Express News:
2025-03-23@11:14:58 GMT

پی او بی، روشنی کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

THREE DAYS TO SEE ہمارے بی اے کی نصاب میں شامل ان چند ایک کہانیوں میں شامل تھی جس نے لیکچر کے دوران آنکھیں نم کردیں۔ انسانی احساسات کا وہ پہلو جو معذوری، محرومی اور نارسائی کے نتیجے میں اُبھر کر سامنے آتا ہے، سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے اور کبھی کبھی زندگی بدل دینے والے فیصلوں کا محرک بن جاتا ہے۔ اسی طرح دو اور کہانیاں بھی ہمارے نصاب میں تھیں جنھیں اپنے اساتذہ کی زبانی سننے کی کیفیت آج تک ذہن پر نقش ہے۔

ان میں ایک RED SHOES تھی۔ ڈنمارک کے شاعر اور مصنف ہانس کرسٹین اینڈرسن کی لکھی اس کہانی نے ہمیں دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کہانی میں ایک متکبر اور خود سر لڑکی جب ناچنے کے شوق میں ہر چیز کو نظرانداز کر دیتی ہے تو اس کے پاؤں کے جوتے ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ کوشش کے باوجود ناچنا بند نہیں کر پاتی۔ ایک اور کہانی A DOLL'S HOUSE  تھی جس میں ایک انتہائی امیر گھرانے کی بچی کے پاس گڑیا کا گھر ہے جس میں اصلی گھر کی طرح ہر چیز موجود ہے۔

اس کھلونے کی مالک بچی اپنے محلے کی دو انتہائی غریب لڑکیوں کو وہ گھر دکھانا چاہتی ہے لیکن والدہ اجازت نہیں دیتی۔ ایک دن وہ چوری چھپے ان دو غریب بچیوں کو اندر بُلا کر گڑیا کا گھر دکھاتی ہے، لیکن اس دوران اس کی ماں وہاں آ جاتی ہے اور غریب بچیوں کو دھتکار کر گھر سے نکال دیتی ہے۔ گھر سے نکالے جانے کے بعد کھلونے کے بارے میں دونوں بہنوں کی گفتگو پڑھنے والے کو رلا کر رکھ دیتی ہے۔

اپنے ماضی کی یہ یادیں THREE DAYS TO SEE یاد آنے کے ساتھ ذہن میں تازہ ہوئیں۔ اور THREE DAYS TO SEE کی یاد (POB)  Prevention of Blindness Trust کے ذکر سے آئی۔ پی او بی سے ہماری شناسائی ڈاکٹر انتظار بٹ کے توسط سے ہوئی جو اس ٹرسٹ کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔ ’تھری ڈیز ٹو سی‘ کی مصنفہ ہیلن کیلر اپنے بچپن میں ٹائیفائیڈ بخار بگڑ جانے کے باعث بینائی سے محروم ہو گئی تھیں۔ اس خاتون نے شدید جدوجہد کر کے تعلیم حاصل کی اور ایک کامیاب مصنفہ بنیں۔ یہ کہانی بینائی کے بغیر زندگی گذارنے کے ذاتی تجربے کا بیان ہے۔

اس کہانی میں ہیلن کیلر بتاتی ہے کہ اگر مجھے محض تین دن کے لیے بینائی مل جائے تو میں ان تین دنوں کو کس طرح گزاروں گی۔ ذرا تصور کریں کہ اگر کسی ایسے شخص کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئے جو مکمل یا جزوی طور پر اندھیروں میں ڈوب چکا ہو تو اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ اس کا تجربہ تو محض چند سیکنڈ کے لیے آنکھیں بند کرنے سے ہی ہو جاتا ہے۔ مجھے وہ رات اچھی طرح یاد ہے جب گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن پر میں نے پہلی بار نظر کی عینک لگا کر اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تھی تو میرے احساسات کیا تھے۔ ان دنوں ایک ٹرین پشاور پسنجر کے نام سے چلا کرتی تھی‘ جس کے ذریعے اپنے کالج کے بچوں کا ٹور لے کر پنڈی پہنچنا تھا۔ اسٹیشن پر کھڑے کھڑے عینک بنوانے کا فیصلہ ہوا کیونکہ دور سگنل کی بتیاں مجھے بہت دُھندلی دکھائی دیتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ عینک لگا کر نظر اٹھائی تو یوں محسوس ہوا جیسے ساری دنیا کئی گنا زیادہ روشن ہو گئی ہے۔ یہ تو انتہائی عام سی بات ہے لیکن ان کا تصور کریں جن کی زندگیاں رفتہ رفتہ مکمل اندھیرے کی جانب سرک رہی ہوتی ہیں اور ان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے کہ چند ہزار روپے سے آپریشن کرا لیں۔ POB انھی لوگوں کی زندگیاں روشن کر رہا ہے۔

اس ٹرسٹ کا آغاز 2007 میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے چند ڈاکٹروں نے کیا تھا۔ ٹرسٹ کا ایک مکمل اسپتال پہلے ہی کراچی میں مصروف عمل ہے جب کہ دوسرا بڑا منصوبہ لاہور میں تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ POBکی طبی خدمات اس حد تک بلا معاوضہ ہیں کہ اسپتالوں میں کیش کاوئنٹر سرے سے موجود ہی نہیں۔ ٹرسٹ نہ صرف یہ کہ ملک کے بے وسیلہ علاقوں میں بلکہ غزہ اور افریقہ کے غریب ممالک میں فری آئی کیمپس کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچا چکا ہے۔

دنیا کے 23ممالک اور پاکستان کے 58اضلاع میں لگائے جانے والے کیمپس میں اب تک 27لاکھ 60ہزار مریضوں کا معائنہ اور 4لاکھ 16ہزار آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ ملک کی 20جیلوں میں 10ہزار قیدیوں کا معائنہ اور آپریشن کے علاوہ لاہور اور کراچی میں مجموعی طور پر 5مقامات پر ماہانہ 1000سے زائد مریضوں کے آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ ٹرسٹ کی کارکردگی کی بنا پر کراچی والا اسپتال ایف سی پی ایس پارٹ 2کی ٹریننگ کی سہولت بھی فراہم کر رہا ہے۔ POBملک کے200 اسکولوں میں 70700 بچوں کے معائنے کے بعد ضرورت مند بچوں کو عینکیں فراہم کر چکا ہے۔ اب ٹرسٹ کا ہدف یہ ہے کہ ہر سال 30,000آپریشنز کو ممکن بنایا جائے۔

ٹرسٹ اپنی سرگرمیوں کے ذریعے نہ صرف یہ کہ مریضوں کی زندگیوں کو بدل رہا ہے بلکہ اندرون اور بیرون ملک نئے چراغ بھی روشن کر رہا ہے۔ غزہ میں حالیہ تباہی و بربادی کے دوران ٹرسٹ کی ٹیم نے مریضوں کے علاج کے ساتھ دو درجن کے قریب مقامی ڈاکٹروں کو تربیت بھی دی۔ اسی طرح افغانستان جانے والی ٹیم نے وہاں ڈاکٹروں کو سکھایا اور پھر افغان ڈاکٹر پشاور آئے اور یہاں سے تربیت لے کر اپنے وطن واپس چلے گئے۔ سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں42ہزار سے زائد افراد ٹرسٹ کی خدمات سے مستفید ہوئے۔

اس بارے میں غیر معمولی بات یہ ہے کہ ملک بھر سے 250 ڈاکٹر ٹرسٹ کو بلا معاوضہ خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح کے طبی کیمپ نو آموز ڈاکٹروں کی تربیت کے لیے لگائے جاتے ہیں کہ وہاں ان مریضوں پر اپنا ہاتھ سیدھا کر لیں، لیکنPOB کے معیار کا یہ عالم ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جب ملتان میں بہت سے مریضوں کے آپریشنز میں مسائل سامنے آگئے تو جن دو تنظیموں کو معاملہ سنبھالنے کے لیے بلایا گیا ان میں ایک POB تھی۔

اس سلسلے میں ہماری بات POBکے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر زاہد لطیف سے ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ لاہور میں جو اسپتال مکمل ہو چکا ہے اس میں ضروری آلات کے لیے مزید 40کروڑ روپے درکار ہیں۔ وہ اس یقین کا اظہار کر رہے تھے کہ اسی ماہ مقدس میں یہ ضرورت بھی پہلے کی طرح کار خیر میں حصہ ڈالنے والوں کی مدد سے پوری ہو جائے گی۔

ٹرسٹ نے اس حوالے سے ایک اور مہم بھی چلا رکھی ہے جس کے تحت لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ 12ہزار روپے عطیہ سے ایک مریض کی بینائی بحال ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا میں عظیم تبدیلیاں حکومتیں نہیں عام لوگ لے کر آئے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جد و جہد واضح مقصد پر مرتکز ہو۔ پی او بی روشنی کا سفر ہے جس میں ہر کوئی شامل ہو سکتا ہے۔ اگر ہم بے وسیلہ لوگوں کے دست و بازو بننے کا عہد کر لیں تو POB جیسے ادارے رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں ایک جاتا ہے کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

’’لب پہ آتی دعا بن کے تمنّا میری‘‘

رمضان، وہ مقدس مہینہ ہے جس میں بندہ اپنے رب کریم سے خصوصی تعلق کے قیام کی محنت میں مگن ہوتا ہے۔ اور اس تعلق کے حصول کے لیے روز ے کے ساتھ مختلف اعمال و اذکار اور متعدد ذرایع و وسائل ہر وقت پیش نظر رہتے ہیں جو برکاتِ رمضان کا سماں پیش کرتے ہیں۔ ان برکات و انعامات میں سے ایک انعام توفیقِ دعا اور اس کی قبولیت بھی ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے اس ماہ ِ مقدس میں خاص طور پر دعاؤں کی قبولیت کی بشارت دی ہے۔

دعا کا لغوی معنی پکارنا، بلانا، التجا کرنا اور کسی سے کچھ مانگنا ہے۔ دینی اصطلاح میں: ’’اﷲ تعالیٰ سے کسی خیر و بھلائی کا سوال کرنا، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا، اپنی ضروریات و حاجات اور اپنے دکھ ، درد و مصیبت کو اﷲ تعالیٰ کے حضور اس یقین کے ساتھ پیش کرنا اور مدد چاہنا کہ اُس کے سوا میرا اس جہاں میں کوئی حاجت روا نہیں، دعا کہلاتا ہے۔‘‘

جس میں بندہ اپنی بے بسی، بے کسی اور عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے جذبہ عشق و محبت میں اﷲ کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے، دامن پھیلاتے ہوئے، ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دستِ سوال دراز کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندے کی یہ کیفیت اس قدر محبوب ہے کہ خود ذات باری تعالیٰ نے اس کیفیت کو اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ اور اپنے سامنے جھولی پھیلانے سے اعراض اور پہلوتہی کو تکبر قرار دیتے ہوئے موجب عذاب ٹھہرایا ہے۔

ارشاد باری کا مفہوم: ’’اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک! جو لوگ میری عبادت سے تکبر اختیار کرتے ہیں وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ (سورہ غافر) یہ آیت اﷲ تعالیٰ سے مانگنے کی ترغیب کے ساتھ دعا کو عین عبادت قرار دیتی ہے۔ اور اس سے اعراض جہنم جانے کا سبب ہے۔ رسول کریم ﷺ نے دعا کے عبادت ہونے کو واضح کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’دعا عین عبادت ہے۔‘‘ (سنن ترمذی) دوسری حدیث میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے: ’’دعا عبادت کا مغز و جوہر ہے۔‘‘ (مسند احمد) چناں چہ جیسے دیگر عبادات کو پسِ پشت ڈالنا ناراضی ربِ کریم کا باعث ہے ایسے ہی دعا سے احتراز بھی غضب الہٰی کا سبب ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے ایک مقام پر اپنے سے مانگنے کا حکم دینے کے ساتھ مانگنے کا سلیقہ بھی سکھایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’اپنے رب سے عاجزی اور آہستگی سے دعا کرو، بے شک! وہ (اﷲ تعالیٰ) حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ الاعراف) دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے سب کو اپنے در کا منگتا اور اپنی ذات کو حاجت روا قرار دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! تم سب اﷲ کے محتاج ہو اور اﷲ ہی بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔‘‘ (سورۃ فاطر) ایک اور جگہ صرف اپنی ذات عالی ہی کو سب کا مشکل کشا قرار دیتے ہوئے اور اپنے بندے کی بے بسی کے عالم میں اُس کی آخری امید قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’بھلا کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور (اس کی) تکلیف دور کردیتا ہے۔‘‘ (سورۃ نمل)

اﷲ تعالیٰ اپنے مایوس، لاچار و بے بس بندوں کی ڈھارس بندھاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اورجب میرے بندے میرے بارے میں آپ (ﷺ) سے پوچھیں تو (آپؐ فرما دیں) میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتے ہیں، پس چاہیے کہ وہ میرا ہی حکم مانیں اور مجھ پر ہی ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پا جائیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ)

دنیا میں عام دستور یہی ہے کہ مانگنا اور مانگنے والے کو ناپسند سمجھا جاتا ہے مگر اﷲ تعالیٰ  سے مانگنا عین کمال اور باعث شرف و افتخار ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز قابل تکریم و اعزاز نہیں۔‘‘ (ابن ماجہ) گویا کہ سارے جہانوں کے بادشاہ اور سب خزانوں کے مالک کے ہاں اگر اپنے بندے کی کوئی ادا لائق تعظیم و تکریم ہے تو وہ مانگنا ہے۔ مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ بہت باحیا اور کریم ہے، جب کوئی بندہ اُس کی طرف ہاتھ اُٹھاتا ہے تو وہ انہیں خالی واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

اس لیے رمضان کے بابرکت لیل و نہار میں خاص طور پر اپنے رب کریم سے مانگنے کی تاکید آئی تاکہ ہم اپنے دکھ درد اور مصائب و مشکلات اپنے خالق و مالک کے حضور پیش کرتے ہوئے قبولیت کی ان بابرکت ساعتوں میں اپنے لیے عافیت و سہولت اور خوش حالی و مسرت کے دروازے کشادہ کروا کر دنیا و آخرت کی خوش بختی سمیٹ لیں۔ رمضان کے مقدس اوقات میں دعا کی قبولیت کے بار ے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ رمضان کے ہر دن اور رات میں جہنم سے آزاد ہونے والوں کو آزاد کرتا ہے اور ہر بندے کی ایک دعا ضرور قبول کی جاتی ہے۔‘‘ (مسند احمد)

رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’رات میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس وقت اﷲ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگے تو اﷲ اسے ضرور عطا کردیتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات آتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) جمہور علماء کے نزدیک یہ گھڑی عین سحری کا وقت ہے جو اﷲ رب العزت رمضان میں ہر روزہ دار کو نصیب کرتا ہے۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ دار کی افطار کے وقت میں دعا کبھی رد نہیں کی جاتی۔‘‘ (سنن ترمذی) حتیٰ کہ افطاری کے وقت فرشتے بھی روزہ دار کے لیے دعا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ دار جب افطاری کھانے کے لیے بیٹھتے ہیں تو فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں جب تک کہ وہ فارغ نہ ہوجائیں۔‘‘ (صحیح ابن حبان) مزید حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: ’’اے اﷲ کے رسول ﷺ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ شبِ قدر کون سی ہے تو میں اس میں کیا دعا کروں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’کہو! اے اﷲ تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، پس مجھے معاف فرما دے۔‘‘ (ابن ماجہ) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر کی عظیم عبادت بھی اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگنا ہے۔

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے ماہِ رمضان اﷲ تعالیٰ سے دعا اور مانگنے کا مہینہ ہے اور اس کا ہر لمحہ اﷲ کے حضور گڑگڑانے کا موقع ہے۔ حضرت علیؓ رمضان کے آخری عشرے میں کثرت سے دعا کیا کرتے اور فرماتے تھے: ’’تعجب ہے اُس شخص پر جو ہلاک ہو جائے حالاں کہ اُس کے پاس نجات کا ذریعہ موجود ہے! کسی نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ تو فرمایا: ’’دعا۔‘‘ جب رمضان آتا تو صحابہ کرام ؓ دعا اور استغفار کی کثرت کرتے تھے۔ رمضان کی ہر رات میں اﷲ تعالیٰ جہنم سے آزاد کرنے والے لوگوں کو چنتا ہے لہٰذا دعا میں محنت کرو۔

رسول اکرم ﷺ، صحابہ کرامؓ و تابعینؒ رمضان میں دعا کی کثرت فرماتے تھے اور رمضان کو اﷲ تعالیٰ سے مانگنے کا مہینہ سمجھتے تھے۔ وہ دن کے اوقات، سحر، افطار، راتوں کے قیام، لیلۃ القدر اور رمضان کے آخری عشرے میں دعا کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ ہمیں رمضان میں تنہائی و خلوت میں اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا معمول بنانا چاہیے تاکہ اس کی رحمت و مغفرت کو حاصل کرسکیں۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • اندھیرے اور روشنی کی مقدار
  • ملک بھر میں ’’یوم پاکستان‘‘ ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے
  • ہماری اماں
  • مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان کا عدالت میں اعترافِ جرم کے بعد پھر انکار
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • حسن نواز پی ایس ایل میں کس ٹیم کی نمائندگی کریں گے؟
  • عالمی یوم القدس، نارملائزیشن اور مظلوم فلسطینی
  • علی ؑ کا عدل علی ؑ کی وصیتوں میں
  • ’’لب پہ آتی دعا بن کے تمنّا میری‘‘