ڈونلڈ ٹرمپ کا معاشی جنگ کا اعلان !
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
جاوید محمود
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک جنہیں ٹرمپ کا سیدھا ہاتھ سمجھا جاتا ہے ،کے لیے 2025کا مالی سال کچھ زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ رواں سال اب تک ان کی دولت میں 132ارب ڈالرز کی کمی ہو چکی ہے۔ 10مارچ کو ٹیسلا کے حصص کی قیمت میں 15فیصد کمی ہوئی جس کے نتیجے میںایلون مسک کو ایک ہی دن میں 29ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس وقت ان کی مجموعی دولت 301ارب ڈالرز تک آگئی ہے جبکہ سال 2025 کا آغاز انہوں نے 433ارب ڈالر کے ساتھ کیا تھا ۔دسمبر 2024 میں ایلون مسک کی دولت 486ارب ڈالرز کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی تھی مگر 2025میں ٹیسلا کے حصص میں مسلسل گراوٹ نے ان کے اثاثوں کو شدید نقصان پہنچایا ۔یاد رہے کہ ایلون مسک ٹیسلا کے 21فیصد حصص کے مالک ہیں اور ان کی دولت کا 68فیصد حصہ اسی کمپنی سے جڑا ہوا ہے۔
ایلون مسک کے بعد دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص ایمازون کے بانی جیف بیزوس ہیں جن کی دولت 216 ارب ڈالر ہے چند روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں شامل سیکریٹریز کا ایک اجلاس بلایا تھا تاکہ ایلون مسک اور ان کے حکومتی اخراجات کو کم کرنے کی کوششوں پر بات چیت ہو سکے لیکن منظر عام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق یہ اجلاس ایلون مسک اور دیگر افراد کے درمیان تلخ کلامی کی نذر ہو گیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس اجلاس میں ایلون مسک نے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو پر الزام عائد کیا کہ وہ محکمہ خارجہ کے اخراجات کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں، انہوں نے سیکریٹری روبیو کو کہا کہ وہ صرف ٹی وی پر ہی اچھے نظر آتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اجلاس میں ہونے والی تلخ کلامی کے بعد صدر ٹرمپ کو بیچ میں دخل اندازی کرنی پڑی تھی اور یہ واضح کرنا پڑا تھا کہ وہ اب بھی ڈوج کے حامی ہیں تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام محکموں کے ذمہ دار سیکریٹریز خود ہیں اورمسک کی ٹیم صرف انہیں تجاویز دے سکتی ہے ۔جلد بازی میں بلایا گیا کابینہ کا یہ اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر ٹرمپ نے اسپیس، ایکس اور ٹیسلا کے مالک اور ان کے اخراجات کی کمی کے منصوبے کو ملنے والے اختیارات کو کم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کے سیکریٹریز نے سب کچھ سن اور سمجھ لیا ہے لیکن کسی کو ملازمت پر رکھنا اور کسی کو نکالنا یہ فیصلہ وہ خود کریں گے۔ ایلون مسک کی ٹیم نے کچھ عرصے پہلے سرکاری اکاؤنٹ سے وفاقی ملازمین کو ایک ای میل کی تھی کہ وہ ایڈوانس تنخواہ کے بدلے میں اپنی ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیں ،اسی ای میل میں وفاقی ملازمین کو ہدایت دی گئی تھی کہ اپنے کام کی تفصیل میں بھی ارسال کریں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں ملازمتوں سے برطرف کیا جا سکتا ہے ۔چند روز قبل صدر ٹرمپ کی سوشل میڈیا پوسٹ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیکریٹریز کوایلون مسک کے احکامات نہ ماننے کے مزید اختیارات دے رہے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی انتظامیہ کو ان قانونی مقدمات سے بچانا چاہتے ہوں جن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ مسک کو کابینہ میں شامل سیکریٹریز کے مقابلے میں بے تحاشا اختیارات دیے گئے ہیں اور قانونی طور پر ان کے کام پر نظرثانی سینیٹ بھی نہیں کر سکتی۔ اب تک صدر ٹرمپ اور امریکہ کے امیر ترین شخص ایلون مسک کے درمیان شراکت داری محفوظ نظر آتی ہے۔ تاہم واشنگٹن میں یہ قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ کیا اس شراکت داری میں دراڑ آ سکتی ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں ہونے والی تلخ کلامی شاید دونوں کے درمیان شراکت داری کی بنیاد میں پہلی دراڑ ہو ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب سے ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی ہے، جب سے وہ مالی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں اور کابینہ کے اہم عہدے داروں سے آئے دن ان کی تلخ کلامی کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو حکومت سنبھالتے ہی داخلی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ انتخابات جیتنے کے بعد سے وہ امریکی تجارتی شراکت داروں چین کینیڈا میکسیکو اور بھارت کے خلاف نئے ٹریفک ریٹس کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ مزید الگ تھلگ پالیسی کا موقف اپنا رہا ہے۔ ٹیرف میں اضافہ کر رہا ہے امریکی مینوفیکچرنگ مصنوعات مختصر مدت کے لیے امریکی معیشت کی ترقی میں مدد فراہم کرے گا مگر دوسری طرف یقینی طور پر اس سے بہت سے ممالک کو نقصان پہنچے گا جو امریکہ کے ساتھ تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سابق چیف اکنامسٹ اور صدر اوبامہ کے سابقہ اقتصادی مشیر مورس ایسڈ فیلڈ کہتے ہیں کہ نئے ٹیرف خاص کر میکسیکو اور کینیڈا کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں لیکن یہ امریکہ کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کار مینوفیکچرنگ کی صنعت کی مثال دی جو اس سپلائی چین پر انحصار کرتی ہے جو ان ممالک میں پھیلی ہوئی ہے ۔اگر اپ اس سپلائی چین میں خلل ڈالتے ہیں تو اپ کو آٹو مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس میں قیمتوں کو بڑھانے مصنوعات کی طلب کم کرنے اور کمپنیوں کے منافع کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری بھی کم ہو سکتی ہے ۔اویسٹ فیلڈ انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے ساتھ منسلک ہیں وہ کہتے ہیں اس قسم کے ٹیرف کو ایک ایسی دنیا میں متعارف کرانا جو تجارت پر بہت زیادہ منحصر ہے ،ترقی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور دنیا کو کساد بازاری کا شکار بنا سکتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کینیڈا میکسیکو اور بھارت کے علاوہ دیگر ممالک پہ ٹیرف لگانے کا اعلان کر کے معاشی جنگ کا اعلان کر دیا ہے جس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ ایلون مسک تلخ کلامی ٹیسلا کے انہوں نے کی دولت ہیں اور رہے ہیں سکتا ہے ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
بیرونی سرمایہ کاری، معاشی استحکام کی ضمانت
وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط اور تاریخی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا گیا اور تجارت، سرمایہ کاری، توانائی،اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی، دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون پر اطمینان کا اظہارکیا۔
سعودی عرب پاکستان کا ایک ایسا دوست مُلک ہے جس نے مشکل حالات میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاکستان کو اپنے معاشی حالات پر قابو پانے کے لیے دیگر اصلاحات کے ساتھ بڑی بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ایسے میں سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
خلیجی ریاستوں کے سرمایہ کار پاکستان میں طویل المدتی سرمایہ کاری کے بجائے اعلیٰ پیداوار کے حامل کم رسک والے منافع حاصل کرنے میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔ یہ خبر خوش آیند ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران 41 فیصد بڑھ کر 1.618 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کا محل وقوع جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ہے، جو اسے تین بڑے خطوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت دیتا ہے۔ سعودی سرمایہ کاری اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کو وسعت دے کر اس میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔
متحدہ عرب امارات کے دورے کے موقع پر متحدہ عرب امارات کی قیادت کی جانب سے معیشت کے مختلف شعبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا ہے۔ قطر نے بھی پاکستان میں توانائی، کان کنی اور ہوا بازی سمیت مختلف شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کے تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ قطر کی جانب سے اسلام آباد اور کراچی ائیر پورٹ پر قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کی سرمایہ کاری کا امکان ہے جب کہ قابل تجدید توانائی، پاور اور سیاحت کے شعبوں میں بھی تین ارب ڈالرز سرمایہ کاری متوقع ہے۔
سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے 6 ڈیسکس کا قیام عمل میں لایا گیا، جس میں تین ڈیسکس سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے متعلق ہیں۔ قطر بھی پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر رضا مند ہو گیا ہے اور یہ رقم توانائی، کان کنی و معدنیات اور آئی ٹی کے شعبوں میں لگائی جائے گی۔
سعودی عرب نے بلوچستان میں سونے اور تانبے کی کان کنی کے منصوبے میں حکومتی حصص حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور اس کے لیے 15 فی صد سرمایہ کاری کی پیشکش بھی کی تھی۔ حکومتِ پاکستان آنے والے چند سالوں میں کان کنی اور زراعت کے شعبے میں سعودی عرب سے تقریباً پانچ ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی توقع رکھتی ہے۔سعودی عرب پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری بھی کررہا ہے۔
10 اکتوبر 2024 کو پاکستان میں آئے سعودی وفد نے سرمایہ کاری کی 27 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، سعودی عرب نے یہ معاہدے صنعت، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، خوراک، تعلیم، کان کنی، معدنیات، صحت، پٹرولیم، توانائی اور باہمی تعاون کے دیگر شعبوں کی ذیل میں کیے۔ اِن 27 میں 5 معاہدات پر کام کا آغاز بھی ہوچکا ہے، جن میں اسپتال اور زراعت کے منصوبے شامل ہیں۔ تانبے اور سونے کے ذخائر کے حوالے سے مشہور مقام ریکوڈک پر سعودی عرب 54 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے، جو بلوچستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے ایک اہم منصوبہ ہے۔
ریکوڈک تانبے اور سونے کے ذخائر کے حوالے سے دنیا کی بڑی کانوں میں شمار ہوتی ہے جہاں اندازے کے مطابق 5.9 ارب ٹن تانبے اور 41.5 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں، اس کان پر منصوبے کی لاگت 9 ارب ڈالر جب کہ ابتدائی طور پر 4.5 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ ریکو ڈک منصوبہ 2028 تک باقاعدہ پروڈکشن کا آغاز کر دے گا اور ایک اندازے کے مطابق اس سے پاکستان کو 74 ارب ڈالر حاصل ہونے کی توقع ہے، منصوبے سے اس علاقے میں مقامی افراد کو ہزاروں ملازمتوں کے مواقع سمیت علاقے کا انفرا اسٹرکچر بہتر ہونے کی توقع ہے۔
اسی طرح سے سعودی کمپنی آرامکو پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی لاگت سے گوادر یا حب کے مقام پر آئل ریفائنری لگانے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں ہر روز 3 لاکھ بیرل تیل صاف کیا جاسکے گا۔اگرچہ گزشتہ ششماہی میں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں لگ بھگ 46 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن ملک میں امن و امان کی خراب صورتِ حال بہتر بنائے بغیر اس میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔ اس وقت اصل مسئلہ پاکستان میں توانائی کے مسائل، انفرااسٹرکچر کی کمی، حکومتی اجازت ناموں کا مشکل حصول، ہنر مند افراد کی کمی اور پیداواری لاگت زیادہ آنے جیسے مسائل کی وجہ سے یہاں سرمایہ کار آنے سے گھبراتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول اگر سازگار بن جائے تو پہلے مقامی سرمایہ کاروں کو ترغیب ملتی ہے جس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کار بھی پیسہ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مضبوط نظام عدل‘ قانون کی حکمرانی اور احساسِ تحفظ سرمایہ کاری کی قوتِ محرکہ ہے۔ اس لیے اس پر توجہ دینا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ معاشی پہلوؤں پر۔ پاکستان معاشی مواقع سے بھرپور ہے۔ نوجوان اکثریتی آبادی کے ساتھ پاکستان افرادی قوت سے بھی مالا مال ہے۔ معدنی وسائل اپنی جگہ پر ہیں، سب سے اہم پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے، جو اسے مشرق ومغرب‘ شمال وجنوب میں پُل کا درجہ دیتا ہے۔
ان مواقع کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو خطے کی تجارت اور سرمایہ کاری کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور سی پیک کے منصوبوں کی صورت میں اس خواب کو عملی قالب میں ڈھالنے کی جانب پیشرفت ہو رہی ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات کو بڑھانے کی اور بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ پاکستان پچیس کروڑ آبادی کے ساتھ ایک بڑی مارکیٹ ہے اور متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ ہاؤسنگ‘ آٹو موبائل اور زراعت وغیرہ۔ ماضی میں ہم اپنے وسائل اور امکانات کی درست مارکیٹنگ نہیں کر پائے جس کے سبب سرمایہ کاری کے مواقع سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔اس میں دو رائے نہیں کہ ملکی معیشت کا استحکام سرمایہ کاری پر منحصر ہے۔
اس میں اندرونی اور بیرونی‘ دونوں طرح کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اندرونی سرمایہ کاری کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ داروں کو اپنا پیسہ کاروبار میں لگانے کی تحریک دیں۔ کم شرحِ سود‘حکومتی سطح پر صنعتوں کی حوصلہ افزائی‘ امن وامان اور مضبوط نظام انصاف سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے بنیادی عناصر ہیں۔
خوش آیند بات ہے کہ حکومت اس سلسلے میں اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہے۔ شرح سود کی بات کریں تو گزشتہ برس اپریل کے مقابلے میں اس سال جنوری میں شرح سود آدھی رہ گئی اور افراطِ زر میں کمی کا حکومت جس طرح یقین دلا رہی ہے اس سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے شرح سود میں ابھی مزید کمی کا خیال پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے کچھ ماہ تک یہ 10 فیصد سے بھی کم سطح پر آ جائے۔ شرحِ سود میں کمی سرمائے کے ارتکاز کو روکتی اور صنعتوں اور کاروبار میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ امید ہے کہ اس کے ثمرات معاشی پہیے کی حرکت میں تیزی کا سبب بنیں گے۔
مگر یہی کافی نہیں، پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش منزل بنانے کے لیے ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکسوں کے نظام پر نظر ثانی بے حد اہم ہے کیونکہ ٹیکسوں کی بھر مار پاکستان سے سرمایہ کاروں کی روگردانی کی ایک بڑی وجہ ہے، وہ ممالک جنھوں نے تیز ترین ترقی کی ہے وہاں کے ٹیکس نظام کا ریلیف اس کی بڑی وجہ ہے۔
ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے بجائے ٹیکسوں کی بیس بڑھانے پر توجہ دی جائے تو سالانہ شرح ٹیکس میں اضافہ کیے بغیر حکومتی ریونیو میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اقدامات کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس سے براہ راست بیرونی سرمائے کی مد میں تقریباً 80 ملین ڈالرز حاصل کیے جا سکیں گے۔
کونسل کی معاونت سے گرین ٹورازم کمپنی سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ پر کام کرے گی جس میں ویزا پالیسی کے تحت 126ممالک کے لیے ویزا آن ارائیول، گلف کارپوریشن کونسل (جی سی سی)ممالک کے لیے ویزا فری انٹری اور24 گھنٹوں کے اندر فاسٹ ٹریک ویزا پروسیسنگ جیسے اہم اقدامات شامل ہیں۔
ملک و قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے عزم اور ایس آئی ایف سی کے اقدامات اورکوششوں کی بدولت پاکستان نہ صرف معاشی بحران سے نکل آیاہے بلکہ اس کاترقی کی جانب سفردوبارہ شروع ہوگیاہے۔ ہمیں امید اور کوشش کا دامن تھام کر آگے بڑھنا ہے کیونکہ یہی وہ اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک مستحکم اور پرامن پاکستان کی تعمیر کر سکتے ہیں۔