وائس آف امریکہ کے صحافیوں اور ان کی یونینز نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی امداد سے چلنے والی خبر رساں ایجنسیوں کی بندش سے کارکنان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے جس کی پہلی آئینی ترمیم میں اجازت دی گئی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا، اس کے قائم مقام ڈائریکٹر وکٹر مورالز اور خصوصی مشیر کاری لیک کو گذشتہ ہفتے کے روز 1,300 سے زائد ملازمین کے ہمراہ رخصت پر بھیج دیا گیا اور کئی نیوز سروسز کے لیے فنڈز میں کٹوتی کر دی گئی۔ نیویارک کی وفاقی عدالت میں دائر کردہ شکایت کے مطابق ان کارروائیوں سے پہلی ترمیم اور ان قوانین کی خلاف ورزی ہوئی جن کے ذریعے کانگریس نے وائس آف امریکہ کو اختیار اور فنڈ فراہم کیا۔

یہ کٹوتیاں ایک بڑے اقدام کا حصہ ہیں جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی ایلون مسک نے وفاقی حکومت کو مختصر کرنے کے لیے کیا ہے۔ اس بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ان چیزوں پر ضائع کیا جاتا ہے جو امریکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

یہ مقدمہ یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کی بندش کے فیصلے کے خلاف عدالتی حکم کا تقاضہ کرتا ہے جو وی او اے اور ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی اور ریڈیو فری ایشیا جیسے دیگر میڈیا آؤٹ لیٹس کو فنڈ فراہم کرتا ہے۔
مقدمے کے مطابق اس تیز رفتار بندش سے تمام دنیا میں آمرانہ طرزِ حکومت کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
مدعی نے لکھا، “دنیا کے کئی حصوں میں معروضی خبروں کا ایک اہم ذریعہ ختم ہو گیا ہے اور صرف سنسر شدہ سرکاری تعاون شدہ نیوز میڈیا اس خلا کو پر کرنے کے لیے رہ گیا ہے۔”
یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا نے جمعہ کو تبصرے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔
وائس آف امریکہ کا آغاز جنگِ عظیم دوئم کے عروج پر نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہوا تھا جس کے بعد سے یہ ایک بین الاقوامی میڈیا براڈکاسٹر بن گیا جو آن لائن، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر 40 سے زیادہ زبانوں میں کام کرتے ہوئے امریکی خبروں کے بیانیے کو ان ممالک میں پھیلا رہا ہے جہاں آزاد پریس نہیں ہے۔

شکایت کے مطابق بندش سے پہلے وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو فری ایشیا کے ہر ہفتے 425 ملین سے زیادہ سامعین تھے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: وائس ا ف امریکہ ریڈیو فری کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

ایلون مسک کی کمپنی کا مودی حکومت کیخلاف مقدمہ درج

ایلون مسک کے سوشل میڈیا نیٹ ورک ایکس کی جانب سے بھارتی حکومت کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایکس نے بھارتی عدالت میں درخواست دائر کی جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ بھارتی وزارتِ آئی ٹی نے سوشل میڈیا سے مواد ڈیلیٹ کرنے کی اجازت دینے کیلئے اپنے سنسر شپ کے اختیارات کو غیر قانونی طور پر بڑھا دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 5 مارچ کو دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزارتِ آئی ٹی نے مختلف سرکاری محکموں کو اختیار دے دیا کہ وہ وزارتِ داخلہ کے ذریعے مواد بلاک کرنے کے احکامات جاری کر سکیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ نئے سسٹم میں وہ قانونی تحفظات نہیں ہیں جن کے تحت صرف قومی سلامتی یا ملک کی خود مختاری کو نقصان پہنچانے والے مواد کو ہٹایا جا سکتا تھا جس پر اعلیٰ حکام کی سخت نگرانی ہوتی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا سے مواد ہٹانے کیلئے بھارت کی جانب سے بنائی گئی ویب سائٹ میں ایسا متوازی میکانزم موجود ہے جس کے ذریعے بھارت میں سوشل میڈیا سے مواد کو بغیر اجازت کے ہٹایا جا رہا ہے۔اس معاملے پر فی الحال بھارتی وزارتِ آئی ٹی کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔بھارتی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ میں رواں ہفتے کے آغاز پر کیس کی مختصر سماعت ہوئی جس کے بعد مزید سماعت 27 مارچ تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کے خلاف ممکنہ امریکی جنگ کا نتیجہ؟
  • ٹرمپ انتظامیہ نے 5 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کی قانونی حیثیت منسوخ کردی
  • اوکاڑہ: سوشل میڈیا پر اداروں کیخلاف پوسٹ شیئر کرنیوالے ملزم پر مقدمہ درج
  • ٹرمپ کی پالیسیاں سائنسدانوں کو امریکہ چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہیں
  • سفری پابندیاں لگانے کی ڈیڈ لائن آج نہیں ہے، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
  • لندن، ہیتھرو ایئرپورٹ کو جزوی طور پر دوبارہ کھول دیا گیا
  • ایلون مسک کی کمپنی کا مودی حکومت کیخلاف مقدمہ درج
  • ٹرمپ کا خط مذاکرات کی پیشکش نہیں بلکہ دھمکی ہے، ایران کا ردعمل
  • ٹرمپ،وائس آف امریکااورمیڈیاکی آزادی کابحران