Daily Ausaf:
2025-03-21@19:50:57 GMT

انسانی سماج اور آسمانی تعلیمات

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

آج مذہبی آزادی، مذہبی حقوق اور مذہبی مساوات کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کے حوالے سے ہم کہیں فرق کرتے ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ آپ ملک میں رہنے والی کچھ آبادی کے مذہبی حقوق کو اپنے حقوق سے مختلف شمار کرتے ہیں جس سے مذہبی مساوات نہیں رہتی۔ اسی طرح غیرمسلم اقلیتوں پر کسی حوالے سے پابندی لگاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس سے مذہبی آزادی مجروح ہو رہی ہے اور مذہبی حقوق پامال ہو رہے ہیں ۔
مذہب کے حوالے سے آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ مذہب کا کوئی معاشرتی کردار ہے یا نہیں؟ اجتماعی معاملات میں مذہب کی ہدایات لی جائیں گی یا نہیں؟ مغرب نے انقلابِ فرانس یعنی ۱۷۹۰ء کے بعد طے کر لیا تھا کہ مذہب کا تعلق عقیدے، اخلاقیات، عبادات اور چرچ کے ساتھ ہے، اجتماعی معاشرت کے ساتھ نہیں ہے۔ یعنی معاشرے کے جو قومی شعبے ہیں تجارت، معیشت، قانون سازی، عدالت وغیرہ ان سے مذہب کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد مغرب نے جو نئی بنیادیں نظامِ زندگی کے لیے طے کی تھیں ان میں یہ تھا کہ ہم مذہب سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، مذہبی احکام کی پابندی ضروری نہیں ہے، بلکہ اجتماعیات میں ہم مذہب کی دخل اندازی قبول نہیں کریں گے کہ حکومت ایسی ہونی چاہیے، عدالت ایسی ہونی چاہیے، معیشت ایسی ہونی چاہیے، اور یہ کہ حلال حرام اور جائز ناجائز کے دائرے مذہب کی رو سے طے ہونے چاہئیں، وغیر ذالک۔ اور جس طرح مغرب نے خود کو مذہب کے معاشرتی کردار سے الگ کر لیا، ہم سے تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی مذہب کے معاشرتی کردار سے لاتعلق ہو جائیں۔ یہ کشمکش دو سو سال سے چل رہی ہے جس میں ہمارے حکمران طبقے تو گول مول چلے آ رہے ہیں لیکن سول سوسائٹی اور عام مسلمان مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
مثال کے طور پر مغربی دنیا میں خاندانی قوانین سول لاء کے تحت ہیں اور ان پر مذہبی احکامات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان کا انسانی حقوق کا فلسفہ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں بائبل کے احکام قبول نہیں کرتا۔ عقلِ عامہ جسے کامن سینس کہتے ہیں، اس کی رو سے پارلیمنٹ یا سول سوسائٹی جو طے کر دے اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ مغرب کے ہاں مذہب انفرادی اور اختیاری چیز ہے کہ کوئی اختیار کرنا چاہے یا نہ کرنا چاہے۔ لیکن مسلم معاشروں میں ابھی تک الحمد للہ عام آدمی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں مذہب ہی سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، کوئی مسلمان اگر امریکہ میں بھی رہتا ہے تو خاندانی معاملات میں وہ علماء سے ہی فتویٰ کے لیے رجوع کرتا ہے۔
مذہب کے معاشرتی کردار میں تجارت اور معیشت بھی ہیں کہ اس میں مذہبی احکام کا کیا دخل ہے۔ اور اس میں سیاست بھی ہے کہ حکومت مذہبی اصولوں کے مطابق قائم ہو، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا کرے۔ یہ سب باتیں مغرب کے ہاں ناقابل قبول ہے۔ خاندانی نظام میں، معیشت اور تجارت میں، عدلیہ اور قانون میں ، سیاست اور حکومت میں ، ان چاروں بڑے دائروں میں کہیں بھی مذہب، مذہبی احکام اور مذہبی روایات کی بالادستی کو مغرب تسلیم نہیں کرتا۔
آج کے مسلم معاشروں میں حکومت و سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات میں مذہب کا کردار کسی جگہ ہے اور کسی جگہ نہیں ہے، لیکن دو دائروں میں مسلمان ابھی تک مذہب سے وابستہ ہیں اور اس سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں ہیں: ایک حلال و حرام کا دائرہ اور دوسرا خاندانی نظام یعنی نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے معاملات۔ اگرچہ حکومتی سطح پر مذہبی احکام کو گول مول کرنے کے لیے مختلف حیلے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایوب خان مرحوم کے زمانے میں ۱۹۶۲ء میں عورت کو طلاق کا حق دلوانے کے نام پر نکاح فارم میں تفویض ِطلاق کا خانہ رکھا گیا تاکہ مغرب کو مطمئن کر سکیں کہ ہمارے ہاں عورت کو بھی طلاق دینے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس کا کچھ خاص نتیجہ نہیں نکلا کہ اب بھی نکاح ہوتے وقت کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی کہ یہ دفعہ کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ عام معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا۔ عام مسلمان نکاح، طلاق، وراثت اور حلال و حرام کے مسائل میں مذہب سے رہنمائی لیتے ہیں اور اس کے لیے مسجد اور مدرسہ میں ہی جاتے ہیں۔
مغرب کا کہنا ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہونی چاہیے۔ آج کے متجددین اور دانشور بھی یہ بحث چھیڑتے ہیں کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا ایک پہلو عرض کرتا ہوں۔ مجھ سے جب دوست پوچھتے ہیں کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے؟ تو میں ان سے مختصراً یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر تو ریاست و حکومت میں ہمارے آئیڈیل حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ ہیں تو اس کی تو بنیاد ہی مذہب پر ہے۔ ہمارے ہاں ریاست کا آغاز، جسے خلافت کہتے ہیں، حضرت صدیق اکبرؓ سے ہوتا ہے۔ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تھی تو اس کا دائرہ جزیرۃ العرب تھا، حکومت سنبھالتے ہی آپؓ نے پہلی بات یہ کی تھی کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ’’اقودکم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ‘‘ میں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق چلاؤں گا۔ اگر میں کتاب اللہ اور سنت کے مطابق نہ چلوں تو میری اطاعت تم پر فرض نہیں ہے۔ یہی بات حضرت عمرؓ نے کہی تھی جب آپؓ خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست و حکومت اور رعایا کے تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ جبکہ مغرب اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ریاست کی بنیاد سول سوسائٹی کی خواہشات پر ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مذہب کے معاشرتی کردار مذہبی احکام ہونی چاہیے کہ مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے کے لیے

پڑھیں:

توہین مذہب الزامات کیس: عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا حکم

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) توہین مذہب الزامات سے متعلق کیس میں عدالت نے کارروائی کو براہ راست دکھانے کا حکم دے دیا۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق عدالت نے توہین مذہب الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کے کیس میں مفاد عامہ کے پیش نظر عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی ہدایت کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمرہ عدالت بھر چکا ہے، عدالت کے باہر بھی کثیر تعداد میں لوگ موجود ہیں کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ بن چکا ہے اس لیے کیس کی کارروائی براہ راست دکھانے کا حکم دیتے ہیں۔

سکولوں کی حالت زار: سیکرٹری تعلیم کی عدم حاضری پر عدالت برہم

عدالت نے آئی ٹی حکام کو فوری طور پر براہ راست دکھانے کے انتظامات کرنے کا حکم دیا اور پولیس کو حکم دیا کہ کمرہ عدالت کے باہر لوگوں کو آگاہ کر دیں جو بھی کارروائی دیکھنا چاہتے ہیں وہ آن لائن دیکھ سکتے ہیں۔
 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • توہین مذہب الزامات کیس: عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا حکم
  • گردے کی پتھری بغیر دوا اور آپریشن کے 21 دن میں باہر، مجرب وظیفہ جانیے
  • بانی پی ٹی آئی کو عدالت رہا کرتی ہے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں؛ رانا ثنا اللہ
  • عدالت بانی پی ٹی آئی کو رہا کرتی ہے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں، رانا ثنااللہ
  • بانی پی ٹی آئی کو عدالت رہا کرتی ہے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں، رانا ثناء اللّٰہ
  • عمران خان کو عدالت رہا کرتی ہے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں، رانا ثنا اللہ کا بیان
  • اسرائیلی مظالم ،جمائما گولڈ اسمتھ مغرب کی منافقت پرسیخ پا ہوگئیں
  • اورنگزیب کا مقبرہ مسمار کرنے کا فیصلہ، مہاراشٹر میں مذہبی منافرت کی آگ بھڑک اٹھی
  • اسرائیلی حکومت کا جارحانہ رویہ مشرق وسطیٰ کے امن کیلئے مستقل خطرہ ہے، کاشف سعید شیخ