فوجی قیادت کے خلاف رپورٹنگ، صحافی کے خاندان کو سزا، درست عمل؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مارچ 2025ء) تفصیلات کے مطابق، پاکستانی صحافی احمد نورانی نے، جو اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں،پاکستان کے آرمی چیف اور ان کے خاندان کے بارے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہیں، ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ایسے فوائد حاصل ہوئے جو قانونی نہیں تھے۔ کچھ حلقوں نے اس خبر کو آرمی چیف اور ان کے خاندان کو بدنام کرنے کا موقع جانا، جبکہ معاشرے کے ایک طبقے نے صحافی کو خبر کے ساتھ آرمی چیف کے خاندان کی تصاویر اور تفصیلات شائع کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
پاکستان کو مزید کتنا ’ہارڈ اسٹیٹ‘ بنانے کی ضرورت ہے؟
سال دو ہزار چوبیس پاکستانی صحافیوں کے لیے کیسا رہا؟
اس رپورٹ کے ''فیکٹ فوکس‘‘ نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے کے دو دن بعد، جس کے لیے مذکورہ صحافی کام کرتے ہیں، ان کے دو بھائیوں کو زبردستی اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے اٹھا لیا گیا، جہاں ان کی والدہ، بہن اور دو بھائی مقیم تھے۔
(جاری ہے)
اس وقت کوئی بھی ادارہ احمد نورانی کے بھائیوں کو گرفتار یا اٹھا لے جانے کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا۔ بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائرصحافی احمد نورانی کی والدہ نے اپنے دونوں بیٹوں سیف الرحمان اور محمد علی کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی ہے اور اس میں وفاقی حکومت، وزارت دفاع ، اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سید علی ناصر رضوی اور وفاقی دارالحکومت کے نون پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کے ''اغوا‘‘ کے حقائق اور حالات، نیز جس طریقے سے یہ کارروائی کی گئی، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ریاستی جبر کے تحت ایک جبری گمشدگی ہے، جو انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ذریعے انجام دی گئی۔ مزید کہا گیا ہے کہ دونوں افراد انجینئر ہیں اور ان کا نورانی کی رپورٹنگ یا تحقیقی صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔
درخواست کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ ان کے بیٹوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو ان کے امریکہ میں مقیم بیٹے احمد نورانی کی صحافت کو خاموش کرانے کے لیے ایک واضح انتقامی کارروائی ہے۔
اغواکاروں کا حلیہ کیسا تھا؟احمد نورانی کی بہن سائرہ بشیر کے مطابق، تقریبا دس افراد آدھی رات کو زبردستی ان کے گھر میں گھسے۔
ان افراد میں سے کچھ سول کپڑوں میں تھے اور کچھ نے گہرے رنگ کی وردی اور اس پر بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس پر 'پولیس‘ لکھا ہوا تھا۔ سائرہ بشیر کا کہنا ہے کہ ان افراد نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی، موبائل فون چھینے اور ان کے بھائیوں کو اغوا کر کے لے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کے دوران انہوں نے کئی بار پوچھا کہ وہ کون ہیں اور ایسا کیوں کر رہے ہیں، جس پر ان میں سے ایک نے جواب دیا، ''تمہیں معلوم ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں‘‘ اور اپنی جیکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''کیا تم نہیں پڑھ سکتیں کہ ہم کون ہیں؟‘‘ تاہم، انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا کہ وہ کس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں۔سائرہ بشیر نے یہ بھی بتایا کہ باہر ان کے ہمسائے میں کیمرے لگے ہوئے ہیں جنہوں نے آنے والے لوگوں کو ریکارڈ بھی کیا لیکن پولیس یا کسی اور کے خوف کی وجہ سے ان کے ہمسائے وہ وڈیو انہیں دینے سے معذرت کا اظہار کر رہے ہیں: ''یہ بات بھی یقینی نہیں کہ اب وہ وڈیوز ان کے پاس موجود بھی ہیں کہ نہیں۔‘‘
اسلام آباد پولیس کے ترجمان محمد تقی جواد کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس کا کسی اغوا اور اس کے بعد ہونے والے کسی واقع سے کوئی تعلق نہیں اور وہ معاملات کو دیکھ رہے ہیں لیکن ابھی وہ کسی کے بارے کچھ نہیں کہ سکتے۔
عدالتی کارروائی میں تاخیردرخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری کا، جو ایک معروف انسانی حقوق کی کارکن بھی ہیں، کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ نورانی کے دو بھائیوں کے لیے حبسِ بے جا کی درخواست 19 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی، اسے اب تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا: ''یہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک غیرمعمولی صورتحال ہے جہاں ایک حبسِ بے جا کا معاملہ، سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جا رہا، جس میں واضح عجلت درکار ہے اور بنیادی حقوق داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
‘‘ایمان مزاری نے مزید کہا کہ اگر عدالتیں واقعی ارادہ رکھتی ہوں اور ان پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو تو وہ بازیابی یقینی بنا سکتی ہیں۔
صحافتی حلقے کیا کہتے ہیں؟صحافتی حلقوں کا ماننا ہے کہ کسی صحافی کی اسٹوری کی وجہ سے، بھلے اسے متنازعہ بھی مان لیا جائے، اس کے گھر کے افراد کو ہراساں کرنا کسی طور پر قابل قبول نہیں۔
تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک نیا رجحان ابھر رہا ہے جس میں صحافیوں کے کام کی وجہ سے ان کے خاندانوں کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے: ''اگرچہ پہلے بھی جب صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا تھا تو ان کے خاندان بھی متاثر ہوتے تھے، لیکن یہ نیا طریقہ بالکل پولیس جیسا ہے جو ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے مشہور ہے، اور یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ نورانی کے بھائیوں کو شاید اس خبر کے بارے میں کوئی علم بھی نہ ہو، نہ ہی انہوں نے اس میں کوئی کردار ادا کیا، پھر بھی وہ اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔‘‘ زیادہ ذمہ دارانہ صحافت کی ضرورتعمر چیمہ نے یہ بھی کہا کہ صحافیوں کو بھی زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ صرف صحافیوں کے ہی حقوق نہیں ہوتے بلکہ جن کے بارے میں وہ خبریں لکھتے ہیں، ان کے بھی حقوق ہوتے ہیں: ''رپورٹنگ کے دوران ہمیں ہمیشہ حقائق کو دو بار جانچنا چاہیے۔
احمد نورانی ایک اچھے صحافی ہیں، اور انہیں بھی مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘‘ان کے بقول اس حالیہ واقعے میں آرمی چیف کے خاندان کی تصاویر شائع کرنا بھی شامل ہے، اور صحافیوں کو سب کے پرائیویسی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ تاہم، ''جو بھی معاملہ ہو، نورانی کے اغوا شدہ بھائیوں کا اپنے بھائی کے پیشے سے کوئی تعلق نہیں، اور اب تو اغوا کاروں کو وہ جس ادارے سے بھی ہیں یہ بات زیادہ واضح ہو چکی ہوگی، اس لیے انہیں فوراً رہا کر دینا چاہیے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے اس معاملے کے بارے میں فوج کا مؤقف جاننے کے لیے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے رابطہ کیا، تاہم اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کے خاندان بھائیوں کو اسلام آباد کے بھائیوں کہنا ہے کہ نورانی کے نورانی کی کی وجہ سے آرمی چیف کے بارے رہے ہیں گیا ہے کے لیے ہیں کہ اور ان
پڑھیں:
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی بے ضابطگیوں کی خبریں درست نہیں، ترجمان
اسلام آباد:
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انتظامیہ نے آڈٹ رپورٹ میں مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی خبروں کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آڈٹ رپورٹ کے چند نکات کو غلط انداز سے پیش کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ترجمان نے اس حوالے سے اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شفافیت اور احتساب کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہے، حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی ایک خبر میں مالی بے ضابطگیوں کے حوالے سے معمول کی آڈٹ رپورٹ کے بعض نکات کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی جانب سے تمام سرکاری اداروں کا آڈٹ معمول کا حصہ ہوتا ہے ابتدائی آڈٹ مشاہدات ابتدائی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان پر کئی مراحل میں غور و خوض کیا جاتا ہے جن میں محکمانہ اکاوٴنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کی سطح پر ہونے والی مشاورت بھی شامل ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جہاں ان نکات کو وضاحت، تصحیح یا طریقہ کار میں بہتری کے ذریعے حل کیا جاتا ہے، ڈی اے سی کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سخت نگرانی کی جاتی ہے تاکہ مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھا جاسکے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ بی آئی ایس پی کے مالی سال 2023-24ء کے اکاوٴنٹس سے متعلق آڈٹ اور انسپکشن رپورٹ میں شامل نکات پر بھی اسی طریقہ کار کے تحت غور کیا گیا، ان امور پر 24 دسمبر 2024ء اور 21 جنوری 2025ء کو منعقدہ ڈی اے سی اجلاسوں میں تفصیلی جائزہ لیا گیا جہاں بی آئی ایس پی نے وضاحتی شواہد اور ضروری ریکارڈ فراہم کیا جنہیں آڈٹ حکام نے تسلیم کر لیا اس دوران کئی اعتراضات کو دور کر دیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق بعض سفارشات پر عمل درآمد کا عمل جاری ہے جن میں طریقہ کار کی مزید بہتری، ڈیٹا کی تطبیق اور پالیسی میں ضروری ترامیم شامل ہیں اس لیے واضح کیا جاتا ہے کہ بی آئی ایس پی مالیاتی امور میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور متعلقہ نگران اداروں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ عوامی فلاح و بہبود کے اس اہم پروگرام کو مزید موٴثر بنایا جا سکے۔
Post Views: 1