میڈیا اداروں کی بندش: وائس آف امریکہ کے ملازمین کا ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
میڈیا اداروں کی بندش: وائس آف امریکہ کے ملازمین کا ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ WhatsAppFacebookTwitter 0 22 March, 2025 سب نیوز
وائس آف امریکہ کے صحافیوں اور ان کی یونینز نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی امداد سے چلنے والی خبر رساں ایجنسیوں کی بندش سے کارکنان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے جس کی پہلی آئینی ترمیم میں اجازت دی گئی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا، اس کے قائم مقام ڈائریکٹر وکٹر مورالز اور خصوصی مشیر کاری لیک کو گذشتہ ہفتے کے روز 1,300 سے زائد ملازمین کے ہمراہ رخصت پر بھیج دیا گیا اور کئی نیوز سروسز کے لیے فنڈز میں کٹوتی کر دی گئی۔ نیویارک کی وفاقی عدالت میں دائر کردہ شکایت کے مطابق ان کارروائیوں سے پہلی ترمیم اور ان قوانین کی خلاف ورزی ہوئی جن کے ذریعے کانگریس نے وائس آف امریکہ کو اختیار اور فنڈ فراہم کیا۔
یہ کٹوتیاں ایک بڑے اقدام کا حصہ ہیں جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی ایلون مسک نے وفاقی حکومت کو مختصر کرنے کے لیے کیا ہے۔ اس بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ان چیزوں پر ضائع کیا جاتا ہے جو امریکی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
یہ مقدمہ یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کی بندش کے فیصلے کے خلاف عدالتی حکم کا تقاضہ کرتا ہے جو وی او اے اور ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی اور ریڈیو فری ایشیا جیسے دیگر میڈیا آؤٹ لیٹس کو فنڈ فراہم کرتا ہے۔
مقدمے کے مطابق اس تیز رفتار بندش سے تمام دنیا میں آمرانہ طرزِ حکومت کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
مدعی نے لکھا، “دنیا کے کئی حصوں میں معروضی خبروں کا ایک اہم ذریعہ ختم ہو گیا ہے اور صرف سنسر شدہ سرکاری تعاون شدہ نیوز میڈیا اس خلا کو پر کرنے کے لیے رہ گیا ہے۔”
یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا نے جمعہ کو تبصرے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔
وائس آف امریکہ کا آغاز جنگِ عظیم دوئم کے عروج پر نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہوا تھا جس کے بعد سے یہ ایک بین الاقوامی میڈیا براڈکاسٹر بن گیا جو آن لائن، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر 40 سے زیادہ زبانوں میں کام کرتے ہوئے امریکی خبروں کے بیانیے کو ان ممالک میں پھیلا رہا ہے جہاں آزاد پریس نہیں ہے۔
شکایت کے مطابق بندش سے پہلے وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو فری ایشیا کے ہر ہفتے 425 ملین سے زیادہ سامعین تھے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: وائس ا ف امریکہ کی بندش
پڑھیں:
امریکہ: لاکھوں تارکین وطن ملک بدر کیے جانے کا امکان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملک کی تاریخ میں ملک بدری کی سب سے بڑی مہم چلانے اور امیگریشن میں کمی کا عزم پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں، بالخصوص لاطینی امریکی ممالک کے تارکین وطن افراد کے حوالے سے۔
امریکی حکومت تازہ آرڈر سے پانچ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوں گے، جن میں کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے لوگ شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کی طرف سے اکتوبر 2022ء میں شروع کی گئی ایک اسکیم کے تحت یہ لوگ امریکہ آئے تھے اور جنوری 2023ء میں اس پروگرام میں توسیع کی گئی تھی۔اب محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے آرڈر کے فیڈرل رجسٹر میں شائع ہونے کے 30 دن بعد یہ تمام لوگ امریکہ میں قانونی تحفظ سے محروم ہو جائیں گے۔
(جاری ہے)
یہ آرڈر فیڈرل رجسٹر میں منگل کے روز شائع ہونا ہے۔
آرڈر کے مطابق اس پروگرام کے ذریعے سپانسر کیے گئے تارکین وطن افراد کو 24 اپریل تک امریکہ چھوڑنا پڑے گا۔ تاہم اس ڈیڈ لائن کے بعد وہ امریکہ میں ممکنہ طور پر اس صورت میں رہ پائیں کہ اگر وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے امریکہ میں رہنے کے لیے اپنی اس عارضی امیگریشن کو کسی دوسری قانونی حیثیت میں تبدیل نا کرا لیا ہو۔
ویلکم ڈاٹ یو ایس نامی ادارے نے، جو امریکہ میں پناہ لینے والے لوگوں کی مدد کرتا ہے، اس اقدام سے متاثر ہونے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر کسی امیگریشن وکیل سے مشورہ کریں۔
جنوری 2023ء میں اعلان کردہ پروسیسز فار کیوبنز، ہیٹینز، نکاراگونز اور وینزویلنز (سی ایچ این وی) پروگرام کے تحت ان چار ممالک سے ہر ماہ 30 ہزار تارکین وطن افراد کو امریکہ داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
سابق امریکی صدر بائیڈن نے اس منصوبے کو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر غیر قانونی ہجرت کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک "محفوظ اور انسانی" طریقے کے طور پر متعارف کرایا تھا۔
لیکن محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کا اب اصرار ہے کہ یہ اسکیم "عارضی" تھی۔
جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ اسکیم فطری طور پر عارضی تھی اور صرف اس کی بنیاد پر امیگریشن اور امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ر ب/ م ا (اے ایف پی)