Daily Ausaf:
2025-03-23@16:16:36 GMT

پاکستان میں ایک دن میں دوسرا زلزلہ، گھروں میں آگ لگ گئی

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

سوات(نیوز ڈیسک) سوات اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔
آج ہفتہ کی شام روزہ افطار ہونے کے بعد ساڑھے سات بجے کے لگ بھگ آنے والے زلزلہ کی شدت ریختر سکیل پر 4.3 ریکارڈ کی گئی ۔
ابتدائی تخمینہ کے مطابق زلزلے کی زیر زمین گہرائی 173کلو میٹر تھی ۔
زلزلے کا مرکز کوہ ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ تھا ۔

آج ہفتہ کے روز پاکستان میں آنے والا یہ دوسرا زلزلہ ہے۔
زلزلے کے ساتھ ہی سوات کی وادی بحرین میں ایک گھر میں آگ لگ گئی، آگ کی شدت اس قدر تھی کہ وہ پھیلتی ہوئی دوسرے گھروں تک جاپہنچی۔ ابھی تک ملنے والی معلومات کے مطابق 10 سے 11 گھر آگ کی لپیٹ میں آ گئے۔

گھروں کے مکین محفوظ مقام پر منتقل ہوچکے ہیں۔ فائر وہیکلز کی رسائی ناممکن ہونے کے باعث ریسکیو فائرفائٹرز پیدل چل کر آگ بجھانے میں مصروف ہیں، مقامی لوگوں کی بڑی تعداد بھی آگ بجھانے میں ریسکیو کی مدد کررہی ہے۔

ضلع سوات کے شہر مینگورہ اور گردونواح میں بھی زلزلےکے جھٹکے محسوس کیےگئے ہیں۔

زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلےکی شدت 4.

3 ریکارڈ کی گئی ہے۔

زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ زلزلےکی گہرائی 73 کلومیٹر تھی اور زلزلے کا مرکز کو ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ تھا۔

زلزلے کے باعث کسی قسم کے جانی و مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
اس سے قبل آج صبح 10بج کر 26 منٹ پر بلوچستان میں اورماڑہ کے جنوب مشرق سے 68 کلومیٹر دور سمندر میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔

زلزلہ پیمامرکز کے مطابق زلزلےکی شدت 4.8 ریکارڈ کی گئی اور اس کی گہرائی 18 کلومیٹر تھی۔

زلزلہ پیماء مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر4.8 ریکارڈ ہوئی جبکہ گہرائی 18کلومیٹر تھی۔ زلزلے کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

زلزلےکا مرکز اورماڑہ کے جنوب مشرق میں تھا،4اعشاریہ 8 شدت کا زلزلہ زیادہ تباہ کن تو نہیں ہوتا، لیکن سمندری زلزلے ہمیشہ خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، خاص طور پر اگر گہرائی کم ہو،18 کلومیٹر کی گہرائی میں آنے والا زلزلہ زیادہ شدید نقصان نہیں پہنچاتا، لیکن ساحلی علاقوں میں احتیاطی تدابیر اپنانا ضروری ہوتا ہے۔
مزیدپڑھیں:’جو آدمی صحیح سے چل نہیں سکتا اس سے کہا جا رہا ہے ناچ سکندر‘

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے مطابق زلزلے زلزلے کے کی شدت

پڑھیں:

ہشیار رہئے!!

’’ باجی… ‘‘ لمبی سی سر کے ساتھ کسی نے مجھے مخاطب کیا تھا۔ میں نے پلٹ کر سوالیہ نظر سے دیکھا۔ سر تا پا برقعہ نما لباس میں ملبوس، آواز سے نوجوان لڑکی محسوس ہوئی تھی مگر دل میں خیال آیا کہ وہ اس بھیس میں لڑکا بھی ہو سکتا تھا۔ باجی!!! کہنے کا انداز بھی بھکاریوں جیسا مخصوص انداز تھا۔ ’’ باجی مجھ سے کنگھی خرید لیں، دو دن سے میرے ہاں چولہا نہیں جلا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ چولہا جلانے والی گھر میں نہ ہو گی تو چولہا کیونکر جلے گا۔

’’ پہلے مجھے یہ بتائیں بیٹا کہ آپ یہاں داخل کیسے ہوئیں؟‘‘ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ اس قسم کی gated اور walled سوسائٹی میں وہ اندر آئی کس طرح تھی جہاں پر بغیر پاس کے یا شناختی کارڈ جمع کروائے کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔

’’ میں چیک کرتی ہوں کہ آپ کس طرح اندر آ گئی ہیں۔ میں نے اپنے پرس میں سے جتنی دیر میں فون نکالا، اتنی دیر میں وہ یوں غائب ہوئی جیسے کہ وہ تھی ہی نہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا کہ مجھے شاید کوئی خواب آیا تھا، یوں جاگتے ہوئے اور دن دیہاڑے۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی، میں دکان سے کچھ خرید کر نکلی تو اسی نوعیت کی ایک اور خاتون قریب آئی، میں اس وقت گاڑی میں سامان رکھ کر پلٹی تھی۔ میںنے غور سے دیکھا، وہ فرق خاتون تھی۔ ’’ میڈم جی… ‘‘ اسی مخصوص انداز میں اس نے آغاز لیا، ’’ کچن کی صفائی والے کپڑے لے لو جی!!‘‘

’’ اچھا کتنے کا ہے؟ ‘‘ میںنے گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھ کر پلٹ کر سوال کیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے درشتی سے سوال کروں کہ وہ یہاں کیسے داخل ہوئی تھی اور وہ غائب ہو جائے ۔ میرے سوال نے اسے کچھ امید دلائی تھی، یہی میں نے چاہا تھا۔

ساٹھ روپے کا ایک ہے جی اور اگر آپ چار لیں تو میں دو سو میں دے دوں گی۔‘‘ اس نےbuy four and get 70% off    جیسی پیش کش کی۔ پرس میں سے کچھ تلاش کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس ہزار روپے کا چھٹا تھا کہ نہیں۔

اسی دوران میں نے پرس میں رکھے فون سے صاحب کو پیغام بھیجا اور اپنا حدود اربعہ بتاتے ہوئے مختصراً مسئلہ بھی بتایا۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس چھٹا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو وہ اتنا چھٹا ساتھ لے کر آئی تھی یا صبح سے اس نے صفائی والے اتنے کپڑے بیچ لیے تھے۔ ’’ چلو پانچ سو بھی شاید مل جائیں۔‘‘

میں نے اسی طرح پرس میں کچھ تلاشنے کی اداکاری کی ۔ ’’ کہاں سے آتی ہوں بیٹا؟‘‘ میںنے سوال کیا تو اس نے ایک قریبی قصبے کا بتایا، ’’ اچھا اندر کیسے آتے ہیں آپ لوگ، پہلے بھی ایک لڑکی مجھے ملی ہے وہ کنگھیاں بیچ رہی تھی؟‘‘ میںنے کہا تو اس نے خوشی سے بتایا کہ وہ بھی اسی کے ساتھ آتی تھی، ’’ یہاں اس کالونی میں اندرکیسے آجاتے ہو آپ لوگ؟‘‘

’’ اجی ہم پہلے یہاں کام کرتے تھے لوگوں کے گھروں میں تو ہمارے پاس بنے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے خوشی خوشی بتایا۔

’’ تو اب کیوں کام کے بجائے آپ لوگ بھکاری بن گئے ہو؟‘‘ میںنے سوال کیا۔

’’ بھکاری تو نہیں جی، ہم تو کام ہی کرتے ہیں ، یہ بھی تو کام ہی ہے نا۔‘‘ اس نے مجھے سمجھانا چاہا۔

’’ میرا واسطہ اس سے پہلے بھی ایسی خواتین سے پڑ چکا ہے جو پہلے کچھ بیچنا چاہتی ہیں مگر جب اس سے کچھ خریدا نہ جائے تو وہ بھیک مانگنے لگتی ہیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔

 مجھے اتنی ہی دیر میں نظر آ گیا تھاکہ ہماری کالونی کی سیکیورٹی کا نمایندہ وہاں پہنچ چکا تھا، جب تک میں اس سے بات چیت کر رہی تھی، اسے یہی امید تھی کہ میں اس سے چار رومال لے لوں گی۔ سیکیورٹی کے نمایندے نے اس کے پاس پہنچ کر اپنی بائیک کھڑی کی اور اس سے اس کا پاس مانگا۔

اس نے پاس نکال کر دکھایا اور اس پر معمول کی کارروائی شروع ہوئی، اس کا پاس ضبط کر لیا گیا، تھوڑی دیر میں ہی وہاں گاڑی بھی پہنچ گئی ، اسے اس گاڑی میں ڈال کر گیٹ سے باہر بھجوانے کی کارروائی ہوئی اور اس کے بعد سیکیورٹی گارڈ اسی علاقے میں گھومنے لگا تا کہ اس کی باقی ساتھیوں کو تلاش کر سکے۔

آپ کو پڑھ کر لگا ہو گا کہ میں نے اس خاتون پر خواہ مخواہ ظلم کیا مگر اس کا کوئی مقصد ہے۔ اصل میں کچھ عرصے سے ایسی کئی کارروائیاں سننے کو مل رہی تھیں اور اکثر گھروں کے سی سی ٹی وی کیمروں میں بھی ایسے گروہوں یا انفرادی کام کرنے والیوں کی وڈیو ریکارڈ ہوئیں جو کہ گھروں پر آ کر لوگوں کو کسی نہ کسی بہانے سے لوٹ کر چلے جاتے ہیں مگر ان کیمروں میں ریکارڈ ہونے کے باوجود بھی انھیں پکڑا نہیں جا سکتا کیونکہ اس سب کے حلیے ایسے ہی ہوتے ہیں، برقع پوش خواتین اور سروں پر صافے اوڑھے ہوئے مرد۔

ان کا طریقہء واردات یہی ہے کہ وہ قریبی دیہات میں آباد ہیں، پہلے وہ ان سوسائٹیوں میں ملازمت کی غرض سے آتے ہیں، کسی نہ کسی گھر میں سستے داموں کام پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور گھروں اور مکینوں کی ’’چھان بین ‘‘ کا عمل کرتے رہتے ہیں، گھروں کی اندرونی صورت حال جاننے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں، اپنا اعتماد قائم کرتے اور سوسائٹیوں کے سیکیورٹی پاس بنوا لیتے ہیں اور اس کے بعد چھٹی پر جائیں تو لوٹتے نہیں یا پھر کچھ ایسا غلط کرتے ہیں کہ انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔

اب اس گھر کے مکینوں کو چاہیے کہ اگر اسے خود فارغ کریں یا اسے چھٹی پر بھجوائیں تو اس سے اس کا پاس واپس لے لیں اور اگر وہ چھٹی پر جا کر واپس نہ آئے تو اپنے علاقے کی سیکیورٹی کو اس کی تفصیلات اور اس کے پاس کا نمبر وغیرہ بتایا جائے تا کہ وہ جب بھی وہاں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اس کا پاس چیک ہونے پر کینسل کیا جا سکے۔

پہلی غلطی تو ہم لوگ خود ہی کرتے ہیں کہ اس بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ان لوگوں کے گینگ اتنے مضبوط بن گئے ہیں کہ یہ لوگوں کے گھروں تک پہنچ جاتے ہیں، انھیں اندر کی معلومات ہوتی ہیں اور یہ ایسا نشانے پر تیر لگاتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے نئے ملازم اس کا شکار ہو جاتے اور انھیں گھروں میں داخل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

اس گھر کے مالک کا نام لیں گے یا ان کی بیگم کا تو اس کے بعد تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ کبھی ان کے کسی رشتہ دار کا نام لیں گے کہ انھوں نے بھیجا ہے وغیرہ۔ انھیں یوں سہولت سے اندر داخل ہوتے دیکھ کر کوئی راہ چلتا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کوئی وارداتیے ہیں۔

کبھی وہ کوئی مظلوم بن جاتے ہیں کہ ان کی جیب کٹ گئی ہے اور انھیں مدد کی ضرورت ہے، کبھی وہ تاک میں ہوتے ہیں کہ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے معمولات کے مطابق نکل جائیں تو اس کے بعد وہ اس گھر میں داخل ہوں اور صفایا کر کے نکل جائیں ۔ کبھی وہ گھنٹی بجاتے اور گھروں کے ملازمین یا دیگر افراد کو ٹرانس میں لے آتے ہیں اورانھیں بے بس کر کے ان کے سارے مال اسباب اور نقد رقوم کا صفایا کر دیتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہشیار رہئے!!
  • بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ میں زلزلے کے جھٹکے، شدت 4.8 ریکارڈ
  • سوات اور گردونواح میں زلزلہ، شدت 4.3 ریکارڈ
  • خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
  • بلوچستان میں زلزلے کے جھٹکے
  • بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ میں زلزلہ، شدت 4.8 ریکارڈ
  • اورماڑہ کے جنوب مشرق سمندر میں زلزلے کے جھٹکے
  • عید الفطر کا چاند 29 مارچ کو نظر آنا ممکن نہیں ، بین الاقوامی فلکیاتی مرکز
  • چیمپئینز ٹرافی فائنل کی تقریب؛ پاکستان نے آئی سی سی کو دوسرا خط لکھ دیا