بیرون ممالک سے چھٹی پر آنے والے پاکستانی شہری واپس کیوں نہیں جا پا رہے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )ایک خلیجی ملک میں ایک ریستوران پر کام کرنے والے معظم علی (فرضی نام) تین ماہ قبل پاکستان پہنچے۔ وہ پاکستان میں 10 سے 15 روز اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس اس خلیجی ملک جانے کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے۔تاہم انہیں ایئرپورٹ پر سفر کرنے سے اس لئے روک دیا گیا کیوں کہ ان کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) میں شامل تھا۔
اردو نیوز کے مطابق معظم علی کے لئے بھی ان کا نام یوں پی سی ایل میں موجود ہونا حیران کن تھا کیوںکہ وہ قانونی راستے ہی سے بیرونِ ملک گئے تھے اور پھر 15 دن قبل ہی واپس پاکستان لوٹے تھے۔معظم علی کا نام سرِدست پی سی ایل میں شامل ہے اور وہ بیرون ملک سفر کرنے کے لئے اہل نہیں۔ انہیں اب یہ شبہ ہے کہ کام پر واپس نہ جانے کی وجہ سے ان کا ورک پرمٹ منسوخ کر دیا جائے گا اور ممکن ہے کہ ان پر خلیجی ملک جانے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے۔معظم علی کی طرح ایسے بیسیوں شہری منظر عام پر آ چکے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بیرونِ ملک کام سے چھٹی ملنے پر پاکستان واپس آئے ہیں تاہم چھٹی ختم ہونے پر انہیں واپس بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
دوسری جانب پاکستان کا محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ اس دعوے کو مسترد کر رہا ہے کہ بیرونِ ملک کام کرنے والے شہریوں کو بغیر کسی وجہ کے سفر کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ مصطفیٰ جمال قاضی نے اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’حالیہ دنوں میں ایسے بہت سے شہریوں کو مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا ہے جو وہاں کسی قسم کی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث تھے اور محکمہ پاسپورٹ نے مختلف ممالک کی جانب سے معلومات موصول ہونے پر ایسے شہریوں کا نام پی سی ایل میں شامل کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے یہ شکایات موصول ہوتی رہی ہیں کہ پاکستانی شہری اپنے پاسپورٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پاسپورٹ آفس ان شکایات اور پھر عام شہریوں کے لئے ویزا سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لئے مخصوص افراد کے خلاف یہ کارروائی عمل میں لایا ہے۔‘
کئی افراد کا دعویٰ ہے کہ وہ بیرونِ ملک کام سے چھٹی ملنے پر پاکستان واپس آئے ہیں تاہم اب انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’محکمہ پاسپورٹ نے ایسے شہریوں کے نام پی سی ایل میں ڈال کر ا±نہیں پاکستان ڈی پورٹ کروایا ہے اور اب وہ بیرونِ ملک کا سفر نہیں کر سکتے۔‘
مصطفیٰ جمال قاضی نے پی سی ایل میں نام شامل کرنے کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’جو پاکستانی شہری غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرتے ہوئے انہیں باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔‘
ڈپلومیٹک اور امیگریشن قوانین کے ماہر میجر (ریٹائرڈ) بیرسٹر محمد ساجد مجید بیرون ممالک جانے والے شہریوں کا نام پی سی ایل میں موجود ہونے کے معاملے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والے شہریوں پر مختلف وجوہات کی بنیاد پر سفری پابندیوں کا اطلاق عمل میں لایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر ممنوعہ مواد کی تشہیر، کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ وابستگی اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث شہریوں پر بھی سفری پابندیاں عائد کی ہیں۔‘
بیرسٹر محمد ساجد نے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والے ورکرز پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس حاصل نہیں کرتے جو ان کے بیرونِ ملک سے ڈی پورٹ ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔‘
’شہریوں نے اگر بیرونِ ملک براہِ راست روزگار حاصل کیا ہے اور پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس کا حصول ممکن نہیں بنایا تو انہیں بیرون ملک مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور پھر ڈی پورٹ ہونے کی صورت میں ان کا نام پی سی ایل میں شامل کر کے ان پر سفری پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔‘
بیرسٹر محمد ساجد نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث شہریوں کے نام پی سی ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس کا حصول ممکن بنانے سے شہری 2500 روپے میں 10 لاکھ تک کی انشورنس حاصل کر سکتے ہیں جو بیرونِ ملک کسی حادثے کی صورت میں ا±ن کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔‘
ڈپلومیٹک اور امیگریشن قوانین کے ماہر نے مزید کہا کہ ’اِن دنوں حساس ادارے سوشل میڈیا یا کسی اور پلیٹ فارم پر ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث شہریوں کی معلومات محکمہ داخلہ کو فراہم کر دیتے ہیں جس کے بعد خاموشی سے ان کے نام پی سی ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں اور پھر وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔
نئے کھلاڑیوں کی تلاش کے لیے پی سی بی ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام شروع کرنے کا اعلان
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سرگرمیوں میں ملوث نام پی سی ایل میں بیرون ملک جانے معظم علی وہ بیرون ڈی پورٹ اور پھر کا نام ملک کا کے لئے ہے اور کہا کہ
پڑھیں:
افغان شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ کا اجرا ،پہلی بار زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی گئی. مصطفی جمال قاضی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 مارچ ۔2025 ) ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفی جمال قاضی نے کہا ہے کہ افغان شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کا معاملے میں پہلی بار ہوا کہ زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی گئی، ہر جگہ کچھ نہ کچھ کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں، یہ ایک قومی سکیورٹی کا مسئلہ تھا، جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، تحقیقات میں اداروں نے میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور ہم ایک منطقی انجام تک پہنچے ،دباﺅ اور رکاوٹیں ہمیشہ آتی ہیں، لیکن اگر قیادت واضح موقف اختیار کرے اور صحیح سمت میں کھڑی ہو تو نیچے والے بھی مسائل پیدا نہیں کرتے.(جاری ہے)
واضح رہے کہ پاکستان میں جعلسازی کے ذریعے افغان شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کے معاملے کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ اس نیٹ ورک میں کئی سرکاری افسران بھی ملوث تھے جن میں کئی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز اور فوجداری مقدمات درج کیے جا چکے ہیں. اس حوالے سے ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفی جمال قاضی نے بتایا کہ جب میں نے چارج سنبھالا تو مجھے سعودی عرب سے ایک سفارت کار دوست نے ڈی ایچ ایل کے ذریعے کچھ ڈبے بجھوائے جن میں تقریبا 300 پاکستانی پاسپورٹ تھے جب دوست سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ پاکستانی پاسپورٹ ہیں جو افغان شہریوں کو جاری کیے گئے تھے اوروہ مزید پاسپورٹ بوریوں میں بھیجنے کے لیے تیار ہیں جس کے بعدمیں نے اپنے ادارے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے والے ڈی جی کے دور میں سعودی عرب سے ایک سرکاری خط آ چکا تھا. انہوں نے کہاکہ سعودی حکام کے خط پر ایکشن کے بارے میں استفسارپر جواب ملا کہ اس میں بڑا خطرہ تھا، پاسپورٹ کی بدنامی ہو سکتی تھی ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کا کہنا ہے کہ میں نے کہا کہ اگر غلط طریقے سے پاسپورٹ بنے ہیں اور ہم اصلاحی اقدامات کر رہے ہیں تو ہمیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں اگر ہم یہ معاملہ خود نہ کھولیں تو کل کوئی اور اسے اٹھا کر ہمیں مزید نقصان پہنچا سکتا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ اصل مجرموں کو ہم ہی پکڑ لیں چنانچہ میں نے اس مسئلے پر باقاعدہ خط لکھا اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا. انہوں نے انکشاف کیا کہ خط کے بعد مجھ پر دباﺅ آنا شروع ہوا انکوائری کمیٹی کی سربراہی اعجاز رسول ملک جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) نے کی کمیٹی میں تمام تحقیقاتی اداروں کے گریڈ 20 کے افسران شامل ہیں جن میں نادرا، ایف بی آر، آئی ایس آئی، ایف آئی اے، وزارت داخلہ اور ڈائریکٹرہیڈ کوارٹر کے گریڈ 20 کا افسر شامل تھے تحقیقات کے مطابق انہوں نے بتایا کہ اس نیٹ ورک کا بڑا مرکز خیبرپختونخوا میں طورخم سرحد کے قریب تھاجہاں روزانہ سینکڑوں افغان شہریوں کو آٹھ سے دس لاکھ روپے کے عوض جعلی دستاویزات پر پاکستانی پاسپورٹ جاری کیے جاتے تھے اس رقم کا ایک حصہ اعلی افسران تک بھی پہنچایا جاتا تھا یہ جعلسازی تین مختلف طریقوں سے کی جا رہی تھی کچھ افغان شہریوں کو پاکستانی نادرا کے اصل ڈیٹا پر جعلی شناختی کارڈز بنا کر پاسپورٹ جاری کیے گئے، کچھ کیسز میں پاکستانی شہریوں کے ریکارڈ میں رد و بدل کر کے کسی اور کی تصویر اور تفصیلات لگا دی گئی تھیں جبکہ کئی ایسے پاسپورٹس بھی تھے جن کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں تھا اور یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کہاں سے جاری ہوئے. انہوں نے بتایاکہ تحقیقات کے دوران جعلی پاسپورٹ جاری کرنے میں ملوث پاسپورٹ ڈائریکوریٹ کے تین سرکاری افسروں کو گرفتارکیا گیا اس کے علاوہ نادرا اور پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے سات افسران کو بھی گرفتار کیا گیا جن میں تین اسسٹنٹ ڈائریکٹر شامل تھے گرفتارسرکاری ملازمین اسلام آبادمیں تعینات تھے گرفتار ہونے والوں میں سرکاری اداروں کے افسران کے چار ایجنٹس جو افغان شہریوں کو جعلی دستاویزات فراہم کرتے تھے اور پانچ افغان شہریوں کو بھی حراست میں لیا گیا. انہوں نے بتایا کہ گرفتار افراد سے حاصل معلومات کی بنیاد پرایف آئی اے نے اسلام آباد سے مزید 16 افراد کو گرفتار کیا انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے اپنے محکمے میں کوئی ملوث تھا تو ہمیں خود اس کی شناخت کرنی تھی ورنہ یہ معاملہ بعد میں مزید سنگین ہو سکتا تھا یہ ایک قومی سکیورٹی کا مسئلہ تھا جس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتاان کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں اداروں نے بھرپور تعاون کیا خیال رہے کہ گرفتار افسران میں سے بیشتر نے اپنے خلاف ہونے والی کارروائی پر عدالت سے رجوع کر رکھا ہے معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ اینڈ امیگریشن اس سکینڈل میں ملوث افسران اور اہلکاروں کے نام پبلک کرنے سے گریزاں ہے.