۔آمین