بیرونی سرمایہ کاری، معاشی استحکام کی ضمانت
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط اور تاریخی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا گیا اور تجارت، سرمایہ کاری، توانائی،اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی، دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون پر اطمینان کا اظہارکیا۔
سعودی عرب پاکستان کا ایک ایسا دوست مُلک ہے جس نے مشکل حالات میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاکستان کو اپنے معاشی حالات پر قابو پانے کے لیے دیگر اصلاحات کے ساتھ بڑی بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ایسے میں سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
خلیجی ریاستوں کے سرمایہ کار پاکستان میں طویل المدتی سرمایہ کاری کے بجائے اعلیٰ پیداوار کے حامل کم رسک والے منافع حاصل کرنے میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔ یہ خبر خوش آیند ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران 41 فیصد بڑھ کر 1.
محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کا محل وقوع جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ہے، جو اسے تین بڑے خطوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت دیتا ہے۔ سعودی سرمایہ کاری اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کو وسعت دے کر اس میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔
متحدہ عرب امارات کے دورے کے موقع پر متحدہ عرب امارات کی قیادت کی جانب سے معیشت کے مختلف شعبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا ہے۔ قطر نے بھی پاکستان میں توانائی، کان کنی اور ہوا بازی سمیت مختلف شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کے تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ قطر کی جانب سے اسلام آباد اور کراچی ائیر پورٹ پر قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کی سرمایہ کاری کا امکان ہے جب کہ قابل تجدید توانائی، پاور اور سیاحت کے شعبوں میں بھی تین ارب ڈالرز سرمایہ کاری متوقع ہے۔
سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے 6 ڈیسکس کا قیام عمل میں لایا گیا، جس میں تین ڈیسکس سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے متعلق ہیں۔ قطر بھی پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر رضا مند ہو گیا ہے اور یہ رقم توانائی، کان کنی و معدنیات اور آئی ٹی کے شعبوں میں لگائی جائے گی۔
سعودی عرب نے بلوچستان میں سونے اور تانبے کی کان کنی کے منصوبے میں حکومتی حصص حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور اس کے لیے 15 فی صد سرمایہ کاری کی پیشکش بھی کی تھی۔ حکومتِ پاکستان آنے والے چند سالوں میں کان کنی اور زراعت کے شعبے میں سعودی عرب سے تقریباً پانچ ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی توقع رکھتی ہے۔سعودی عرب پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری بھی کررہا ہے۔
10 اکتوبر 2024 کو پاکستان میں آئے سعودی وفد نے سرمایہ کاری کی 27 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، سعودی عرب نے یہ معاہدے صنعت، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، خوراک، تعلیم، کان کنی، معدنیات، صحت، پٹرولیم، توانائی اور باہمی تعاون کے دیگر شعبوں کی ذیل میں کیے۔ اِن 27 میں 5 معاہدات پر کام کا آغاز بھی ہوچکا ہے، جن میں اسپتال اور زراعت کے منصوبے شامل ہیں۔ تانبے اور سونے کے ذخائر کے حوالے سے مشہور مقام ریکوڈک پر سعودی عرب 54 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے، جو بلوچستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے ایک اہم منصوبہ ہے۔
ریکوڈک تانبے اور سونے کے ذخائر کے حوالے سے دنیا کی بڑی کانوں میں شمار ہوتی ہے جہاں اندازے کے مطابق 5.9 ارب ٹن تانبے اور 41.5 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں، اس کان پر منصوبے کی لاگت 9 ارب ڈالر جب کہ ابتدائی طور پر 4.5 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ ریکو ڈک منصوبہ 2028 تک باقاعدہ پروڈکشن کا آغاز کر دے گا اور ایک اندازے کے مطابق اس سے پاکستان کو 74 ارب ڈالر حاصل ہونے کی توقع ہے، منصوبے سے اس علاقے میں مقامی افراد کو ہزاروں ملازمتوں کے مواقع سمیت علاقے کا انفرا اسٹرکچر بہتر ہونے کی توقع ہے۔
اسی طرح سے سعودی کمپنی آرامکو پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی لاگت سے گوادر یا حب کے مقام پر آئل ریفائنری لگانے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں ہر روز 3 لاکھ بیرل تیل صاف کیا جاسکے گا۔اگرچہ گزشتہ ششماہی میں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں لگ بھگ 46 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن ملک میں امن و امان کی خراب صورتِ حال بہتر بنائے بغیر اس میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔ اس وقت اصل مسئلہ پاکستان میں توانائی کے مسائل، انفرااسٹرکچر کی کمی، حکومتی اجازت ناموں کا مشکل حصول، ہنر مند افراد کی کمی اور پیداواری لاگت زیادہ آنے جیسے مسائل کی وجہ سے یہاں سرمایہ کار آنے سے گھبراتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول اگر سازگار بن جائے تو پہلے مقامی سرمایہ کاروں کو ترغیب ملتی ہے جس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کار بھی پیسہ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مضبوط نظام عدل‘ قانون کی حکمرانی اور احساسِ تحفظ سرمایہ کاری کی قوتِ محرکہ ہے۔ اس لیے اس پر توجہ دینا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ معاشی پہلوؤں پر۔ پاکستان معاشی مواقع سے بھرپور ہے۔ نوجوان اکثریتی آبادی کے ساتھ پاکستان افرادی قوت سے بھی مالا مال ہے۔ معدنی وسائل اپنی جگہ پر ہیں، سب سے اہم پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے، جو اسے مشرق ومغرب‘ شمال وجنوب میں پُل کا درجہ دیتا ہے۔
ان مواقع کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو خطے کی تجارت اور سرمایہ کاری کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور سی پیک کے منصوبوں کی صورت میں اس خواب کو عملی قالب میں ڈھالنے کی جانب پیشرفت ہو رہی ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات کو بڑھانے کی اور بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ پاکستان پچیس کروڑ آبادی کے ساتھ ایک بڑی مارکیٹ ہے اور متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ ہاؤسنگ‘ آٹو موبائل اور زراعت وغیرہ۔ ماضی میں ہم اپنے وسائل اور امکانات کی درست مارکیٹنگ نہیں کر پائے جس کے سبب سرمایہ کاری کے مواقع سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔اس میں دو رائے نہیں کہ ملکی معیشت کا استحکام سرمایہ کاری پر منحصر ہے۔
اس میں اندرونی اور بیرونی‘ دونوں طرح کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اندرونی سرمایہ کاری کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ داروں کو اپنا پیسہ کاروبار میں لگانے کی تحریک دیں۔ کم شرحِ سود‘حکومتی سطح پر صنعتوں کی حوصلہ افزائی‘ امن وامان اور مضبوط نظام انصاف سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے بنیادی عناصر ہیں۔
خوش آیند بات ہے کہ حکومت اس سلسلے میں اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہے۔ شرح سود کی بات کریں تو گزشتہ برس اپریل کے مقابلے میں اس سال جنوری میں شرح سود آدھی رہ گئی اور افراطِ زر میں کمی کا حکومت جس طرح یقین دلا رہی ہے اس سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے شرح سود میں ابھی مزید کمی کا خیال پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے کچھ ماہ تک یہ 10 فیصد سے بھی کم سطح پر آ جائے۔ شرحِ سود میں کمی سرمائے کے ارتکاز کو روکتی اور صنعتوں اور کاروبار میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ امید ہے کہ اس کے ثمرات معاشی پہیے کی حرکت میں تیزی کا سبب بنیں گے۔
مگر یہی کافی نہیں، پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش منزل بنانے کے لیے ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکسوں کے نظام پر نظر ثانی بے حد اہم ہے کیونکہ ٹیکسوں کی بھر مار پاکستان سے سرمایہ کاروں کی روگردانی کی ایک بڑی وجہ ہے، وہ ممالک جنھوں نے تیز ترین ترقی کی ہے وہاں کے ٹیکس نظام کا ریلیف اس کی بڑی وجہ ہے۔
ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے بجائے ٹیکسوں کی بیس بڑھانے پر توجہ دی جائے تو سالانہ شرح ٹیکس میں اضافہ کیے بغیر حکومتی ریونیو میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اقدامات کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس سے براہ راست بیرونی سرمائے کی مد میں تقریباً 80 ملین ڈالرز حاصل کیے جا سکیں گے۔
کونسل کی معاونت سے گرین ٹورازم کمپنی سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ پر کام کرے گی جس میں ویزا پالیسی کے تحت 126ممالک کے لیے ویزا آن ارائیول، گلف کارپوریشن کونسل (جی سی سی)ممالک کے لیے ویزا فری انٹری اور24 گھنٹوں کے اندر فاسٹ ٹریک ویزا پروسیسنگ جیسے اہم اقدامات شامل ہیں۔
ملک و قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے عزم اور ایس آئی ایف سی کے اقدامات اورکوششوں کی بدولت پاکستان نہ صرف معاشی بحران سے نکل آیاہے بلکہ اس کاترقی کی جانب سفردوبارہ شروع ہوگیاہے۔ ہمیں امید اور کوشش کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہے کیونکہ یہی وہ اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک مستحکم اور پرامن پاکستان کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیرونی سرمایہ کاری میں سرمایہ کاری کے کی سرمایہ کاری سرمایہ کاری کا سرمایہ کاری کی پاکستان میں پاکستان کو کے درمیان پاکستان ا ارب ڈالر کان کنی کی جانب ڈالر کی کے لیے
پڑھیں:
سعودی ولی عہد سے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر گفتگو ہوئی: وزیرِاعظم
— تصویر بشکریہ سوشل میڈیاوزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے آج جدہ میں ملاقات ہوئی۔
اس حوالے سے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملاقات میں باہمی تعاون کے فروغ کے لیے تعمیری گفتگو ہوئی۔ تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر گفتگو ہوئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ سعودی عرب کے پاکستان سے مسلسل تعاون پر ولی عہد کے مشکور ہیں، دوستانہ تعلقات اور خوشحالی کے لیے مشترکہ وژن کی بدولت باہمی تعلقات مستحکم ہو رہے ہیں۔
ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال اور پاک سعودی سرمایہ کاری اور تجارتی امور پر بھی بات چیت ہوئی۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ مضبوط دو طرفہ تعلقات باہمی اقتصادی شراکت داری میں تبدیل ہو رہے ہیں، مشرقِ وسطیٰ اور یوکرین میں امن کے لیے سعودی عرب کا کردار قابلِ ستائش ہے۔
واضح رہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جدہ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی، اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے۔