Islam Times:
2025-03-21@20:07:23 GMT

علی ؑ کا عدل علی ؑ کی وصیتوں میں

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

علی ؑ کا عدل علی ؑ کی وصیتوں میں

اسلام ٹائمز: ہمارے معاشروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عدل اور انصاف کے قتل کے معاملے میں مال کے حصول کا موضوع سب سے زیادہ شدت کیساتھ سامنے آتا ہے، مال کے حصول میں لوگ عدل و انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اعتدال اور حق پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، جہاں سے کرپشن اور استحصال جنم لیتا ہے۔ اگر مال کے حصول اور تقسیم میں عدل اور اعتدال سے کام لیا جائے تو علی ؑ کی وصیت اور خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ وہاں ہم بھی خوشحال ہوسکتے ہیں، کیونکہ رزق کی اور مال کی مساوی تقسیم اگر عدل سے ہو تو لالچ، کرپشن اور استحصال کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ عدل کے بارے میں علی ؑ کے اقوال، علی ؑ کے فیصلے، علی ؑ کی نصیحتیں اور علی ؑ وصیتوں پر سرکاری، اجتماعی، حکومتی، عوامی اور ذاتی سطح پر عمل کیا جائے تو معاشرے عدل کا گہوارہ بن سکتے ہیں اور ہمیں ہزارہا مسائل و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔ تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.

com

اپنے عدل کی شدت سے قتل ہونے والے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ کے قضاوت اور عدل کے قصے اور چرچے تو کائنات کی وسعت میں پھیلے ہیں۔ کتب تاریخ میں ان کی زندگی میں ہونے والے واقعات کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔ خلفاء اور حکمران طبقے کی رہنمائی سے لے کر ایک عام مسلمان کو عدل و مساوات کی ترسیل تک ہر موڑ پر علی ؑ کا کردار روشن اور مسلمہ ہے۔ آپ ؑ کے ظاہری دور خلافت اور دنیا میں موجودگی کے ایام میں پیش آنے والے واقعات زبان زد عام ہیں جن سے علی ؑ کے عدل کا ایک مستحکم معیار سامنے آتا ہے، جو بعد میں آنے والے ہر صاحب عدل اور عنان عدل پر براجمان انسان کے لیے مشعل کا کام دیتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ علی ؑ کا عدل ہی علی ؑ کی شہادت کا باعث بنا، لیکن علی اس خدائی عدل پر مایوس نہیں بلکہ سجدہ شکر بجا لا کر خدا کے سامنے خدا کی قسم اٹھا کر فرماتے ہیں "فزت برب الکعبہ۔"

روایت سے ہٹ کر آج ہم علی ؑ کے دور زندگانی کے واقعات کے ذریعے عدل علی ؑ کا بیان نہیں کریں گے اور نہ ہی علی ؑ کے فرامین کی روشنی میں عدل کا معیار پیش کریں گے بلکہ علی ؑ کی وصیتوں کا جائزہ لے کر معلوم کریں گے کہ علی ؑ کے نزدیک عدل، اعتدال، مساوات، برابری اور حقوق کا مقام اور اہمیت کیا ہے۔ جب ابن ملجم نے ضرب لگائی تو اس سے کچھ وقت بعد وصیت میں ارشاد فرمایا: ”تم لوگوں سے میری وصیت ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرنا۔ ان دونوں ستونوں کو قائم رکھنا اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا۔“ یعنی توحید و رسالت کے عقائد سے ہی علی ؑ نے عدل کا آغاز فرما دیا ہے اور لوگوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ اگر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں گے تو یہ بے عدلی ہوگی اور اسی طرح اگر رسول اکرمﷺ کی سنت و سیرت سے منہ موڑیں گے تو بھی عدل و انصاف کا قتل ہوگا، کیونکہ توحید اور رسالت یعنی اللہ اور اس کا رسول مسلمانوں اور انسانوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان کے معاملے میں بے عدلی نہ کی جائے۔

ساتھ ہی توحید و رسالت کو  دو ستون بھی قرار دے دیا اور دو چراغ بھی کہہ دیا۔ یہ مزید روشن مثال ہے کہ اگر ایک ستون اور دوسرے ستون میں فرق، تفریق، تجاوز یا اختلاف یا کمزوری پیدا ہوگئی تو سمجھیں بے عدلی پیدا ہوگئی۔ ایک چراغ کی روشنی ماند پڑی تو جانیں عدل ختم ہوگیا، لہذا دونوں ستونوں کو مضبوط رکھنا اور دونوں چراغوں کو روشن رکھنا ہی دراصل عدل ہے۔ اپنی ظاہری خلافت کے دوران آپ ؑ نے جن کارندوں کو زکواۃ و صدقات کے وصول کرنے پر مقرر فرمایا، انہیں اپنی وصیت میں ارشاد فرمایا: ”دیکھو کسی مسلمان کو خوفزدہ نہ کرنا اور اس کے املاک پر اس طرح نہ گزرنا کہ اسے ناگوار گزرے اور جتنا اس کے مال میں سے اللہ کا حق نکلتا ہو، اس سے زائد نہ لینا۔“ یہاں معاملات دنیاوی میں عدل کے قیام کی تاکید فرمائی گئی ہے، کیونکہ ماضی اور حال میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ سرکاری عہدوں پر حاوی افراد عدل و انصاف کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی، بالخصوص مالیاتی نظام سے وابستہ محکمے اور ان کے کرپٹ عہدیدار لوگوں کو اموال کے وصولی کے نام لوٹتے ہیں۔

لیکن امیرالمومنین ؑ نے اس رویئے کے خاتمے اور اور اموال یعنی ٹیکس کی وصولی پر متعین عملے کو اس بات کی طرف سختی سے متوجہ کیا کہ وہ لوگوں سے اس انداز سے پیش آئیں کہ انہیں حکومت کو اپنے اموال دیتے ہوئے خوف یا مجبوری محسوس نہ ہو بلکہ وہ اس ادائیگی کو اپنی ذمہ داری اور فریضہ سمجھتے ہوئے ادا کریں۔ وصول کرنے والے کے لیے عدل کا یہی معیار مقرر فرمایا کہ وہ اللہ کے مقرر کردہ حق سے ایک پائی بھی زیادہ نہ لے۔ اگر اس نے رشوت یا تحفہ یا بھتے کے نام پر زیادہ وصولی کی تو اس نے اللہ اور علی ؑ کے معیار عدل کی خلاف ورزی کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؑ نے وصولی پر مامور عملے کو تاکید کی ہوئی تھی کہ جونہی وہ مال وصول کریں تو سارے کا سارا مال ایک بار آپ ؑ کی خدمت میں بھیجیں، تاکہ آپ ؑ اس کے مصرف کا تعین فرما کر عدل کے ساتھ مستحقین میں تقسیم فرما سکیں۔

علی ؑ نے عدل کی نصیحتیں اور وصیتیں فقط امت اور پیروکاروں کے لیے نہیں تھیں، بلکہ اپنے جگر گوشوں اور زمانے کے اماموں حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ کے لیے بھی اسی سخت انداز میں جاری کی گئی تھیں۔ جنگ صفین سے پلٹتے ہوئے امام حسین ؑ کے نام وصیت میں فرمایا: ”اے فرزند۔ اپنے اور دوسروں کے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قرار دو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، وہی دوسروں کے لیے پسند کرو اور جو اپنے لیے نہیں چاہتے، وہ دوسروں کے لیے بھی نہ چاہو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو، اسی طرح دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ حُسن سلوک ہو، یونہی دوسروں کے ساتھ بھی حُسن سلوک سے پیش آؤ۔ دوسروں کی جس چیز کو بُرا سمجھتے ہو، اسے اپنے لئے بھی ہو تو بُرا سمجھو۔ لوگوں کے ساتھ تمہارا جو رویہ ہو، اسی رویہ کو اپنے لئے بھی درست سمجھو۔ دوسروں کے لیے وہ بات نہ کہو، جو اپنے لئے گوارا نہیں کرتے۔ روزی کمانے میں دوڑ دھوپ کرو اور دوسروں کے خزانچی نہ بنو۔ اپنی طاقت سے زیادہ اپنی پیٹھ پر بوجھ نہ ڈالو۔“

اپنی ذات کو معیار قرار دینے کی اعلیٰ مثال بھی عدل ہی کا نمونہ ہے، کیونکہ جو شخص اپنے ساتھ عدل نہیں کرسکتا، وہ دوسروں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔؟ جو اپنے لئے کچھ اور اور دوسرے کے لیے کچھ اور معیار قائم کرے گا، وہ کس طرح عدل قائم کرسکتا ہے۔؟ جو انسان رزق کے حصول کے ذرائع میں عدل قائم نہیں کرسکتا، لوگوں سے حسن سلوک کے معاملے میں انصاف سے کام نہیں لے سکتا، وہ بھلا کس طرح اپنی ذات کو عدل کا نمونہ قرار دے سکتا ہے اور پھر یہی انسان اپنے معاشرے اور اردگرد بسنے والے انسانوں سے کس طرح توقع رکھ سکتا ہے کہ اس کے ساتھ عدل کریں گے۔؟ پھر فرمایا: ”طلب میں نرم رفتاری اور کسب معاش میں میانہ روی سے کام لو، کیونکہ اکثر طلب کا نتیجہ مال کا گنوانا ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ رزق کی تلاش میں لگا رہنے والا انسان ہی کامیاب ہو اور کدوو کاش میں اعتدال سے کام لینے والا محروم ہی رہے۔“

ہمارے معاشروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عدل اور انصاف کے قتل کے معاملے میں مال کے حصول کا موضوع سب سے زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے، مال کے حصول میں لوگ عدل و انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اعتدال اور حق پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، جہاں سے کرپشن اور استحصال جنم لیتا ہے۔ اگر مال کے حصول اور تقسیم میں عدل اور اعتدال سے کام لیا جائے تو علی ؑ کی وصیت اور خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ وہاں ہم بھی خوشحال ہوسکتے ہیں، کیونکہ رزق کی اور مال کی مساوی تقسیم اگر عدل سے ہو تو لالچ، کرپشن اور استحصال کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ عدل کے بارے میں علی ؑ کے اقوال، علی ؑ کے فیصلے، علی ؑ کی نصیحتیں اور علی ؑ وصیتوں پر سرکاری، اجتماعی، حکومتی، عوامی اور ذاتی سطح پر عمل کیا جائے تو معاشرے عدل کا گہوارہ بن سکتے ہیں اور ہمیں ہزارہا مسائل و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرپشن اور استحصال کے معاملے میں عدل و انصاف مال کے حصول دوسروں کے اپنے لئے جو اپنے جائے تو کی وصیت عدل اور کریں گے کے ساتھ کہ عدل کے لیے عدل کا عدل کے سے کام اور ان

پڑھیں:

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اس وقت کسی بھی آپریشن کے حامی نہیں: اپوزیشن

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+اپنے سٹاف رپورٹر سے) تحریک تحفظ آئین پاکستان کی مرکزی قیادت نے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ پریس کانفرنس میں سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم اس وقت کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں ہیں جب کہ عمر ایوب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی مشاورت کے بغیر پارٹی کوئی بھی فیصلہ کیسے کرسکتی ہے؟ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے بغیر کسی میٹنگ کی اہمیت نہیں، عمران خان سے ملنے پارٹی رہنما جاتے ہیں تو اجازت نہیں ملتی، یا تو اعلان کردیاجائے کہ بانی پی ٹی آئی خطرناک آدمی ہیں، اْن سے کوئی نہیں مل سکتا، جیل سپرنٹنڈنٹ اور حکام کو اس کا حساب دینا ہو گا۔ اس موقع پر  راجہ ناصر عباس نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کوآن بورڈ لیے بغیر جو فیصلے ہوئے، عوام ان کو قبول نہیں کریں گے۔ اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ  77 برس سے ان حالات کا شکار ہیں اوراس حالات کے حق میں نہیں۔ ہم نے پاکستان کے ہر پسماندہ طبقات کے لوگوں کے حقوق دلوانے ہیں ہم نے اس ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور فسطائیت کا خاتمہ کرنا ہے، علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام ارکان کو بولنے کی اجازت دی جائے، حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی یہ حکومت ملک پر مسلط کی گئی ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے پارلیمنٹ کو آگے بڑھنا چاہئے۔ عمر ایوب خان نے کہا کہ میں نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو مشروط خط لکھا تھا کہ ہمیں کورٹ آرڈر کے ساتھ بانی پی ٹی آئی سے ملنے نہیں دیا جاتا ہے۔ اچانک قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا‘ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ ہم نے اس کمرے میں بیٹھ کران کیمرہ اجلاس کا مطالبہ کیا تھا گزشتہ روز ہم نے اپنے نمائندوں کے نام دیئے جو مشروط تھے ،بلوچستان کے دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں کے نمائندوں کو بلائے بغیر معاملے کا حل نہیں نکل سکتا۔ عمران کو اعتماد میں لیے بغیر عوامی سپورٹ نہیں ملے گی آپریشن کی بجائے مذاکرات پرغور کرنا چاہیے، محمود اچکزئی نے کہا کہ جوائنٹ سیشن میں ہرایم این اے کو بات کرنے کا موقع دیا جائے ،جوائنٹ سیشن پورے دو دن ہو، ہر ایم این اے اس پر بولے، ہم اتنے بچے بھی نہیں ہیں کہ ان کیمرہ اجلاس کی باتیں لوگوں کو بتائیں گے لیکن وہاں ہم وہ باتیں کریں گے جو ہمارا ضمیر کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’اس ڈر سے میچ نہیں دیکھا کہ کہیں بیٹے کو ہماری ہی نظر نہ لگ جائے‘: والدہ حسن نواز
  • دنانیر مبین شوبز انڈسٹری میں دوستیاں بڑھانے کی قائل کیوں نہیں؟
  • والدین کے لیے لمحۂ فکریہ (دوسرا اور آخری حصہ)
  • معین خان اپنے بیٹے اعظم خان کو پہچان نہیں سکے، ویڈیو دیکھیں
  • یمن نے ثابت کیا کہ غزہ تنہا نہیں ہے، ابو عبیدہ
  • دانش تیمور نے 4 شادیوں سے متعلق اپنے بیان پر معافی مانگ لی
  • ’بیوی کی توہین نہیں کی‘ دانش تیمور نے 4 شادیوں سے متعلق اپنے بیان پر معافی مانگ لی
  • دانش تیمور نے 4 شادیوں سے متعلق اپنے بیان پر وضاحت پیش کردی
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اس وقت کسی بھی آپریشن کے حامی نہیں: اپوزیشن