لاہور: شاہدرہ ٹاؤن میں نادرا کے ڈپٹی منیجر ویجیلنس پر فائرنگ
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
لاہور:
شاہدرہ ٹاؤن میں نادرا کے ڈپٹی منیجر ویجیلنس ملک اعجاز پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی۔
ایف آئی آر کے مطابق ملک اعجاز جب اپنے آبائی گھر پہنچے تو دو نامعلوم افراد نے انہیں دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ جان بچا کر وہ گھر میں داخل ہوئے تو حملہ آور فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان نے دھمکی دی کہ اگر کسی ایجنسی یا ادارے کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں تو انہیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔
ملک اعجاز کے بیان کے مطابق انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر مافیاز اور انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں کیں، جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔
پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
چیئرمین پی ٹی اے کو بلا کر مایوسی ہوئی، انہیں سن کر لگتا ہے توہین عدالت کا نوٹس دینا پڑیگا: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
ایکس پر پابندی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین پی ٹی اے کو بلا کر ہمیں مایوسی ہوئی، انہیں سن کر لگتا ہے کہ ہمیں توہین عدالت کا نوٹس دینا پڑے گا۔سوشل میڈیا ایپ ایکس پر پابندی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جس دوران چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمان بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایکس کو ایک ای میل کی گئی ہے، جس پر عدالت نے پوچھا کیا آپ ایکس کے ساتھ کسی معاہدے میں ہیں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا، نہیں ایکس کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے، جس پر لاہور ہائیکورٹ نے کہا تو کیوں ایکس آپ کو مطلوبہ معلومات فراہم کرے گا۔جسٹس علی ضیا نے پوچھا پی ٹی اے کسی پرپابندی لگائے تو خلاف ورزی پر کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟ جس پر وکیل پی ٹی اے نے کہا چیئرمین پی ٹی اے بالکل بھی یقین سے نہیں بتا سکتے کہ فلاں اکاؤنٹ کس کا ہے۔جسٹس علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا پی ٹی اے کا اکاؤنٹ چل رہا ہے؟ اگر ہاں تو کیسے چل رہا ہے؟چیئرمین پی ٹی اے نے عدالت میں کہا وزارت داخلہ نے کہا ویب مانیٹرنگ سسٹم کے تحت ایکس کو بلاک کیا جائے، ہمارے خلاف پراپیگنڈا ہو توخاتمے کے لیے پی ٹی اے اپنا ایکس اکاؤنٹ استعمال کرتا ہے، پی ٹی اے وی پی این استعمال کرتا ہے، جس پر عدالت نے استفسار کیا اگر وی پی این بند کر دیا جائے تو؟ چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا وی پی این بلاک نہیں کیا جا سکتا، لوگوں کے گھر چل رہے ہیں، سافٹ ویئر ہاؤسز چل رہے ہیں۔چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کہا آپ نے خود لوگوں کو غلط راستے پر لگایا ہوا ہے، آپ نے ایکس بند کیا لوگ وی پی این استعمال کرنا شروع ہو گئے جبکہ جسٹس علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا آپ کا 2 لائنوں کا نوٹیفکیشن ہے کہ ایکس پر پابندی ہے، پابندی لگا کر پی ٹی اے خود ایکس اکاؤنٹ استعمال کر رہا ہے۔چیئرمین پی ٹی اے نے کہا مجھے معاف کر دیں، پی ٹی اے ایکس استعمال نہیں کر رہا، مجھے میرے ڈی جی نے بتایا ہے، جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا آپ اتنے اہم افسر ہو کر اتنا غیر ذمہ دارانہ بیان کیسے دے سکتے ہیں؟چیئرمین پی ٹی اے نے کہا اگر ہم وی پی این بند کرتے ہیں تو آئی ٹی انڈسٹری دھڑام سے گر جائے گی، 25 ارب کی سالانہ ایکسپورٹ کا ٹارگٹ ہم نے حاصل کرنا ہے۔جسٹس علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا آپ نے کہا کہ عدالت حکم کر دے پی ٹی اے ایکس کھول دے گا، اس کا مطلب ہے پی ٹی اے سے ایک غلط کام ہو گیا ہے، پی ٹی اے والے اب عدالت کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں۔وکیل پی ٹی اے نے کہا پی ٹی اے نے کوئی غلط کام نہیں کیا، خدا کے لیے پی ٹی اے کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے جبکہ چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا 2016 سے سوشل میڈیا اور ویب سائٹس بند ہونے کا سلسلہ جاری ہے، سپریم کورٹ نے یوٹیوب کو 4 سال کے لیے بلاک کیا تھا، پاکستان میں وکی پیڈیا، فیس بک، ٹک ٹاک بھی بلاک ہوئے، پی ٹی اے نے رول 5 اور 7 کے تحت ہی سوشل میڈیا پر پابندی لگائی۔جسٹس علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا آپ ان رولز میں دکھا دیں کہاں پابندی کا لکھا ہے، کیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟ رولز میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی لگانے والے لفظ کی نشاندہی کریں، سارے قوانین پڑھ لیں کہیں بھی سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا ذکر نہیں ملے گا، آپ حادثے تو روک سکتے ہیں گاڑیوں پر پابندی نہیں لگا سکتے، آپ ریاست مخالف مواد تو روک سکتے ہیں مگر پلیٹ فارم بند نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا چیئرمین پی ٹی اے کو بلا کر ہمیں مایوسی ہوئی، ہمیں بتائیں کس شخصیت کو طلب کیا جائے، ہمیں اس کا حل نکالنا ہے، آپ کو سنتے اور دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آپ کو توہین عدالت کا نوٹس دینا پڑے گا، پوری قوم کو وقت کے ضیاع پرلگایا ہوا ہے، ہمیں اس کا حل چاہیے، بتایا جائے کہ اس کا حل کیا ہے اور کون حل کرے گا، اگر آپ کہیں گے کہ ذمہ دار کابینہ ہے تو اس کے سربراہ کو طلب کیا جائے گا۔