Daily Ausaf:
2025-03-22@22:11:28 GMT

انسانی سماج اور آسمانی تعلیمات

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ہمارے ہاں سیاسی نظام کا عنوان خلافت ہے جو تقریباً‌ تیرہ سو سال تک قائم رہی ہے۔ خلافت دراصل نیابت ہے یعنی خلیفہ خود مستقل حکمران نہیں ہے بلکہ اصل حاکم کا نائب ہے۔ یہاں ایک مغالطہ دور کرنا چاہتا ہوں کہ خلیفہ نائب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا، یہ بات درست نہیں۔ الاحکام السلطانیہ میں قاضی ابویعلیٰ نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ سے ایک آدمی نے کہا تھا ’’ یا خلیفۃ اللہ!‘‘ آپؓ نے ٹوک دیا اور فرمایا ’’لست بخلیفۃ اللہ انا خلیفۃ رسول اللہ‘‘ میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں، رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ یہ بہت بنیادی بات ہے۔ چنانچہ اصول یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومت نیابتِ رسول کا نام ہے اور حکومت کی بنیاد قرآن و سنت ہے، جبکہ مغرب اور آج کا عالمی نظام یہ کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
اس حوالے سے ایک عنوان مذہبی مساوات کا ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں متعدد معاملات میں غیر مسلم رعیت کو وہ آزادی نہیں ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہے۔ ویسے تو ان کو جائز حقوق حاصل ہیں لیکن کچھ معاملات میں مسلمانوں کا امتیاز ہے۔ مثلاً‌ غیر مسلم شہریوں کو مسلمانوں کے سامنے کھلم کھلا اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق نہیں ہے۔ مسیحی یا کوئی اور اقلیت اپنے دائرے میں تعلیم و تبلیغ تو کر سکتے ہیں لیکن مسلم اکثریت کو دعوت نہیں دے سکتے۔ یہ مذہبی مساوات کے خلاف قرار پاتا ہے کہ جو حقوق ایک مسلم ریاست میں مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ تمام حقوق غیرمسلموں کو حاصل نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان کے قانون میں یہ ہے کہ ملک کا سربراہ کوئی غیر مسلم نہیں بن سکتا۔ اور جب آپ یہ کہتے ہیں کہ کلیدی آسامیوں پر یعنی ایسے مناصب جو پالیسی ساز حیثیت رکھتے ہوں، ان پر غیرمسلموں کی تقرری نہ کی جائے، تو اسے مذہبی مساوات کے خلاف سمجھا جاتا ہے کہ جب مسلمان ان عہدوں پر فائز ہو سکتا ہے تو غیر مسلم کیوں نہیں ہو سکتا۔ اقلیتوں کا ’’آل پاکستان مینارٹیز الائنس‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ فورم ہے، ان کی ایک مرتبہ لاہور میں کانفرنس ہوئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ صدر کے عہدے کے لیے مسلمان ہونے کی پابندی ختم کی جائے۔ آپ این جی اوز کی قراردادیں اور سیکولر لابیوں کے مطالبات پڑھتے ہوں گے، ان میں ایک خاص اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ مذہبی امتیاز کے قوانین ختم کیے جائیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جہاں ملک کے مسلم شہریوں اور غیرمسلم شہریوں میں آپ فرق کرتے ہیں وہ مذہبی امتیاز کے قوانین ہیں اور مغرب ان قوانین کو تسلیم نہیں کرتا۔
ایک عنوان مذہبی حقوق کا استعمال ہوتا ہے کہ جو حقوق غیرمسلموں کو حاصل ہیں آپ ان پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اس پر ایک تنازعہ جو اس وقت عالمی اداروں میں چل رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے قادیانیوں پر کچھ پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا اور یہ فیصلہ دستور کے مطابق پارلیمنٹ نے کیا تھا۔ اور اس کے دس سال بعد ۱۹۸۴ء میں ایک ملک گیر عوامی تحریک کے نتیجے میں صدر ضیاء الحق مرحوم کا صدارتی آرڈیننس آیا تھا جس میں قادیانیوں پر مذہبی حوالے سے کچھ پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ مرکزی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت تمام مکاتب فکر کی مشترکہ جماعت تھی، حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ اس کے صدر تھے، بریلوی مکتب فکر کے مولانا مفتی مختار احمد نعیمی آف گجرات سیکرٹری جنرل تھے، اہل حدیث مکتب فکر کے مولانا عبد القادر روپڑی اور شیعہ راہنما علامہ علی غضنفر کراروی نائب صدر تھے، میں سیکرٹری اطلاعات تھا، مولانا اللہ وسایا صاحب رابطہ سیکرٹری تھے۔ ملک گیر مظاہرے ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں آرڈیننس جاری ہوا تھا جس میں قادیانیوں کو روک دیا گیا کہ وہ اسلام کا نام استعمال نہیں کریں گے اور مسلمانوں کی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے۔ ہر مذہب کے اپنی مخصوص اصطلاحات اور امتیازات ہوتے ہیں، مثلاً کلمہ طیبہ، مسجد، اذان، امیر المؤمنین، خلیفۃ المسلمین، ام المؤمنین، صحابہ کرامؓ وغیرہ مسلمانوں کی اصطلاحات ہیں۔ اصطلاح جب کسی گروہ کے ساتھ مخصوص ہو جاتی ہے تو یہ اس کا حق بن جاتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کو استعمال نہ کر ے۔ یہ دنیا کا مسلّمہ ضابطہ ہے جو صرف مذہب کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر بھی ہے۔ اس اصول پر ۱۹۸۴ء میں یہ قانون نافذ کیا گیا کہ قادیانی مسلمانوں کی مخصوص اصطلاحات کو استعمال نہیں کر سکتے اور عوامی اجتماع بھی نہیں کر سکتے، اسی طرح کچھ اور پابندیاں تھیں۔
آج کے بین الاقوامی قوانین اور اداروں کا کہنا ہے کہ آپ نے قادیانیوں کے مذہبی حقوق غصب کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو جلسہ کرنے کی اجازت ہے تو قادیانیوں کو کیوں نہیں ہے؟ مسلمانوں کو دروازے پر کلمہ طیبہ لکھنے کی اجازت ہے تو قادیانیوں کو کیوں نہیں ہے؟ مسلمانوں کو امیرالمؤمنین اور ام المؤمنین وغیرہ اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت ہے تو قادیانیوں کو کیوں نہیں ہے؟ یہ پابندیاں انسانی حقوق کے عالمی نظام کے تحت مذہبی حقوق کے منافی ہیں اور اس معاملے کو قادیانی حضرات دنیا کے عالمی اداروں میں اسی عنوان سے پیش کرتے ہیں کہ پاکستان میں اس قانون کے تحت ہمارے مذہبی حقوق پامال کر لیے گئے ہیں اور ہماری مذہبی آزادیاں سلب کر لی گئی ہیں۔ چنانچہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، جنیوا انسانی حقوق کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ جیسے ادارے اپنی رپورٹوں کی بنیاد پر قادیانیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں ہمارے موقف کو پذیرائی نہیں مل رہی جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کا چارٹر اور انسانی حقوق کی جو تشریح عالمی ادارے کرتے ہیں، بادی النظر میں ہمارا قانون اس کے خلاف ہے، کیونکہ انسانی حقوق کا چارٹر کہتا ہے کہ ہر آدمی کو مذہب اختیار کرنے، اس کا پرچار کرنے، اس کی تبلیغ اور دعوت دینے کا حق حاصل ہے۔ اور صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنا موقف عالمی اداروں تک ان کی زبان میں اور ان کے اسلوب میں پیش ہی نہیں کر رہے، ہماری تمام تر تگ و دو جلسہ عام میں تقریر کر لینے یا اخبار میں مضمون لکھ لینے تک محدود ہے، اور عوامی جلسوں میں بھی ہم جذباتی تقریریں کرتے ہیں، دلیل سے بات نہیں کرتے، اور آج کی نئی پود دلیل کی بات کو سنتی ہے جذبات کی نہیں۔ چنانچہ اگر امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن اور بین الاقوامی ادارے قادیانیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں تو ہمیں اس کے اسباب کو سمجھنا چاہیے، اس میں ان کے ساتھ ساتھ ہمارا قصور بھی ہے۔
مذہب ہمارے اور مغرب کے درمیان تنازعہ کا ایک مستقل عنوان ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ مذہب کا کوئی اجتماعی اور معاشرتی کردار نہیں ہے، اسے عقائد و اخلاقیات اور عبادات تک محدود رکھو۔ حکومت و سیاست، قانون و عدالت اور معیشت و تجارت میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اور ملک کے تمام شہری مذہبی حقوق میں بالکل برابر ہیں، ان کے درمیان کوئی امتیاز روا نہ رکھا جائے اور کسی شہری کے مذہبی حقوق پر آپ قدغن نہیں لگا سکتے۔ جبکہ ہم مسلمانوں کے انفرادی معاملات بھی مذہب کے حوالے سے طے پاتے ہیں، خاندانی نظام بھی مذہبی تعلیمات کے دائرہ میں تشکیل پاتا ہے، اور اجتماعی و معاشرتی معاملات بھی مذہبی ہدایات کے پابند سمجھے جاتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قادیانیوں کو مسلمانوں کو کیوں نہیں کرتے ہیں حوالے سے یہ ہے کہ کو حاصل نہیں کر نہیں ہے

پڑھیں:

توہین مذہب الزامات کیس: عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا حکم

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) توہین مذہب الزامات سے متعلق کیس میں عدالت نے کارروائی کو براہ راست دکھانے کا حکم دے دیا۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق عدالت نے توہین مذہب الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کے کیس میں مفاد عامہ کے پیش نظر عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی ہدایت کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمرہ عدالت بھر چکا ہے، عدالت کے باہر بھی کثیر تعداد میں لوگ موجود ہیں کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ بن چکا ہے اس لیے کیس کی کارروائی براہ راست دکھانے کا حکم دیتے ہیں۔

سکولوں کی حالت زار: سیکرٹری تعلیم کی عدم حاضری پر عدالت برہم

عدالت نے آئی ٹی حکام کو فوری طور پر براہ راست دکھانے کے انتظامات کرنے کا حکم دیا اور پولیس کو حکم دیا کہ کمرہ عدالت کے باہر لوگوں کو آگاہ کر دیں جو بھی کارروائی دیکھنا چاہتے ہیں وہ آن لائن دیکھ سکتے ہیں۔
 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • یوم پاکستان، تجدید عہد کا دن
  • ابو ظہبی کے مندر میں بین المذاہب سحری کا انعقاد
  • خاتون ٹک ٹاکر توہین مذہب کے الزام میں گرفتار
  • دہشتگردی قابلِ مذمت، اِس کی کسی صورت کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
  • صنفی مساوات پر یو این عزم کو تشکیل دینے والی خواتین کی یاد میں تقریب
  • تمام ممالک کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنا چاہیے، چینی مندوب
  • توہین مذہب الزامات کیس: عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا حکم
  • وقف ترمیمی بل مسلمانوں کو قابل قبول نہیں ہے، مولانا ارشد مدنی
  • ’فوجی افسران کیلئے شہری عہدے‘: انڈونیشیا کے فوجی قانون میں ’متنازع‘ ترامیم منظور