اٹک : نامعلوم افراد کی اندھا دھند فائرنگ ، جے یو آئی رہنما قاری نظام الدین جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اٹک (نیوزڈیسک)جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے تحصیل نائب امیر، قاری نظام الدین کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔یہ افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ جامعہ علوم الشریعہ جامع مسجد لوہاراں میں نماز تراویح کے بعد قرآن سنانے کے بعد موٹر سائیکل پر گھر جا رہے تھے۔
پیپلز کالونی سے متصل خٹک کالونی میں مسلح افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو 1122 کی ٹیم اور ایس ایچ او تھانہ اٹک سٹی ملک مجاہد عباس پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے۔
قاری نظام الدین کی میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال اٹک منتقل کر دیا گیا جہاں ان کے عزیز و اقارب، جے یو آئی کے مقامی رہنما اور بڑی تعداد میں شہری جمع ہو گئے۔جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی قیادت نے اس ٹارگٹ کلنگ کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے امن و امان کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
علما کی بڑی تعداد اور جے یو آئی کے رہنما اسفند یار بخاری ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال اٹک پہنچ گئے۔قاری نظام الدین اٹک کے گنجان آباد تجارتی علاقے سول بازار میں واقع جامعہ علوم الشریعہ جامع مسجد لوہاراں میں نماز تراویح کی امامت کر رہے تھے۔
علاوہ ازیں، وہ فاروق اعظم کالونی میں ایک دینی مدرسہ بھی چلا رہے تھے جہاں سینکڑوں طلبہ دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔اس المناک واقعے کے بعد ضلع بھر میں خوف و ہراس اور غم و غصے کی فضا قائم ہو گئی ہے۔ شہریوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس بزدلانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
گلیشیئرز اور برفانی تودے تیزی سے پگھلتے رہے تو اربوں افراد متاثر ہوں گے،اقوام متحدہ کا انتباہ جاری
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قاری نظام الدین جے یو ا ئی رہے تھے
پڑھیں:
کوئٹہ، کاسی قبرستان میں 13 نامعلوم لاشوں کی تدفین کا تنازعہ
کاسی قبرستان میں پائی گئی 13 نامعلوم افراد کی قبروں پر ماہ رنگ بلوچ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ لاپتہ افراد ہو سکتے ہیں، جنہیں جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ یہ شدت پسندوں کی لاشیں تھیں، جنہوں نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں واقع کاسی قبرستان میں 13 نامعلوم افراد کی تدفین کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی اور حکومت کے درمیان ایک اور تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ تفصیلات کے مطابق دو روز قبل کاسی قبرستان کے قریب مقیم عام شہریوں نے دعویٰ کیا کہ رات کی تاریکی میں 13 افراد کو قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔ جن کی لاشیں سرکاری گاڑیوں میں لائی گئیں۔ تاہم ابتدائی طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو پائی۔ بعد ازاں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس مسئلے کو اجاگر کیا اور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ یہ لاشیں لاپتہ افراد کی ہو سکتی ہیں۔ جنہیں جعلی مقابلے میں مارا گیا۔
دوسری جانب نامعلوم لاشوں پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کا ردعمل بھی سامنے آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ لاشیں ان شدت پسندوں کی تھیں، جنہوں نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کیا تھا۔ اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے پاس دو آپشن تھے۔ ایک یہ کہ ہم ان لاشوں کو وہیں چھوڑ دیتے لیکن یہ ہماری قانونی ذمہ داری تھی کہ ہم ان لاشوں کو لے آئیں، ان کا ڈی این اے کروائیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ یہ کون لوگ تھے جو ریاست پاکستان سے لڑ رہے تھے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق یہ لاشیں ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کی گئی تھیں۔