امریکا میں سکولوں کا نظام انتہائی گر چکا، صدر ٹرمپ کا امریکی محکمہ تعلیم بند کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی محکمہ تعلیم کو بند کر رہے ہیں، کیونکہ امریکی اسکولز کا تعلیمی معیار انتہائی گر چکا ہے، ہائی اسکولز کے طلبا کو بنیادی ریاضی تک نہیں آتی۔ واشنگٹن میں محکمہ تعلیم کے پاس بڑی عمارتیں ہیں مگر تعلیم نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمہ تعلیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسکولز کے معاملات کو ریاستیں خود دیکھیں گی، محکمہ تعلیم بند کرنے کے اقدام پر ریاستی گورنرز خوش ہیں۔ صدر نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت تعلیمی پالیسی کو ریاستوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ لنڈا میک محکمہ تعلیم کی آخری سیکریٹری ہوں گی، اداروں کو اپنی کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ کے جج کیخلاف توہین آمیز ریمارکس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس برہم
ادھر ڈیموکریٹس نے محکمہ تعلیم بند کرنے کا اقدام تباہ کن قرار دے دیا، چک شومر نے کہا کہ ٹرمپ کے ہولناک فیصلے سے اساتذہ، طلبہ اور والدین متاثر ہوں گے۔ انتظامیہ پہلے ہی اس محکمے کی افرادی قوت میں قریباً 50 فیصد کمی کرچکی ہے، تاہم اسے مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہوگی۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران محکمہ تعلیم کو ختم کرنے اور اس کے بجٹ میں نمایاں کٹوتی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا چک شومر صدر ڈونلڈ ٹرمپ محمکہ تعلیم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا چک شومر صدر ڈونلڈ ٹرمپ محمکہ تعلیم محکمہ تعلیم
پڑھیں:
یوکرین: جنگ کے بچوں کی نفسیات اور تعلیم پر انتہائی بد اثرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 مارچ 2025ء) یوکرین میں تین سالہ جنگ نے بچوں کی تعلیم کو بری طرح متاثر کیا ہے جہاں سکولوں پر 1,614 حملے ہو چکے ہیں اور طلبہ کے اپنی صلاحیتوں سے پوری طرح کام لینے، روزگار کے حصول اور زندگی میں آگے بڑھنے کے امکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
تعلیم پر اس جنگ کے اثرات کے بارے میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فضائی حملوں کے سائرن بجتے ہی یوکرین کے سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں اور بچوں کو پناہ گاہوں کی طرف بھاگنا پڑتا ہے۔
ملک بھر کے سکولوں میں زیرتعلیم بچے تین سال سے یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ Tweet URLبچوں پر جنگ کے اثرات سکولوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
فروری 2022 سے اب تک ملک میں کم از کم 669 بچوں کی ہلاکت ہو چکی ہے اور 1,833 زخمی ہوئے ہیں جبکہ ان کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔جسمانی و نفسیاتی زخمرپورٹ کے اجرا پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کا کہنا ہے کہ یوکرین کے بچوں نے جنگ کے وسیع تر ہولناک اثرات جھیلے ہیں جن کے ان کی زندگی پر سنگین اثرات ہوں گے۔
تقریباً 20 لاکھ بچے یورپی ممالک میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے مقیم ہیں جبکہ دیگر جنگ کے براہ راست متاثرین ہیں جنہیں متواتر بمباری اور مقبوضہ علاقوں میں روسی حکام کی جانب سے جابرانہ قوانین اور پالیسیوں کا سامنا رہتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ان بچوں کے کوئی بھی حقوق محفوظ نہیں اور جنگ نے انہیں گہرے جسمانی و نفسیاتی زخم دیے ہیں۔ بچوں کے حقوق کی پامالیوں کا ادراک ہونا اور ان کا خاتمہ کرنا ضروری ہے تاکہ ایسا مستقبل یقینی بنایا جا سکے جس میں یوکرین کے تمام بچے اپنے حقوق، شناخت اور سلامتی کا دوبارہ دعویٰ کر سکیں اور وہ جنگ اور قبضے کے اثرات سے محفوظ ہوں۔
عسکری تربیت اور پروپیگنڈہادارے کی ترجمان لِز تھروسیل نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے خلاف روس کی جانب سے قبضے میں لیے جانے والے یوکرین کے چار علاقوں میں بچوں کی صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔ ان علاقوں کے سکولوں میں طلبہ کو عسکری تربیت دی جاتی ہے اور وہ جنگی پروپیگنڈے کا ہدف ہیں۔ ان کے یوکرینی زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے اور حکام نے یکطرفہ طور پر انہیں روس کا شہری بنا لیا ہے۔
'او ایچ سی ایچ آر' نے تصدیق کی ہے کہ یوکرین سے کم از کم 200 بچوں کو روس یا مشرقی مقبوضہ علاقوں میں بھی منتقل کیا گیا ہے جو کہ جنگی جرم کے مترادف ہے۔ تاہم رسائی کے فقدان کی وجہ سے ایسے واقعات کا پوری طرح جائزہ نہیں لیا جا سکا۔