اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مارچ 2025ء) تقریبا پونے تین صدی قبل پلاسی کے مقام پر ہونے والی جنگ نے برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کی راہ ہموار کی تھی، جس کے بعد ہی تقریبا دو صدی تک برطانیہ نے بر صغیر پر حکومت کی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرنل کلائیو نے اس وقت کے بنگال کے طاقتور حکمران سراج الدولہ کو شکست دی تھی، جس کے بعد انگریزوں نے ہندوستان پر قبضے کا آغاز کیا۔

تاہم اس بربادی میں اہم کردار سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر کا تھا، جنہوں نے اپنے بادشاہ کی شکست کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ساز باز کی تھی۔ اس لیے جہاں تاریخی اعتبار سے اس جنگ کی اہمیت ہے، وہیں اس کے کردار اور واقعات بھی بڑے سبق آموز ہیں۔۔۔۔ مورخ اس جنگ کو دھوکہ، فریب، بے وفائی اور غداری کی ایک واضح مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

موڈرن انڈین تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر رچا راج کہتی ہیں کہ "یہ کوئی بہت بڑی یا ایسی جنگ نہیں تھی جو بہت دنوں تک چلی ہو بلکہ جھڑپوں تک محدود تھی۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں رجا راج نے کہا، "ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں سراج الدولہ کے ساتھ انتہائی قسم کا دھوکہ اور فریب کیا جاتا ہے، اور وہ یہ کہ میر جعفر کی کمان میں سراج الدولہ کی فوج کا ایک بڑا دستہ تھا، جنہوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔

اس کو میر جعفر کی ایک بڑی غداری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی ایک بڑی وجہ بھی تھی، جس کے سبب سراج الدولہ وہ جنگ ہار گئے۔" پلاسی کا میدان

یہ جنگ کولکتہ سے تقریبا 170 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پلاسی کے میدان پر لڑی گئی تھی، جو دریائے گنگا کے کنارے اس کے وقت بنگال کے دارالحکومت مرشد آباد سے تقریبا بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

پلاسی جنگ کی یاد میں یہاں سراج الدولہ کا ایک مجسمہ بھی نصب ہے۔

مورخین کے مطابق سراج الدولہ کی فوج میں اس وقت 15 ہزار سوار، 35 سو پیدل فوجی اور تقریبا 40 توپیں بھی شامل تھیں۔ لارڈ کلائیو کی سربراہی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں 2100 ہندوستانی اور 800 یورپی فوجیوں سمیت توپ خانہ شامل تھا۔

23 جون 1757 کو پلاسی کے میدان پر لڑی گئی اس جنگ سے کچھ روز قبل ہی میر جعفر نے قران پر ہاتھ رکھ کر نواب کے ساتھ وفادار رہنے کا عہد کیا تھا اور اس یقین دہانی کے بعد ہی سراج الدولہ نے انگریزوں سے جنگ کی ٹھانی تھی۔

تاہم انگریزوں کی بھاری گولہ باری سے سراج الدولہ کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔

میر جعفر سراج الدولہ کے گھڑ سواروں کے دستے کے کمانڈر تھے اور اب اس صورت میں نواب کو توقع تھی کہ ان کے کمانڈر ان چیف میر جعفر گھڑ سوار دستے سے میدان مار لیں گے، تاہم وہ انگریزوں سے ساز باز کر چکے تھے اس لیے لڑنے کے لیے باہر نکلے ہی نہیں۔

عین جنگ کے دوران ایک تہائی فوج کے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے انگریز فوج نے سراج الدولہ کی فوج کو تین طرف سے گھیر لیا۔

تاریخی حوالوں کے مطابق اس مختصر سی لڑائی میں سراج الدولہ کی فوج کے 500 سے 1500 کے قریب فوجی ہلاک ہوئے، جب کہ انگریزوں کے 100 سے بھی کم فوجی مارے گئے۔

سراج الدولہ کا بڑی بے رحمی سے قتل

جنگ میں شکست کے بعد سراج الدولہ فرار ہوئے اور طلوع آفتاب کے ساتھ مرشد آباد پہنچے۔

ادھر معاہدے کے تحت انگریزوں نے میر جعفر کو بنگال کا نیا نواب مقرر کر دیا۔ رابرٹ کلائیو نے میر جعفر کو تخت پر بٹھایا۔

گرفتاری سے بچنے کے لیے سراج الدولہ رات کی تاریکی میں اپنے محل سے نکلے اور اہل خانہ کے ساتھ فرار ہونے کی کوشش کی۔ چند روز تک بغیر کھانا کھائے ادھر ادھر بھٹکتے رہے اور پھر دو جولائی کو انہیں گرفتار کر کے مرشد آباد لایا گیا۔

تخت بدر نواب کو نصف شب میں اسی محل میں میر جعفر کے سامنے پیش کیا گیا، جو چند روز پہلے تک ان کی اپنی رہائش گاہ تھی۔ سراج الدولہ نے میر جعفر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اپنی جان کی امان بھی طلب کی، تاہم میر جعفر کے بیٹے میر میران نے انہیں بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا۔

ڈاکٹر رچا راج کے مطابق، "میر جعفر اس شش و پنج میں تھے کہ سراج الدولہ کی گرفتاری کے بعد ان کے ساتھ آخر کیا سلوک کیا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ ان کے بیٹے نے اس بات پر زور دیا کہ انہیں قتل کر دیا جانا چاہیے۔ بالآخر اس کا الزام تو میر جعفر کے سر ہی جاتا ہے، کیونکہ وہی ان کے بعد نواب بنے تھے، لیکن بہر حال ان کے مشیروں نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔"

اس کے اگلے روز سراج الدولہ کی مسخ شدہ لاش کو ہاتھی پر لاد کر مرشد آباد کی گلیوں اور بازاروں میں نمائش کی گئی اور پھر سراج الدولہ کو دریائے گنگا کے دائیں جناب واقع آرام باغ میں دفن کر دیا گیا، جہاں ان کے نانا علی وردی خان دفن تھے۔

دریائے گنگا کے پہلو میں یہ مقام سراج الدولہ اور ان کے اہل خانہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ سراج الدولہ کے خاندان کی خواتین کا قتل

مورخین کے مطابق سراج الدولہ کے خاندان کی تقریبا 70 بے گناہ خواتین کو ایک کشتی میں بیٹھا کر دریائے گنگا میں ڈبو دیا گیا، جبکہ خاندان کی باقی خواتین کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا، جو سب اسی آرام باغ میں دفن ہیں۔

اسی علاقے میں ان کا ایک محل بھی ہوتا تھا، جو ان کی طاقت اور عظمت کا پرتو تھا، تاہم وہ بھی وقت کی ستم ظریفی کے نذر ہو گیا۔

سراج الدولہ نے سن 1756 میں جب اپنے نانا اور اس وقت کے بنگال کے سربراہ علی وردی خان کا منصب سنبھالا، تو اس وقت ان کی عمر 27 برس کی تھی۔ وہ علی وردی خان کی چھوٹی بیٹی کے فرزند تھے، جن کا اصلی نام مرزا محمد تھا، تاہم انہیں اپنے خطاب 'سراج الدولہ' سے شہرت حاصل ہوئی۔

جب انہیں جانشین مقرر کیا گیا تو علی وردی خان نے اپنے وزیرِ اعظم درلبھ رائے اور وزیرِ خزانہ جگت سیٹھ سے اپنے جانشین سراج الدولہ کی وفاداری کا عہد لیا۔ میر جعفر سے تو قرآن پر حلف لیا تھا کہ وہ ان کے جانشین سراج الدولہ کی مدد کریں گے۔ لیکن بعد میں حالات کچھ ایسے بدلے کہ انہیں تینوں نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا، جس میں مرکزی کردار میر جعفر نے ادا کیا۔

مورخین نے لکھا ہے کہ سراج الدولہ جذباتی قسم کے غیر مستقل اور سخت مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے اسی رویے نے ایسا ماحول پیدا کیا کہ ان کے خلاف درباری سازشیں زور پکڑ نے لگیں۔ اس موقع سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور سراج الدولہ کے کمانڈر میر جعفر کو ساتھ ملا کر اپنے منصوبے کو حتمی شکل دی۔

ڈاکٹر رچا راج کہتی ہیں: "پہلی بات تو یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنوری سے سراج الدولہ کے دربار کے ایسے لوگوں سے رابطہ شروع کر دیا تھا، جو کسی نہ کسی وجہ سے سراج الدولہ سے ناراض تھے۔

اس وقت دو اہم سیٹھ، راجہ مہتاب چند اور سوروپ چند ان کے درباری تھے۔ یہ جگت سیٹھ کے نام سے معروف تھے، کیونکہ مالدار ہونے کے ساتھ ہی ان کا اثر و رسوخ بھی بہت تھا۔"

وہ مزید کہتی ہیں، "جب سازش کا آغاز ہوا تو ابتدا میں میر جعفر ہچکچاہٹ کا شکار تھے اور مورخین یہ مانتے ہیں کہ سراج الدولہ کے دربار میں فوج سے وابستہ ایک اہم شخض رائے درلبھ نے اس سازش کو انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور میر جعفر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ایک معاہدے پر آمادہ کیا۔

میر جعفر کے ساتھ ہی مرشدآباد کا زوال

جنگ پلاسی کے بعد میر جعفر نے بنگال کا اقتدار تو حاصل کیا، تاہم بہت جلد ان کا جلوہ بھی کم ہونے لگا۔ میر جعفر کو تخت پر بٹھانے والے لارڈ کلائیو نے ایک برس بعد ہی انہیں بوڑھا بیوقوف کہا اور ان کے بیٹے میران کو تو ایک بیکار نوجوان کتا قرار دیا۔

تقریبا ڈھائی برس بعد ہی ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کو معزول کر دیا، تاہم بعد میں پھر سے انہیں تحت پر بٹھایا گیا۔

ان کا انتقال فروری 1765 میں ہوا اور مرشد آباد کے جعفر گنج نامی اس قبرستان میں دفن ہیں۔

رابرٹ کلائیو نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ "جس شخص کو ہم نے تخت پر بٹھایا وہ مغرور، لالچی اور بات بات پر گالی دینے والا شخص بن چکا ہے۔ اس رویہ کی وجہ سے وہ اپنے عوام کے دلوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔"

بہت ہی جلدی یہ واضح ہو گیا کہ میر جعفر میں بنگال پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

پلاسی کی لڑائی کے تین برس کے اندر ہی ہندوستان کے سب سے امیر شہروں میں سے ایک مرشد آباد غربت و افلاس کی دہلیز پر پہنچ گیا۔ مورخین کے مطابق میر جعفر کے فوجیوں کے گھوڑے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے اور افسر بھی پھٹے پرانے کپڑے پہننے لگے تھے۔

ڈاکٹر رچا راج بتاتی ہیں کہ "جن لوگوں کو یہ لگا تھا کہ سراج الدولہ کی موت سے ان کا سیاسی اور معاشی فائدہ ہو گا، حقیقت میں اس کے بالکل برعکس ہوا۔

جنگ پلاسی میں شکست اور سراج الدولہ کی موت کے بعد انہیں تمام افراد کہ زوال ہوا، جنہوں نے سراج الدولہ کے ساتھ غداری کی تھی۔" میر جعفر کون تھے؟

میر جعفر نجف کے گورنر سید حسین نجفی کے پوتے تھے۔ ان کے والد اورنگزیب کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے اور مغل دربار کا حصہ بنے۔ میر جعفر سن 1734 میں بنگال کے دربار سے وابستہ ہوئے۔

مورخین کے مطابق وہ ایک ان پڑھ عرب سپاہی کی طرح تھے جن کا راج پاٹ سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی بدانتظامی نے بنگال کو انتشار کی طرف دھکیل دیا اور اس بربادی کے لیے خود میر جعفر ذمہ دار تھے۔

مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ میر جعفر ہمیشہ مہنگے جواہرات پہننا پسند کرتے تھے اور ان کے گلے میں تین چار لڑیوں کی مالا لٹکتی رہتی تھی۔

ان کا سارا وقت موسیقی سننے اور خواتین کا رقص دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔

بعض مقامی لوگوں نے بتایا کہ جعفرگنج قبرستان کی زیارت کو آنے والے کئی لوگ میر جعفر کی قبل پر تھوکتے یا لاتیں مار کر بے حرمتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے سبب قبر کے دھونے کے ساتھ ہی اگربتیاں سلگانا پڑتی ہیں۔ جعفر گنج میں میر جعفر کے محل کا بڑا گیٹ وے آج بھی نمک حرم دیوری یعنی غدار کا دروازہ کہا جاتا ہے۔

میر جعفر کے وارثین میں سے بہت سے پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت مختلف ممالک ہجرت کر گئے تاہم ان کے کنبے کے بعض قریبی اب بھی مرشد آباد میں ہی رہتے ہیں اور قدرے گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں میں سے ایک سید رضا علی مرزا ہیں، جو مقامی سطح پر چھوٹے نواب کے نام سے معروف ہیں۔ رضا علی مرزا اب اس جگہ رہتے ہیں، جہاں میر جعفر کے دور میں ان کے سنتری رہا کرتے تھے۔

سید رضا علی مرزا بھی اپنے آبا و اجداد سے وابستہ تاریخ سے خوش نہیں ہیں اور وہ ان سے وابستہ غداری کو درست نہیں مانتے۔ وہ تاریخ کو مسخ کرنے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، "لڑائی سے متعلق دو باتیں کہی جاتی ہیں: ایک تو یہ کہ بارش ہونے سے گولہ بارود بھیگ گیا، اس لیے میر جعفر نے جنگ نہیں کی۔

جنگ ہوئی ہی نہیں۔ ایک یہ کہتے ہیں کہ انگریزوں کے ساتھ مل کر میر جعفر کو جنگ کرنے نہیں دیا گیا۔۔۔ انہوں نے بچپن سے سراج الدولہ کی پرورش کی تھی، تو جس شخص نے انہیں پیار و محبت سے پالا ہو، وہ ان کے ساتھ بے ایمانی کیوں کرے گا، یا وہ انہیں کیوں مارتے۔" جب مرشد آباد پاکستان کا حصہ بنا

رضا علی مرزا کے مکان میں بھی میر جعفر کی کچھ باقیات رکھی ہوئی ہیں، جبکہ آبا و اجداد کی تصاویر کے ساتھ ہی پاکستان کے پہلے صدر سکندر مرزا کی تصاویر بھی آویزاں ہے، جنہیں وہ اپنا خالو بتاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ان کی بہن اور کئی رشتے دار ہیں، جو ملاقات کے لیے مرشد آباد آیا کرتے تھے، تاہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے سبب یہ سلسلہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔

رضا علی مرزا کی موجودہ رہائش کے سامنے ہی لب دریا سراج الدولہ کا ایک مجسمہ نصب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں سراج الدولہ سے بھی محبت ہے کہ وہ مرشد آباد کے ایک زبردست نواب تھے اور اسی لیے وہ اکثر ان کے مجسمہ پر گل پوشی کے لیے حاضری دیتے ہیں۔

دریائے گنگا کے دوسری جانب اس مجسمے کے سامنے ہی سراج الدولہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ مرشد آباد کے علاقے میں سراج الدولہ کے مجسمے نظر آئیں گے، جبکہ میر جعفر کو غداری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

میر جعفر کی نسل سے مرشد آباد پر حکمرانی کرنے والے دیگر نوابوں نے یہاں بعض شاندار عمارتیں اور امام باڑے ضرور تعمیر کروائے ہیں۔ ان میں سے ہزار دورای نامی یہ شاندار عمارت سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔

ہزار دواری سے مراد ایسی عمارت، جس میں ہزار دروازے ہیں۔ یہ نوابوں کا قلعہ یا محل ہوا کرتا تھا اور یہیں وسیع علاقہ اقتدار کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس کے سامنے ہی شاندار نظامت امام باڑا ہے، جسے سراج الدولہ نے تعمیر کروایا تھا۔

مرشد آباد مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور تقسیم ہند کے وقت یہ پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔ چودہ اگست 1947 کو آزادی کے دن ہزار دواری پیلس پر پاکستان کا پرچم بھی لہرایا گیا تھا۔ تاہم دو دن بعد ہی دونوں ملکوں نے بنگال کے معروف شہر کھلنا سے مرشد آباد کو تبدیل کر لیا اور اس طرح یہ 17 اگست کو بھارت میں شامل ہوا۔

مرشد آباد کے بدلے کھلنا مشرقی پاکستان کا حصہ بنا تھا، جو آج بنگلہ دیش کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایسٹ انڈیا کمپنی مورخین کے مطابق دریائے گنگا کے ڈاکٹر رچا راج مرشد آباد کے رضا علی مرزا علی وردی خان میر جعفر کی میر جعفر کے میر جعفر کو کہ میر جعفر کے ساتھ ہی کلائیو نے سے وابستہ کے سامنے انہوں نے نے انہیں کے دربار بنگال کے پلاسی کے تھے اور جاتا ہے کے لیے کر دیا اور اس کا ایک ہیں کہ کے بعد کی تھی بعد ہی

پڑھیں:

جعفر ایکسپریس حادثے کو لیکر پی ٹی آئی کارکنان کے گھروں پر ریڈ ہو رہے ہیں: زرتاج گل

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف  (پی ٹی آئی) کی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے الزام عائد کیا ہے کہ جعفر ایکسپریس حادثے کو جواز بنا کر پی ٹی آئی کے کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے کہا کہ تحریک انصاف کو دہشت گرد بنا کر پیش کرنے سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے، حکومت صرف پی ٹی آئی کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اس سیاسی انتقامی کارروائی کا مقصد ورکرز کو ذہنی دباؤ میں لانا اور پارٹی کے بانی سے دور کرنا ہے۔

پی ٹی آئی ایم این اے نے مزید کہا کہ حکومت کو ملک کے حقیقی مسائل کی کوئی پرواہ نہیں۔ ان کے مطابق وزیراعظم کا رویہ غیر سنجیدہ ہے اور عوام کا دیا گیا مینڈیٹ حکومت کے ہاتھ میں ایک امانت ہے، جسے وہ ایمانداری سے نہیں نبھا رہے۔

زرتاج گل نے مزید کہا کہ ٹویٹس اور ری ٹویٹس کی بنیاد پر ہمارے کارکنان کو گرفتار کیا جا رہا ہے جو کہ جمہوری اقدار کے خلاف ہے، ملک میں آزادی اظہار کی اجازت ہے یا نہیں؟

انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب قوم رمضان کے آخری عشرے کی تیاری کر رہی ہے، تحریک انصاف کے کارکنان عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، حکومت کیسز کے ذریعے پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے سراج حقانی کی معلومات فراہمی پر مقرر انعامی رقم ختم کر دی، طالبان
  • امریکا نے سراج الدین حقانی کی معلومات فراہم کرنے پر مقرر بھاری انعام رقم ختم کردی، طالبان
  • ماہرہ شرما اور محمد سراج نے رومانوی تعلقات کی افواہوں پر خاموشی توڑ دی
  •  مسلم لیگ (ن)  اورپیپلزپارٹی کی کوارڈی نیشن کمیٹی کے حالیہ اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی 
  • بھارتی فاسٹ بولر محمد سراج کا روہت شرما کو کرارا جواب!
  • جعفر ایکسپریس حادثے کو لیکر پی ٹی آئی کارکنان کے گھروں پر ریڈ ہو رہے ہیں: زرتاج گل
  • مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حالیہ کوآرڈینیشن کمیٹی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی 
  • ملز مالکان چینی کے 2 نرخ مقرر کرنے پر بضد، حکومت کا انکار، اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • 30 برس سے جامع مسجد دہلی میں روزے داروں کو افطاری کرانے والی ہندو خاتون کی دلچسپ کہانی