Express News:
2025-03-22@08:26:58 GMT

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط ہفتم)

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

فلسطین کی قسمت پر تقسیم کی پہلی مہر لارڈ ولیم پیل کی سربراہی میں نومبر انیس سو چھتیس میں لندن سے یروشلم آنے والے چھ رکنی رائل کمیشن نے لگائی۔ یہ کمیشن پچھلے کئی برس سے لگی آگ بجھانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر کمیشن کی آمد کے آٹھ ماہ بعد سات جولائی انیس سو سینتالیس کو اس کی حتمی سفارشات سامنے آئیں تو آگ مزید بھڑک اٹھی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو فلسطین کی جو عملداری امانتاً سونپی تھی اس کے مقاصد پورے نہ ہو سکے۔فریقین ( عرب اور یہودی) کے اختلافات ناقابلِ حل ہیں۔ایک مشترکہ ریاست میں دونوں کا پرامن طریقے سے رہنا مشکل ہو گا۔لہٰذا بہتر حل تقسیم ہے۔( دس برس بعد ہندوستان کی تقسیم کے لیے بھی برطانیہ نے یہی دلیل دی )۔

کمیشن نے سفارش کی کہ یروشلم کو بین الاقوامی انتظام میں رکھا جائے اور اس شہر تک رسائی کے لیے جافا کے ساحل تک گذرگاہ بنائی جائے۔باقی فلسطین کا ایک تہائی یہودی آبادکاروں کو الاٹ کر دیا جائے۔

( بظاہر اس تجویز کے تحت فلسطینیوں کو چھیاسٹھ فیصد علاقہ مل رہا تھا مگر بیشتر رقبہ بنجر تھا۔البتہ یہودیوں کے لیے وادیِ گلیلی سمیت جو علاقے تجویز کیے گئے وہ رقبے میں کم ہونے کے باوجود زرخیز تھے اور فلسطین کے مشہور سنگتروں کی بیاسی فیصد پیداوار اسی زرخیز رقبے سے حاصل ہوتی تھی )۔

پیل کمیشن کی سفارشات کے مطابق یہودی آبادکار ریاست خود مختار علاقہ ہو گی جب کہ فلسطینی ریاست کی ٹرانس اردن کے ساتھ کنفیڈریشن بنے گی۔جو علاقہ یہودیوں کو ملے گا اس میں آباد دو لاکھ پینتیس ہزار فلسطینیوں کو منتقل کرنا پڑے گا۔جب کہ فلسطینیوں کو الاٹ ہونے والے علاقے سے بارہ سو پچاس یہودی آبادکاروں کو نکلنا پڑے گا۔

 اردن کے شاہ عبداللہ اور بااثر فلسطینی نشیشیبی خاندان کے سوا ان تجاویز کو سب نے مسترد کر دیا۔ منصوبے کے کٹر مخالف مفتیِ اعظم امین الحسینی تھے جن کی اردن کے بادشاہ اور اسٹیبلشمنٹ نواز نشیشیبی خاندان سے کبھی نہیں بنی۔اردن کے ساتھ مجوزہ کنفیڈریشن میں نشیشیبی خاندان کو اپنا سیاسی عروج اور الحسینی خاندان کو زوال نظر آ رہا تھا۔جب کہ شاہ عبداللہ کو اضافی علاقہ مل رہا تھا۔

ان تجاویز کے شایع ہونے کے دو ماہ بعد آٹھ ستمبر کو شام کے شہر بلودان میں پہلی بین العرب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فلسطینی مندوبین کے علاوہ لبنان ، شام ، اردن ، عراق ، کویت ، مصر ، تیونس ، الجزائر اور مراکش کے نمایندوں نے شرکت کی۔ اکثر نمایندوں کی حیثیت غیر سرکاری تھی۔عرب کانفرنس نے پیل کمیشن کی سفارشات کو جھٹکتے ہوئے ایسی متحدہ فلسطینی مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا جس میں یہودی آبادکار ٹھوس دستوری ضمانتوں کے ساتھ مساوی شہری کے طور پر رہ سکیں۔

کانفرنس کے بعد فلسطینی تنظیموں کا بند کمرے کا اجلاس ہوا جس میں مزاحمتی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے تازہ حکمتِ عملی پر غور ہوا۔

 پیل کمیشن کی سفارشات پر غور کے لیے بیس اگست انیس سو سینتیس کو منعقد ہونے والی بیسویں عالمی صیہونی کانفرنس نے برطانیہ کو یاد دلایا کہ بیس برس پہلے بالفور ڈیکلریشن کی شکل میں پورے فلسطین اور ٹرانس اردن پر مشتمل ایک یہودی قومی وطن کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب برطانیہ یہودیوں کو محض ایک چھوٹا سا علاقہ دے کر بہلانا چاہتا ہے۔

صیہونی کانفرنس کو اطمینان دلاتے ہوئے فلسطین کی جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے کہا کہ پیل کمیشن کی سفارشات مستقبل کی ریاست کی جانب پہلا قدم ہے۔بن گوریان اور خائم ویزمین نے بلاواسطہ انداز میں یقین دلایا کہ پیل کمیشن نے اپنی سفارشات میں ایک خود مختار ریاست کے لیے جو سرحدات متعین کی ہیں انھیں ’’ عارضی طور پر ‘‘ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

مارچ انیس سو اڑتیس میں برطانوی حکومت نے فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین علاقائی حدبندی کی ذمے داری وڈ ہیڈ کمیشن کے سپرد کی۔مگر اس کمیشن نے پیل کمیشن کی سفارشات کو ناقابلِ عمل قرار دیا۔کیونکہ پیل منصوبے کے تحت قائم ہونے والی فلسطینی ریاست معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔اس کے علاوہ آبادی کی بڑے پیمانے پر جبری منتقلی خون خرابے کے بغیر ممکن نہ تھی۔

برطانوی حکومت نے بالآخر پیل کمیشن کے پارٹیشن منصوبے کو اس خدشے کے پیشِ نظر سردخانے میں ڈال دیا کہ ایسے وقت جب کہ ہٹلر کی وجہ سے یورپ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں عرب دنیا کی دشمنی مول لینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔

مگر تب تک تیر بدزنی کی کمان سے نکل چکا تھا۔فلسطینیوں کا اپنے مستقبل کے بارے میں برطانیہ پر رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہا۔جب کہ صیہونیوں کو برطانیہ اس لیے برا لگنے لگا کہ ان کے خیال میں برطانیہ اپنے علاقائی مفادات کی قیمت پر کبھی بھی وہ یہودی ریاست نہیں دے گا جس کا بالفور ڈیکلریشن میں وعدہ تھا۔

نوآبادیاتی انتظامیہ بھی بھانپ چکی تھی کہ دوغلی پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔چنانچہ ممکنہ تشدد پر قابو پانے کے لیے بطور حفطِ ماتقدم نوآبادیاتی انتظامی قوانین کو سختی سے لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

چھبیس ستمبر کو تشدد کی تازہ لہر اٹھی جب مسلح فلسطینیوں نے ضلع گلیلی کے یہود نواز کمشنر لوئس اینڈریو کو قتل کر دیا۔اس واقعہ کے بعد برطانوی انتظامیہ نے حاجی امین الحسینی سے مفتیِ اعظم کا خطاب اور بیت المقدس وقف کمیٹی کی رکینت چھین لی۔سیاسی جماعتوں کے اتحاد عرب ہائر کمیٹی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔گرفتاری سے بچنے کے لیے امین الحسینی اور ان کے بڑے بھائی جمال الحسینی علی الترتیب شام اور لبنان فرار ہو گئے۔جب کہ عرب ہائر کمیٹی کے پانچ دیگر رہنماؤں کو ملک بدر کر کے بحرِ ہند کے جزیرے سیشلز پہنچا دیا گیا۔

فلسطین کی سرحدیں بند کر دی گئیں۔بین الاقوامی ٹیلی فون رابطے منقطع ہو گئے۔میڈیا سنسرشپ لاگو ہو گئی اور ایکر کے ضلع میں ایک نیا نظربندی کیمپ کھول دیا گیا۔فوجی عدالتیں قائم ہو گئیں۔مصر سے اضافی برطانوی فوجی کمک منگوائی گئی۔پولیس کا کنٹرول فوجی کمانڈروں کے حوالے کر دیا گیا۔

شہروں پر تو کسی نہ کسی طور بظاہر قابو پالیا گیا البتہ دیہی علاقوں کو لگام دینا خاصا مشکل ثابت ہوا۔دیہات کنٹرول کرنے کے لیے کیا کیا انتہائی متشدد حربے استعمال ہوئے۔ان کی تفصیلات اگلے مضمون میں۔

            (جاری ہے)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطین کی دیا گیا اردن کے یہودی ا کر دیا کے لیے

پڑھیں:

فلسطین میں اسرائیلی بربریت کیخلاف جماعت اسلامی کی ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں

فلسطین میں اسرائیلی بربریت کیخلاف جماعت اسلامی کی ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں WhatsAppFacebookTwitter 0 21 March, 2025 سب نیوز

لاہور /کراچی (آئی پی ایس )فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی بربریت کے خلاف امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کی کال پر ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، مظاہرین نے ہاتھ میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر شدید نعرے بازی کی۔فلسطین میں امریکا اور اسرائیلی بربریت کے خلاف جماعت اسلامی کی جانب سے نماز جمعہ کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے جس میں شہریوں کی کثیر تعداد نے شریک ہوکر اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کرایا۔

لاہور میں جماعت اسلامی کے تحت مسجد شہدا سے امریکی سفارت خانے تک مارچ کیا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شریک ہوکر امریکا اور اسرائیلی دہشت گردی کی پر زور مذمت کی۔اس موقع پر سفارت خانے کے باہر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔اس کے علاوہ پنجاب کے شہر وہاڑی اور صادق آباد میں بھی فلسطینی سے یکجہتی کے لیے ریلی نکال کر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، مظاہرین نے حکومت سے اسرائیلی کے خلاف جہاد کا مطالبہ کیا۔ صادق آباد میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا، مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اٹھارکھے جن پر نعرے درج تھے، احتجاجی مظاہرین کی جانب سے فلسطین کے حق میں نعرے بازی کی گئی۔سندھ کے شہر میرپورخاص اور ٹھٹھہ میں فلسطینیوں کے حق میں ریلی نکال کر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، شرکا نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے، نماز جمعہ کے بعد مسجد کے باہر خصوصی دعائیں بھی کی گئیں جبکہ جماعت اسلامی لوئر دیر کی جانب سے بھی تیمرگرہ شہر میں ریلی نکالی گئی۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے لاہور میں امریکی سفارت خانہ کے باہر فلسطین مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف سراپا احتجاج ہے، گزشتہ 2 دن سے جاری اسرائیلی دہشت گردی انسانیت کے لیے شرم کا مقام ہے۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ غزہ کے بہادر لوگ اپنے حقوق کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہیں جبکہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکا براہ راست ملوث ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کو خالی کرانے کے لیے دہشت گردی کروائی۔امیر جماعت اسلامی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 90 فیصد غزہ مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ انسانی حقوق کی بات کرنے والی دنیا اسرائیلی بربریت پر خاموش کیوں ہے؟۔حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ اس دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد اسرائیل اور امریکا ہیں، جو فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، جنگ بندی معاہدے کے باوجود اشیائے خوردونوش اور پانی کی فراہمی کو روکا جا رہا ہے، جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔امیر جماعت اسلامی نے مسلم حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسلم دنیا کے پاس 88 لاکھ فوج اور 70 فیصد معدنی وسائل موجود ہیں مگر وہ اسرائیل کو روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ کیا مسلم دنیا کے پاس ٹینک یا میزائل ختم ہو گئے ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی خواتین پوری امت سے فریاد کر رہی ہیں مگر حکمران خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، اگر حکمران فلسطینیوں کے حق میں کھڑے نہ ہوئے تو جماعت اسلامی اگلا احتجاج سفارت خانے کے اندر کرے گی۔حافظ نعیم الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف کے سعودی عرب کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اور سعودی قیادت کو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اعلامیہ جاری کرنا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ایک نیوکلئیر طاقت ہے مگر فلسطین کے حق میں واضح پیغام کیوں نہیں دیا جا رہا، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو پورے عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی مگر آج یہی مسلم نیوکلئیر طاقت فلسطین کے لیے خاموش کیوں ہے؟۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پاکستانی حکمران اپنی مدت اقتدار کے لیے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں، اگر امریکہ انہیں اشارہ دے تو یہ جمہوریت بھی الٹ دیتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ امت مسلمہ پر زمین تنگ ہو چکی ہے، مگر نہ حکمران اور نہ ہی اپوزیشن اس ظلم کے خلاف کوئی اقدام اٹھا رہی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اسرائیل اور امریکہ کی مذمت کرنی چاہیے، عوام بے وقوف نہیں ہیں اور ہر وہ شخص امریکہ سے نفرت کرتا ہے جو فلسطین پر حملہ آور ہے۔انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ واضح طور پر فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کریں۔

متعلقہ مضامین

  • پانی آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے: مریم نواز
  • مریم نواز کا پانی کے عالمی دن پر پیغام: پانی زندگی کی علامت اور آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت
  • الیکشن کمیشن میں جمشید دستی کے خلاف اثاثہ جات کیس کی سماعت 25مارچ کو مقرر،کاز لسٹ جاری
  • فلسطین میں اسرائیلی بربریت کیخلاف جماعت اسلامی کی ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں
  • جنگ بندی کے باوجود فلسطینی عوام پر بمباری جاری ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • فلسطین دور حاضر کی کربلا
  • کراچی: اوسطً ہر تیسرے روزے پر ایک شہری ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل
  • جی سی یونیورسٹی، فلسطین کی تاریخ اور غزہ کے انسانی بحران کی تصویری نمائش
  • عثمان خواجہ نے ایک بار پھر فلسطین کے لئے آواز اٹھادی