تھیلی وقت سے پہلے کیوں پھٹ گئی؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
24 ویں ہفتے میں پانی کی تھیلی پھٹ گئی۔ 5،6 ہفتے مسلسل پانی آتا رہا۔ 30ویں ہفتے آنول پھٹ گئی۔ سیزیرین کر کے بچہ نکالا۔ 2 دن زندہ رہا اور پھر اللہ کے پاس واپس۔
’یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ بچہ کیوں نہیں بچ سکا؟ پانی کی تھیلی کیوں پھٹی؟ آنول کیوں پھٹی؟‘
آہ ہا۔۔۔ میری بچی۔۔۔ ایک ہی پیغام میں اتنے سوال۔۔۔ چلو کوشش کرتے ہیں کہ ایک ایک کر کے جواب دیں۔
بچہ جب بچے دانی میں بننا شروع ہوتا ہے تو 2 چیزیں اسے خاص طور پر فطرت کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں جو اس کی بقا کے لیے لازم ہیں: ماں سے جڑی آنول اور اس کے گرد پانی سے بھری تھیلی۔
یہ بھی پڑھیں: نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!
تھیلی 2 جھلی نما پردوں سے بنی ہوتی ہے جو نظر تو نرم ونازک آتے ہیں لیکن بچے اور اس کے گرد پانی کو ایک غبارے کی طرح اندر سمیٹے رہتے ہیں۔ اگر آپ اسے اچھی طرح سمجھنا چاہیں تو ایک غبارے میں ہوا بھر کر پانی بھر لیں اور پھر اس میں کوئی چھوٹا سا کھلونا ڈال دیں۔ غبارے میں کھلونا پانی کے بیچ اچھلتا، کودتا، تیرتا اور ادھر سے ادھر جاتا نظر آئے گا۔ یہی کچھ بچہ کرتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں بچہ بڑا ہوگا اور پانی کی مقدار زیادہ ہوگی، تھیلی اپنے آپ ہی بڑی ہوتی جائے گی۔ قدرت نے بچے کی تھیلی کو خاصا مضبوط بنایا ہے سو نارمل حالات میں تھیلی پھٹنے کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔
اس کو ایسے سمجھیں کہ جب درد زہ شروع ہوتا ہے اور بچے دانی سکڑ اور پھیل کر بچے کو باہر کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہے تب بھی تھیلی کی الاسٹک جیسی فطرت اسے پھٹنے نہیں دیتی اور اکثر اوقات ڈاکٹر یا مڈ وائف کو ایک اوزار کی مدد سے تھیلی کو پھاڑنا پڑتا ہے۔ پچھلے زمانوں میں یہ اوزار اسٹیل کا بنا ہوتا تھا مگر آج کل پلاسٹک کا (Amnihook) استعمال ہوتا ہے۔ وجائنا سے ہوتا ہوا ایمنی ہک بچے دانی میں داخل ہو کر اپنی تیز چونچ سے تھیلی میں سوراخ کرتا ہے تاکہ پانی خارج ہو جائے اور بچہ پیدا ہونے میں سہولت ہو سکے۔
مزید پڑھیے: بچے کا سر بے ڈھب کیوں ہے؟
اس تفصیل سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس تھیلی کا پھٹنا معمول کی بات نہیں۔ یہ آسانی سے نہیں پھٹتی اور نہ ہی آسانی سے پھاڑی جا سکتی۔
پھر کچھ خواتین میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ پانی کی تھیلی خود ہی وقت سے پہلے پھٹ جائے؟
اس کا جواب بھی غبارے سے لیجیے۔ اگر غبارہ ضرورت سے زیادہ پھلا دیا جائے اور اس کی پھیلنے کی صلاحیت ختم ہو جائے تو وہ پھٹ جائے گا۔
اگر غبارے کی جھلی کہیں سے کمزور پڑ جائے تو وہ وہاں سے پھٹ جائے گی۔
اگر غبارے کا کسی نقصان پہنچانے والی چیز سے سامنا ہو جائے تب بھی وہ پھٹ جائے گا۔
گو بچے کی تھیلی بچے دانی کے اندر ہے لیکن اسے نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ کمزور ہو کر پھٹ بھی سکتی ہے۔ نقصان پہنچانے والی چیزیں بہت سی ہیں لیکن ان میں سر فہرست کچھ جراثیم ہیں جو وجائنا میں داخل ہو کر بچے دانی کے منہ یعنی سروکس سے ہوتے ہوئے تھیلی پر حملہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں : میرا یہ حال کیوں ہوا؟
وجائنا انسانی منہ کی طرح ایک کھلی ہوئی نالی ہے لیکن منہ اور وجائنا میں فرق یہ ہے کہ خواتین منہ کی صحت کا خیال تو کر لیتی ہیں لیکن وجائنا بے چاری کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا۔ پیشاب اور پاخانے کے خروج والی جگہ کی ہمسائیگی وجائنا کے لیے بہت مسائل پیداکرتی ہے اور پاخانے سے نکلنے والے کروڑوں جراثیموں کا وجائنا تک پہنچنا قطعی مشکل نہیں۔
قدرت نے ان جراثیموں کے خلاف جنگ لڑنے کی طاقت وجائنا کو دی ہے لیکن یہ طاقت اس صورت میں ملیا میٹ ہو جاتی ہے اگر خاتون وجائنا کا اس طرح خیال نہ رکھے جیسے رکھنا چاہیے۔
جس طرح آنکھیں آشوب چشم کا شکار ہوتی ہیں، ناک سے گاڑھی رطوبتیں نکلنا شروع ہو جاتی ہے، دانتوں میں کیڑا لگ جاتا ہے بالکل اسی طرح وجائنا میں انفیکشن ہو جاتا ہے جو بچے کی تھیلی (واٹر بیگ) پھٹنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ہمارے ہاں وجائنا کا ہر طرح کے انفیکشن کو لیکوریا یا گندے پانی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ وجائنا سے نارمل رطوبتوں کا اخراج قدرت کا دفاعی نظام ہے بالکل اسی طرح جیسے آنکھ میں آنسو، کان میں ویکس اور ناک میں بال اور ہلکا پھلکا پانی۔
یہ رطوبتیں اگر مقدار میں زیادہ ہوجائیں، دہی جیسی سفید پھٹکیاں بن جائیں، انڈے کی زردی جیسی پیلی دکھنے لگیں یا دودھ جیسی سفید پڑ جائیں تو پھر سمجھ لیں کہ گڑبڑ ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر وجائنا سے بدبو آنے لگے اور خارش شروع ہوجائے تو اس صورت میں مسئلہ اور بھی خراب ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق
دنیا جراثیموں سے بھری پڑی ہے، کوویڈ وائرس، پولیو وائرس، چیچک، ٹی بی، ٹائیفائیڈ، پیچش۔۔۔ سب کچھ ہی ان کی دین ہے۔ یہ ایسے دشمن ہیں جو نظر نہیں آتے اور ہر وقت تاک میں رہتے ہیں اور ان کا نشانہ حمل میں تو کبھی نہیں چوکتا کیونکہ حمل میں جسم کی مدافعت کمزور ہو جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی بڑھوتری تب ہی ممکن ہے جب ماں کاجسم خود کو بھول جائے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر جراثیم حملہ کریں تو حاملہ عورت کی مدد نہیں کی جا سکتا۔ سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ وجائنا پر ہونے والے حملے کو پسپا کردے۔
سب سے پہلے تو حاملہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا نہیں؟ کونسی علامات ظاہر ہورہی ہیں؟ اور طبعیت میں کیا تبدیلی رونما ہو رہی ہے؟
دوسرے مرحلے پر حاملہ کی ڈاکٹر کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ان علامات کو سمجھ سکے اور ان کا علاج کر سکے۔ یہاں ہمیں ان ڈاکٹروں سے بہت گلہ ہے جو حمل کی سائنس کو الٹراساؤنڈ کرنے، فولاد کی گولیاں لکھنے اور ڈیلیوری کروانے کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتے یا توجہ نہیں دیتے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟
ان انفیکشنز کا علاج تو سادہ سا ہے،‘Treat the cause’۔ وجائنا کا اندر سے معائنہ کریں، اپنی آنکھ سے دیکھیں کہ وجائنا کے اندر کیا کچھ پل رہا ہے اور اس کے مطابق علاج تجویز کریں۔ حاملہ عورت کو بھی جاننا چاہیے کہ حمل میں کچھ بھی نارمل سے ہٹا ہوا نظر آئے تو اس پر غور کرے اور جاننے کی کوشش کرے کہ کیا ہو رہا ہے؟
کاش ہم آپ کو وہ سب پڑھا سکتے جو ہم نے برسوں کتابیں ’پھرول پھرول‘ کے، مریضوں کے اندر گھس کے اور اپنے ننھے منے ذہن پر زور دے دے کر سیکھا ہے۔ چلیے جب تک زندگی ہے، کچھ نہ کچھ تو بتاتے ہی رہیں گے۔
یہ ہے ہمارا گائنی فیمنزم ۔۔۔ اپنے جسم کے اشارے سمجھیں اور اس کی حفاظت کریں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا نول بچے دانی بچے دانی پھٹ جائے پانی کی ہوتا ہے ہے لیکن شروع ہو اور اس ہے اور
پڑھیں:
پاکستانیوں کے لیے یو اے ای کے ویزا کا حصول مشکل کیوں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مارچ 2025ء) متحدہ عرب امارات میں پہلے سے کام کرنے والے بعض پاکستانی شہریوں کا ماننا ہے کہ پاکستانیوں کی سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سوشل میڈیا کے ذریعے یو اے ای حکام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی مبینہ کوششیں ویزا پابندیوں کی بڑی وجہ ہو سکتی ہیں، کیونکہ متحدہ عرب امارات میں ایسی سرگرمیوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے یو اے ای کے ساتھ اس کی خط و کتابت کا حوالہ دیتے ہوئے حال ہی میں قومی اسمبلی کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستانی شہریوں پر کوئی سرکاری پابندی عائد نہیں کی ہے۔
پاکستانی شہری متحدہ عرب امارات کیوں نہیں جا پا رہے؟
وزارت خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے نئی پانچ سالہ ویزہ پالیسی متعارف کرائی ہے، جس میں اضافی شرائط شامل کی گئی ہیں۔
(جاری ہے)
نظرثانی شدہ ویزہ پالیسی کے تحت درخواست گزار کو آمد و رفت کے ٹکٹ، ہوٹل کی بکنگ، کسی بھی جائیداد کی ملکیت کا ثبوت، اور تین ہزار اماراتی درہم کی پیشگی ادائیگی کی رسید جمع کرنی ہو گی۔ تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مستردتمام شرائط پوری کرنے کے باوجود جن افراد کی ویزہ درخواست مسترد کردی گئی، ان کا کہنا ہے کہ اگر امارات نئے شرائط کے تحت ویزے جاری کرنا شروع کر دے تو بھی یہ ایک بڑی سہولت ہو گی۔
کیونکہ وہ گزشتہ ایک سال سے کاروباری مقاصد کے لیے بھی امارات کا سفر کرنے سے قاصر ہیں۔پاکستانی مزدوروں کے 'نامناسب رویے' پر خلیجی ملکوں کی شکایت
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق، سال دو ہزار چوبیس کے دوران متحدہ عرب امارات نے تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مسترد کی ہیں۔
ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سینئر مینیجر کے عہدے پر فائز مقداد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چونکہ ہماری کمپنی ملٹی نیشنل ہے، اس لیے ہمیں مختلف ممالک میں ایونٹس کا انعقاد کرنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں ہم نے متحدہ عرب امارات میں ایک ایونٹ منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جس میں دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے افراد کو شرکت کرنی تھی، لیکن شرکاء کی بات تو دور، کمپنی کی مینجمنٹ کو بھی یو اے ای کا ویزہ نہیں ملا، جس کی وجہ سے ہمیں ایونٹ منسوخ کرنا پڑا اور اب ہم اسے کسی اور ملک میں منعقد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔اپنی کمپنی کا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے مقداد نے کہا، "میری کمپنی ایک بڑی کمپنی ہے، اور جہاں تک بینک اسٹیٹمنٹس اور دستاویزات کا تعلق ہے، ہر چیز مکمل تھی، لیکن اس کے باوجود ہمیں ویزہ نہیں ملا، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ویزہ حاصل نہ کر سکے جو ملینز میں تنخواہ لے رہے ہیں۔
" ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکلوہ افراد جنہیں ویزہ مسترد ہونے کا تجربہ ہو چکا ہے، کہتے ہیں کہ اب ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ یہ صرف ایک کمپنی کی بات نہیں جسے اپنا ایونٹ منسوخ کرنا پڑا، بلکہ کئی دیگر تنظیموں کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ظفر بھٹہ، جو پاکستان میں ایک معروف انگریزی اخبار کے صحافی ہیں، کہتے ہیں، "میں پہلے بھی متحدہ عرب امارات جا چکا ہوں، لیکن دو ہزار تئیس کے آخر سے یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
میں نے سال دو ہزار تئیس کے آخر میں ویزہ کے لیے درخواست دی، جو مسترد ہو گئی۔ حال ہی میں، مجھے یو اے ای میں ایک ایونٹ میں مدعو کیا گیا تھا، لیکن منتظمین نے بتایا کہ وہ خود بھی ویزہ حاصل نہیں کر سکے، اس لیے ہمارے لیے ویزہ کے لیے اپلائی کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بچا، کیونکہ اب وہ ایونٹ اس مقام پر منعقد نہیں ہو رہا تھا۔"نہ صرف متحدہ عرب امارات کا وزٹ ویزہ حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے بلکہ وہ ملک، جو پاکستانیوں کے لیے روزگار کی تلاش کا ایک پسندیدہ مقام تھا، نے دو ہزار تئیس کے آخر سے پاکستانیوں کو ملازمتیں دینا بھی تقریبا بند کر دی ہیں۔
ایک پاکستانی، جس کی یو اے ای میں رجسٹرڈ کمپنی ہے اور وہ وہاں کے حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ویزہ پراسیسنگ کے کام میں بھی شراکت دار ہے، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دو ہزار تئیس سے وہ پاکستانی جو وزٹ ویزے پر یو اے ای میں موجود تھے اور نوکریاں تلاش کر رہے تھے، انہیں واپس پاکستان جانا پڑا کیونکہ یو اے ای کی کمپنیوں نے پاکستانیوں کو ملازمت دینا بند کر دیا، بلکہ انہیں انٹرویوز کے لیے بلانا بھی چھوڑ دیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کسی سرکاری نوٹیفکیشن کے تحت ایسا ہوا ہے، تو انہوں نے کہا، "یو اے ای ایک مختلف انداز میں کام کرتا ہے، جہاں بہت سی چیزیں باضابطہ لکھی جاتی ہیں، وہیں کئی احکامات تحریری شکل میں جاری نہیں کیے جاتے۔ حکومتی ادارے خود جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ جب کچھ پاکستانیوں کو نوکری دینے والی کمپنیوں کی جانب سے دائر کردہ ورک ویزا درخواستیں مسترد ہوئیں، تو مارکیٹ کو پتہ چل گیا کہ اب پاکستانیوں کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔
" پاکستانیوں کے حوالے سے یو اے ای کے تحفظاتوزارت خارجہ نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ یو اے ای کو پاکستانیوں کے ویزہ درخواستوں اور پہلے سے جاری ویزوں کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ ان میں جعلی ڈگریاں جمع کرانا، ملازمت کے جعلی معاہدے، اور ویزہ مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی قیام کے واقعات شامل ہیں۔ کچھ پاکستانی شہری سیاسی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
یو اے ای میں موجود ایک کمپنی کے مالک، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، کیونکہ اس سے ان کا کاروبار فوری طور پر متاثر ہو سکتا ہے، نے کہا، "یہ مسائل کسی حد تک پہلے سے موجود تھے، بھیک مانگنے کا مسئلہ واقعی ایک حقیقت ہے جسے حال ہی میں یو اے ای نے پاکستانی حکام کے سامنے اٹھایا تھا، لیکن ہم یو اے ای میں محسوس کرتے ہیں کہ یہ واحد وجہ نہیں ہے۔
یہاں کچھ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، جسے یو اے ای اپنی روایت کے مطابق باضابطہ طور پر ظاہر نہیں کرتا۔"انہوں نے مزید کہا، "ہاں، ایک چیز جو یو اے ای حکام کے لیے زیادہ پریشان کن ہو سکتی ہے اور جس کا وہ ذکر بھی کر چکے ہیں، وہ پاکستانی شہریوں کی یو اے ای میں رہائش کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہے۔ پاکستانی افراد یو اے ای حکام پر مبینہ طور پر مخصوص بین الاقوامی اتحادوں کے حوالے سے الزامات لگاتے ہیں اور انہیں بدنام کرتے ہیں۔
عثمان چیمہ