چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس، پانی کے تحفظ اور مؤثر استعمال پر زور
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (صغیر چوہدری )چیئرمین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) محمد علی رندھاوا کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں سی ڈی اے بورڈ کے اراکین اور متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں عالمی یوم آب کے موقع پر پانی کی اہمیت، اس کے تحفظ اور آئندہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ پانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اور اس کا مؤثر استعمال جہاں ہر شخص کی انفرادی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کو بچانا دراصل زندگی بچانے کے مترادف ہے اور اس کی ہر بوند انتہائی قیمتی ہے۔ سی ڈی اے اسلام آباد کے شہریوں کو صاف اور محفوظ پانی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے ہرممکن اقدامات کر رہا ہے اور اس حوالے سے جدید اور پائیدار حل اپنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔
محمد علی رندھاوا نے اسلام آباد واٹر ایجنسی کے قیام کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کو جدید سہولیات، ماہرین اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جا رہا ہے تاکہ اسلام آباد میں پانی کی ضروریات کو مؤثر طریقے سے پورا کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے متبادل ذرائع پر کام کر رہا ہے اور پانی کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے۔
چیئرمین سی ڈی اے نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ پانی کے ضیاع کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ پائپ لائنز کی بروقت مرمت، پانی کے دانشمندانہ استعمال اور بچت کے طریقے اپنانا ناگزیر ہیں۔ مزید برآں، تعلیمی ادارے، سماجی تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ بھی عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ سی ڈی اے مقامی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر پانی کے تحفظ اور فراہمی کے منصوبوں کے لیے وسائل فراہم کرنے پر کام کر رہا ہے۔ اس حوالے سے مختلف فزیبلٹی اسٹڈیز بھی جاری ہیں تاکہ مستقبل میں شہریوں کو پانی کی بہتر فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔
عالمی یوم آب کی مناسبت سے چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ یہ دن ہمیں پانی کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھانے کی یاد دلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف موجودہ بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔
اجلاس کے اختتام پر چیئرمین سی ڈی اے نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پانی کے تحفظ کے لیے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی نہ صرف بنیادی ضرورت ہے بلکہ زراعت، صنعت اور دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے پانی کے ہر قطرے کی قدر کرنی ہوگی تاکہ مستقبل میں پانی کی قلت جیسے چیلنجز سے بچا جا سکے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چیئرمین سی ڈی اے نے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کہ پانی پانی کے کے تحفظ پانی کی رہا ہے جا سکے کے لیے اور اس ہے اور
پڑھیں:
ایکس بندش کیس: چئیرمین پی ٹی اے کی عدالت میں سرزنش، کابینہ سربراہ کی طلبی کا عدنیہ
ملک میں سوشل میڈیا ایپلی کیشن ”ایکس“ کی بندش کے خلاف حذیفہ نعیم اور صحافی شاکر اعوان کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت کو آخری موقع دے رہے ہیں کہ وہ بتائے کہ ایکس کی بندش کس طریقہ کار سے کی گئی. یہ آخری موقع ہے اس کے بعد کابینہ کے سربراہ کو طلب کریں گے۔جمعرات کو ہوئی سماعت میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چئیرمین عدالت کے حکم پر فل بینچ کے سامنے پیش ہوئے، جہاں پی ٹی اے نے تحریری جواب عدالت میں جمع کرایا۔ وفاقی حکومت کے وکیل اسد باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ کے پاس کوئی سسٹم نہیں کہ کون کیا استعمال کررہا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزارتِ داخلہ کے پاس ایکس بند کرنے کا سسٹم ہے لیکن کون کیا استعمال کر رہا ہے یہ سسٹم نہیں ہے؟وکیل اسد باجوہ نے بتایا کہ پی ٹی اے نے کمیٹی بنا دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کمیٹی عدالت کو بتی کے پیچھے لگانے کے لیے ہے۔وکیل وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ ایکس کی بندش کے معاملے پر ایکس انتظامیہ کو لکھا گیا ہے۔عدالتی استفسار پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ حکومت کا ایکس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر معاہدہ نہیں ہے تو ایکس انتظامیہ آپ کو کیوں جواب دے گی، یہ بینچ اس لیے نہیں بیٹھا کہ جواب جمع کرا کر آئی واش کرا دیا۔عدالتی استفسار پر چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پی ٹی اے کا ایکس اکاؤنٹ فعال ہے۔جس پر جسٹس علی ضیا باجوہ بولے کہ یہ کیا بات ہے آپ خود ہی پابندی لگا کر خود استعمال بھی کر رہے ہیں۔چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پاکستان میں ایکس کے تمام صارفین وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔چیف جسٹس عالیہ نیلم کے استفسار پر چیئرمین پی ٹی اے نے پہلے تو پی ٹی اے کی جانب سے وی پی این کے استعمال کا اعتراف کیا. لیکن جب جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ یہ تو غیر قانونی ہے، تو انہوں نے تصحیح کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ابھی بتایا گیا ہے کہ اتھارٹی وی پی این استعمال نہیں کر رہی۔اس موقع پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں.آپ کو خود نہیں پتا اور آپ اتنا بڑا بیان دے گئے۔جسٹس فاروق حیدر نے دریافت کیا کہ کیا وی پی این کو بلاک کیا جا سکتا ہے. جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ اسے فوری طور پر تو نہیں لیکن کچھ عرصے میں بند کر سکتے ہیں۔چیف جسٹس عالیہ نیلم منیر نے کہا کہ ایک سال ہو گیا ہے آپ نے کچھ نہیں کیا، آپ ابھی پھر ایک ماہ کا کہہ رہے ہیں۔جسٹس فاروق حیدر نے دریافت کیا کہ اگر ایکس کو بند کرنا تھا تو وی پی این کیسے چل رہا ہے۔چیئرمین پی ٹی اے کے مطابق وی پی این سافٹ ویئر، بینکس سمیت فری لانسنگ میں استعمال ہوتا ہے۔اس موقع پر جسٹس علی ضیا باجوہ بولے ہمارا سادہ سا سوال ہے کہ پی ٹی اے نے ایکس بلاک کیا اور پی ٹی اے خود بھی چلا رہا ہے۔وکیل وفاقی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ وی پی این کا استعمال کسی حد تک قانونی بھی ہے۔چیف جسٹس نے وی پی این کے ایکس پر استعمال کی بابت دریافت کیا تو چیئرمین پی ٹی اے بولے میں صحیح ڈیٹا اس وقت نہیں بتا سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اتنی بڑی سیٹ پر بیٹھے ہیں لیکن آپ کے پاس ڈیٹا ہی نہیں۔ جسٹس علی ضیا باجوہ بولے کہ چیئرمین پی ٹی اے نے خود کہا ہے اگر عدالت حکم کرے تو ایکس فوراً کھول دیں گے۔جس پر چیئرمین پی ٹی اے کا موقف تھا کہ عدالت حکم کرے تو ایکس فوری طور پر کھول دیا جائے گا۔اس موقع پر جسٹس علی ضیا باجوہ بنے کہا کہ اس کا مطلب ہے پی ٹی اے سے غلط کام ہوگیا ہے اور اب آپ سہارا ڈھونڈ رہے ہیں، رولز کے تحت کسی حد تک کونٹینٹ کو بلاک کیا جا سکتا ہے لیکن پلیٹ فارم کو بند نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا کہ آپ ایکس کا غیر مناسب استعمال روک سکتے ہیں مگر ایکس کو بلاک نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کیوں نہیں کی۔چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی اے کو طلب کرنے پر مایوسی ہوئی انہیں معاملات کا کچھ علم نہیں، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں. بینچ کا وقت ضائع کرنے پر کیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔لاہور ہائیکورٹ نے مزید کارروائی 8 اپریل تک ملتوی کردی۔