فلم ’’حنا‘‘ سے مشہور ہونے والی زیبا بختیار نے 16 بھارتی فلمیں کیوں مسترد کیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
افسانوی حسن کی حامل پاکستانی اداکارہ زیبا بختیار نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ انھیں ’’حنا‘‘ کے بعد مزید 16 بھارتی فلموں کی پیشکش ہوئی تھی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا۔
زیبا بختیار کی بھارتی ڈیبیو فلم ’’حنا‘‘ ایک سپر ہٹ فلم تھی جس نے سرحد کے دونوں طرف کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے۔ اس فلم میں زیب بختیار نے بھارتی اداکار رشی کپور کے مقابل حنا کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
بھارت کے لیجنڈری راج کپور کی فلم حنا میں کام کرنے کے بعد ہی زیبا بختیار کو افسانوی حسن کی ملکہ کا خطاب دے دیا گیا تھا۔ زیبا بختیار نے پاکستانی شوبز اور بالی ووڈ دونوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔
زیبا بختیار ان پاکستانی اداکاراؤں میں شامل ہیں جنہوں نے بالی ووڈ کی مین اسٹریم فلموں میں کام کیا اور ناظرین اور نقادوں دونوں کو اپنا مداح بنا لیا۔ حال ہی میں اداکارہ نے ایک شو کے دوران اپنے بالی ووڈ کے تجربات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ راج کپور کی فلم میں کام کرنا ان کےلیے ایک اعزاز تھا، اور یہ تجربہ کسی شاہکار سے کم نہیں تھا۔ تاہم، وہ بالی ووڈ میں اپنے کرداروں کے انتخاب کے معاملے میں بہت محتاط تھیں۔
زیبا بختیار نے بتایا کہ فلم ’’حنا‘‘ کی کامیابی کے بعد انھیں یکے بعد دیگرے 16 فلموں کی آفرز ہوئیں، جس کے کردار انھیں پسند بھی آئے لیکن اس کے باوجود انھوں نے وہ آفرز مسترد کردیں۔
اداکارہ نے وہ بھارتی فلمیں نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ان فلموں میں کوئی منظر یا گانا ایسا ہوتا تھا جو ان کے اصولوں کے خلاف تھا۔ زیبا نے کہا کہ وہ بارش کے منظر میں باریک کپڑے کی ساڑھی پہن کر بھیگتے ہوئے گانا نہیں کرسکتی تھیں۔ اس لیے انھوں نے زیادہ تر فلمیں کرنے سے انکار کردیا۔
اداکارہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب کوئی پاکستانی اداکار بالی ووڈ یا کسی اور انڈسٹری میں کام کرکے واپس آتا ہے، تو اسے زیادہ توجہ ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی سے ایک پرانی روایت ہے، کیونکہ پاکستانی درآمد شدہ چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح، وہ فنکاروں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: زیبا بختیار نے بالی ووڈ میں کام کے بعد
پڑھیں:
بیرون ممالک سے چھٹی پر آنے والے پاکستانی شہری واپس کیوں نہیں جا پا رہے؟
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )ایک خلیجی ملک میں ایک ریستوران پر کام کرنے والے معظم علی (فرضی نام) تین ماہ قبل پاکستان پہنچے۔ وہ پاکستان میں 10 سے 15 روز اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس اس خلیجی ملک جانے کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے۔تاہم انہیں ایئرپورٹ پر سفر کرنے سے اس لئے روک دیا گیا کیوں کہ ان کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) میں شامل تھا۔
اردو نیوز کے مطابق معظم علی کے لئے بھی ان کا نام یوں پی سی ایل میں موجود ہونا حیران کن تھا کیوںکہ وہ قانونی راستے ہی سے بیرونِ ملک گئے تھے اور پھر 15 دن قبل ہی واپس پاکستان لوٹے تھے۔معظم علی کا نام سرِدست پی سی ایل میں شامل ہے اور وہ بیرون ملک سفر کرنے کے لئے اہل نہیں۔ انہیں اب یہ شبہ ہے کہ کام پر واپس نہ جانے کی وجہ سے ان کا ورک پرمٹ منسوخ کر دیا جائے گا اور ممکن ہے کہ ان پر خلیجی ملک جانے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے۔معظم علی کی طرح ایسے بیسیوں شہری منظر عام پر آ چکے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بیرونِ ملک کام سے چھٹی ملنے پر پاکستان واپس آئے ہیں تاہم چھٹی ختم ہونے پر انہیں واپس بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
دوسری جانب پاکستان کا محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ اس دعوے کو مسترد کر رہا ہے کہ بیرونِ ملک کام کرنے والے شہریوں کو بغیر کسی وجہ کے سفر کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ مصطفیٰ جمال قاضی نے اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’حالیہ دنوں میں ایسے بہت سے شہریوں کو مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا ہے جو وہاں کسی قسم کی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث تھے اور محکمہ پاسپورٹ نے مختلف ممالک کی جانب سے معلومات موصول ہونے پر ایسے شہریوں کا نام پی سی ایل میں شامل کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے یہ شکایات موصول ہوتی رہی ہیں کہ پاکستانی شہری اپنے پاسپورٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پاسپورٹ آفس ان شکایات اور پھر عام شہریوں کے لئے ویزا سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لئے مخصوص افراد کے خلاف یہ کارروائی عمل میں لایا ہے۔‘
کئی افراد کا دعویٰ ہے کہ وہ بیرونِ ملک کام سے چھٹی ملنے پر پاکستان واپس آئے ہیں تاہم اب انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’محکمہ پاسپورٹ نے ایسے شہریوں کے نام پی سی ایل میں ڈال کر ا±نہیں پاکستان ڈی پورٹ کروایا ہے اور اب وہ بیرونِ ملک کا سفر نہیں کر سکتے۔‘
مصطفیٰ جمال قاضی نے پی سی ایل میں نام شامل کرنے کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’جو پاکستانی شہری غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرتے ہوئے انہیں باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔‘
ڈپلومیٹک اور امیگریشن قوانین کے ماہر میجر (ریٹائرڈ) بیرسٹر محمد ساجد مجید بیرون ممالک جانے والے شہریوں کا نام پی سی ایل میں موجود ہونے کے معاملے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والے شہریوں پر مختلف وجوہات کی بنیاد پر سفری پابندیوں کا اطلاق عمل میں لایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر ممنوعہ مواد کی تشہیر، کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ وابستگی اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث شہریوں پر بھی سفری پابندیاں عائد کی ہیں۔‘
بیرسٹر محمد ساجد نے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والے ورکرز پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس حاصل نہیں کرتے جو ان کے بیرونِ ملک سے ڈی پورٹ ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔‘
’شہریوں نے اگر بیرونِ ملک براہِ راست روزگار حاصل کیا ہے اور پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس کا حصول ممکن نہیں بنایا تو انہیں بیرون ملک مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور پھر ڈی پورٹ ہونے کی صورت میں ان کا نام پی سی ایل میں شامل کر کے ان پر سفری پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔‘
بیرسٹر محمد ساجد نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث شہریوں کے نام پی سی ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس کا حصول ممکن بنانے سے شہری 2500 روپے میں 10 لاکھ تک کی انشورنس حاصل کر سکتے ہیں جو بیرونِ ملک کسی حادثے کی صورت میں ا±ن کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔‘
ڈپلومیٹک اور امیگریشن قوانین کے ماہر نے مزید کہا کہ ’اِن دنوں حساس ادارے سوشل میڈیا یا کسی اور پلیٹ فارم پر ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث شہریوں کی معلومات محکمہ داخلہ کو فراہم کر دیتے ہیں جس کے بعد خاموشی سے ان کے نام پی سی ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں اور پھر وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔
نئے کھلاڑیوں کی تلاش کے لیے پی سی بی ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام شروع کرنے کا اعلان
مزید :