UrduPoint:
2025-03-23@02:45:37 GMT

پاکستانیوں کے لیے یو اے ای کے ویزا کا حصول مشکل کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

پاکستانیوں کے لیے یو اے ای کے ویزا کا حصول مشکل کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مارچ 2025ء) متحدہ عرب امارات میں پہلے سے کام کرنے والے بعض پاکستانی شہریوں کا ماننا ہے کہ پاکستانیوں کی سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سوشل میڈیا کے ذریعے یو اے ای حکام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی مبینہ کوششیں ویزا پابندیوں کی بڑی وجہ ہو سکتی ہیں، کیونکہ متحدہ عرب امارات میں ایسی سرگرمیوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے یو اے ای کے ساتھ اس کی خط و کتابت کا حوالہ دیتے ہوئے حال ہی میں قومی اسمبلی کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستانی شہریوں پر کوئی سرکاری پابندی عائد نہیں کی ہے۔

پاکستانی شہری متحدہ عرب امارات کیوں نہیں جا پا رہے؟

وزارت خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے نئی پانچ سالہ ویزہ پالیسی متعارف کرائی ہے، جس میں اضافی شرائط شامل کی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

نظرثانی شدہ ویزہ پالیسی کے تحت درخواست گزار کو آمد و رفت کے ٹکٹ، ہوٹل کی بکنگ، کسی بھی جائیداد کی ملکیت کا ثبوت، اور تین ہزار اماراتی درہم کی پیشگی ادائیگی کی رسید جمع کرنی ہو گی۔ تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مسترد

تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود جن افراد کی ویزہ درخواست مسترد کردی گئی، ان کا کہنا ہے کہ اگر امارات نئے شرائط کے تحت ویزے جاری کرنا شروع کر دے تو بھی یہ ایک بڑی سہولت ہو گی۔

کیونکہ وہ گزشتہ ایک سال سے کاروباری مقاصد کے لیے بھی امارات کا سفر کرنے سے قاصر ہیں۔

پاکستانی مزدوروں کے 'نامناسب رویے' پر خلیجی ملکوں کی شکایت

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق، سال دو ہزار چوبیس کے دوران متحدہ عرب امارات نے تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مسترد کی ہیں۔

ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سینئر مینیجر کے عہدے پر فائز مقداد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چونکہ ہماری کمپنی ملٹی نیشنل ہے، اس لیے ہمیں مختلف ممالک میں ایونٹس کا انعقاد کرنا پڑتا ہے۔

حال ہی میں ہم نے متحدہ عرب امارات میں ایک ایونٹ منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جس میں دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے افراد کو شرکت کرنی تھی، لیکن شرکاء کی بات تو دور، کمپنی کی مینجمنٹ کو بھی یو اے ای کا ویزہ نہیں ملا، جس کی وجہ سے ہمیں ایونٹ منسوخ کرنا پڑا اور اب ہم اسے کسی اور ملک میں منعقد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

اپنی کمپنی کا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے مقداد نے کہا، "میری کمپنی ایک بڑی کمپنی ہے، اور جہاں تک بینک اسٹیٹمنٹس اور دستاویزات کا تعلق ہے، ہر چیز مکمل تھی، لیکن اس کے باوجود ہمیں ویزہ نہیں ملا، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ویزہ حاصل نہ کر سکے جو ملینز میں تنخواہ لے رہے ہیں۔

" ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکل

وہ افراد جنہیں ویزہ مسترد ہونے کا تجربہ ہو چکا ہے، کہتے ہیں کہ اب ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ یہ صرف ایک کمپنی کی بات نہیں جسے اپنا ایونٹ منسوخ کرنا پڑا، بلکہ کئی دیگر تنظیموں کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ظفر بھٹہ، جو پاکستان میں ایک معروف انگریزی اخبار کے صحافی ہیں، کہتے ہیں، "میں پہلے بھی متحدہ عرب امارات جا چکا ہوں، لیکن دو ہزار تئیس کے آخر سے یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

میں نے سال دو ہزار تئیس کے آخر میں ویزہ کے لیے درخواست دی، جو مسترد ہو گئی۔ حال ہی میں، مجھے یو اے ای میں ایک ایونٹ میں مدعو کیا گیا تھا، لیکن منتظمین نے بتایا کہ وہ خود بھی ویزہ حاصل نہیں کر سکے، اس لیے ہمارے لیے ویزہ کے لیے اپلائی کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بچا، کیونکہ اب وہ ایونٹ اس مقام پر منعقد نہیں ہو رہا تھا۔"

نہ صرف متحدہ عرب امارات کا وزٹ ویزہ حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے بلکہ وہ ملک، جو پاکستانیوں کے لیے روزگار کی تلاش کا ایک پسندیدہ مقام تھا، نے دو ہزار تئیس کے آخر سے پاکستانیوں کو ملازمتیں دینا بھی تقریبا بند کر دی ہیں۔

ایک پاکستانی، جس کی یو اے ای میں رجسٹرڈ کمپنی ہے اور وہ وہاں کے حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ویزہ پراسیسنگ کے کام میں بھی شراکت دار ہے، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دو ہزار تئیس سے وہ پاکستانی جو وزٹ ویزے پر یو اے ای میں موجود تھے اور نوکریاں تلاش کر رہے تھے، انہیں واپس پاکستان جانا پڑا کیونکہ یو اے ای کی کمپنیوں نے پاکستانیوں کو ملازمت دینا بند کر دیا، بلکہ انہیں انٹرویوز کے لیے بلانا بھی چھوڑ دیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کسی سرکاری نوٹیفکیشن کے تحت ایسا ہوا ہے، تو انہوں نے کہا، "یو اے ای ایک مختلف انداز میں کام کرتا ہے، جہاں بہت سی چیزیں باضابطہ لکھی جاتی ہیں، وہیں کئی احکامات تحریری شکل میں جاری نہیں کیے جاتے۔ حکومتی ادارے خود جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ جب کچھ پاکستانیوں کو نوکری دینے والی کمپنیوں کی جانب سے دائر کردہ ورک ویزا درخواستیں مسترد ہوئیں، تو مارکیٹ کو پتہ چل گیا کہ اب پاکستانیوں کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔

" پاکستانیوں کے حوالے سے یو اے ای کے تحفظات

وزارت خارجہ نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ یو اے ای کو پاکستانیوں کے ویزہ درخواستوں اور پہلے سے جاری ویزوں کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ ان میں جعلی ڈگریاں جمع کرانا، ملازمت کے جعلی معاہدے، اور ویزہ مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی قیام کے واقعات شامل ہیں۔ کچھ پاکستانی شہری سیاسی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔

یو اے ای میں موجود ایک کمپنی کے مالک، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، کیونکہ اس سے ان کا کاروبار فوری طور پر متاثر ہو سکتا ہے، نے کہا، "یہ مسائل کسی حد تک پہلے سے موجود تھے، بھیک مانگنے کا مسئلہ واقعی ایک حقیقت ہے جسے حال ہی میں یو اے ای نے پاکستانی حکام کے سامنے اٹھایا تھا، لیکن ہم یو اے ای میں محسوس کرتے ہیں کہ یہ واحد وجہ نہیں ہے۔

یہاں کچھ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، جسے یو اے ای اپنی روایت کے مطابق باضابطہ طور پر ظاہر نہیں کرتا۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہاں، ایک چیز جو یو اے ای حکام کے لیے زیادہ پریشان کن ہو سکتی ہے اور جس کا وہ ذکر بھی کر چکے ہیں، وہ پاکستانی شہریوں کی یو اے ای میں رہائش کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہے۔ پاکستانی افراد یو اے ای حکام پر مبینہ طور پر مخصوص بین الاقوامی اتحادوں کے حوالے سے الزامات لگاتے ہیں اور انہیں بدنام کرتے ہیں۔

عثمان چیمہ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے متحدہ عرب امارات ویزہ حاصل کرنا پاکستانیوں کے پاکستانیوں کو ویزہ درخواست یو اے ای میں حال ہی میں کو بتایا بتایا کہ نہیں کی کے لیے

پڑھیں:

حکمران پاکستانیوں سے کہتے کہ ہماری معیشت کمزور ہے امریکا کیخلاف کھل کر بات نہیں کرسکتے

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 مارچ 2025ء) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ امریکی پشت پناہی سے غزہ میں جاری اسرائیلی سفاکیت پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی ظلم میں شرکت کے مترادف ہے، حکومت اسرائیل کو واشنگٹن کی جاری حمایت پر خاموش رہی تو آئندہ احتجاج امریکی سفارت خانہ کے اندر ہو گا۔ وزیراعظم سعودی عرب میں ہیں، امید ہے امریکا اور اسرائیل کی مذمت میں مشترکہ اعلامیہ جاری ہو گا۔

افسوس کہ مسئلہ فلسطین پر حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی خاموش ہے، سب پارٹیاں ٹرمپ کی خوشنودی کے حصول کے لیے دوڑ میں لگی ہیں، ن لیگ، پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی امریکا کی مذمت کریں۔ آرمی چیف کو فلسطین کی حمایت میں سامنے آ کر بیان دینا چاہیے، وہ حکومت سے بات کر کے اسلامی دنیا کے فوجی سربراہوں کا اجلاس بلائیں، اسرائیل کو واضح پیغام دیا جائے، یقین سے کہتا ہوں صیہونی سفاکیت بند کرانے کے لیے یہ اعلان ہی کافی ہو گا۔

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر پاکستانی صحافیوں کے اسرائیل جانے کی رپورٹس گردش کر رہی ہیں، حکومت اس پر موقف قوم کے سامنے رکھے، صہیونیوں سے سازباز کر کے فلسطینیوں کے خون کا سودا کیا گیا تو قوم حکمرانوں کو نشان عبرت بنا دے گی۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، اہل فلسطین کے حق میں تمام بڑے شہروں میں ملین مارچ منعقد کرنے کی کال دیں گے، قوم تیار رہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے لاہور میں مسجد شہدا سے امریکی قونصلیٹ تک نکالے جانے والے مارچ کی قیادت کرنے کے بعد شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی جاوید قصوری، امیر لاہور ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ اور امیر شیخوپورہ زاہد عمران کروٹانہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔امیر جماعت کی کال پر ملک بھر میں اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی اور غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف ریلیاں، مارچز اور مظاہروں کا انعقاد ہوا۔

اسلام آباد، کراچی، پشاور، راولپنڈی، کوئٹہ میں امریکی سفارت خانہ اور قونصلیٹ کے باہر مظاہرے ہوئے۔ مساجد میں اہل فلسطین کے حق میں خصوصی دعائیں کی گئیں۔ بنوں میں امیر جماعت کے پی جنوبی پروفیسر ابراہیم نے مظاہرے سے خطاب کیا۔ میرپور خاص اور لاڑکانہ میں پریس کلبز کے باہر مظاہرے ہوئے۔ ٹنڈواللہ یار، بدین، کندھ کوٹ، سکرنڈ، مالاکنڈ، دیرپائین، دیربالا، فیصل آباد، ملتان، حیدرآباد، سکھر، اوکاڑہ، ساہیوال سمیت دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں کی قیادت مقامی قائدین نے کی۔

مرکزی رہنما ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے علما اکیڈیمی میں خطبہ جمعہ کے بعد اہل فلسطین کے حق میں خصوصی دعا کرائی۔لاہور میں مرکزی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ غزہ میں سیزفائر کے باوجود اسرائیلی حملے جاری ہیں، گزشتہ دنوں میں 250بچوں سمیت 600افراد شہید ہو گئے، رفح کراسنگ کو بند کر دیا گیا ہے، امریکا اسرائیلی دہشت گردی کی مکمل سپورٹ اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

افسوس ناک امریہ ہے کہ ان مظالم پر اسلامی دنیا کے حکمران خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، یہ سب فلسطینیوں کے خون میں برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، پوری امت ہماری طرف دیکھ رہی ہے، پاکستان کے حکمرانوں کو امریکی غلامی کو چھوڑنا ہو گی، اپوزیشن پارٹیاں بھی اسرائیلی اور امریکی مذمت میں سامنے آئیں، قوم انھیں دیکھ رہی ہے، لوگ سب جانتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے، 23مارچ 1940ء کو ایک قرارداد پاکستان کے قیام کے حق میں تو دوسری اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی ریاست کے قیام کی مذمت میں تھی، قائداعظمؒ نے اسرائیل کو مغرب کی ناجائز اولاد قرار دیا تھا، اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا، یہ پاکستان کی ریاستی پالیسی ہے، حکمرانوں نے ایسا سوچا بھی تو قوم انھیں نشان عبرت بنا دے گی۔

انھوں نے کہا کہ پاکستانیوں سے کہا جاتا ہے کہ ہماری معیشت کمزور ہے اس لیے کھل کر امریکا کے خلاف بات نہیں کر سکتے، پاکستان کی معیشت انہی نے کمزور کی جو ملک پر مسلط ہیں، ہمیں کمزور معیشت کا نہ بتایا جائے، حکمران بزدلی ترک کریں۔ انھوں نے کہا کہ حکمرانوں کو حماس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، حماس کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں، حماس نے ثابت کر دیا کہ جنگیں محض اسلحہ کے زور پر نہیں لڑی جاتیں، بلکہ ان کے لیے جذبہ ایمانی بھی درکار ہوتا ہے، پوری قوم اہل فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی شخص کا بغیر ویزا بھارت کا سفر؛ ممبئی ایئرپورٹ اہلکار بھی حیران؛ ویڈیو وائرل
  • بیرون ممالک سے چھٹی پر آنے والے پاکستانی شہری واپس کیوں نہیں جا پا رہے؟
  • حکمران پاکستانیوں سے کہتے کہ ہماری معیشت کمزور ہے امریکا کیخلاف کھل کر بات نہیں کرسکتے
  • فلم ’’حنا‘‘ سے مشہور ہونے والی زیبا بختیار نے 16 بھارتی فلمیں کیوں مسترد کیں؟
  • ’ڈیجیٹل یوتھ ہب ایپ‘، نوجوان کی بڑی مشکل آسان ہوگئی
  • پاکستانی شہری کا بغیر ویزا کے بھارتی فلائٹ کے ذریعے بھارت کا سفر، ممبئی ایئرپورٹ کے حکام حیران
  • 4 پاکستانیوں کے اسرائیل جانے کی کوئی معلومات نہیں، ترجمان دفتر خارجہ
  • پاکستانیوں کے اسرائیل جانے سے متعلق کوئی معلومات نہیں: ترجمان دفتر خارجہ
  • دفتر خارجہ کو پاکستانیوں کے اسرائیل جانے سے متعلق کوئی معلومات نہیں، ترجمان