Daily Ausaf:
2025-03-22@22:15:07 GMT

نیتوں کا فتور

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

موسم بہارکی ڈھلتی رات کا سماں، کھلا آسمان اورایسے میں اکادکاتیرتےبادلوں کے گھونگٹ سے نکلتے کھوئےکھوئےچاند کی اداس چاندنی تو پھر ایسے میں دل پر کیا گزرتی ہو گی ذرا اس قیامت کا تصور کیجئے۔ یہ کسی شاعر کا تخیلاتی خاکہ نہیں بلکہ حقیقت میں یہ ان مناظرکی تصویرکشی ہےجو آج اس دیوانے دل کو پاگل بناکرچھوڑے گی۔ جنوں کی اس کیفیت میں ایک دفعہ پھرکانوں میں محمد رفیع کےاس گانے ’’کھویا کھویا چاند کھلا آسماں آنکھوں میں ساری رات جاگےگی‘‘ کی مدھر دھن اسی طرح رس گھول رہی ہے جیسے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کبھی اندرون شہر اپنے گھر کی چھت پر رات کو لیٹے ہوئے آوارہ چاند کو دیکھتےریڈیو سیلون سےاس طرح کے گانے پریوں کے دیس کی سیر پرلےجاتے تھے۔ کتنی بے فکری کا وہ زمانہ تھا۔ محدود سرمایہ ہونے کے باوجود کس قدر معاشی بے فکری تھی۔ وسائل کم تھے تو مسائل بھی کم تھے۔ بقول منو بھائی
او وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی منگ لیندے ساں
مل جاندا سی کھا لیندے ساں
نئیں ملدا سی تے رو پیندے ساں
روندے روندے سوں رہندے ساں
ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
بھگ لگدی اے منگ نئیں سکدے
ملدا اے تے کھا نئیں سکدے
نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
ناں روئیے نے سوں نئیں سکدے!
سوال پیداہوتا ہےاب ایساکیوں؟ سیدھا سا جواب ہے ! نیتوں کا فتور اور فکری اساس کی کمی یہ خاکسار متعدد بار اپنے کالموں میں اس بات کا ذکر کر چکا کہ وہ بزرگوں اور اولیاء اللہ کی جوتیاں سیدھی کرنےوالاایک حقیرسا فقیر ہے اور جہاں کہیں سے بھی اسے روشنی کی ایک باریک لکیر بھی نظر آئے وہ فورا ً اس در پر دستک دینے پہنچ جاتا ہے کہ کیا پتا کہاں سے فیض کا رزق مل جائے۔
فیصل آباد سمندری روڈ پر صوفی برکت صاحب مدفون ہیں اس سے پہلے صوفی صاحب سالار والا جسے اب دارلآحسان کہا جاتا ہے وہاں رہائش پذیر تھے۔ یہ ستر کی دہائی کے وسط کی بات ہے خاکسار ان دنوں ہیلی کالج آف کامرس میں بی کام کا سٹوڈنٹ تھا جب سے اس نے ان کی قدم بوسی شروع کی تھی۔ صاحب اکثر فرمایاکرتے تھے رزق کی فکرچھوڑو اس کی تقسیم اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ انسان کے پیدا کرتے ہی اس کا رزق اور روزی لکھ دیتا ہے۔ ذکر کرو اور فکر کرو اپنے اعمال کی جو تمہارے ساتھ جانے ہیں۔ عبادات کے ساتھ جس عمل کی سب سے زیادہ فضیلت ہے وہ آپ کا حسن معاشرت ہے۔ غور کریں جہاں حضور نبی اکرم رسول اللہ ﷺنے عبادات، معاملات ،اخلاق اور حسن معاشرت سے متعلق تعلیم دی ہے، وہیں آپ نے اسی طرح فتنوں سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔ آپ کا فرمان ہے کہ یہ فتنے قربِ قیامت میں اتنے بڑھ جائیں گے جیسے اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ دراصل یہ فتنہ کیا چیز ہے۔ فتنہ کے لغوی معنوں اور اس کی اقسام پر انشاء اللہ پھر کسی اور کالم میں تفصیل سے بات ہو گی ۔
سر دست دین کے علم کے ایک ادنی طالب کی حیثیت سے راقم کا یہ تصور ہے کہ حب مال یعنی ضرورت سے زیادہ رزق کے حصول کی خواہش کا شمار بھی ایک فتنہ کے زمرے میں آتا ہے اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ انفرادی سطح پر یہ بیماری ہر معاشرہ میں دیکھی جا سکتی ہے لیکن ہمارے اس ملک پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی اس rat race میں لگا ہوا ہے کہ جو بھی ذریعہ ہو hook or by crook ہم نے آج ہی اپنی تجوریوں کے منہ بھرنے ہیں۔ المیہ اگر انفرادی سطح تک ہی رہتاتوفتور شائد ان حدوں کو نہ چھوتا جسے قحط الرجال سے تعبیر کیاجاسکتاہےاب اس بیماری کے کینوس پر اگر ایک نظر ڈالیں اس میں حکومتی سر پرستی کے ڈانڈے بھی ملتے ہیں۔
راقم اپنے اس موقف کی صحت بارے نہ کسی ماضی بعید اور نہ کسی ماضی قریب کا حوالہ دینا چاہتا ہے بلکہ وہ زمانہ حال کے صرف ایک سکینڈل کی طرف توجہ دلا کر ضمیر فروشوں کے ان چہروں سے نقاب اٹھاناچاہتا ہے جو عوام کے سامنے اپنی پارسائی ، وطن سے محبت اور خلق خدا کی بھلائی میں دن رات ایک کرنے کے دعوے کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ آج سے پانچ چھ ماہ پہلے جب ابھی گنے کا کرشنگ سیزن شروع نہیں ہواتھا حکومت وقت نےاس بناپر کہ ملک میں چینی کے ضرورت سے زیادہ سٹاک موجود ہیں شوگر کارٹیل کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ ملکی ضرورت سے زیادہ سٹاک کو برآمد کرلے اور یوں حکومتی سر پرستی میں اس کارٹیل نے برآمدات کی مد میں اربوں روپیہ کمایا۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کے تحت ان ذخیرہ اندوزوں کے سٹاک کی لوکل مارکیٹ میں رسد اورطلب کےتحت قیمتیں گرنے دیتے لیکن وہ کیوں ایسا کرتےکیونکہ شوگر کارٹیل پر ایک نظر ڈالیں اس میں تو وہ سب خود ہوتے ہیں جو یہ فیصلے کرتے ہیں۔ چلیں اس بلیک گیم کو ایک طرف رکھتے ہیں اور رمضان کے مہینے کی طرف آتے ہیں جب اس ماہ مبارک کے شروع ہونے سے پہلے ہی ایک کمپئین کے ذریعے مارکیٹ میں چینی کے بحران کا تاثر ابھارا گیا اور قیمتیں یکمشت تیس سے چالیس روپے فی کلو بڑھا دی گئیں جب دیہاڑیاں لگ گئیں تو حکومت خواب خرگوش سے جاگی اور پھر سپلائی کو بہتر بنانے کے لئے امپورٹ کی آڑ میں ایک طرف پھر کروڑوں ڈالر کا قومی خزانہ پر بوجھ بڑھایا اور سونے پہ سہاگہ دیہاڑیاں دوسری طرف لگیں۔ اسے وقت کے جبر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یانیتوں کے فتور سےکہ جادوگر ٹوپی کیسے گھماتے ہیں اور ہم صرف تماشہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سے زیادہ

پڑھیں:

نیتوں کا فتور

موسم بہارکی ڈھلتی رات کا سماں، کھلا آسمان اورایسے میں اکادکاتیرتےبادلوں کے گھونگٹ سے نکلتے کھوئےکھوئےچاند کی اداس چاندنی تو پھر ایسے میں دل پر کیا گزرتی ہو گی ذرا اس قیامت کا تصور کیجئے۔ یہ کسی شاعر کا تخیلاتی خاکہ نہیں بلکہ حقیقت میں یہ ان مناظرکی تصویرکشی ہےجو آج اس دیوانے دل کو پاگل بناکرچھوڑے گی۔ جنوں کی اس کیفیت میں ایک دفعہ پھرکانوں میں محمد رفیع کےاس گانے ’’کھویا کھویا چاند کھلا آسماں آنکھوں میں ساری رات جاگےگی‘‘ کی مدھر دھن اسی طرح رس گھول رہی ہے جیسے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کبھی اندرون شہر اپنے گھر کی چھت پر رات کو لیٹے ہوئے آوارہ چاند کو دیکھتےریڈیو سیلون سےاس طرح کے گانے پریوں کے دیس کی سیر پرلےجاتے تھے۔ کتنی بے فکری کا وہ زمانہ تھا۔ محدود سرمایہ ہونے کے باوجود کس قدر معاشی بے فکری تھی۔ وسائل کم تھے تو مسائل بھی کم تھے۔ بقول منو بھائی
او وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی منگ لیندے ساں
مل جاندا سی کھا لیندے ساں
نئیں ملدا سی تے رو پیندے ساں
روندے روندے سوں رہندے ساں
ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
بھگ لگدی اے منگ نئیں سکدے
ملدا اے تے کھا نئیں سکدے
نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
ناں روئیے نے سوں نئیں سکدے!
سوال پیداہوتا ہےاب ایساکیوں؟ سیدھا سا جواب ہے ! نیتوں کا فتور اور فکری اساس کی کمی یہ خاکسار متعدد بار اپنے کالموں میں اس بات کا ذکر کر چکا کہ وہ بزرگوں اور اولیاء اللہ کی جوتیاں سیدھی کرنےوالاایک حقیرسا فقیر ہے اور جہاں کہیں سے بھی اسے روشنی کی ایک باریک لکیر بھی نظر آئے وہ فورا ً اس در پر دستک دینے پہنچ جاتا ہے کہ کیا پتا کہاں سے فیض کا رزق مل جائے۔
فیصل آباد سمندری روڈ پر صوفی برکت صاحب مدفون ہیں اس سے پہلے صوفی صاحب سالار والا جسے اب دارلآحسان کہا جاتا ہے وہاں رہائش پذیر تھے۔ یہ ستر کی دہائی کے وسط کی بات ہے خاکسار ان دنوں ہیلی کالج آف کامرس میں بی کام کا سٹوڈنٹ تھا جب سے اس نے ان کی قدم بوسی شروع کی تھی۔ صاحب اکثر فرمایاکرتے تھے رزق کی فکرچھوڑو اس کی تقسیم اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ انسان کے پیدا کرتے ہی اس کا رزق اور روزی لکھ دیتا ہے۔ ذکر کرو اور فکر کرو اپنے اعمال کی جو تمہارے ساتھ جانے ہیں۔ عبادات کے ساتھ جس عمل کی سب سے زیادہ فضیلت ہے وہ آپ کا حسن معاشرت ہے۔ غور کریں جہاں حضور نبی اکرم رسول اللہ ﷺنے عبادات، معاملات ،اخلاق اور حسن معاشرت سے متعلق تعلیم دی ہے، وہیں آپ نے اسی طرح فتنوں سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔ آپ کا فرمان ہے کہ یہ فتنے قربِ قیامت میں اتنے بڑھ جائیں گے جیسے اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ دراصل یہ فتنہ کیا چیز ہے۔ فتنہ کے لغوی معنوں اور اس کی اقسام پر انشاء اللہ پھر کسی اور کالم میں تفصیل سے بات ہو گی ۔
سر دست دین کے علم کے ایک ادنی طالب کی حیثیت سے راقم کا یہ تصور ہے کہ حب مال یعنی ضرورت سے زیادہ رزق کے حصول کی خواہش کا شمار بھی ایک فتنہ کے زمرے میں آتا ہے اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ انفرادی سطح پر یہ بیماری ہر معاشرہ میں دیکھی جا سکتی ہے لیکن ہمارے اس ملک پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی اس rat race میں لگا ہوا ہے کہ جو بھی ذریعہ ہو hook or by crook ہم نے آج ہی اپنی تجوریوں کے منہ بھرنے ہیں۔ المیہ اگر انفرادی سطح تک ہی رہتاتوفتور شائد ان حدوں کو نہ چھوتا جسے قحط الرجال سے تعبیر کیاجاسکتاہےاب اس بیماری کے کینوس پر اگر ایک نظر ڈالیں اس میں حکومتی سر پرستی کے ڈانڈے بھی ملتے ہیں۔
راقم اپنے اس موقف کی صحت بارے نہ کسی ماضی بعید اور نہ کسی ماضی قریب کا حوالہ دینا چاہتا ہے بلکہ وہ زمانہ حال کے صرف ایک سکینڈل کی طرف توجہ دلا کر ضمیر فروشوں کے ان چہروں سے نقاب اٹھاناچاہتا ہے جو عوام کے سامنے اپنی پارسائی ، وطن سے محبت اور خلق خدا کی بھلائی میں دن رات ایک کرنے کے دعوے کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ آج سے پانچ چھ ماہ پہلے جب ابھی گنے کا کرشنگ سیزن شروع نہیں ہواتھا حکومت وقت نےاس بناپر کہ ملک میں چینی کے ضرورت سے زیادہ سٹاک موجود ہیں شوگر کارٹیل کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ ملکی ضرورت سے زیادہ سٹاک کو برآمد کرلے اور یوں حکومتی سر پرستی میں اس کارٹیل نے برآمدات کی مد میں اربوں روپیہ کمایا۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کے تحت ان ذخیرہ اندوزوں کے سٹاک کی لوکل مارکیٹ میں رسد اورطلب کےتحت قیمتیں گرنے دیتے لیکن وہ کیوں ایسا کرتےکیونکہ شوگر کارٹیل پر ایک نظر ڈالیں اس میں تو وہ سب خود ہوتے ہیں جو یہ فیصلے کرتے ہیں۔ چلیں اس بلیک گیم کو ایک طرف رکھتے ہیں اور رمضان کے مہینے کی طرف آتے ہیں جب اس ماہ مبارک کے شروع ہونے سے پہلے ہی ایک کمپئین کے ذریعے مارکیٹ میں چینی کے بحران کا تاثر ابھارا گیا اور قیمتیں یکمشت تیس سے چالیس روپے فی کلو بڑھا دی گئیں جب دیہاڑیاں لگ گئیں تو حکومت خواب خرگوش سے جاگی اور پھر سپلائی کو بہتر بنانے کے لئے امپورٹ کی آڑ میں ایک طرف پھر کروڑوں ڈالر کا قومی خزانہ پر بوجھ بڑھایا اور سونے پہ سہاگہ دیہاڑیاں دوسری طرف لگیں۔ اسے وقت کے جبر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یانیتوں کے فتور سےکہ جادوگر ٹوپی کیسے گھماتے ہیں اور ہم صرف تماشہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین