کیا ترکیہ کے مرد آہن جن کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ وہ خود کو خلیفہ بنانا اور کہلانا پسند کرتے ہیں، ان کا زوال شروع ہوگیا ہے؟ وہ اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
ہمارے عقیدت پسند حلقے جو شخصیات کے بت تراشنے اور ان کی پرستش کرنے کے شائق ہیں، کیا ان کا ایک اور بت ٹوٹ رہا ہے۔ وہ مجسمہ پاش پاش ہورہا ہے، جسے تراشنے میں برسوں لگے؟ کیا واقعی یہ سب ہونے لگا ہے؟
ترکیہ میں تازہ واقعہ کیا ہوا؟جمعرات کے روز ترکیہ کے سب سے بڑے اور اہم شہر استنبول میں لوگوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر آ کر گھنٹوں احتجاج کرتی رہی۔ پولیس نے ان پر مرچوں والا سپرے کیا، واٹر کینن موجود تھی، بہت سی سڑکیں اور گلیاں بند کر دی گئیں۔ اس سب کچھ کے باوجود اور ہزاروں پولیس والوں کی موجودگی بھی عوامی احتجاج کو نہ روک سکی۔ یہ لوگ اردوان ڈکٹیٹر اور امام اعولو تم تنہا نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگاتے رہے۔
یہ سب اس لئے ہوا کہ گزشتہ روز استنبول کے مقبول میئر اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت سیکولر ری پبلکن پارٹی (CHP)کے رہنما اکرم امام اوعلو کو گرفتار کر لیا گیا۔ان کے حامی متعدد وکلا، صحافی اورسیاسی کارکن بھی گرفتار کئے گئے۔ دو دن سے ترکیہ میں ٹوئٹر ایکس، انسٹا گرام، یوٹیوب، ٹک ٹاک وغیرہ بھی بہت سست اور تقریبا ً بند ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن اس سنسر شپ کا الزام حکومت پر عائد کر رہی ہے۔
عام تاثر یہی ہے کہ چونکہ امام اوعلو عوام میں بہت مقبول ہیں اور وہ موجودہ صدر طیب اردوان کے سب سے مضبوط اور سخت سیاسی حریف ہوسکتے ہیں، اگلا صدارتی الیکشن جیتنے کے لئے وہ فیورٹ ہیں، اس لئے ان کے خلاف بے بنیاد کیسز کی بنیاد پر انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔
اپوزیشن کیا الزام لگا رہی ہے ؟اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ یہ سب امام اوعلو کو صدارتی امیدوار بننے سے روکنے کے لئے ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ امام اوعلو کی پارٹی صرف تین دن بعد یعنی تیئس مارچ کو اگلے صدارتی الیکشن کے لئے اپنا امیدوار منتخب کرنے والی ہے۔ توقع ہے کہ امام اوعلو اس میں بلامقابلہ منتخب ہوجائیں گے۔ صدارتی انتخابات ویسے دو ہزار اٹھائیس میں ہونے ہیں لیکن اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ طیب اردوان اپنی مدت بڑھانے کے لئے آئین میں ترمیم کی کوشش کریں گے یا پھر وہ قبل از وقت انتخابات کرا کر کوئی قانونی جگاڑ کریں گے تاکہ چند سال مزید حکومت کر سکیں۔
یاد رہے کہ طیب اردوان پچھلے بائیس برسوں سے ترکیہ پر حکمران ہیں۔ وہ پہلے تین بار وزیراعظم رہے، پھر جب آئین کی رو سے مزید وزیراعظم نہین رہ سکتے تھے تو وہ صدارتی الیکشن میں امیدوار بن کر صدر بن گئے اور ساتھ ہی ریفرنڈم کرا کے آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کے رسمی عہدے کو بہت طاقتور اور بااختیار بنا لیا۔ دو ہزار تئیس میں وہ پھر صدارتی الیکشن جیت گئے۔
آئین کی رو سے وہ دو ہزار اٹھائیس (2028)کے بعد صدر نہیں رہ سکتے۔ تاہم اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ طیب اردوان کچھ بھی ایسا کر سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ مزید دو چار سال اقتدار میں رہ سکیں۔ اسی وجہ سے اپوزیشن بروقت اپنا صدارتی امیدوار فائنل کر لینا چاہتی ہے تاکہ وہ ملک بھر میں اپنی بھرپور عوام رابطہ مہم بھی چلا سکے اور اگر صدر اردوان قبل از وقت صدارتی الیکشن کا سرپرائز دینے کی کوشش کریں تو ان کے جواب میں مضبوط ترین امیدوار موجود ہو۔
امام اوعلو پر الزاماتاکرم امام اوعلو کے خلاف پراسیکوٹر آفس سے اچانک گرفتاری کے آرڈرز کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔ اکرم امام اوعلو پر لگے الزامات بھی روایتی قسم کے ہیں۔ ان پر برسوں پرانے ایک کیس میں کرپشن کا الزام ہے جبکہ دوسرا کیس کرد قوم پرست جماعت سے خفیہ رابطوں کا لگایا گیا ہے۔ (پاکستانی قارئین کے لئے یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ ہم ایسے کئی غداری کے الزامات اپنے مختلف لیڈروں پر لگتے دیکھ چکے ہیں۔) ترک وزارت انصاف اور پراسیکوٹر آفس کے مطابق ان الزامات میں کوئی سیاسی رنگ نہیں یا حکومت اس کے پیچھے نہیں۔ یہ سب قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اکرم امام اوعلو کی یونیورسٹی ڈگری بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ڈگری بھی دس پندرہ برس پرانی ہے اور اچانک یونیورسٹی پر منکشف ہوا کہ یہ ڈپلومہ ڈگری کینسل کر دینی چاہیے ، حالانکہ امام اوعلو پچھلے پانچ چھ سال سے استنبول کے میئر چلے آ رہے ہیں، مگر تب استنبول یونیورسٹی کو یہ خیال نہیں آیا۔ صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کی تو یونیورسٹی میں بھی یہ سب ہوگیا۔ یہ ذہن میں رہے کہ ترکیہ میں صدارتی امیدوار کے لئے اعلیٰ تعلیمی ڈگری لازمی ہے۔ اس لئے امام اوعلو کی اگر ڈگری منسوخ رہی تو وہ صدارتی امیدوار کے لئے نااہل تصور ہوں گے۔
اکرم امام اوعلو کی شخصیتاکرم امام اوعلو کی عمر چون برس ہے، وہ بڑے اچھے مقرر اور شگفتہ مزاج آدمی ہیں، فٹ بال کے بڑے شائق ہیں، نوجوانی میں کھیلتے بھی رہے ۔ ترکی میں فٹ بال بہت مقبول ہے اور ہر شہری کسی نہ کسی کلب کا فین ہوتا ہے۔خود طیب اردوان بھی فٹ بال کو بہت پسند کرتے ہیں۔
امام اوعلو نے بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کی، ان کا اچھا بھلا بزنس کیئریر ہے، تاہم چند سال قبل وہ سیاست میں آئے، پہلے استنبول کی ایک ڈسٹرکٹ کے میئر بنے اور پھر دو ہزار انیس میں استنبول میئر کا الیکشن جیت کر ہر ایک کو حیران کر دیا۔ یہ طیب اردوان اور ان کی پارٹی (AK)کے لئے بہت بڑا سیٹ بیک تھا کیونکہ استنبول ہمیشہ سے ان کا مضبوط گڑھ رہا ۔ اکرم امام اوعلو کی جیت کو اردوان حکومت نے متنازع بنانے کی کوشش کی اور بے ضابطگیوں کی آڑ لے کر دوبارہ الیکشن کرائے۔ اکرم امام اوعلو نے پہلے سے زیادہ ووٹ لے لئے اور میئر بن گئے۔
پچھلے سال ترکی بلدیاتی الیکشن میں امام اوعلو دوسری بار مئیر استنبول کا الیکشن جیت گئے۔ اس بار طیب اردوان نے بڑی کوشش کی استنبول کی مئیر شپ دوبارہ حاصل کی جا سکے، مگر وہ ناکام رہے۔
اکرم امام اوعلو کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ انہوں نے مختلف کمیونیٹیز اور گروپوں کو انگیج کیا ہے۔ ان کی پارٹی سیکولر ہے، مگر انہون نے اپنے معتدل سٹانس سے مذہبی حلقوں کو بھی متوجہ کیا ہے۔ وہ مساجد کے پروگراموں میں جاتے رہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ سماجی حلقوں میں مشہور ہیں، خاص کر معذور بچوں کے لئے ان کی خاصی خدمات ہیں۔ امام اوعلو نے ہوشیاری کے ساتھ کرد ووٹ کو بھی انگیج کیا جوکہ مختلف وجوہات کی بنا پر طیب اردوان اور ان کی جماعت کے مخالف ہے۔ اسی وجہ سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر یہ صدارتی الیکشن لڑیں گے تو اردوان کی جماعت کے کسی بھی امیدوار کو ، حتیٰ کہ خود انہیں بھی ہرا سکتے ہیں۔
کچھ صدر اردوان کے بارے میںطیب اردوان جدید ترک سیاست کے سب سے معروف، ممتاز اور طاقتور ترین سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ مشہور اسلامسٹ لیڈر نجم الدین اربکان کے سیاسی شاگرد تھے، ان کی پارٹی سے سیاست کرتے رہے۔اربکان کی طرح اردوان بھی مشہور ترک صوفی سکالر بدیع الزماں سعید نورسی کے فکر کے مداح رہے ہیں ۔
جب ترک اسٹیبلشمنٹ نے نجم الدین اربکان کی جماعت پر پابندی لگوا دی تب طیب اردوان نے مختلف دوستوں اور سیاسی گروپوں کے ساتھ مل کر اپنی نئی پارٹی آق (AK)بنائی۔ جو پچھلے بائیس چوبیس برسوں سے برسراقتدار ہے۔
طیب اردوان نے کمال سیاسی عروج حاصل کیا۔ وہ طویل عرصہ تک اسلام پسندوں کی آنکھوں کا تارا اور واحد امید رہے۔ ان کی ترکیہ میں کامیابی نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو متوجہ کیا اور انہوں نے اردوان ماڈل کو سٹڈی کیا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کے حلقے طیب اردوان کے مداح رہے ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر ان کی سیاست کا دفاع کرتے رہے ۔
طیب اردوان نے ترکی کی معیشت میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ قرضے اتار دئیے، آئی ایم ایف پروگرام سے نکل گئے، ایکسپورٹ کئی گنا بڑھا دی ، فی کس آمدنی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ ان سب کی وجہ سے وہ اتنے مقبول اور طاقتو ہوئے کہ بتدریج انہوں نے ترک اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے دھکیل دیا، حکومتی سٹرکچر میں تبدیلیاں لے آئے، فوج ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا میں اپنی پسند کے لوگوں کو لے آئے۔ سول سپرمیسی انہوں نے باقاعدہ قائم کر کے دکھائی۔ تاہم پچھلے دو تین برسوں سے ترک معیشت شدید متاثر ہوئی، مہنگائی خوفناک حد تک بڑھ گئی، ترک کرنسی لیرا بہت زیادہ گراوٹ کا شکار ہے۔ ترکیہ میں شامی مہاجرین نے بھی بہت مسائل پیدا کئے ہیں۔
صدر طیب اردوان پر ان کے ناقدین یہ تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے ون مین شو چلانے کی کوشش کی، اپنا کوئی جانشین پارٹی میں پنپنے نہیں دیا۔ جو ان کے رفیق کار اور پارٹی کے پرانے ساتھی تھے، سب سے جان چھڑا لی۔ عبداللہ گل جیسے لوگ جو ترکی کے صدر بھی رہے اور کئی دیگر رہنما ، ان کے وزرا بھی آخر کار پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کے پرانے ساتھیوں کی اکثریت اب اردوان کے خلاف ہے۔
یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ طیب اردوان اقتدار سے الگ ہونے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ان کے انداز حکمرانی میں آمریت کی جھلک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر عائد شدید سنسر جبکہ اپوزیشن رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف ریاسی مشینری کا استعمال بھی متنازع امر مانا جاتا ہے۔ تاہم اردوان صاحب اور ان کی پارٹی ایسے تمام الزامات کی شدت سے تردیر کرتی رہی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ عثمانی خلفا سے اتنے ذہنی متاثر اور مرعوبیت کا شکار ہیں کہ خود کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں، انہوں نے جو عظیم الشان ایوان صدر بنایا، وہ کسی بڑے شاہی محل سے مشابہ ہے۔ ان کے ناقدین تنقید کرتے ہیں کہ طیب اردوان مسلم دنیا میں دانستہ بہت جذباتی اور بلند آہنگ موقف لے کر عالمی سطح کے مسلم لیڈر بننا چاہتے ہیں۔ یہ اور بات کہ غزہ کے حالیہ بحران میں طیب اردوان خاموش رہے اور ان سے وابستہ توقعات پوری نہ ہوئیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے لمبے عروج کے بعد کیا طیب اردوان کا زوال شروع ہوگیا ہے؟ وہ اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ گزشتہ روز ایک افطار ڈنر میں جماعت اسلامی کے بعض ہمدرد دوست بھی موجود تھے۔ ترکیہ کے حالات کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ طیب اردوان پر تنقید کی جائے تو جماعتی احباب ناخوش اور برہم ہوجائیں گے۔ ان دوستوں نے یقین دلایا کہ نہیں اب جماعت کے سوشل میڈیا پر موجود لوگوں کو جناب طیب اردوان سے کوئی دلچسپی نہیں رہی اور وہ ان سے مایوس ہوچکے۔
میں نے سوچا کہ یہ تو عجب ہوگیا۔ ترکیہ میں بھی مقبولیت کم ہو رہی، ان کے خلاف لوگ سڑکوں پر ہیں۔ ادھر پاکستان میں بھی جماعت اسلامی کے ہمدردوں سے محرومی۔ یہ تو واقعی زوال کی نشانی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
’خلیفہ‘ کا زوال اکرم امام اوعلو ترکیہ طیب اردوان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اکرم امام اوعلو ترکیہ طیب اردوان اکرم امام اوعلو کی ہے کہ طیب اردوان صدارتی امیدوار صدارتی الیکشن طیب اردوان نے کہ امام اوعلو ان کی پارٹی الیکشن جیت اردوان کے ترکیہ میں اور ان کی کرتے ہیں انہوں نے کے خلاف رہے ہیں کا زوال کی کوشش کوشش کی کے ساتھ ہے اور کے لئے رہی ہے رہا ہے
پڑھیں:
ترک صدر کی پارٹی کو شکست دینے والے استنبول کے میئر گرفتار؛ ہنگامے پھوٹ پڑے
استنبول کے میئر اکرم امام اعوغلو کی گرفتاری پر عوام ہر پابندی کو توڑتے ہوئے سٹرکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اکرم امام اعولو کو اُس وقت گرفتار کیا جب انھوں نے صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔
سیکولر جماعت رپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکرم امام اعولو ترک صدر رجب طیب اردوان کے سخت حریف ہیں۔
رپبلکن پیپلز پارٹی 23 مارچ کو اکرم امام اعولو کی صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کا اعلان کرنے والی تھی۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ استنبول کے میئر اکرم امام کو بدعنوانی اور دہشت گرد گروہ کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
حکومت نے میئر اکرم امام کو صدارتی الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے ان کے ڈپلومہ کی ڈگری کو منسوخ کردیا۔
ڈگری منسوخ ہونے سے استنبول کے میئر اکرم امام کے صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
ادھر میئر کی گرفتاری کے بعد استنبول میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ترک صدر کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر میئر کی گرفتاری پر ترک صدر طیب اردوان پر تنقید کرنے والوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
جس کے بعد ملک بھر میں حکومت مخالف احتجاج کو سلسلہ شروع ہوگیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
شہریوں نے ایئرپورٹس، ٹرین اسٹیشن اور بڑی شاہراؤں پر مظاہرے کر رہے ہیں جس سے معمولات زندگی معطل ہوکر رہ گئی ہے۔
پولیس نے مختلف کارروائیوں میں 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ جن میں سیاست دان اور بعض حکومتی حکام بھی شامل ہیں۔